جانِ طہٰ!
آج ایک لمبے عرصہ بعد تمہیں سوتے دیکھ کر میری نظر تمہارے چہرے پر ٹھہر گئی۔ تم سو رہی ہو اور کھڑکی سے آتی چاندنی تمہارے چہرے پر نور بن کر اتری ہوئی ہے۔ اس کے ساتھ سہیلی بن کر آنے والے ہوا کے جھونکے تمہارے بالوں کو چھو کر جیسے چوم کر گزر رہے ہیں، انہیں بکھیر رہے ہیں، پھر سمیٹ رہے ہیں۔ ہوا سے ہلتا یہ کھڑکی پہ پڑا سفید جالی کا پردہ تم تک آنے کی کوشش کر رہا ہے، یوں جیسے ایک بار تمہیں چھونا چاہتا ہو اور ہر بار تمہیں چھونے میں ناکام ہو کر ہار مانتا واپس کھڑکی تک جاتا ہے اور ہوا اسے پھر تمہارے پاس بھیج دیتی ہے۔
اور اس سب کے درمیان کمرے کے اس کونے میں چھت سے لٹکے اس بلب کے نیچے کینوس رکھے میں کچھ پینٹ کرنے بیٹھا ہوں اور میں پینٹ نہیں کر پا رہا، بس تمہیں دیکھے جا رہا ہوں۔ کئی بار اسی طرح رات کو بیٹھ کر تمہیں دیکھتا رہتا ہوں اسی محبت سے جس سے پہلی بار دیکھا تھا۔
تم حُسنِ جہاں ہو۔ سارے جہاں کا حُسن تمہارے پاس ہے اور میں طہٰ عبدالعلی جس کے پاس اب وہ بھی نہیں ہے جو کبھی تھا۔
میں تمہارا مجرم ہوں حُسنِ جہاں اور یہ ہی احساس مجھے تم سے نظریں نہیں ملانے دیتا، میں تم کو ساری دُنیا لا کر تھما دینا چاہتا تھا اور میں نے تمہیں کہاں لاکھڑا کر دیا ہے۔
تم پچھتاتی تو ہو گی۔ میں غلط ثابت ہوا ہوں نا تمہارے لیے۔ کیا کہہ کر لایا تھا تمہیں اور کیا دے پایا ہوں۔ مال و زر کی تمہیں تمنا نہیں پر اب میری زبان پر تمہارے لیے محبت کے وہ گلاب بھی نہیں کھلتے جنہیں دیکھ کر تم میرے لیے پاگل ہوئی تھیں۔ دل میں سب کچھ تمہارے لیے وہی ہے ویسا ہی ہے مگر زبان پتا نہیں اسے کیا ہو گیا ہے۔ حسنِ جہاں یہ تم سے بہت کچھ کہنا چاہتی ہے، کہہ نہیں پاتی اور جو نہیں کہہ پا رہی وہ مجھے اندر سے زخمی کیے چلا جا رہا ہے۔
مجھے ڈر لگتا ہے کہ تم مجھے چھوڑ کر چلی نہ جاوؑ۔ میں کیا کروں گا تمہارے بغیر جانِ طہٰ۔ ایک اثاثہ گنوا آیا۔ دوسرا گنواوؑں گا تو مر جاؤں گا۔ تمہارے نام پاکستان سے آنے والا ہر خط مجھے خوف زدہ کرتا ہے۔ میں خود غرض ہوں چاہتا ہوں تم وہ شہزادی بن جاوؑ جو واپسی کا راستہ یاد رکھنے کے لیے وہاں نشانیاں چھوڑ کر نہ آئی ہو۔ میں تمہارے قابل نہیں تھا حسنِ جہاں۔
یہ جو ”میں” ہوں نا۔ اسے میں خود بھی نہیں جانتا اور یہ جو تم ہو نا اسے شاید تم بھی نہیں پہچان پاتی ہو گی۔ میں نے تمہیں کیا بنا دیا۔
یہ سارے اعتراف جو کاغذ کے اس ٹکڑے پر رات کے اس پہر کر رہا ہوں۔ یہ دن کے اُجالے میں تم سے کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتا۔ انا کا قیدی نہیں ہوں، احساس جرم کا مارا ہوں۔ تمہارے لیے چاہتے ہوئے بھی وہ چاند ستارے توڑ کر نہیں لا پا رہا جن کا تم سے وعدہ کیا تھا۔ جانتا ہوں تم چاند ستاروں کی خواہش اور چاہ میں میری زندگی کا حصہ نہیں بنیں پھر بھی حسنِ جہاں میں، تمہارے لیے اپنے دل، اپنی خواہشات کا کیا کروں۔
مجھے لگتا ہے۔ تم ایک خوب صورت پرندہ ہو جسے میں قید کر بیٹھ اہوں۔ کھلے آسماں میں اُڑنے والا خوش نما پرندہ جو اپنی دُنیا اور زندگی میں ناچتا، گیت گاتا ہوا مست تھا اور میں۔ میں اُسے آسماں سے اس پنجرے میں لے آیا۔ کئی بار تمہاری اداس آنکھیں ایسی ہی کہانیاں کہتی ہیں مجھ سے اور میں اُن کہانیوں کو پڑھنے سے انکار کر دیتا ہوں۔ کیا کروں؟ حسنِ جہاں! میں کیا کروں، میرے بس میں کچھ نہیں۔ وہ ہنر میرے ہاتھ سے چلا گیا ہے جو اللہ کی عطا ہے اور رزق اس کے لیے میں خوار ہو گیا ہوں اور نام وری اس کا تو سوچنا ہی چھوڑ دیا ہے میں نے۔
میں بیسویں صدی میں طہٰ عبدالعلی بن کر پیدا ہوا تھا اور طہٰ عبدالعلی ہی مر جاؤں گا۔ میرا نام سننے پر کسی کو کچھ یاد نہیں آئے گا۔ کسی کا سر احترام سے نہیں جھکے گا۔ میں استادوں میں شمار نہیں ہوں گا۔ وہ ہما جو میرے سر پر بیٹھنے آیا تھا۔ میں نے اڑا دیا۔ اب وہ دوبارہ نہیں آئے گا۔ مجھے نام وری کھونے کا رنج نہیں ہے۔ دلوں کو توڑنے کا غم ہے۔ پہلے وہ دل بابا کا تھا اب تمہارا ہے،میں جس سے محبت کرتا ہوں اسے خوش رکھ نہیں پاتا، کیا یہ صرف میرا المیہ ہے یا ہر محبت کرنے والے کا؟
تم نے کروٹ لے لی ہے، مجھ سے منہ پھیر لیا ہے۔ اب میں تمہارا چہرہ دیکھ نہیں پا رہا۔ چاندنی دل فریب نہیں رہی۔ ہوا اپنی مستی کھونے لگی ہے۔ سفید جالی کا وہ پردہ تم تک پہنچنے کی جدوجہد میں تھکنے لگا ہے۔ رات گزر گئی ہے اور میں طہٰ عبدالعلی آج بھی خالی کینوس لیے بیٹھا رہ گیا ہوں۔ یہ میری ہر رات کی کہانی ہے۔ کوئی طہٰ عبدالعلی جیسی قسمت لے کر نہ آئے اور آئے تو اُس میں حسنِ جہاں نہ آئے جو نہ اس کے ساتھی جس کے، نہ اس کے بغیر۔
تمہارا مجرم
تمہارا طہٰ
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
قلبِ مومن نے سر اٹھا کر عبدالعلی کو دیکھا تھا۔ وہ اس کی طرف متوجہ نہیں تھے۔ اس صندوقچی کے اندر موجود خطوں کو نم ناک آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔
”یہ سارے خط وہ ہیں جن کا جواب نہیں دیا میں نے۔ کچھ پڑھ کے کچھ بغیر پڑھے رکھ دیے۔ جن خطوں کے جواب نہیں ملتے، وہ زندگیاں بدل دیتے ہیں لکھنے والے کی بھی اور اس کی بھی جس کے نام لکھے گئے ہوں۔”
عبدالعلی اب لرزتے ہاتھوں سے ان خطوں کو چھو رہے تھے۔ اتنی نرمی سے۔ یوں جیسے انہیں ڈر ہو، وہ ان کے ہاتھوں میں تتلی کے پروں کی طرح بکھر جائیں گے۔
”آؤ قلبِ مومن! میں تمہیں تمہارے باپ کی کہانی سناتا ہوں۔ اپنی اور تمہارے باپ کی۔ میں تمہیں بتاتا ہوں۔ غرور کے ایک لمحے نے میرے ساتھ کیا کیا تھا۔”
وہ اس کے سامنے میز کے دوسری طرف ایک اسٹول پر بیٹھ گئے تھے۔ کسی بُت کی طرح ان کے چہرے کی جھریاں اس لیمپ کی روشنی میں یک دم سینکڑوں سے ہزاروں اور ہزاروں سے لاکھوں میں تبدیل ہو گئی تھیں جو ان کے سر پر اس میز کے اوپر لٹک رہا تھا۔
ایک پرانے قصہ گو کی طرح وہ ماضی میں ڈوبے ہوئے سامنے والے کو بھی وہیں لے جانے کی کوشش کر رہے تھے۔ قلبِ مومن اب ان کے مقابل بیٹھا پلکیں جھپکائے بغیر اس چہرے کو دیکھ رہا تھا جس سے وہ کبھی کسی غلطی کی توقع نہیں کرتا تھا، گناہ تو بہت دور کی بات تھی۔
٭…٭…٭
وہ رات کے پچھلے پہر ان کے گھر کے صحن کے بیچوں بیچ اپنے سفید لباس، سیاہ لمبی ٹوپی اور سیاہ چوغہ نما چادر میں ملبوس گھومتا جا رہا تھا، گھومتا ہی چلا جا رہا تھا۔ نظر تھی کہ اس پر ٹھہر ہی نہیں رہی تھی۔ صرف چاندنی تھی جو اس پر رات کے اس پچھلے پہر اتر رہی تھی، ٹھہر بھی رہی تھی۔ اپنے بائیں پیر پر پھرکی کی طرح گھومتا بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو زمین کی طرف جھکائے، دائیں ہاتھ کی ہتھیلی آسماں کی طرف اٹھائے طہٰ عبدالعلی کہیں اور ہی پہنچا ہوا تھا۔ برآمدے میں کھڑے عبدالعلی نے اسے دیکھا تھا اور مسکرا دیے تھے۔
وہ رات کے اس پہر تہجد کے لیے اٹھتے تھے اور وہ رات کے اس پہر سماع کر رہا ہوتا تھا۔ ان کے خاندان میں وہ پہلا تھا جو مولانا جلال الدین رومی کے اُن مریدوں میں شامل ہوا تھا جو رقص کرتے ہوئے درویش (Whirling Darvesh)کہلاتے تھے۔ وہ رقص اللہ سے ان کی محبت کا اظہار تھا۔ اللہ سے تعلق باندھنے کا اُن کا طریقہ۔ گول چکر کاٹتے ہوئے جیسے ان پر حال آجاتا تھا اور اس ”حال” میں ہی وہ گھومتے جاتے، چکر کاٹتے رہتے یہاں تک کہ ان کا وجود جیسے دنیا کے جھمیلوں اور زمینی گردش سے کہیں نکل جاتا اور وہ کہیں اور پہنچ جاتے اور جب یہ سماع خوانی اور رقص ختم ہوتا تو وہ رقص کرنے والے درویش جیسے خود کو معرفت کی کسی اور منزل پر پاتے تھے۔
طہٰ عبدالعلی رومی کا مداح تھا اور مداح سے عقیدت مندی اور مُریدی کا وہ سفر اس نے بڑی برق رفتاری سے طے کیا تھا۔ عبدالعلی نے اسے روکا تھا اور نہ ہی انہیں کوئی خوف محسوس ہوا تھا کہ خطاطی سے اس کا دھیان ہٹ جائے گا۔
وہ شروع شروع میں سماع خانہ ان ہی رقص کرنے والے درویشوں کا رقص دیکھنے جایا کرتا تھا اور پھر وہ ان میں شامل ہو گیا تھا۔ وہ رقص بھی اتنا ہی مشقت طلب کام تھا جتنا محقق انداز میں کی جانے والی خطاطی جس میں ان کا خاندان مشہور تھا۔
محقق خطاطی، خطاطی کے چھ بنیادی، مشکل ترین اور خوبصورت ترین اسٹائلز میں سے ایک تھا۔ ایک زمانہ میں مملوک خاندان کے دورِ حکومت میں نہ صرف اس کا طوطی بولتا تھا بلکہ اسے قرآن پاک کے نسخے لکھنے کے لیے بار بار استعمال کیا جاتا تھا۔ عبدالعلی کا خاندان شام سے تعلق رکھتا تھا اور ان کے آباؤ اجداد محقق خطاطی کے لیے پورے عرب میں جانے جاتے تھے۔ محقق خطاطی میں ”اُستاد” کا درجہ حاصل کرنے والے زیادہ تر لوگ ان ہی کے خاندان کے مختلف نسلوں میں ایک کے بعد ایک آتے رہے تھے۔ عرب قومیت رکھتے ہوئے ان کے آباؤ اجداد شام سے ہجرت کرتے ہوئے مملوک خاندان کے دور حکومت میں ان بہت سے ملکوں میں ہجرت کرتے رہے جہاں 1205ئ سے1505ء تک مملوک خاندان حکومت کرتا رہا اور ان کے آباؤ اجداد میں سے ہی کچھ کو الحمرا کے محلات اور قرطبہ کی مساجد میں مورسلطنت کے زمانہ میں خطاطی کرنے کا موقع ملا۔ اسپین میں مسلمانوں کی سلطنت کے زوال کے بعد ان کے آباؤ اجداد ترکی آکر بسے تھے اور ترکی میں اس وقت سلطنت عثمانیہ نے خطاطی کے نسخ اور تالوت اسٹائلز کو فروغ دینا شروع کر دیا تھا۔
محقق آہستہ آہستہ اپنا مقام کھونے لگا اور اُس سے منسلک افراد اور خاندانوں میں ہونے والی کمی نے جیسے اسے متروک کر دینے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا مگر عبدالعلی کے دادا اور باپ ان حالات میں بھی محقق خطاطی ہی کرتے رہے اور یہ پچان اب کئی نسلوں سے عبدالعلی کے ساتھ چل رہی تھی۔ وہ محقق خطاطی کے زندہ رہ جانے والے واحد ”استاد” تھے اور یہی اثاثہ اب وہ اپنے اکلوتے بیٹے طہٰ کو سونپ رہے تھے جو بچپن سے ان کے ساتھ خطاطی کرتا آرہا تھا اور اپنے کام میں اپنی عمر سے زیادہ مہارت اور کمال رکھتا تھا۔ اس رقص نے بھی اس کی توجہ کو خطاطی سے ہٹایا تھا نہ بھٹکایا تھا۔
اسے رقص کی حالت میں دیکھتے ہوئے عبدالعلی بہت دیر تک اسی طرح کھڑے رہے تھے۔ یہاں تک کہ وہ گھومتے گھومتے رُک گیا تھا۔ جب وہ رک گیا تو اُس نے سر اٹھا کر عبدالعلی کو دیکھا۔ وہ پسینے سے شرابور تھا سر سے پیر تک۔ وہ عبدالعلی کو دیکھ کر مسکرایا تھا۔ وہ بھی جواباً مسکرائے۔
”آپ کل میری پرفارمنس دیکھنے آئیں گے؟” اس نے برآمدے کی طرف بڑھتے ہوئے عبدالعلی سے پوچھا۔ وہ اب وہاں پڑا ہوا وہ کیسٹ پلیئر بند کر رہا تھا جس میں چلنے والے میوزک پر وہ رقص کر رہا تھا۔
”دیکھ تو لوی تمہاری پرفارمنس۔ بہت خوب صورت۔” عبدالعلی نے دونوں ہاتھوں سے داد دینے والے انداز میں اس کے لیے تالی بجائی۔
”آپ نے کبھی اسٹیج پر لوگوں کے سامنے میری پرفارمنس نہیں دیکھی۔ وہ بھی تو دیکھیں بابا۔ طہٰ نے ان کے پاس آتے ہوئے بڑے شوق سے کہا تھا۔ عبدالعلی نے اپنے دراز قد تیکھے نین نقش والے بیٹے کو دیکھا۔ انہیں اپنی بیوی کی یاد آئی۔
”لوگوں کے لیے نہیں ناچتے ہو تم طہٰ۔ تم تو اللہ کے لیے ناچتے ہو۔ اُس کی محبت اُس کے عشق میں۔ میں دیکھوں نہ دیکھوں، لوگ دیکھیں نہ دیکھیں کیا فرق پڑتا ہے۔” انہوں نے اس سے کہا تھا۔ وہ دونوں اب ساتھ چلتے ہوئے گھر کے اندر والے حصے میں آگئے تھے۔
”لوگوں کے لیے تو نہیں ناچ رہا بابا۔ میں تو اپنے ملک کی نمائندگی کر رہا ہوں فیسٹیول ہے دوسرے ملکوں سے بھی لوگ آکر پرفارم کر رہے ہیں، میں بھی اپنے ملک کے لیے پرفارم کر رہا ہوں۔ سب انتظار میں ہیں میری پرفارمنس دیکھنے کے لیے۔ نیوز پیپرز نے آج اتنی بڑی بڑی خبریں لگائی ہیں۔” اس نے بڑے فخریہ انداز میں کہا تھا۔
”شہرت ہنر کو دیمک کی طرح کھانے لگتی ہے۔ پتا بھی نہیں چلتا۔ کیا ضرورت ہے تمہیں اس سب کی۔” عبدالعلی نے مدھم آواز میں جیسے اسے اُس راستے کے نشیب و فراز سے ڈرایا تھا جہاں وہ پاؤں رکھ رہا تھا۔
”میری قسمت میں ہے شہرت بابا۔ آپ کی طرح خاموشی سے اس گھر میں بیٹھ کر خطاطی کرنا میرا مقدر نہیں ہے۔ میں چاہوں بھی تو بچ نہیں سکتا۔” وہ مسکراتے ہوئے باپ سے کہہ رہا تھا۔
وہ مسکرا دیے تھے۔ طہٰ سے بحث نہیں کرتے تھے وہ، اس کے سامنے کمزور پڑ جاتے تھے وہ۔ اپنی بیوی کی وفات کے بعد انہوں نے اسے اکیلے ہی پالا تھا اور اب اس عمر میں وہ اس کے لیے باپ سے زیادہ ماں بن کر رہ گئے تھے۔ نرم دل۔ مشفق، مہربان۔ خوف زدہ۔
”تمہاری نمائش سر پر کھڑی ہے اور تمہارا ”شاہکار” ابھی بھی مکمل نہیں ہوا۔” عبدالعلی نے اس کے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے وہاں کینوس پر دھری اس خطاطی کی طرف اس کی توجہ مبذول کروائی جو نامکمل تھی۔
”اللہ نور السموات والارض۔” اس خاندان کا ہر خطاط اپنی پہلی نمائش میں خطاطی کر کے ضرور رکھتا تھا۔ اس آیت کی خطاطی جیسے وہ ”اجاذہ” تھی جس کے بعد اس خطاط کو اپنا کام نمائشوں کی شکل میں لوگوں کے سامنے لے آنے کی اجازت مل جاتی تھی۔ طہٰ عبدالعلی بھی ان دنوں اپنی پہلی نمائش کے لیے خطاطی کر رہا تھا اور اللہ نور السموات والارض اس کی وہ آخری خطاطی تھی جس کے مکمل ہونے کے ساتھ ہی اس کا کام پورا ہو جاتا۔
طہٰ نے ایزل پر دھرے اُس کینوس کو دیکھا۔ جہاں وہ آیت نامکمل حالت میں بھی خطاطی کرنے والے کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت بنی ہوئی تھی۔
”کل رات مکمل کر لوں گا اسے بابا اور پرسوں آپ کو دکھاؤں گا لیکن آپ وعدہ کریں مجھ سے پوچھے بغیر آپ اسے نہیں دیکھیں گے۔” طہٰ نے باپ کا ہاتھ پکڑ کر ان سے وعدہ لیا تھا اور عبدالعلی نے مسکرا کر اس سے وعدہ کر لیا تھا۔
طہٰ عبدالعلی کو اندازہ نہیں تھا۔ وہ اس آخری خطاطی کو کبھی مکمل نہیں کرنے والا تھا۔ کیوں کہ اگلی رات اس کی دنیا میں حسنِ جہاں کی آمد ہونے والی تھی۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});