قرنطینہ ڈائری ۔ آٹھواں دن

ان تمام لوگوں کو ہمارا محبت بھرا سلام جو اس فن کے فروغ پر کمر بستہ ہیں اور آج کے زمانے میں، جب ہر قسم کا الم غلم ادب کے نام پر لکھ دیا جاتا ہے۔ یہ سچ مچ کے ہیروے موتی اپنے الفاظ میں پروتے ہیں اور ادب کی شمع کو جلائے رکھتے ہیں۔

آج شام کو واک کے لیے نکلی تو سب سے چھوٹے صاحبزادے ابراہیم ساتھ چل پڑے۔ گیٹ سے نکلتے ہی ہمیں سمبا کی سہیلی نظر آئی ۔عجیب بات ہے جانوروں میں بھی خاص الخاص دوست ہوتے ہیں۔ نر بلوں کی عادت ہوتی ہے کہ اپنا علاقہ، اپنی سلطنت مارک کرتے ہیں یعنی کسی نئی بلی یا بلے کو اپنے علاقے میں آنے نہیں دیتے۔ جب ننھا سمبا ہمارے گھر لایا گیا تو اردگرد کے مشٹنڈے بلوں کو یہ بات پسند نہ آئی۔ یہ غریب جب بھی باہر جاتا مار کھا کر واپس آتا۔ کبھی کبھی تو اس بری طرح اسے مارتے کہ بے چارہ خونم خون ہو جاتا۔ ہمارے میاں صاحب، جو اب سمبا کی محبت میں بے طرح مبتلا ہو چکے تھے، بہت تلملاتے۔ جب بھی سمبا کے ساتھ واک پر نکلتے، مٹھی میں کنکریاں بھر لیتے اور راستے میں ان بدمعاش بلوں کو مارتے جاتے جو ان کے لاڈلے کی طرف ٹیڑھی آنکھ سے دیکھتے ایک مرتبہ تو سمبا کے زخم پر مرہم لگاتے ہوئے انہوں نے اس سے اس کے تمام دشمنوں کو گولی مار دینے کا وعدہ بھی کیا۔ دشمنوں سے بھری اس دنیا میں سمبا کی ایک دوست بھی تھی۔ سفید رنگ کی چھوٹی سی پیاری سی بلی۔ سبما ہی کی طرح معصوم اور خوبصورت۔ چوں کہ ہمارے سمبا کی سہیلی تھی، اس لیے ہمیں بھی بہت پیاری تھی۔ اس کا نام ہی ہم نے سہیلی رکھ چھوڑا تھا۔ سمبا اور سہیلی کی دوستی بھی فطرت کے عجائب میں سے ایک تھی۔ پہلے ہم سمجھتے تھے دونوں بس ساتھ کھیلتے ہیں۔ لیکن پھر پتا چلا کہ دونوں میں کچھ کمیونیکیشن تھی ضرور۔ پچھلے سال جب ہم بارہ دنوں کے لیے کاغان گئے تو سمبا کا کھانا ملازمہ کے حوالے کر گئے اور تاکید کی کہ دن میں تین وقت سمبا کو کھانا ضرور دینا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ سمبا ہمارے جاتے ہی کہیں چلا گیا اور بارہ دن تک گھر نہ آیا۔ جب ہم واپس آئے تو رات کا وقت تھا اور گیٹ پر سہیلی بیٹھی تھی، ہمیں دیکھتے ہی اٹھی اور کہیں چلی گئی۔ چند منٹ کے اندر اندر سمبا ہمارے پاس موجود تھا۔ سہیلی اسے بلا لائی تھی۔ ہمیں کبھی پتا نہ چل سکا کہ سمبا ان بارہ دنوں میں کہاں رہا اور کیا کھاتا رہا۔

آج گیٹ سے نکلے اور سہیلی نظر آئی تو ہم چند منٹ کھڑے اسے پیار کرتے رہے۔ پھر آگے کو چلے راستے میں میں نے ابراہیم کو حضرت یونسؑ کی کہانی سنائی ۔یوں تو قصص القرآن میں بچوں کو چھوٹی عمر سے شروع کروا دیتی ہوں لیکن اکثر دوہراتی رہتی ہوں تاکہ بھولنے نہ پائیں۔ ابراہیم کو ساری کہانی یاد تھی لیکن مچھلی کے پیٹ سے نکلنے کے بعد کیا ہوا، اسے ٹھیک سے یاد نہ تھا۔

”دریاکے کنارے اللہ نے کدو کی بیل اگا دی۔“ میں نے ابراہیم کو بتایا۔ ”اس کے سائے میں حضرت یونسؑ لیٹے رہتے۔ جب وہ بیل سوکھنے لگی تو آپؑ کو بہت دکھ ہوا۔ تب اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ ”تم اس بیل کے لیے دکھی ہو جو اس قدر حقیر چیز ہے۔ کیا ہم اپنے بندوں کے حق میں اس سے کم شفق ہیں؟ کیا انہیں عذاب دینے کا فیصلہ ہم خوشی سے کرتے؟“

ابراہیم کے چہرے پر طمانیت مسکراہٹ بن کر ابھری اور وہ خوشی اور سکون جو اللہ کی محبت کے ذکر پر انسان کے چہرے پر پھیلتا ہے۔ چلتے چلتے ہم ایک گھر کے سامنے سے گزرے۔ ابراہیم نے مجھے بتایا: ”اماں اس گھر میں ایک آنٹی رہتی ہیں۔ وہ روز دو بڑے ٹرے بھر کر بلیوں کو کھانا ڈالتی ہیں اور یہ بلیاں ان کی اپنی نہیں ہیں بس اردگرد کی آوارہ گرد بلیاں ہیں۔“

میں رک گئی اور اس گھر کو دیکھنے لگی۔ بے حد خوبصورت گھر تھا جس کی چھت پر پنج تن پاک کا جھنڈا لہرا رہا تھا ۔باہری دیوار کے ساتھ بجلی کا کولر لگا تھا۔ اس کے ساتھ دو بڑے برتنوں میں مرغی کی تازہ کلیجی رکھی تھی۔ بہت سی کھائی گئی تھی۔ کچھ بچ رہی تھی۔ ساتھ پلاسٹک کے دو برتنوں میں تازہ صاف پانی رکھا تھا۔ یک دم میرے ذہن میں جھماکہ سا ہوا۔ ارے! اب معلوم ہوا کہ جب ہم کاغان گئے ہوئے تھے تو سمبا کہاں رہتا تھا اور کیا کھاتا تھا۔ یک دم میرا دل اس ان دیکھی خاتون کے لیے ممنونیت اور محبت کے احساس سے لبریز ہو گیا جس نے ہماری غیر موجودگی میں ہمارے سمبا کو بھوکا نہ رہنے دیا۔ میرا دل چاہا اندر جاﺅں اور اس مہربان خاتون کے ہاتھ چوم لوں اور شکریہ ادا کروں اور تازندگی انہیں اپنی دعاﺅں میں یاد رکھوں۔

اے میرے مہربان رب! ہمارے دلوں پر ہمارا اختیار نہیں۔ یہ تو ہے جو ہمارے دلوں میں محبت ڈالتا ہے۔ کدو کی بیل کے لیے محبت، پالتو بلی کے لیے محبت، سمبا اور سہیلی کے درمیان محبت۔ اگر میرا دل جو نہ بہت کشادہ ہے نہ بہت وسیع، اس سہیلی کے پیار سے لبریز ہے جو میرے سمبا کی دوست ہے اور اس خاتون کا بے پایاں شکر گزار ہے جو میرے سمبا کو کھانا ڈالتی رہی ہے تو اے اس محبت کے خالق، اے بے پایاں وسعت کے مالک، اے زمین و آسمان کے بادشاہ! تجھے ان لوگوں سے کس قدر محبت ہو گی جو تیری مخلوق پر شفقت کرتے ہیں۔ شاید تیری یہ دنیا اب تک ایسے ہی لوگوں کے دم سے قائم ہے۔ اے اللہ! اپنی مخلوق سے پیار کرنے والے، اس مہربان خاتون جیسے لوگوں کو سلامت رکھ۔ وہ جس بستی، جس شہر، جس ملک میں ہوں، اس بستی، اس شہر، اس ملک کو اپنی حفاظت میں رکھ۔ ہم پر رحم کر ہمارے آقا۔ وہ رحم جو تیری صفت ہے اور جس کا ایک چھوٹا سا حصہ تو نے ہمیں بخشا ہے لیکن جو ایک دن ترازو کے پلڑے میں سب سے بھاری ہو گا۔ آمین یا رب العالمین۔

٭….٭….٭

 

Loading

Read Previous

قرنطینہ ڈائری ۔ ساتواں دن

Read Next

قرنطینہ ڈائری ۔ نواں دن

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!