معطّر فضاؤں کے راہی — فرزانہ روحی اسلم (پہلا حصّہ)

تمہاری نیم وَا آنکھیں
مرے رخسار پر،
جب بھی غزل لکھیں
اموزِ عشق کے
اسرار،
مجھ پر منکشف ہوکر
سرور و کیف کی،
چاہت کی،
ساری بند گرہیں
کھولتی ہیں۔
ایک پھیلا ہوا بازو ہے محبت ۔ جس میں اہلِ نصیب سمیٹتے ہیں۔ پرکیف چاندنی میں، غسل ماہتاب روح میں جس سرور کو جنم دیتی ہے کڑی دھوپ میں بھی آدمی چھاؤں محسوس کرتا ہے۔ یہ سارے احساسات وہاں ہوتے ہیں۔ جہاں دو ذی روح دنیا کی تصدیق کے بغیر اپنی ذات کی اندرونی و بیرونی سچائیوں کے ساتھ موجود ہوں۔
ہم اکثر اپنے لمحہ موجود میں، پھولوں کی کنج میں بیٹھ کر اپنی روح کو سیراب کررہے ہوتے۔ ہمارے قدم کب اٹھ گئے۔ دل کی دنیا کب اور کیوں کہ اتھل پتھل ہوگئی یہ تب معلوم ہوا جب وہ میری زندگی میں رگوں میں خون کی طرح شامل ہوچکا تھا۔ محبت سے لبریز دل تو تھا ہی، آنکھیں، باتیں، ساعتیں بھی میری ہم راہ تھیں۔
میں اُسے محسوس کررہی ہوتی تو مجھ پر محبت بھری نظموں، غزلوں کے ایک ایک شعر کا مفہوم کھل رہا ہوتا۔ وہ کہتا، ”کچھ بولو، کچھ تو کہو۔” میں ہنس پڑتی۔ ”میں تو سامع ہوں، بولتی تو محبت ہے۔”
ہم دنیا جہان کی باتیں کرتے، پارکوں میں کھلے پھولوں، کلیوں کی ان کہی گفتگو سنتے۔ کبھی کسی کانفرنس میں کسی سیمینار میں چائے کا سپ(sip)لیتے لیتے ہم دونوں ہی کہیں کھو جاتے۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
جب کوئی شگر لاکر دیتا کہ چائے میں ڈال لیں تو ہم دونوں کو تب ہی پتہ چلتا کہ چائے تو ہم نے پھیکی ہی پی لی ہے۔ پھر ہم خوب ہنستے۔
کبھی دوستوں کے گروپ کے ساتھ شاپنگ کرنے نکلے تو ایک دوسرے کے لئے ہی خریداری کرتے۔
یہ پین تمہارے لئے،
یہ ٹائی لے لو،
یہ کیچر ، یہ کلپ
یہ سوٹ،
کتابیں، پرفیوم ۔
دوست ہنستے۔ ایک دوسرے کو کہنی مارتے ، سہیلیاں ٹہوکے دیتیں۔ کہتیں، یہی تو محبت ہے۔
”اب چلو بس بہت ہوگیا۔ ”میں لائبریری میں ”امجد اسلام امجد” کو پڑھتے پڑھتے اٹھ کھڑی ہوئی۔
”ٹھہرو نا، اتنی جلدی۔ ابھی تو تمہیں جی بھر کے دیکھا بھی نہیں۔”
اس دن بھی ہم انسٹیٹیوٹ سے نکل کر بس اسٹاپ پر جاکر کھڑے ہوئے۔ اس نے حسبِ سابق کہا۔ ”اللہ کرے تمہاری بس لیٹ آئے۔” دونوں ہم آواز ہوکر یہی ایک فقرہ کہتے۔ پھر ہنس پڑتے۔ ہمارے ہنستے ہی دونوں کی بس ایک ساتھ ہی آجاتی۔
ہم ایک دوسرے سے جدا ہوکر کبھی اداس نہیں ہوتے۔ آئندہ کی امید اور خواب لئے جو روانہ ہورہے ہوتے۔ ہماری راتیں طویل اور دن مختصر ہوگئے تھے۔
اس دن سر تجمل غیر حاضر تھے۔ شہر کراچی کی سڑکوں پر موت اپنا ہدف ڈھونڈ رہی تھی۔ وحشت گلیوں میں ناچ رہی تھی۔ اور پریشان حال مائیں کھڑکیوں سے جھانک رہی تھیں۔ جب ہڑتال مزدوروں کے گھروں میں فاقے ڈالتی تو اشیائے ضروریہ کی دکانوں پر لٹکے تالے چلانے لگتے۔ جن کی چیخوں کو ضرورت مندوں کی آنکھیں سنتیں۔ تب شام ڈھلے ویران سڑکوں پر بچے گیند بلّا لے کر زندگی کو بیدار کرنے لگتے۔ تب ہم جو ذرائع مواصلات کی بجائے آنکھوں اور ہونٹوں سے گفت و شنید کے عادی ہوچکے تھے۔ جانہتھیلی پہ لئے ساحل سمندر پر پہنچ کر اپنی ناختم ہونے والی گفتگو کا سلسلہ پھر سے جوڑلیتے۔
ساحل پر بیٹھے بیٹھے تھک جاتے تو گھنٹوں گھنٹوں پانی میں اتر کر ایک دوسرے پر چھینٹے اڑاتے۔ جب واپسی ہوتی تو وہ بس ایک ہی بات کہتا۔
”لگتا ہے وقت تھم گیا۔”
”وقت بھلا کیسے تھم سکتا ہے؟” میں پوچھتی۔
”وہ ہماری محبت کی کہانی دیکھ رہا ہے۔” اس کے اس جواب پر میں کہتی ، عجیب فلسفہ ہے تمہارا۔” پھر دونوں اتنا ہنستے کہ ہمارے قہقہے بھی آپس میں گھل مل جاتے۔
اس دن ویسا ہی ہوا جیسا اس نے کہا تھا یعنی وقت کی رفتار رک گئی۔ پھولوں کے کنج میں، میں بیٹھی شراب محبت گھونٹ گھونٹ پی رہی تھی۔ ہمارے اطراف میں طالب علموں کا گروپ بیٹھا اٹھکھیلیاں کررہا تھا۔ گویا ہر طرف خوب رونق تھی کہ یکا یک اُدھم مچ گیا۔
سازِ محبت ٹوٹ گیا۔
نغمہ ٔ عشق اہم انگیز ہوگیا۔
پھر کیا ہوا… میں کچھ سمجھ نہیں سکی ۔ آنکھوں کی پتلیوں میں اس کا چہرہ تھم گیا۔ اس کی آواز کی نغمگی کہیں فضاؤں میں ڈولنے لگی۔ میرے ہاتھوں سے اس کا ہاتھ چھوٹ گیا۔
کب صبح ہوئی، کب شام گئی، معلوم نہیں، امی ، نرس، بہنوں ، ڈاکٹرز اور جانے کس کس کی آوازیں سنائی دے جاتیں۔ ممی کی آواز پر آنکھ کھلی تو وہ مجھ پر جھکی ہوئی تھیں۔
”شکر ہے سب ٹھیک ہے بیٹا۔”
”شاکر۔” میں نے پکارا۔
”وہ بھی ٹھیک ہے چار گولیاں اس کے جسم سے نکال لی گئی ہیں۔”
میرے دل میں آٹھ بار ٹیسیں اٹھیں۔
”بہت اسٹوڈنٹس زخمی ہوئے ہیں اس دھماکے میں۔شکر ہے تم ٹھیک ہو۔” امی کے ہاتھ دعاکے لئے دراز تھے۔
٭…٭…٭
نرس بتارہی تھی کچھ زخمی بہت سیریس کنڈیشن میں تھے انہیں بیرون ملک روانہ کردیا گیا ہے۔
”اور شاکر؟” میں نے کراہتے ہوئے پوچھا تو نرس بولی۔
”شاکر نامی نوجوان کا نام تو مرنے والے کی لسٹ میں ہے۔”
میرے دل نے کئی بار سسکی بھری۔
پندرہ دن آئی سی یو میں رہنے کے بعد زندگی نے مجھے دعا دی۔ جو قبول بھی ہوگئی۔ اب میں تہی داماں تھی۔ کچھ بھی نہیں رہا میرا۔ سب کچھ ایک دھماکے میں اڑ چکا تھا۔ جو کچھ میرے پاس تھا وہ بے مقصد زندگی اور بس۔
میں بیٹھے بٹھائے چیخ پڑتی۔ کبھی اُسے آواز دینے لگتی۔ کبھی بالکل نارمل ہوجاتی اور گھر کے کام کاج میں امی کا ہاتھ بٹانے لگتی۔ مگر اس کا کیا کیا جاتا کہ شاکر، چائے کی پیالی، سے لے کر پانی کے گلاس تک میں اپنی یادیں پیوست کرگیا تھا۔
٭…٭…٭
لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ ایک کی کمی دوسرا پوری کرہی دیتا ہے۔ ہنہ… لڑکیاں کوئی کاٹھ کا الّو ہوتی ہیں نا کہ کسی کے بھی ساتھ کردو۔ خوشی خوشی چلی جائیں۔ جو دل میں گھس جائیں نا وہ سانسوں میں بھی اٹک جاتے ہیں۔ آنکھوں میں بس جائیں وہ رگوں میں دوڑنے لگتے ہیں۔ مشامِ جاں میں خوشبو بن کر اتر جاتے ہیں۔ کبھی نہ نکلنے کے لئے۔ سایہ بن کر ساتھ ساتھ رہتے ہیں۔ یہی تو محبت ہوتی ہے۔
اب شاکر بھی سایہ بن کر میرے ساتھ رہنے لگا تھا۔ روز و شب، شام ڈھلے، رات گئے۔ میں سوتی ۔ وہ بھی سوجاتا۔ میں جاگتی، وہ بھی بیدار ہوجاتا۔ میں روتی ، وہ بھی آنکھیں جلاتا۔ میں چلتی ، وہ بھی میرے ہم قدم ہوتا۔ میں رکتی، وہ بھی اپنے بڑھتے قدم روک لیتا۔
بقول ممی کے ان دنوں مجھے سہارے کی اشد ضرور ت ہے۔ ممی اور ان کی ایک دیرینہ سہیلی آئے دن گھر میں سرگوشیاں کرتی دکھائی دیتیں۔بالا آخر وہ کامیاب ہو ہی گئیں کسی مرحومہ خالہ بی کے فرزند کو ڈھونڈ نکالا گیا۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں کے مصداق ممی ان پر صدقے واری گئیں۔ اور دھیرے دھیرے اپنے متوقع داماد کے لئے میرا برین واش کرنا شروع کردیا۔ مجھ پر پڑھ پڑھ کر پھونکا جاتا۔ پانی میں گھول گھول کر پلایا جاتا۔ بات کہیں کی ہو آکر ان ہی لیکچرر صاحب پر ختم ہوتی جن کا نام نامی شہزاد تھا۔ کھانے کی میز پر جب امی اس کی خوبیاں بیان کرتیں۔ تو میں ہنستی کیونکہ میرے برابر میں پہلے ہی شاکر بیٹھا ماحضرتناول کررہا ہوتا۔ وہ سوتے وقت اس کی بات کر تیں تو شاکر کا ہیولا کمرے کے باہر ٹہلتا ہوا مجھے صاف دکھائی دیتا۔ جیسے وہ ممی کا کمرے سے باہر جانے کا منتظر ہو۔ وہ لان میں شام کے وقت اس کی گفتگو کرتیں۔ شاکر وہاں پہلے ہی چمبیلی کے پھول میرے بالوں میں اٹکا رہا ہوتا۔
آخر میں نے تنگ آکر کہہ دیا۔ ”ممی… میں اب کسی کے ساتھ انصاف نہیں کرسکوں گی۔”
”یہ تو تمہیں کرنا ہوگا۔ خیالی دنیا سے نکل آؤ بیٹا… خود کو سنبھالو۔”
تمہیں اپنے مزاجی خدا کا ساتھ دینا ہوگا۔” وہ بڑے پیار سے بولیں۔
”کوئی نہیں ممی… نہ مزاجی نہ خدا۔ میں نہیں جانتی کچھ۔” میں نے بے زاری سے کہا۔
”وقت کے ساتھ سب ٹھیک ہوجائے گا بیٹا۔ میں تمہارے لئے دعا کروں گی۔ تم ہمیشہ سکھی اور آباد رہو۔” ممی کی آنکھیں بھیگ گئی تھیں۔
”ممی اتنی جلدی نہ کریں۔کیا دنیا میں شادی کے علاوہ کوئی اور کام نہیں ہے۔ مجھے سنبھلنے تو دیں امی۔ میرے زخم ابھی تازہ ہیں۔”
”ان ہی زخموں کا مرہم تو تلاش کیا ہے میں نے تمہارے لئے۔کسی کا ساتھ ہوگا تو ماضی بھول جاؤگی۔”
”اور میرے ہونٹوں سے اس کے نام کے بجائے شاکر نکلے گا تب…؟”
”ہوش کے ناخن لو… تمہیں بہت سمجھ دلری سے کام لینا ہوگا۔ ایسی احمقانہ باتیں نہ کرو… کوئی شخص آخری نہیں ہوتا… ممی نے اس قدر ڈوب کر کہا کہ جی چاہا ان کی تمام باتوں پر ایمان لے آؤں۔”
”میں منافقت نہیں کرسکتی ممی… جھوٹی زندگی کب تک گزاروں گی۔” میری آنکھیں برسنے لگیں۔
”جھوٹی زندگی کیوں بیٹا… اپنے شوہر کی خوبیاں تلاش کرنا۔ سب کچھ تمہارے اپنے ہاتھوں میں ہے۔ میری زندگی بڑھ جائے گی اگر تم سنبھل جاؤگی۔
”مجھ میں آپ جیسا حوسلہ ہے نہ ہمت۔”
”کوئی مشکل تمہیں پیش نہیں آئے گی۔ میری دعائیں تمہیں اپنے حصار میں رکھیں گی۔ میں ہر دم تمہارے ساتھ ہوں۔” ممی نے میری زلفیں سنواریں۔
”پل پل ہم رکاب تو شاکر رہتا ہے۔”
”اب اپنی زبان پر شہزا د کا نام سجا لو۔ شہزاد کا۔”
”اور شاکر کا کیا ہوگا۔”
ممی تلملاگئیں۔ جانے کیسے مجھے برداشت کررہی تھیں بولیں۔ ”لگتا ہے تمہارا مینٹل ٹریٹ منٹ کروانا پڑے گا۔”
”میں بے سدھ ہوکر صوفے پر گر گئی۔”
طبیعت سنبھلی تو دونوں بہنیں آس پاس بیٹھی تھی۔ وہ مجھے سدا کی بیمار سمجھ رہی تھیں۔ مجھ سے ہمدردی کررہی تھیں۔ مگرمجھے کچھ سمجھ میں ہی نہیں آرہا تھا۔ میں تو بس ڈوبی ہوئی تھی۔ پانی میں ہاتھ پاؤں مارنے کی کوشش کررہی تھی۔
”آپی آپ کس کلر کا شرارہ پہنیں گی؟
اور جیولری۔ میک اپ کس پارلرسے ہوگا؟
کوئی آپ کا پسندیدہ ڈیزائنر ہے تو بتادیں۔”
وہ دونوں بیٹھی یہی باتیں کررہی تھیں۔ ”اس نے دوبارہ پوچھا۔ شرارے کا کلر بتادیں ہمیں۔”
”وہی جو شاکر کو پسند تھا۔”
”شاکر بھائی اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ وہ جنت میں چلے گئے ہیں۔ آپ انہیں یاد کرکرکے بے سکون نہ کریں۔ بلکہ اپنی جنت دنیا میں بنائیں… آپ زندہ ہیں آپی۔” یہ نرمین تھی جس نے مجھے جھنجھوڑ کر کہا۔
”اوں… ہاں… اچھا۔” میں کیا جواب دیتی۔
”وہ بہت اچھی جگہ چلے گئے ہیں۔ اب آپ اپنا سوچیں۔ خوش رہیں تاکہ شاکر بھائی کو خوشی ہو۔ آپ دکھی رہیں گی تو وہ بھی … یعنی ان کی روح بھی بے تاب و بے چین رہے گی۔” نرمین مجھ سے پانچ چھوٹی تھی مگر بڑی بڑی باتیں کررہی تھی۔
”آپی شہزاد بھائی بہت اچھے ہیں۔ پڑھنے لکھنے والے آدمی ہیں۔ شاعر بھی ہیں۔ آپ بہت خوش رہیں گی۔ وہ یقینا آپ کے احساسات کا جذبات کا خیال رکھیں گے۔” دونوں ایک ساتھ مجھے سمجھا رہی تھیں۔
میں نے اس شام ممی کے آگے ہاتھ جوڑ دیئے۔مگر انہوں نے میری ایک نہ سنی اور مجھے گلابی سوٹ پہناکر بٹھا دیا گیا۔ گلاب کی خوشبو جیسے مجھ پر انڈیل دی گئی ہو۔ پھولوں سے لدی گردن دکھنے لگی تھی۔ نکاح اور رخصتی کے وقت بھی میں سکون آور دواوؑں کے زیر اثر رہی۔
اٹھایا گیا تو میں اٹھ گئی۔ چلایا گیا تو چل پڑی۔ ویسے ہی کون سا مجھے ہی چلنا تھا۔ دلہن کو تو اس کا بازو پکڑنے والے چلاتے رہتے ہیں۔ جہاں بٹھایا وہاں گر گئی۔ ایک گھر سے نکل کر ایک دوسرے سجے ہوئے گھر میں پہنچادی گئی ۔ تیرے ہی دن ہم کسی سفر پر بھی روانہ ہوگئے۔ ایک نسبتاً مہذب شخص مسلسل میرے ساتھ رہا۔ کبھی وہ مجھے شاکر لگتا کبھی شہزاد۔ اس نے زیادہ بات بھی نہیں کی۔ ائیر پورٹ سے باہر نکل کر اس نے کہا۔
”مجھے نہیں معلوم تمہیں کون سی جگہ پسند ہے۔لیکن لوگ یہاں آنا پسند کرتے ہیں۔ جبھی میں تمہیں یہاں لے آیا۔ یہ اٹلی ہے۔” میں نے اور مریم نے کئی بار یہاں آنے کا پلان بنایا تھا… تم سن رہی ہونا… مریم… میری سابقہ منگیتر… اس کی کہیں اور شادی کردی گئی۔”
”مریم۔” میری آنکھیں پوری طرح کھل گئیں۔
”تم برا مت ماننا… ابھی میرا درد نیا نیا ہے۔ تمہارے ساتھ کی خوشی میں مٹ جائے گا۔ آہستہ آہستہ سب ذہن سے محو ہوجائے گا۔” اس کی آواز کی نرماہٹ و دلکشی نے میری سماعتوں کوبھی بیدار کردیا۔
”نہیں… ایسا نہیں ہوتا… دل میں بسنے والوں کو بھولنا آسان نہیں ہوتا۔”… تمہیں شاکر کا معلوم ہے نا۔”
میں نے پوچھا تو اس نے مجھے غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔ ”وہ تو سارے زمانے کو پتہ ہے۔”
”پھر۔”
”پھر کیا… کیا فائدہ اجنبی مرد یا اجنبی عورت کو دل میں رکھنے کا۔”
”اگر میری زبان پر شاکر کا نام آجائے تو…؟”
”اور اگر میں تمہیں مریم کہہ دوں تو…؟” ہم دونوں ہی شاید اپنے اپنے دکھوں سے ایک دوسرے کو واقفیت دے رہے تھے۔ یا اپنا درد بانٹنے کی کوشش کررہے تھے۔
”تم شاکر ہوسکتے ہو نہ میں… مریم۔” مگر ہم دونوں ایک دوسرے کو اسی تناظر میں دیکھ سکتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ دل میں اٹھنے والی ٹیسوں کو دباتے رہیں؟ اور ہمیشہ کے لئے مریض بن جائیں۔”
”مریم کے بعد میں نے کتابوں میں پانہ ڈھونڈی ہے۔”
”اور مجھے تو کوئی پناہ گاہ ملی ہی نہیں۔” دل کہاں کہاں اور کیسے کیسے کٹتا ہے۔”
”تم اس رشتے کی پناہ میں آجاؤ جو میرا اور تمہارا جڑا ہے۔”
”اپنے لئے نہ سہی ان کے لئے جینے کا سوچو جن کا کوئی نہیں ہوتا۔ جن سے کوئی پیار نہیں کرتا۔” اس نے ٹھہر ٹھہر کر کہا تو میری پلکیں بھیگنے لگیں۔ مجھے لگا جیسے میں دنیا میں اکیلی ہوں۔ بالکل تنہا۔
ہم روز خوب گھومتے، ہم میں متوفی تھی نہ شرارت۔ سڑکوں ، بازاروں، پارکوں میں پھرتے پھرتے تھک گئے تو وہاں کے ”اولڈ ہاؤسز” اور ”اورفن ہاؤسز” میں جانے لگے۔ واقعی شہزاد کا آئیڈیا اچھا تھا۔ ان بے آسرا لوگوں کو دیکھ کر مجھ میں جینے کی امنگ پیدا ہوئی۔ اپنے ہونے کا احساس ہوا۔کچھ کرنے کا جذبہ پیدا ہوا۔ دنیا میں واقعی کرنے کو بہت کچھ ہے۔
”لوگوں کتنے بے حال ہیں۔ ہمارے وطن میں تو اور برا حال ہے۔ چلو وہاں چل کے کچھ کام کرتے ہیں۔” ایک دن جب میں نے شہزاد کو یہ کہا تو اس کے ہونٹوں پر تبسم کھیلتی نظر آئی۔ اس نے پوچھا۔
”لوگ تو یہاں آکر یہیں بس جانے کی آرزو کرتے ہیں اور تم واپس جانے کی بات کررہی ہو؟”

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

تائی ایسری — کرشن چندر

Read Next

معطّر فضاؤں کے راہی — فرزانہ روحی اسلم (دوسرا اور آخری حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!