مجھے پتا ہے تم مجھ سے ناراض ہو۔اس بار پورے دو ماہ بعد جو آیا ہوں۔کیا کرتا گڑیا کی شادی جو تھی۔ رخصتی کے وقت تو عجیب ہی ضد پکڑ لی تھی اس نے۔ کہنے لگی مجھے ماما کو اپنا چہرہ دکھانا ہے۔ بڑی مشکل سے سنبھالا تھا میں نے اسے۔ ضد کی پکی ہے نا، تم پر جو گئی ہے۔
تمہیں یاد ہے جب وہ پیدا ہوئی تھی ہم کتنا لڑے تھے؟ تم کہتی تھیں یہ تم پر گئی ہے اور میں کہتا تھا چل جھوٹی! تم پر گئی ہوتی تو اتنی خوب صورت نہ ہوتی۔ہاہاہا ، جیسے تم تو خوب صورت تھی ہی نہیں۔اب تو وہ تمہاری تصویر ہے، وہی بڑی بڑی آنکھیں، وہی گھنگھریالے بال اور وہی انداز گفت گو۔ اب تو میں یہ بھی نہیں کہ سکتا کہ تم خوب صورت نہیں تھیں۔
ایک دن مجھ سے آکر کہتی ہے بابا جانی مجھے نوکری کرنی ہے۔بھلا مجھے یہ کیسے گوارہ تھا کہ میری بیٹی نوکری کر ے۔ لیکن اس کی ضد کے آگے میں مجبور ہوگیا۔ ایسی بیمار پڑی کہ جب تک میں نے اسے نوکری کی اجاز ت نہ دی اس کا بُخار نہ اترا۔
آہ! اس کا بیمار ہونا بھی میرے لئے کسی آزمائش سے کم نہیں ۔بہت گھبرا جاتا ہوں میں، ڈر جاتا ہوں۔ وہ رات بہت طویل تھی جب تمہارے جانے کے بعد پہلی بار مجھے اسے تمہارے بغیر سنبھالنا تھا۔وہ ساری رات روتی رہی اور میں اسے گود میں لئے سارے گھر میں ٹہلتا رہا۔پہلے مجھے لگتا تھا تم جاتے جاتے مجھے تنہائی کا ساتھی دے گئی ہو، لیکن وہ رات بہت تنہا گز ری تھی میری۔زندگی میں پہلی بار مجھے احساس ہوا تھا کہ ماں کا مرتبہ باپ سے بلند کیوں ہے۔باپ بھی تو اپنی اولاد سے محبت کر تا ہے، لیکن جو سکون ماں کی آغوش میں ہے وہ باپ کی گود میں کہاں؟ خیر میں بھی کیا باتیں لے کر بیٹھ گیا۔
ایک دن میں اسے لنچ دینا بھول گیا۔ وہ بے چاری سارا دن بھوکی رہی۔چھٹی کے وقت جب اسے لینے گیا تو اس کا منہ لٹکا ہوا تھا۔میں نے بہت ٹٹولا لیکن اس نے کوئی جواب نہ دیا۔ تمہاری بیٹی ہے نا۔ جب ناراض ہوجائے تو چاہے ساری دنیا اس کے پہلو میں رکھ دو جب تک مجھے خود اس کی ناراضی کی وجہ پتا نہ چل جائے تب تک ناراض رہے گی۔
ایک دن تو حد ہی کر دی میں نے۔ لنچ میں اسے نوڈلز کہ بہ جائے ٹوسٹ بٹر دے دیا مجھے یاد تھا کہ ٹوسٹ ساتھ رکھے مگر خالی بٹر رکھ دیا اور ہاں ہاں ، پتا ہے بہت ہنسی آرہی ہے تمہیں، اب تمہیں کیا بتائوں کہ شروع کے وہ سال میرے لئے کتنے مشکل تھے۔
تم عورتیں بھی کمال ہو۔ ایک وقت میں کتنا کام کرلیتی ہو۔صبح سویرے اٹھنا، سب کے لئے ناشتہ بنانا، پھر سب کو وقت پر تیار کرنا۔سب کے چلے جانے کے بعد دوپہر کے کھانے کا انتظام کرنا۔رات کے کھانے کا انتظام کرنا، بچوں کو سلانا، اور اگر کوئی بچہ رات کو جاگ جائے تو اسے بھی سنبھالنا اور ہم مرد کہتے ہیں،تم تو سارا د ن گھر میں بیٹھی رہتی ہو کام تو میں کرتا ہوں، واقعی! کام تو ہم کرتے ہیں، نو سے پانچ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ہمیں تنخواہ ملتی ہے۔ اچھا کام کرنے پر بونس ملتا ہے ، ترقی بھی ہوتی رہتی ہے، چھٹی بھی مل جاتی ہے اور تم عورتیں، بغیر کسی لالچ کے یہ سب کرتی ہو۔ صرف ایک محبت کے لئے ،اپنی اولاد اور شوہر سے بے لوث محبت کے لئے بس اتنا سا فرق ہے۔
میری تو حسرت ہی رہ گئی ہے تم سے ان چھوٹی چھوٹی باتوں پہ لڑنے کی۔۔۔۔۔
خیر! تو میں کیا کہ رہا تھا۔ ہاں، یاد آیا،،بہت خفا تھی وہ اس دن یہ تو شکر ہے اسے آئس کریم بہت پسند ہے۔ اسے دیکھ کر اس کے چہرے سے ساری خفگی غائب ہوجاتی ہے۔اور وہ دن میں کیسے بھول سکتا ہوں جب میں نے صبح سویرے اس کا یونی فارم جلا دیا تھا اور اسے سکول سے چھٹی کرنی پڑی، کیوں کہ دوسرا یو نیفارم میلا تھا۔ایک دن میں نے اسے کسی بات پر بہت ڈانٹا تھا پھر سارا دن وہ مجھے نظر نہ آئی۔ جب شام کو اس کے کمرے میں گیا تو وہ تمہاری تصویر کو سینے سے لگائے سو رہی تھی۔ظاہر ہے وہ بھی جانتی تھی کہ اگر تم ہوتیں تو اسے میری ڈانٹ کھانے سے بچا لیتیں۔
بچہ ہمیشہ ماں کی آغوش میں خود کو محفوظ سمجھتا ہے۔ہے نا؟ ہماری گڑیا کو تو یہ آغوش نصیب ہی نہیں ہوئی۔
کامران بہت اچھا لڑکا ہے۔ ہماری گڑیا کو بہت خوش ر کھے گا۔ امریکا گئے ہیں دونوں، ہنی مون منانے۔ اگلے ہفتے آئیں گے تو ان کے ساتھ آئوں گا تم سے ملنے۔
ایک بات کہوں؟ آج کل تمہاری کمی شدت سے محسوس ہوتی ہے۔ بہت اکیلا ہوگیا ہوں۔ اب تو بس یہی خواہش ہے کہ جلد سے جلد تمہارے پاس آجائوں۔ویسے بھی خدا نے اتنے سال جس مقصد کے لئے تمہارے بغیر زندہ رکھا اس کی تو تکمیل ہوچکی ہے۔اب میرا یہاں کیا کام؟
مرحومہ ثریا احسان زوجہ احسان احمد۔۔۔۔۔
تمہاری قبر کے کتبے پر جب تمہارا یہ نام پڑھتا ہوں توبہت عجیب سا لگتا ہے۔ ان بائیس سالوں میں ایک دن بھی میر ا دل یہ ماننے کو تیار نہ ہوا کہ تم مجھے چھوڑ کے جاچکی ہو۔
یہ پھول لایا تھا تمہارے لئے۔۔۔۔اب چلتا ہوں۔۔۔خدا حافظ۔۔۔۔۔ ”