قرنطینہ ڈائری
آٹھواں دن: 31 مارچ 2020ء
ڈیئر ڈائری!
آج ہمارے میاں صاحب کی سالگرہ تھی۔ یوں تو جب سے لاک ڈاﺅن شروع ہوا ہے ہم نے نت نئے کھانے بنانا بند کر دیا ہے اور اس بچت سے ہم وہی کر رہے ہیں جو اس صورتحال میں ہمیں کرنا چاہیے۔ لیکن آج ذرا خاص دن تھا اور خاص دن کا تقاضا تھا کہ کچھ اچھا سا پکایا جائے اور ان ٹینشن کے دنوں میں سیلبریشن کا ماحول پیدا کر کے خوشی کا کچھ سامان کیا جائے۔ لہٰذا چکن روسٹ کیا، دو طرح کا سلاد بنایا اور ساتھ ڈھیروں فرنچ فرائز بنائے۔ حمس ابراہیم نے بنا لیا۔ آخر میں میں نے اپنا مشہور زمانہ چیز کیک پیش کیا اور یوں ہم نے گھر میں ایک چھوٹی سی دعوت منائی۔
تو ڈیئر ڈائری! آج میں شکر گزار ہوں ان چھوٹی چھوٹی (اور بڑی بھی) خوشیوں کی جو پریشانی اور خوف کے دنوں میں زندگی ہمیں پیش کرتی ہے۔ یوں جیسے حبس زدہ کمرے میں ایک چھوٹی سی کھڑکی کھول دی جائے اور ہوا کے ٹھنڈے خوشبو دار جھونکے سانس لینا آسان کر دیں۔ کبھی کبھی یہ کھڑکیاں ہمیں خود کھولنی پڑتی ہیں۔ بڑی محنت سے، بڑے صبر سے اور بڑے جان جوکھم سے۔ لیکن خوشیوں کی ان کھڑکیوں سے زندگی کا نظارہ اس قدر دلفریب ہے کہ مچل جاتا ہے رگِ زندگی میں خونِ بہار
اس لیے دوستو! زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو لپک کر پکڑو، ان سے پیار کرو، سیلبریٹ کرو، زندگی کو یوں جیو جیسے اسے جینے کا حق ہے۔
ٹینشن دینے کا کام ٹی وی تو بخوبی کر ہی رہا تھا، اب اخبار بھی اس دوڑ میں شامل ہو گئے۔ ٹی وی تو میں دیکھتی نہیں۔ ہاں اخبار پڑھنے کی لت بچپن سے ہے۔ جب تک ساری خبریں اور کالم نہ پڑھ لوں چین نہیں آتا۔ آج کا اخبار کھولا تو یہ کالم نظر پڑے۔
”ایک دن موت آنی ہی آنی ہے،“ ”کرونا اور ٹائیگر فورس“، ”کرونا وبا کے معیشت پر اثرات“، ”ہندوستان کرونا کے لیے تیار نہیں تھا،“ ”وبائیں اور توہم پرستی“، ”کرونا سے کشمیر کی حالت مخدوش“ اور اسی طرح کے چند اور ایڈیٹورل بھی تھے۔ گھبرا کر میں نے اخبار رکھ دیا اور ٹی وی سے رجوع کیا۔ وہاں ایک صاحب نہایت افسوس سے اطلاع دے رہے تھے کہ امریکا میں بہت حالات خراب ہیں لیکن پاکستان میں لوگ مر ہی نہیں رہے۔ ڈھیٹ کہیں کے۔
ٹی وی سے اکتا کر انٹرنیٹ کھولا۔ وہاں نت نئی سازشی تھیوریاں، کرونا کے علاج کے تیر بہدف نسخے اور عذاب کی وعیدیں بھری پڑی تھیں۔ فیس بک پر ایک صاحب ڈانٹ رہے تھے کہ یہ سارا عذاب ان عورتوں کی وجہ سے آیا ہے جو بنا دوپٹے کے گھر سے نکلتی ہیں۔ وہ گھر نہیں بیٹھیں اس لیے آج مردوں کو گھر بیٹھنا پڑ رہا ہے۔ اس سے اگلی پوسٹ ایک نوجوان لڑکے کی ویڈیو تھی جو زنانہ لباس پہنے سر پر دوپٹہ اوڑھے کسی شرمائی لجائی دوشیزہ کی طرح موٹرسائیکل پر بیٹھا کہیں جا رہا تھا۔ پولیس والوں نے اس نیک بی بی کو روکا تو رخِ روشن پر داڑھی نظر آئی ، اور تمیز فاطمہ کے بھیس میں سے تمیزالدین برآمد ہوئے۔ اکبر الٰہ آبادی بے پردہ بی بیوں کو دیکھ کر غیرتِ قومی سے زمین میں گڑ گئے تھے۔ نہ جانے آج قوم کے مردوں کو باپردہ دیکھ لیتے تو کیا کرتے۔
فیس بک پر بہت سے لوگ قیامت کی بشارت دیتے نہیں تھکتے۔ کچھ کا انداز ڈرانے والا ہوتا ہے کچھ کا بغلیں بجانے والا۔ ان کا بس نہیں چلتا کہ خود ہی اٹھا کر صور پھونک دیں اور سب گناہگاروں کا خود ہی حساب شروع کر دیں۔ ویسے قیامت آنے کی جتنی نشانیاں یہ اصحاب ہمیں بتاتے ہیں وہ نہ صرف پوری ہو چکی ہیں بلکہ اب تو نشانیوں کا پیالہ لبریز ہو گیا ہے اور نشانیاں چھلک چھلک کر باہر گر رہی ہیں۔ جھوٹ بولنا، پورا نہ تولنا، قتل و غارت گری جیسی وجہیں پرانی ہو چکی ہیں۔ آج کل قیامت دوپٹے کے سرکنے اور آستینوں کے چھوٹے ہونے سے آتی ہے۔
لیکن فیس بک پر صرف حکیمی ٹوٹکے اور قیامت کی پیشین گویاں ہی نہیں ہیں، کچھ فسانہ¿ ہائے عجائب بھی ہیں۔ ان کے قصہ گو وہ لوگ ہیں جو خود کو فیس بکی رائٹر کہتے ہیں۔ ان میں ننانوے فیصد خواتین ہیں۔ بہت خوشی کی بات ہے کہ آج کی عورت آواز بلند کر رہی ہے۔ لیکن جب ان کا لکھا پڑھتے ہیں تو جی چاہتا ہے ہاتھ جوڑ کر عرض کہ بی بی آواز اٹھاﺅ ضرور اٹھاﺅ لیکن خدارا قلم نہ اٹھاﺅ۔ کیوں کہ قلم کا یہ عالم ہے کہ نے ہاتھ باگ پر ہے نے پا ہے رکاب میں۔
ایک کہانی کی ہیروئن چائے کے بھرے مگ میں کلیاں کر رہی ہیں۔ کیوں؟ کیوں کہ انہوں نے گرم گرم چائے کا بڑا سا گھونٹ بھر لیا تھا۔ جب منہ جلا تو وہی چائے واپس مگ میں اگل دی۔ تشویش کی بات تو یہ ہے کہ چائے کا مگ ان کا اپنا نہیں ہیرو صاحب کا تھا جو انہوں نے اس امید پر ہیروئن کو پینے کے لیے دیا تھا کہ شاید جھوٹی چائے پینے سے دونوں میں محبت ہو جائے۔ محبت کا تو پتا نہیں البتہ کرونا ضرور ہو جائے گا۔ کچھ اور بھیانک نتائج بھی نکل سکتے ہیں۔
ایک اور محترمہ رومانس لکھ رہی ہیں اور ایسا دھانسو لکھ رہی ہیں کہ ہم یہاں نقل کر دیں تو فحاشی کے الزام میں دھر لیے جائیں۔ ان کے خر دماغ اور تشدد پسند ہیرو کو دیکھ کر خیال آتا ہے کہ ہو نہ ہو ان کی ہیروئن جلد ہی عورت مارچ میں نعرے لگاتی ملے گی۔ لیکن وہ محترمہ بھی اپنے نام کی ایک ہیں۔ مار کھاتی ہیں، جوتے کھاتی ہیں، گالیاں کھاتی ہیں اور بھی جو کچھ ہیرو بقدر استطاعت انہیں کھلاتا ہے کھاتی ہیں، لیکن محبت کیے جاتی ہیں۔ آخر میں ہیرو کا دل موم ہو جاتا ہے اور دونوں ظالم و مظلوم ایک ہو جاتے ہیں۔ واہ ، کیا ہی کنڈل مار کر بیٹھا ہے جوڑا سانپ کا۔
یوں لگتا ہے کہ جونہی کوئی خاتون فیس بک پر کچھ تحریر کرنے کے لیے قلم اٹھاتی ہے، فیس بک مچل جاتی ہے اور شرط رکھتی ہے کہ
پہلے تو روغنِ گل بھینس کے انڈے سے نکال
کسی زمانے میں شاعری، آرٹ اور ادب کو بادشاہوں اور نوابوں کی سرپرستی حاصل ہوتی تھی۔ ہمارے زمانے میں یہ بیڑا فیس بک نے اٹھا لیا ہے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ فیس بک کا ہر رائٹر بھینس کے انڈے سے روغنِ گل نہیں نکال رہا۔ یہاں ایسے لوگ بھی ہیں جو
رگِ گل سے بلبل کے پر باندھتے ہیں