انجم انصار گزشتہ اٹھائیس برسوں سے پاکیزہ ڈائجسٹ کی مدیرہ کی حیثیت سے کام کررہی ہیں۔ پاکیزہ کی ادارت کے علاوہ انجم انصار ایک مصنفہ بھی ہیں اور ان کی کئی تحریریں رسائل اور کتابی صورت میں شائع ہوچکی ہیں۔ مدیر سے پوچھیں میں، اس بار انجم انصار ہماری مہمان ہیں۔
٭ آپ اس فیلڈ میں کتنے عرصے سے ہیں؟ کس طرح اس فیلڈ میں آئیں؟
انجم: لکھنے کا شوق تو مجھے سکول کے زمانے سے ہی تھا، جو کالج کے زمانے میں زیادہ ہوگیا تھا تب سے ہی میری تحریریں چھپ رہی ہیں۔ مجھے تحریری دنیا میں آئے چالیس پینتالیس سال تو ہوچکے ہیں۔مجھے چوں کہ ہمیشہ سے ہی لکھنے کا شوق تھا، یہی شوق مجھے پاکیزہ کے دفتر میں معراج رسول صاحب کے پاس لے گیا، ا نہوں نے مجھ سے پوچھا: ”پاکیزہ میں جاب کرسکتی ہیں؟” میں نے کہا: ”میں تو نہیں کرسکتی ، کیوں کہ میں ایک گھریلو عورت ہوں، آفس میں کبھی کام کیانہیں۔”انہوں نے کہا: ”اگر آپ یہ کام گھر پر بیٹھ کر کریں؟” میں نے جواب دیا کہ یہ میرے لئے ممکن ہے۔ سو وہ سلسلہ جو شروع ہوا تو اب تک چلتا رہا۔
٭ ایک مہینے میں آپ کو اوسطاً کتنی تحریریں موصول ہوجاتی ہیں؟
انجم: تحریریں تو میرے خیال میں پچیس سے تیس کے قریب آجاتی ہیں۔ مجھے پڑھنے کی عادت ہے، پڑھے بغیر میں رہ نہیں سکتی۔اور خطوط تو بہت زیادہ آتے ہیں ، تقریباً ہزار کے قریب خطوط آجاتے ہیں، اُنہیں پڑھنا اور ان میں سے منتخب خطوط کو شائع کرنا سب میری ہی ذمہ داری ہے۔
٭ آپ کے انتخاب کا معیار کیا ہے؟
انجم: بھئی میں یہ نہیں دیکھتی کہ کس نے لکھا ہے، میں یہ دیکھتی ہوں کہ کیا لکھا ہے۔اگر کوئی چیز ایسی ہے جس سے پڑھنے والا کچھ سیکھ سکتا ہے، تو میں یہ سوچے بغیر کہ وہ کہاں سے آئی ہے اور کس نے لکھی ہے، اُس تحریر کو منتخب کر لیتی ہوں۔ ہمارے یہاں آپ دیکھیں نئی لکھنے والوں کی تحریریں زیادہ ہیں۔
٭ ایسی کون سی چند چیزیں ہیں جن کا خیال ایک نئے لکھنے والے کو اپنی تحریر لکھتے وقت رکھنا چاہیے؟
انجم: سب سے پہلے تو مسودے کو درست طریقے سے لکھنا، جس کا بہت سی سینئر رائٹرز کو بھی نہیں پتہ ہوتا۔ انہیں یہ نہیں پتہ کہ ایک سطر چھوڑ کر لکھنا چاہیے، انہیں یہ نہیں پتہ کہ صفحہ کی ایک سائیڈ پر لکھنا چاہیے، انہیں یہ نہیں پتہ کہ ایک فوٹوکاپی مصنف کو اپنے پاس بھی رکھنی چاہیے، انہیں یہ بھی نہیں پتہ کہ مسودے کو صحیح طریقے سے pin up کر کے بھیجنا چاہیے، صفحات پر نمبر ڈالنے چاہیے، اکثر نمبرنگ غلط کردیتی ہیں۔ بعض دفعہ صفحہ نمبر سترہ کے بعد چودہ چل رہا ہوتا ہے پھر اٹھارہ ۔بعض دفعہ لکھ تو لیتی ہیں لیکن پڑھ کر دوبارہ نہیں دیکھتی کہ لکھا کیا ہے۔آج کل تیزر فتاری زیادہ ہوگئی ہے، اس لئے لوگ زحمت نہیں کرتے۔ دوسری اہم بات ہے موضوع، ہم کیا لکھ رہے ہیں،اور پڑھنے والے اس سے کیا سیکھیں گے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ تحریر پڑھنے والوں پر منفی اثر چھوڑے۔ ہم پاکیزگی کا اس وجہ سے بھی زیادہ خیال رکھتے ہیں کہ ہمارے پرچے کا نام ہی ‘پاکیزہ ‘ ہے۔میں کبھی کوئی چیز ایسی نہیں جانے دیتی جسے پڑھ کر میں اور قاری دونوں شرم سار ہو جائیں۔ لیکن کبھی کبھار غیر ارادی طور پرایسا ہوجاتا ہے کہ کوئی تحریر ہماری نظروں کے سامنے سے گزرتی تو ہے لیکن ہم زیادہ غور نہیں کرپاتے، جس پر بعد میں بہت تنقید ہوتی ہے۔ ہم بھی انسان ہیں، انسان خطا کا پتلا ہے یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ ہم عقلِ کُل ہیں۔
٭ کیا آپ riskier themes پر کام کرتی ہیں؟
انجم: ہمارے پاس سیاست کے موضوع لکھی ہوئی تحریریں آتی ہیں، لیکن ہم اس سے تھوڑا پہلو بچا کر چلتے ہیں۔کیوں کہ سیاست کے لئے تو نیوز چینلز اور اخبار موجود ہیں تو پھر ہم بھی وہی چیزیں کیوں چھاپیں۔ ہم ان تحریروں سے agree بھی کرتے ہیں، لیکن پھر ہم یہی سوچتے ہیں کہ فائدہ اس کا کچھ ہونا نہیں، جب میڈیا اور اخبار والے چیخ چیخ کر اپنا حلق خشک کررہے ہیں اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑرہا تو ہم اپنے میگزین میں نہیں لگائیں گے تو بھی کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔اس کے علاوہ اسلامی کہانیاں، جس میں فقہ کے حوالے سے بات ہو، میں ایسی تحریریں بھی نہیں چھاپتی۔ لوگ بہت زیادہ باریک بینی سے ہمارا رسالہ پڑھتے ہیں، اب مثال کے طور پر رسالے میں کوئی بات یا آیت کسی تحریر میں موجود ہے اور ایک اشتہار بھی ہے، تو وہ کہتے ہیں کہ آیت یا وہ بات اس طرف لکھی ہے جہاں پر اشتہار کی ماڈل گرل کے پیر آرہے تھے۔اب مجھے تو یہ نہیں پتہ کہ اشتہار کدھر لگے گا اور پیر کدھر لگیں گے۔ اب جب پڑھنے والے اتنی باریک بینی سے ہر ایک چیز کو دیکھتے ہیں تو پھر ہم ایسی themes پر کام نہیں کرتے۔
٭ نئے آئیڈیاز کو دریافت کرنے اور ان پر اچھا کام کرنے کے لیے کون سے رائٹرز زیادہ موزوں ہیں ؟ نئے یا پرانے؟
انجم: دیکھیں اگر آپ پرانے پرچے اٹھا کر دیکھ لیں ستر اور اسی کی دہائی کے جو افسانے تھے، وہ زیادہ تر شادی پر ختم ہوجاتے تھے۔اب آج کا افسانہ شادی سے شروع ہوتا ہے۔ جہاں پر وہ افسانے ختم ہوتے تھے، وہاں سے آج کا افسانہ شروع ہوتا ہے۔اس میں نئی خواتین لکھاری بھی اچھے موضوعات لے کر آرہی ہیں۔پہلے حور اورزیب النساء سٹائل کی تحریریں بہت چلتی تھیں، میں بھی پڑھتی تھی، پسند تھیں، مگر اب وہ منظر نگاریاں، دسترخوان بچھانے کا منظر یہ سب نہیں چلتا۔ اصل میں آ ج کل ہر چیز فاسٹ ہے، بے شک ان چیزوں میں لڑکیوں کی تربیت ہوتی تھی لیکن اگر ہم انہی نکات پر زور دیئے جائیں کہ دسترخوان کس طرح بچھانا ہے، کھانا کس طرح بنانا ہے تو قاری بور ہوجائے گا۔
٭ نئے آنے والے رائٹرز میں آپ کی رائے میں کون اچھا لکھ رہا ہے؟
انجم: صائمہ اکرم، وہ تو اب سینئرز میں آگئی ہیں۔ انہوں نے ہمارے ہاں پاکیزہ سے ہی شروع کیا تھا،بہت اچھا لکھ رہی ہیں۔ فائزہ افتخار، عمیرہ احمد تو خیر اب بہت سینئر ہوگئی ہیں۔نئے لکھنے والوں میں نایاب جیلانی، سحرش فاطمہ ، فاخرہ گل بہت اچھا لکھ رہی ہیں۔ایک نئی لڑکی آئی ہے حاجرہ ریحان، جب اس کا افسانہ آیا پاکیزہ میں تو میں پڑھ کر بڑا حیران ہوئی۔ میں نے اسے فون کر کے پوچھا کہ تم کیا کرتی ہو تو اس نے کہا آنٹی میں تو گھر پر ہی ہوتی ہوں۔میں نے اسے بتایا کہ تم نے بہت اچھا لکھا ہے، اب ہمیں اور بھی چیزیں لکھ کر بھیجو۔ ایک اور رائٹر ہیں اُمِّ ایمان قاضی ، وہ بھی اچھا لکھتی ہیں ۔بہت ساری رائٹرز ہیں میں کس کس کا نام گنواؤں۔
٭ دنیا بھر کے ادیبوں میں آپ کا پسندیدہ ادیب؟
انجم: عصمت چغتائی۔ مجھے ان کی تحریریں بہت پسند ہیں۔ حالاںکہ ان کے بارے میں لوگوں کی رائے مختلف ہے لیکن مجھے پھر بھی وہ پسند ہیں۔ غلام عباس، احمد ندیم قاسمی ،منٹو مجھے بہت سارے لوگ پسند ہیں لیکن سب سے زیادہ پسند مجھے عصمت ہیں ۔ ان کے جملوں میں برجستگی ہوتی ہے۔ان کے ایک ایک فقرے میں زندگی سانس لیتی نظر آتی ہے۔میں تو ان کی پرانی تحریریں ابھی بھی پڑھتی ہوں اور انجوائے کرتی ہوں۔
٭ اگر آپ کو کسی ایک رائٹر کے ساتھ ساری زندگی کام کرنا پڑے تو آپ کا چنائو کون ہو گا؟
انجم: دیکھیں ایک ہی رائٹرکے ساتھ کام کرنا تو بالکل ناممکن ہے، کیوں کہ ہمیں تو پرچہ نکالنا ہوتا ہے، ایک رائٹر سے تو نہیں نکل پائے گا۔ ہمیں ایک گروپ چاہیے ہوتا ہے رائٹرز کا، جو آگے بڑھنے والا ہو، جس سے تحریروں میں ورائٹی آئے اور جنہیں لوگ پڑھنا پسند کریں۔
٭ سینئر ڈائجسٹ رائٹرز میں سے کس کی تحریر آپ کو اچھی لگتی تھی؟
انجم: سینئرز میں مجھے بشریٰ رحمن کی تحریریں بہت اچھی لگتی ہیں۔ ان کی تحریریں پڑھ کر تو ہم نے لکھنا سیکھا، اس کے علاوہ ناہید سلطانہ اختر۔ وہ بہت اچھی رائٹر ہیں۔ اب بھی پاکیزہ میں لکھتی ہیں، اگرچہ اب کم لکھتی ہیں، لیکن بہترین لکھتی ہیں، پورا ہوم ورک کر کے لکھتی ہیں۔ نئی بچیاں ہوم ورک کر کے نہیں لکھتیں، ناہید ہمیشہ پورا ہوم ورک کر کے لکھتی ہیں۔ ان کی منظر نگاری اتنی غضب کی ہوتی ہے کہ انسان اپنے آپ کو اس کا حصہ سمجھنے لگتا ہے۔ان کا ایک ناول تھا ”بہتے پانی پر مکان” جو پاکیزہ میں شائع ہوا تھا، جس پر ڈرامہ بھی بنا تھا ”آنچ” وہ اس قدر مشہور ہوا تھا کہ لوگ تقریبات میں دیر سے جاتے تھے کہ ناہید کا ڈرامہ آرہا ہے۔
٭ آپ کا پسندیدہ writing genre کون سا ہے؟
انجم: مجھے معاشرتی کہانیاں پسند ہیں۔ رومانس بھی زندگی کا حصہ ہے لہٰذا وہ بھی پسند ہیں۔
٭ کون سا genre آپ کو غیر دلچسپ لگتا ہے؟
انجم: مجھے مسٹری اور ہارر کہانیاں غیر دلچسپ لگتی ہیں، یا وہ کہانیاں جو بے حد ڈارک ہوں۔
٭ اپنے کیے ہوئے کام میں اب تک آپ کا پسندیدہ پراجیکٹ؟
انجم: پاکیزہ میں لکھنے والی کچھ ایسی خاتون رائٹرز تھیں جن کی تحریریں ایڈٹ کرنے کی مجھے کبھی ضرورت ہی نہیں پڑتی تھی۔ عمیرہ کا کبھی ایڈٹ نہیں کرتی تھی، ناہید کا ایڈٹ کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔شیریں حیدر بہت اچھا لکھنے والی ہیں، ان کے کیے ہوئے کام بہت پسند ہیں مجھے۔