مدیر سے پوچھیں — انجم انصار سے گپ شپ

٭ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ سینئرز کی تحریریں آپ پڑھے بغیر ہی آگے بھیج دیتی ہیں؟
انجم: ایسا ہرگز نہیں ہے۔ بہت دفعہ ہماری سینئر رائٹرز بھی کچھ ایسا لکھ کر بھیج دیتی ہیں، کہ میں پڑھتے ہوئے سوچتی ہوں اگر اس کو ایسے ہی جانے دیا ہوتا تو ایک ہنگامہ مچ سکتا ہے۔بہت ساری چیزیں ہماری پالیسی سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ اب ایک بہت بولڈ ماحول کی خاتون ہیں، ان کے نزدیک کچھ باتوں کی اہمیت نہیں ہے، وہ اپنی تحریر ویسی ہی بھیجیں گی، لیکن میں اس کو اس حساب سے دیکھوں گی کہ جو لڑکی بغیر چادر گھر سے نہیں نکل سکتی، جو لڑکی بغیر دوپٹے کے اپنے باپ اور بھائی کے سامنے نہیں آسکتی، وہ ایسی تحریر پڑھے گی تو وہ بہت برا مانے گی۔ایک بار ایسا ہوا تھا کہ میں نے ایک ناول میں ہیروئن کی فیملی کاسٹ کے ساتھ نام لکھا اور دکھایا تھا کہ وہ لڑکی بھاگ گئی۔ تو اس کاسٹ یعنی ذات کے لوگوں کے بہت سارے فون ہمارے پاس آئے کہ ہمارے علاقے کی لڑکی تو بھاگ ہی نہیں سکتی۔اس کے بعد میں نے دوبارہ ایسی غلطی نہیں کی، وہ لوگ کہنے لگے کہ ہم تو مقدمہ کریں گے۔ لیکن ادارے کے مالک معراج رسول صاحب نے ان لوگوں سے بات کی کہ آپ پریشان نہ ہوں۔





٭ مقابلے کے باقی editors میں سے کون آپ کے خیال میں بہت اچھا کام کررہا ہے؟
انجم: میں نے لکھنے کا آغاز خواتین ڈائجسٹ سے ہی شروع کیا تھا، تو وہاں کی مدیر امتل صبور مجھے بہت پسند ہیں، بھلے وہ ہم عصر ہیں لیکن بہت اچھا کام کررہی ہیں۔ سائرہ غلام نبی بہت اچھا کام کررہی ہیں۔ منزہ سہام مرزا بہت اچھا کام کررہی ہیں۔ ہمارے سارے رسالے بہت اچھے نکل رہے ہیں اور میں سب پڑھتی ہوں۔ میں نہیں سمجھتی کہ کوئی ایڈیٹر کبھی چاہے گا کہ اس کے رسالے میں خراب تحریر لگے یا اس کے رسالے کی ساکھ خراب ہو۔
٭ آپ کو اب تک موصول ہوئے آئیڈیاز میں کوئی ایسا آئیڈیا جو نہایت مضحکہ خیز لگا ہو؟
انجم: آج کل مسئلہ یہ ہے کہ جو لوگ خط لکھنا جان گئے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ ہم رائٹر بھی ہیں، اور بھیجیں گے بھی پورے ناول کا مسودہ۔ اس میں بعض اوقات اتنے مضحکہ خیز حالات و واقعات شامل ہوتے ہیں کہ ان پر یقین نہیں آتا ۔لیکن رائٹرز کا اصرار ہوتا ہے کہ ہمارے یہاں ہوا تھا، واقعی ہوا ہوگا۔میں نے کہا کہ بھئی اگر یہ سچ بھی ہے تو یہ ایسا سچ ہے جو ہضم نہیں ہوسکتا۔
٭ کوئی ایسی کہانی جسے پڑھ کر آپ نے سوچا کہ کاش میں نے یہ لکھوائی ہوتی؟
انجم: بہت ساری تحریریں اچھی لگتی ہیں، لیکن کبھی ذہن میں ایسی سوچ نہیں آئی ، البتہ بعض تحریریں پڑھ کر میں یہ ضرور سوچتی ہوں کہ یہ انہوں نے بلا تحقیق کیوں لگادی،میں نے ایک ناول پڑھا جس میں نیوی کے بارے میں معلومات تھیں،ساری کی ساری غلط۔ اب رائٹر نے تو غلط لکھا سو لکھا، لیکن مدیر نے بھی اس کو صحیح کرنے کی زحمت نہیں کی۔
٭ کسی بھی تحریر میں ایسی کون سی تین چیزیں ہوتی ہیں، جنہیں دیکھ کر آپ اس کی طرف متوجہ ہوتی ہیں؟
انجم: سب سے پہلے تو اندازِ تحریر۔ اگر تحریر میں ایسی کوئی چیز ہو جو پڑھی نہ جا سکے،مشکل ہو، کیوں کہ مشکل لکھنا کوئی مشکل کام نہیں ہے، میرے خیال میں آسان لکھنا مشکل ہے۔ اندازِ تحریر پڑھنے والے کو آمادہ کررہا ہے یا نہیں۔دوسری چیز تحریر کا موضوع، اس کے موضوع میں ندرت ہو، اگر صرف رشتوں کی بات ہو، یہ ہو کہ شادی ہوگئی کہانی ختم، تو ایسی کہانیاں مجھے پسند نہیں آتیں، مجھے کیا کسی کو بھی نہیں آتیں آج کل۔ تحریر پڑھنے والے کو اس میں دل چسپی پیدا ہونی چاہیے، اگر سیدھی سپاٹ کہانی ہے تو پڑھنے والے کو مزہ نہیں آئے گا،اگر اس کے اندر تھوڑے سے الجھائو، پیچیدگیاں اور سلجھائو آرہے ہیں تو کہانی پڑھنے میں مزہ آئے گا۔
٭ کون سی ایسی تین چیزیں ہیں ، جو آپ کو سخت ناپسند ہیں اور جس کی وجہ سے آپ کہانی ریجکٹ کردیتی ہیں؟
انجم: سب سے پہلے تو خراب لکھائی،اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایک کے اوپر ایک لفظ لکھا ہوا آتا ہے، جو پڑھنا مشکل ہوتا ہے۔اور پھر اکثر لکھنے والیاں اصل مسودہ اپنے پاس رکھتی ہیں، ہمیں فوٹوسٹیٹ بھجواتی ہیں جو واضح نہیں ہوتی، اس میں لفظ مٹے مٹے ہوتے ہیں، اور تیسری اہم بات یہ کہ اکثر رائٹرز سچائی بیان کرنے کی خاطر لفظوں کو برہنہ کردیتی ہیں، مجھے کھلے الفاظ پسند نہیں ہیں۔
٭ ایڈیٹنگ کی فیلڈ میں نئے آنے والوں کے لئے کوئی ایک مشورہ ؟
انجم: ایڈیٹر اگر رائٹرزسے دوستیاں نبھانا شروع کردے تو رسالے کا بیڑہ غرق ہوجاتا ہے۔آپ اپنی دوستی اپنی حد تک ہی رکھیے، تحریروں کے انتخاب میں آپ پروفیشنل طریقہ اختیار کریں۔ اگر آپ نے میگزین کو لے کر چلنا ہے تو تحریر کے معیار پر سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔اگر آپ نے دوستی میں ایک بار تحریرلگادی تو ہوسکتا ہے اگلی بار اس رائٹر کی تحریر لوگوں کو پسند نہ آئے، کیوں کہ آج کا قاری بہت باریک بین ہوگیا ہے۔ وہ یہ تک دیکھتاہے کہ فلاں کی کہانی میں یہ جو لائن چھپی ہے، یہ ان کی دوسرے رسالے میں شائع شدہ فلاں کہانی میں بھی چھپ چکی ہے۔باقاعدہ quote کرکے بھیجا جاسکتا ہے۔ اور سب سے اہم بات یہ کہ اگر آپ اس فیلڈ میں آرہے ہیں، تو آپ کو اُس زبان پر عبور ہونا چاہیے، جس میں آپ تحریریں پڑھ رہے ہیں۔ میں مختلف پروڈکشن ہاؤسز میں جاچکی ہوں، سکرپٹ کے حوالے سے اور وہاں پر سکرپٹ ڈپارٹمنٹ میں ایسے لوگوں کو دیکھا ہے جن کی اپنی اُردو اچھی نہیں۔ جو خود اُردو پڑھ نہیں سکتے وہ تحریر کی نوک پلک کیسے سنوار سکتے ہیں؟





٭ کیا آپ remakes یا adoptations کے حق میں ہیں؟
انجم: ہمارے یہاں ناول کم ہیں کیا؟(مسکراتے ہوئے) ہمارے لکھنے والوں نے بہت اچھی اچھی چیزیں لکھی ہیں تو پھر ہم باہر کی چیز کو کیوں adoptکریں؟اگر ہم کسی نئے لکھنے والے کے ناول پر کام کریں گے توکیا آپ چھوٹے پڑجائیں گے۔
٭ رائٹرز کے بارے میں اکثریت کی رائے یہ ہوتی ہے کہ یہ بڑے unprofessional ہوتے ہیں، deadlines کونہیں meetکرتے ،آپ اس بات سے کس حد تک متفق ہیں؟
انجم: الحمداللہ میرے ساتھ جو بھی رائٹرز کام کرتی ہیں، ان میں سے کسی نے یہ مسئلہ نہیں کیا ہے۔ قسط وار ناول کی اقساط بھیہمارے پاس پہلے سے موجود ہوتی ہیں۔ عمیرہ نے جب عکس لکھا، تب بھی ہمیشہ پہلے قسط بھیجتی تھی، ناہید بھی ہمیشہ وقت پر بھیجتی ہیں۔
٭ کہا جاتا ہے کہ رائٹراناپسند اور خود پسند ہوتے ہیں۔ آپ اس بات سے کس حد تک متفق ہیں؟
انجم: ہاں ہوتے ہیں، اگر ان کی تحریر میں سے کچھ نکال دیا جائے تو وہ ناراض ہوجاتے ہیں، مگر اتنا زیادہ نہیں ہوتے۔ سینئرز میں بھی یا جونیئرز میں بھی لیکن ان کی تعداد کمہوتی ہے۔
٭ اگر آپ کہانی میں رد وبدل کے لیے کہتی ہیں تو کیا رائٹر آپ کی بات سے بآسانی متفق ہوجاتی ہیں؟
انجم: بالکل کرتی ہوں۔
٭ اگر کبھی وہ آپ کی بتائی گئی تبدیلیوں سے متفق نہیں ہوتیں تو پھر آپ کا لائحہ عمل کیا ہوتا ہے؟
انجم: اگر ان کی سمجھ میں نہیں آرہا ہوتا، یا وہ متفق نہیں ہوتیں تو پھر میںاپنا استحقاق استعمال کرتے ہوئے خود ہی تبدیل کردیتی ہوں، اور رائٹرز مانتی بھی ہیں۔
٭ کیا آپ deadlines پر سختی سے عمل درآمد کرتی ہیں؟
انجم: الحمدللہ ہمارے یہاں آج تک کبھی یہ نہیں ہوا کہ ناول کی قسط دیر سے آنے کی وجہ سے چھپنے سے رہ جائے۔ ہم ایک آدھ قسط ایڈوانس میں رکھتے ہیں۔ ویسے بھی ہمیشہ رائٹرز نے اپنی commitment پوری کی ہے ۔
٭ کیا ڈائجسٹ کے اندر مرد رائٹرز بھی لکھتے ہیں؟
انجم: ایک دو مرد ہیں جو بزمِ پاکیزہ میں اپنی بیویوں کے نام سے لکھتے ہیں، ان کا مجھے پتہ بھی ہے اور ایک لڑکا ہے جو میڈیکل کا سٹوڈنٹ ہے اور اپنی منگیتر کے نام سے لکھ رہا ہے لیکن پاکیزہ میں مرد رائٹر نہیں ہیں۔
٭ آپ کی پسندیدہ کتاب؟
انجم: پیرِ کامل ۖ، اس جیسی کتاب کوئی دوسری نہیں۔ بہت ہی خوب صورت تحریر ہے۔ اس کے علاو ہ مجھے ناہید سلطانہ اختر کی ”بہتے پانی پر مکان” بھی بہت اچھی لگتی ہے۔
٭ آپ کی پسندیدہ فلم؟
انجم: ابھی فرحت اشتیاق کی فلم ‘بن روئے ‘ دیکھی تھی۔ بہت پسند آئی تھی مجھے، اور وہ فلم اس لئے بھی زیادہ شوق سے دیکھی کہ ہماری ایک ڈائجسٹ رائٹر نے لکھی تھی۔
٭ نئے لکھنے والوں کے لئے کوئی ایک مشورہ؟
انجم: تن آسانی چھوڑدیں۔ اکثر اوقات ہمیں rough مسودہ بھجوا دیا جاتا ہے، اس کو فیئر کرنے کی زحمت نہیں کی جاتی۔ یہ چیز بہت غلط ہے، کئی رائٹرز ہیں جو اپنی تحریریں بھیجنے سے پہلے ایک بار پڑھنے کی زحمت بھی نہیں کرتے کہ جو چیز بھیجی ہے وہ اغلاط سے پاک اور مکمل ہے بھی کہ نہیں۔




Loading

Read Previous

اب تو موت بھی نصیحت نہیں کرتی — اسیرِ حجاز

Read Next

مجھے فخر ہے — آمنہ شفیق

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!