الف لیلٰہ مقابلے میں دوسری انعام یافتہ کہانی
چل میرے بادل!
سارہ قیوم
ایک تھا بادل، نرم نرم جیسے روئی کا کوئی گالا! اُس میں اتنا پانی بھرا ہواتھا کہ بے چارے سے چلا نہ جاتا تھا۔ وہ چپ چاپ آنکھیں موندے آسمان میں کھڑا تھا۔ ہوا اِس لہرا تے ہوئے بادل کے پاس سے گزری تو بادل کی چیخ نکل گئی۔
”اُف!!! مجھے نہ چھیڑو۔ مجھ میں اتنی بارش ہے کہ جسم درد کررہا ہے۔” بادل نے کراہ کر کہا۔
”ارے تم اپنی بارش کہیں برسا دو۔” ہوا کو بادل پر بڑا ترس آیا۔
”کیسے برسائوں؟ دیکھو نیچے سمندر ہے۔ میں یہاں بارش برسائوں گا تو سمندر غصے سے پھر میرے اندر ڈھیر سارا پانی بھر دے گا۔” بادل اُداس ہو کر بولا۔ آخر ہوا کو ایک ترکیب سوجھی۔ وہ بولی:
بادل بھائی! ”میں تمہیں سہارا دے کر لیے چلتی ہوں جہاں بارش کی ضرورت ہوئی تم وہاں برسنا۔ ہمت ِ بادل، مددِ ہوا۔” ہوا نے بادل سے کہا۔ ”ارے نہیں بلکہ یوں کہو: ہمت مرداں، مددِ خدا۔” بادل نے کہا تو ہوا مسکرا دی۔ آخربادل نے ہوا کی بات مان لی اور دونوں آہستہ آہستہ چلنا شروع ہوئے۔ چلتے چلتے وہ ایک ہرے بھر ے میدان کے اُوپر جاپہنچے۔
”کیا یہاں برس جائوں؟” بادل نے ہانپتے ہوئے پوچھا۔
”یہاں نہیں ذرا نیچے تو دیکھو۔” ہوا بولی۔
بادل نے نیچے نظر ڈالی تو دیکھا کہ میدان میں میلہ لگا ہوا ہے۔ لوگ رنگ برنگ کپڑے پہنے خوشی خوشی سیر سپاٹا کررہے ہیں۔ کھانے پینے کے اسٹال لگے ہوئے ہیں۔ کہیں کھیل تماشے ہو رہے ہیں تو کہیں کرتب دکھائے جا رہے ہیں۔ ایک طرف بچے جھولا جھول رہے ہیں۔
ہوا نے کہا: ”اگر تم نے یہاں بارش برسا دی تو سارا میلہ برباد ہو جائے گا۔ لوگوں کی خوشیوں پر پانی پِھر جائے گا۔”
”اچھا! تو پھر چلو آگے چلیں۔” بادل نے ٹھنڈی سانس بھری۔ کچھ دیر بعد دونوں دوسرے شہر کے اوپر پہنچے۔ ”بس بھئی اب اور نہیں چلا جاتا۔ مجھے یہیں برس جانا چاہیے۔” بادل نے تھک کر کہا۔
”ذرا نیچے تو دیکھو۔” ہوا نے کہا۔ بادل نے دیکھا کہ ایک شہر ہے جہاں بہت سی سڑکیں اور عمارتیں بن رہی ہیں اور جگہ جگہ زمین کُھدی ہوئی ہے۔ بادل سوچ میں پڑ گیا۔ ”میں یہاں نہیں برسوں گا۔” ”ورنہ گڑھوں میں پانی بھر جائے گا اور کیچڑ سے لوگ پھسل کر گریں گے۔” اُس نے فیصلہ کیا۔
ہوا یہ سُن کر بہت خوش ہوئی اور دوبارہ بادل کو سہارا دے کر آگے لے گئی۔ تھوڑی دیر بعد دونوں ایک گائوں کے اوپر پہنچے۔ بادل نے دیکھا کہ گاؤں میں کھیت سوکھے پڑے ہیں۔ ندی میں پانی ختم ہوچکا ہے۔ لوگ اور جانور پیاسے ہیں۔ جب بادل کا سایہ گائوں پر پڑا تو بچے، مرد اور عورتیں سب گھروںسے نکل آئے۔ وہ سب سر اُٹھا کر بادل کی طرف دیکھنے اور بارش کی دعائیں کرنے لگے۔
”آہا! یہاں میری ضرورت ہے۔” بادل خوش ہوا تو ہوا بھی مُسکرا کر بولی:
”چل میرے بادل… بسم اللہ!”
ہوا کا اشارہ پاکر بادل نے پانی کا پہلا قطرہ ٹپکایا پھر دوسرا اور تیسرا… یوں دیکھتے ہی دیکھتے موسلا دھار بارش ہونے لگی۔ لوگ خوشی سے جُھومنے لگے۔ پودے بارش میں نہا گئے۔ ندی پانی سے بھر گئی۔ ہوا کے ٹھنڈے جھونکے چلنے لگے۔ درخت جھوم اُٹھے اور پتے تالیاں بجانے لگے۔ ہر طرف خوشیاں بکھر گئیں۔ بادل ہلکا پھلکا ہو کر اِدھر اُدھر اُڑتے ہوئے ہوا کے ساتھ کھیلنے لگا۔
”اب تم سمجھے میرے پیارے بادل! دنیا کی سب سے بڑی خوشی دوسروں کے کام آنے میں ہے۔” ہوا نے اُسے اچھالتے ہوئے کہا تو بادل نے بھی اثبات میں سر ہلا دیا۔
٭…٭…٭