قرنطینہ ڈائری ۔ نواں دن

قرنطینہ ڈائری

(سارہ قیوم)

نواں دن: یکم اپریل 2020ء

ڈیئر ڈائری!

کل ہم نے سالگرہ کے لیے دو کیک بنائے تھے۔ ان میں سے بڑا والا تو کاٹ لیا گیا اور کھا لیا گیا جب کہ چھوٹے والا فرج میں رکھ دیا گیا۔ رات سونے سے پہلے ابراہیم نے سب بھائیوں سے وعدہ لیاکہ رات میں کوئی اس کیک کو ہاتھ بھی نہیں لگائے گا اور صبح اٹھ کر اماں کاٹیں گی اور سب میں بانٹیں گی۔ صبح اٹھے تو آدھے سے زیادہ کیک غائب تھا۔ رات ہی رات میں کوئی کیک پر ہاتھ صاف کر گیا تھا۔ اب چور کی ڈھنڈیا پڑی۔ سب بھائیوں سے پوچھا گیا۔ وہ سب نیکی اور شرافت کے پتلے، معصومیت کے پیکر آنکھیں پٹپٹا کر صاف انکاری ہوئے کہ بھلا ہم اور یہ کارِ عبرت خیز؟ تو پھر کیک کس نے کھایا؟ ماموں اللہ بخش نے، اور کس نے! 

جب میرے بچے چھوٹے تھے تو، جیسا کہ ہر چھوٹے بچوں والے گھر میں ہوتا ہے، ان کی بہت سی چیزیں گم ہو جایا کرتی تھیں۔ ابھی چیز سامنے پڑی ہے، ابھی غائب۔ اور جب ہم ڈھونڈ ڈھونڈ کر بال نوچنے والے ہو جاتے تھے تو وہی چیز اچانک سامنے پڑی نظر آجاتی تھی۔ بہت سے ربر، شاپنر، پنسلیں اور گیندیں یوں کھوئی اور پائی جاتی تھیں۔ بہت سی چیزیں ٹوٹ جاتی تھیں جن کے بارے میں شرارتی آنکھیں چمک چمک کر اور توتلی زبانیں اللہ کے وعدے کر کر کے اعلان کرتی تھیں کہ ہمیں کچھ معلوم نہیں کہ کیا ہوا اور کس نے کیا۔ ایسا ہر کام ماموں اللہ بخش کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا تھا۔ ماموں اللہ بخش ایک جن تھے جو ہمارے گھر میں رہتے تھے اور ہر شرارت کی ذمہ داری چپ چاپ اٹھاتے تھے۔ یہی نہیں، وہ معصوم ٹوٹے دلوں کے جوڑنے میں بھی کام آتے تھے۔ کوئی کھلونا ٹوٹ گیا، ماموں اللہ بخش نے چھپا دیا اگلے دن چپکے سے نیا رکھ گئے۔ یہی نہیں ہمارے گھر میں بہت سی پریاں بھی رہتی تھیں۔ چند وہ تھیں جو رات کو سوتے ہوئے بچوں کو اتنا چومتی تھیں کہ ان کے منہ گندے ہو جاتے تھے اور صبح اٹھ کر دھونے پڑتے تھے۔ ایک پری سوتے بچوں کے تکیوں کے نیچے ٹافیاں رکھ جاتی تھی۔ ایک ٹوتھ فیری بھی تھی جو ہر ٹوٹے دانت کے بدلے تکیے کے نیچے پیسے رکھ جاتی تھی۔ بچے بڑے ہوئے، پریاں گھر سے چلی گئیں، کیوں کہ پریاں تو صرف چھوٹے بچوں والے گھروں میں رہتی ہیں۔ نہ گئے تو ماموں اللہ بخش نہ گئے۔ وہ یہیں ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔

تو ڈیئر ڈائری! آج میں شکر گزار ہوں ماموں اللہ بخش کے لیے، اور سوتے بچوں کے منہ چومنے والی پریوں کے لیے اور ان پریوں کے لئے جو بچوں کے تکیوں کے نیچے تحفے رکھ جا تی تھیں، اور ہر اس معصوم کردار کے لیے جو کبھی میری زندگی کا حصہ رہا ہے اور جس کی پیاری یاد آج بھی میرے دل کو منور رکھتی ہے۔

بچوں کے سکول کالجز نے آن لائن کلاسز شروع کر دی ہیں۔ عمر صبح نو بجے کا الارم لگا کر سوتے ہیں۔ جونہی الارم بجتا ہے اٹھ کر کلاس میں لاگ ان کرتے ہیں، حاضری لگاتے ہیں اور دوبارہ سو جاتے ہیں۔ ادھر بے چارے ٹیچرز کلاس لیے جاتے ہیں اور ادھر عمر صاحب خراٹے ۔بے چارے ابراہیم کو اتنا کام ملتا ہے جتنا سکول کے پانچ گھنٹوں اور گھر کے ایک گھنٹے میں ہوا کرتا تھا۔ گھر میں رہ کر سکول کی طرح پڑھنا کتنا مشکل ہے یہ کوئی گھر بیٹھے بچوں سے پوچھے۔ سب سے زیادہ مشکل میں جان منجھلے صاحبزادے مصطفی کی ہے۔ یہ حضرت بے انتہا سوشل ہیں۔ آپ ملک کے کسی شہر کا نام لے لیجئے۔ وہاں ان کے دوست موجود ہوں گے۔ چنانچہ ہمہ وقت یہ زمین کا گز بنے پاکستان کاطول و عرض ناپ رہے ہوتے ہیں۔ کبھی چڑے کھانے گوجرانوالہ جا رہے ہیں تو کبھی دوست کو باڈی بلڈنگ چمپئن شپ جتانے شیخوپورہ۔ ایک مرتبہ تو دوستوں کے ساتھ فجر کے وقت لاہور سے نکلے، پشاور جا کر شنواری کڑاہی دنبے کے گوشت کی کھائی اور عشا تک واپس بھی آگئے۔ اب انہیں گھر بیٹھنا پڑا ہے تو بے چارے سخت غمگین ہیں۔ سارا دن یا کتابیں پڑھتے ہیں یا ابراہیم کے ساتھ شطرنج کھیلتے ہیں۔ ابراہیم اپنا ہوم ورک بھی مصطفی ہی کے پاس بیٹھ کرکرتا ہے۔ 

 تو آج مصطفی میرے پاس آیا اور آزردگی سے بولا۔ ”میری بس ہو گئی ہے۔ I need to go out.“

”کدھر go out.؟“ میں نے پریشان ہو کر پوچھا۔ ”باہر لاک ڈاﺅن ہے بیٹا۔“

”چند دوست مل کر راشن بانٹ رہے ہیں۔ سوچ رہا ہوں ہاتھ بٹانے چلا جاﺅں۔“

میں تذبذب کے عالم میں کھڑی سوچتی رہی۔ روکوں؟ نہ روکوں؟ مدد کے کاموں سے تو کبھی نہیں روکا، پھر اب کیا کروں؟

آخر اللہ پر بھروسا کیا او راس شرط پر جانے دیا کہ ماسک لگا کر جاﺅ گے اور جلد از جلد واپس آﺅ گے۔ مصطفی گیا اور میرا دل اپنے ساتھ لے گیا۔ میں بے قراری سے ایک کمرے سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے میں پھرنے لگی۔ پھر دل کو بہلانے کے لیے اپنے کمرے میں آکر کتاب لے کر بیٹھ گئی۔ ابھی بیٹھی ہی تھی کہ باہر سے بلیوں کے لڑنے اور غرانے کی خوفناک آواز آئی۔ یہ آوازیں ہم سب گھر والوں کے لیے گویا نقارئہ جنگ ہیں۔ جب سے سمبا ہمارے گھر آیا تھا۔ اردگرد کے بدمعاش بلے موقع پا کر اس پر حملہ آور ہو جاتے تھے۔ بلیوں کے غرانے کی آواز آتے ہی ہم باہر بھاگتے اور سمبا کو دشمن بلوں کے پنجوں سے چھڑا کر اندر لے آتے۔ آج جب یہ ہولناک آوازیں آئیں تو نیچے کے پورشن میں میں اکیلی تھی۔ گھبرا کر اتنی تیزی سے اٹھی کہ کتاب میرے ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے جا گری۔ جلدی اور گھبراہٹ میں میں ننگے پاﺅں باہر بھاگی۔ باہر گئی تو وہ نظارہ دیکھنے کو ملا کہ میں ہکا بکا جہاں کی تہاں کھڑی رہ گئی۔ سمبا پورچ میں تن کے کھڑا تھا۔ اس کے تمام بال تیروں کی طرح اوپر کھڑے تھے۔ آنکھیں چیتے کی طرح چمک رہی تھیں اور اس کے سامنے ایک چھوٹا سا سفید بلا اپنے آپ میں دبکا سہما کھڑا تھا۔

”سمبا؟“ میں نے بے یقینی سے پکارا۔ ”یہ کیا کر رہے ہو؟“

سمبا نے یوں میری طرف دیکھا جیسے وارننگ دے رہا ہو کہ اس معاملے سے دور رہو۔ کیا یہ میرا چھوٹا سا، معصوم، نیک فطرت سمبا تھا؟ اس وقت مجھے خیال آیا کہ بلیوں کی اوسط عمر آٹھ سے دس سال کے درمیان ہوتی ہے اور سمبا اس وقت دو سال کا ہے۔ اگر اس عمر کو انسانی عمر پر منطبق کیا جائے تو اس کلیے کے مطابق سمبا اس وقت بیس سال کا کڑیلا جوان ہے۔ ٹھیک ہے جوانی سب پر آتی ہے اور جوانی میں خون بھی سبھی کا گرم ہوتا ہے لیکن اس جنگ و جدل کے کیا معنی؟

میرے دیکھتے ہی دیکھتے سمبا نے دانت نکال کر غراتے ہوئے حملہ کیا اور ننھے بلے کو رگیدتا ہوا دور تک لے گیا میں ہش ہش کرتی پیچھے دوڑی۔ سمبا نے میرے آنے کی مطلق پرواہ نہ کی اور یکبارگی اس شدت سے بلے پر جھپٹا کہ مجھے لگا مار ہی ڈالے گا۔ میں نے تیزی سے ادھر اُدھر نظر دوڑائی۔ لان میں مجھے ایک ٹوٹی شاخ نظر آئی۔ میں بھاگ کر گئی اور اسے اٹھا لائی ۔اتنی دیر میں سمبا اپنے شکار کے بالوں کے گچھے کے گچھے نوچ چکا تھا۔ میں نے سوکھی ہوئی شاخ سے اسے ڈرانے کی کوشش کی۔ سمبا پیچھے ہٹا تو ننھے بلے کو بھاگنے کا موقع مل گیا۔ سمبا غراتا ہوا اس کے پیچھے لپکا اور دونوں تیر کی سی تیزی سے بھاگتے ہوئے ایک طرف کو غائب ہو گئے۔ میں سمبا کو آوازیں دیتی رہ گئی۔

حیران پریشان میں اندر گئی۔ ابراہیم نیچے آیا تو میں نے اسے سمبا کی کارگزاری سنائی۔ وہ بھی حیران ہوا، باہر جا کر سمبا کو تلاش کیا، وہ کہیں نہ ملا۔ اندر آکر ابراہیم نے ٹی وی لگایا اور مزے سے نیم دراز ہو کر دیکھنے لگا۔ میں کچھ مصطفی کے جانے سے بے قرار تھی، کچھ سمبا کی حرکتوں نے مجھے حیران پریشان کیا تھا، میں ابراہیم پر خفا ہونے لگی۔

”جب دیکھو ٹی وی کے آگے جمے ہوتے ہو۔“ میں ناراضی سے کہنے لگی۔ ”پڑھ کیوں نہیں رہے؟“

”اماں میں صبح سے پڑھ رہا ہوں اور نہیں پڑھ سکتا۔“ ابراہیم نے بسور کر کہا۔

”صبح سے کہاں پڑھ رہے ہو؟“ میں نے خفا ہو کر کہا۔ ”بارہ بجے تو سو کر اٹھے تھے۔ اتنا کام ختم کیسے ہو گا۔ پڑھائی پر دھیان دینا شروع کرو، یہ نہ ہو مجھے بابا سے شکایت کرنی پڑے۔“

میں بولتے بولتے اپنے کمرے میں آگئی۔ چند لمحوں بعد مجھے ٹی وی بند ہونے کی آواز آئی۔ پھر ابراہیم کے خاموشی سے اٹھنے اور اوپر چلے جانے کی آواز۔

Loading

Read Previous

قرنطینہ ڈائری ۔ آٹھواں دن

Read Next

قرنطینہ ڈائری ۔ دسواں دن

One Comment

  • آمین

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!