اشکِ وفا — ماریہ نصیر (دوسرا حصّہ)

وہ رات بارہ بجے کے قریب دوستوں سے فارغ ہوا تھا۔ شادی عرشیہ کی عدّت ختم ہونے کے دو ماہ بعد کافی سادگی سے طے پائی تھی لیکن روحیل کے قریبی عزیز و اقارب اور دوست احباب جمع تھے کیونکہ روحیل وِلا کی یہ پہلی خوشی تھی۔
الّلہ کی عطا کبھی ختم ہونے والی نہیں ہے اور بندے کا کام ہے اُس سے مانگنا۔ اور وہ کبھی اپنے بندے کو ماےّوس نہیں کرتا۔ اُس سے مانگتے رہو،وہ عطا کرتا ہے اور بے شُمار کرتا ہے۔۔ گُماں سے بڑھ کر، بیان سے باہر۔۔ کیونکہ وہ خوب جانتا ہے کہ کس کیلئے کیا بہتر ہے اور کس کے دِل کو کیسے پھیرنا ہے، بس یقین رکھو اُس رب پر۔ اور یہ اُس خُدا پر یقین ہی تھا جس نے روحیل کو آج یہ خوشی دی تھی۔ آج اُسکی زندگی کی سب سے بڑی خواہش پوری ہوئی تھی۔۔
اُسکے بکھرے جذبات اور ٹوٹے خوابوں کو آج حقیقی تعبیر ملی تھی۔۔
عرشیہ کا مِل جانا۔۔۔ لیکن اِسطرح۔۔ اِن حالات میں۔۔
اِسطرح تو اُس نے کبھی نہ چاہا تھا۔۔ پر کبھی کبھی قدرت ایسا کھیل کھیلتی ہے کہ انسان دیکھتا رہ جاتا ہے۔ کچھ فیصلے ایسے ہوتے ہیں جس پر انسان محض ایک کٹھ پُتلی بن کرقسمت کے اِشاروں پر رقص کرتا ہے۔روحیل خود بھی ذہنی دباؤ کا شکار تھا۔ یہ سب اُسکے لئے بھی بہت غیر متوقع اور اچانک تھا۔ لیکن! وہ اپنی محبت کے ہاتھوں اِتنا مجبور تھا کہ شارق کی اِس آخری خواہش کو رد نہ کرسکا۔ اُسے یاد تھا جب شارق نے اسپتال کے بیڈ پر اُسکے سامنے ہاتھ جوڑ کر عرشیہ کی خوشیاں مانگی تھیں اور روحیل کو اُسکی محبت کی قسم دے کرمجبور کردیا تھا۔
‘میں جانتا ہوں تم عرشیہ سے مجھ سے بھی زیادہ محبت کرتے ہو اور اُسکو ساری عمر اِس تکلیف سے گزرتا ہوا نہیں دیکھ سکتے، اِسلئے میں تمھارے آگے ہاتھ جوڑتا ہوں میری عرشیہ کو اپنا لو۔۔ میری عرشیہ کو سمیٹ لینا، میرے بعد صرف تم ہو جو اُسے خوش رکھ سکتے ہو، زندگی کی طرف دوبارہ واپس لاسکتے ہو۔ پلیز میری یہ آخری خواہش پوری کردو روحیل۔۔ پلیز!’ وہ اُس تکلیف میں بھی صرف عرشیہ کی خوشیاں مانگ رہا تھا۔ کتنی محبت کرتا تھا وہ اُس سے
‘یہ کیا کر رہے ہو شیری، ایسے مت کہو تم بالکل ٹھیک۔۔۔’ روحیل نے اُس کے جُڑے ہوئے ہاتھ کھول دئیے جس پر شارق اُسکی بات کاٹ کر بولا
‘میرے پاس چند سانسیں بچی ہیں روحیل جو کبھی بھی آخری سانس بن سکتی ہیں مجھ سے وعدہ کرو، پلیز میں بہت تکلیف میں ہوں!’
‘مگر عرشیہ مجھ سے نفرت کرتی ہے۔۔’ یہ احساس ہی کتنا جان لیوا ہوتا ہے کہ جس شخص سے آپ نے شدتوں سے عِشق کیا ہو، ہر دعا میںاُسے مانگا ہو ، آپکا ہر خواب اُس سے شروع ہوکر اُس پر ختم ہوتا ہو ، بدلے میں اُس سے صرف نفرت اور حقارت ملے۔
‘جب وہ تمھارے ساتھ ہوگی تو تم سے محبت بھی کرنے لگے گی میری عرشیہ کا دِل بہت نرم ہے۔بس مجھ سے وعدہ کرو۔ تمھیں تمھاری محبت کی قسم ہے!’
اور اُس ایک قسم نے روحیل کو مجبور کردیا تھا۔ اُسکی محبت نے اُسے مجبور کردیا تھا۔وہ اپنی محبت کے آگے ہار گیا تھا۔اور شارق اپنی زندگی ہار گیا تھا۔ اِس واقعے کے چھ ماہ بعد اُن دونوں کی شادی طے پائی تھی۔ اور پھر اُنکی شادی کا دن بھی آگیا۔ وہ سارا وقت بہت ضبط سے بیٹھی رہی لیکن رُخصتی کے وقت سُمیر صاحب اور زُنیرہ بیگم سے مل کر اُسکا سارا ضبط ریزہ ریزہ ہوگیا تھا۔ وہ اپنے ماںباپ کی دعاؤں کے سائے میں رُخصت ہوکر روحیل کے ہمراہ روحیل وِلا چلی آئی تھی۔ وہاں پہنچتے ہی حرابیگم نے اُسے کمرے میں بھجوادیا ۔ وہ جانتی تھیں کہ وہ ذہنی اور جسمانی طور پر بہت تھکی ہوئی ہے۔ اُسکی طبیعت بھی بہت بوجھل لگ رہی تھی۔انھوں نے رابیل کے ہاتھ گرم دودھ اور دو پین کلرز عرشیہ کے کمرے میں بھجوادی تھیں۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

روحیل نے بس ایک جھلک دلہن بنی عرشیہ کو دیکھا تھا۔ گو کہ اُسے سادگی سے تیار کیا گیا تھالیکن پھر بھی وہ سُرخ جوڑے میں خوبصورتی کا شاہکار لگ رہی تھی۔ روحیل چند لمحے اپنے کمرے کے پاس آکر رُکا جیسے اندر جانے کی ہمُت جمع کر رہا ہو۔پھر ایک ٹھنڈی آہ بھر کر دروازہ کھول کر اندر داخل ہوگیا اور پیچھے دروازہ لاک کردیا۔ کمرہ سُرخ و سفید مُلائم گُلابوں سے سجا ہوا تھا۔ پورے کمرے میں گُلاب کی مہک رچی ہوئی تھی جو ماحول کو ایک بہترین احساس بخش رہی تھی اور کمرہ ایک خوابناک منظر پیش کر رہا تھا ۔کمرے کا جائزہ لیتے ہوئے جیسے ہی اُسکی نظر بیڈ کے این وسط میں پڑی وہ چونک گیا۔ بیڈ خالی تھا۔اُس نے کمرے میں نظریں دوڑائیں، کمرہ خالی تھا (عرشیہ کہاں گئی؟) ابھی وہ آگے بڑھنے کا سوچ ہی رہا تھا کہ باتھروم کا دروازہ بند کرکے عرشیہ اندر آئی ۔
دُھلا ہوا شفاف چہرہ۔۔ کہیں کہیں پانی کے ننھے قطرے جھلملا رہے تھے۔۔
بالوں کا بڑا سا جوڑا بنا ہوا تھا۔۔
وہ بیبی پِنک کلر کا سادہ سا کاٹن کا سوٹ پہنے ہوئے تھی۔۔
نہ سُرخ جوڑا تھا۔۔ نہ کوئی زیور۔۔ نہ ہار سِنگھار۔۔
وہ روحیل کے آنے سے پہلے ہی سب تبدیل کرکے آچُکی تھی۔ اور روحیل کو اِسی چیز کی اُمید تھی شایدوہ اُسکی ذہنی کیفیت سے واقف تھا۔۔
عرشیہ اپنی دُھن میں باہر آئی تھی لیکن اب روحیل کو اپنی طرف دیکھتا پا کر وہ تھوڑی نروس ہوگئی تھی۔ جھٹ سے دوپٹہ سر پر ڈال لیا۔روحیل نے ہمیشہ کی طرح سلام میں پہل کی تھی ۔ اُس نے کافی سنجیدگی سے جواب دیا اور اِس سے پہلے کہ روحیل کچھ بولتا وہ بول پڑی۔
‘جانماز کہاں ہے؟ مجھے نماز پڑھنی ہے۔’ روحیل کچھ بولا نہیں بس وارڈروب کی طرف اِشارہ کردیا۔ جب تک وہ نماز پڑھ رہی تھی روحیل بھی کپڑے تبدیل کرکے آچُکا تھا۔وہ بیڈ پر ٹِک گیا اور اُسکی نماز ختم ہونے کا اِنتظارکرنے لگا۔وہ نماز پڑھ کر فارغ ہوئی اورساتھ ہی روحیل کو متوجہ کیا۔
‘میں بہت تھک گئی ہوں۔سونا چاہتی ہوں۔’
‘کیا آپ جانتی ہیں آج ہی ہماری شادی ہوئی ہے، دو گھڑی بات تو کرسکتے ہیں؟ ‘ روحیل نے سنجیدگی سے دریافت کیا
‘پلیز! میں اِسوقت صرف سونا چاہتی ہوں۔’ وہ اسوقت کسی بحث کے موڈ میں نہیں تھی اِسلئے آنکھیں رگڑتے ہوئے بولی اور کمرے میں موجود ایک چھوٹے کمرے(اسٹڈی روم ) کی جانب بڑھنے لگی۔
‘کہاں جارہی ہو؟’ روحیل نے حیرانی سے سوال کیا اور عرشیہ کا ہینڈل کی طرف بڑھتا ہاتھ رُک گیا
‘ باہر جارہی ہوں۔’
‘کیوں؟’ روحیل نے سوال کیا اور چلتا ہوا اُس کے قریب آگیا
‘ابھی تو بتایا ہے کہ تھک گئی ہوں اور سونا چاہتی ہوں، اسلئے دوسرے کمرے میں جا رہی ہوں۔’ عرشیہ نے بے زاری سے جواب دیا اور روحیل کو نہ چاہتے ہوئے بھی غصہ آنے لگا۔ وہ مسلسل اُسے اِگنور کئے جارہی تھی۔پھر بھی وہ اُسکی ذہنی حالت کو سمجھتے ہوئے اپنا غصہ دباکر نارمل انداز میں بولا۔
‘کیا ہم کچھ دیر باتیں نہیں کرسکتے؟ میں تم سے۔۔۔۔’
‘روحیل پلیز! کیا ہم یہ باتیں کل نہیں کرسکتے؟ میں سچ میں بہت تھکی ہوئی ہوں۔ صرف آرام کرنا چاہتی ہوں!’ عرشیہ نے معصومیت سے کہا توکتنی ہی دیر روحیل اُسکے سادہ اور تھکے ہوئے چہرے کو تکتا رہا جہاں واقعی تھکن اُتری ہوئی تھی اورسُنہری آنکھوں میںنیند کا خُمار ہچکولے رہا تھا۔ روحیل کا سارا غصہ پل بھر میں غائب ہوگیا اور اُسے اِس معصوم سی لڑکی پر ٹوٹ کرپیار آنے لگا۔ لیکن وہ اپنے سر کش جذبوں کو دباتا ہوا دھیمے اور اپنائیت بھرے لہجے میں گویا ہوا۔
‘ٹھیک ہے سوجاؤ لیکن پلیز یہیںاِسی کمرے میں! اِس اسٹڈی روم کا دوسرا دروازہ لاؤنج کی طرف بھی کُھلتا ہے اور اسوقت گھر میں بہت مہمان ہیں۔ وہ کچھ نہیں جانتے، بہت باتیں بنیںگی اسلئے تمھیں سونا تو یہیں پڑیگا۔’ عرشیہ اُسے اُلجھن سے دیکھنے لگی جب روحیل نے مسکرا کر دوبارہ اپنی بات جاری کی۔
‘گھبراؤ نہیں! تم بیڈ پر سوجاؤ میں صوفے پر سوجاؤنگا۔۔ ۔ اور ہاں۔۔یہ تمھارا منہ دکھائی کا تحفہ ہے، تم پہنوگی تو مجھے اچھا لگے گا۔’ اُسنے ایک مہرون مخملی ڈبّہ اُسکی طرف بڑھایا ۔ وہ چند لمحے اُسکے جواب کا منتظر رہا پر وہ کچھ نہ بولی بلکہ خاموشی سے ڈبّہ اُسکے ہاتھ سے لے لیا اوربیڈ کی طرف بڑھ گئی ۔ وہ بھی ایک گہری سانس لیتا صوفے کی جانب بڑھ گیا۔ اُسے پھر بھی تسلّی نہ ہوئی تھی وہ کتنی ہی دیر اپنے آپ میں سِمٹی بیڈ پر بیٹھی رہی شاید روحیل کے سونے کا انتظار کرر ہی تھی۔روحیل نے کروٹ بدلتے ہوئے بیڈ پر نظر ڈالی ، اُسکے ایسے محتاط اور ڈرے سہمے سے انداز پر اپنی ہنسی دباتے ہوئے بولا۔
‘ڈرو مت! یہ تمھارا اپنا ہی کمرہ ہے ، سکون سے سو۔ کچھ نہیں ہوگا۔’ اُسے اندازہ نہیں تھا کہ وہ اُسکی ایک ایک حرکت نوٹ کر رہا ہے۔ عرشیہ گھبرا کر اپنی خفت مِٹانے فوراً لیٹ گئی اور چادر اوپر تک تان لی۔
************************
ایک بھرپور انگڑائی کے ساتھ اُسنے آنکھ کھولی۔ پین کلر کا اثر تھا کہ وہ رات بھر پُر سکون نیند سوئی تھی۔ گھڑی پر نظر پڑتے ہی وہ گھبرا کر اُٹھ بیٹھی۔ گھڑی صبح کے دس بجا رہی تھی۔وہ بہت دیر سوئی تھی ۔کچھ دوا کا اثر بھی تھا ، رات بھر کی تھکن اور اِتنے دنوں کی ذہنی ٹینشن نے اُسے واقعی تھکا ڈالا تھا۔
منہ پر آئے بالوں کو سمیٹتی وہ بیڈ سے نیچے اُتر آئی اور سِلپرز پہن کر جیسے ہی صوفے پر نظر پڑی وہ غیر اِرادی طور پر چلتی ہوئی اُسکے قریب آگئی۔
کچھ دیر وہ روحیل کے سوئے ہوئے وجود کو دیکھتی رہی۔ وہ بلاشبہ اِتنا ہی خوبصورت تھا کہ ہر کوئی اُسکے سحر میں گرفتار ہوجاتا تھا۔ عرشیہ بھی کچھ لمحوں کیلئے اُسکے سحر میں گرفتار ہوگئی تھی پر وہ جلد ہی اِس کیفیت سے نکل آئی ۔اپنی سوچوں کو رد کرتی وہ باتھروم کی جانب بڑھ گئی۔ اور یہ دیکھنے سے قاصر رہی کہ اُسکے جاتے ہی روحیل کے چہرے پر بڑی شریر مسکراہٹ رقص کرنے لگی تھی۔وہ اُسکی ساری حرکات نوٹ کرچُکا تھا۔ وہ نہا کر باہر آئی اور ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی اپنے بالوں کو سُلجھانے لگی جب دروازے پر دستک ہوئی۔ اُس نے پلٹ کر روحیل کو دیکھا پرروحیل کے وجود میں کوئی حرکت نہ ہوئی۔وہ ایسے ہی بے خبر سو رہا تھا۔عرشیہ کو آگے بڑھ کر خود سے دروازہ کھولنا بہت عجیب لگا اور وہ بھی تب جب وہ صوفے پر دراز تھا۔وہ روحیل کو مُخاطب کرنا نہیں چاہتی تھی لیکن اُسکو اُٹھانے کے سوا اور کوئی راستہ نہ تھا اِسلئے ناچار وہ آگے بڑھی اور اُسے آواز دی۔
‘روحیل!’
‘روحیل!’
‘روحیل!’
دو چار آوازوں کے بعد بھی وہ ایسے ہی دُنیا و مافیہا سے بے خبر سورہا تھا۔ نا چاہتے ہوئے بھی عرشیہ کو اُسکے قریب جاکر اُسکا کندھا ہِلانا پڑا۔
‘اُٹھو پلیز! دیکھو دروازے پر کوئی ہے۔’ پریشانی اُسکے چہرے سے ایاں تھی لیکن وہ بے خبر پڑا تھا۔ایک بار دستک کے بعد آواز آنا بند ہوگئی تھی۔وہ سخت کوفت میں مُبتلا ہوکر بڑبڑائی۔
‘ارے اُٹھو بھی روحیل! اُف خدایا پتا نہیں کیسی نیند ہے۔ اب کیا کروں میں؟’ یہ کہہ کر وہ جیسے ہی پلٹی روحیل نے اُسکا ہاتھ مضبوطی سے اپنے ہاتھوں کی گرفت میں لیا اور گنگنایا۔
‘روح پر نقشِ لازوال ہے تو،
اب خیالوں میں ایک خیال ہے تو،
تیرے جیسا کوئی نہ دیکھا،
تو ہے انمول، بے مثال ہے تو،
مجھ کو پاگل بنادیا تو نے،
عشق کا کیسا یہ کمال ہے تو،
تو محبت ہے ، آرزو ہے میری،
میری اِس زندگی کی ڈھال ہے تو،
تیرے دم سے ہی پیار زندہ ہے،
میرے ماضی کی تلاش، میرا حال ہے تو!’
وہ اِسوقت روحیل کے دل کی دنیا زیر و زبر کر رہی تھی۔ گیلے بال پُشت پر کھلے ہوئے تھے۔ اِس پر اُسکاکھلا ہوا گلاب چہرہ جو غصے اور گھبراہٹ کی آمیزش سے کچھ اور سُرخ پڑگیا تھا۔ وہ ایک لمحے میں تپا تپا چہرہ لئے پلٹی اور دھیمی لیکن گرجدار آواز میں بولی۔
‘یہ کیا بدتمیزی ہے؟ چھوڑو میرا ہاتھ!’ وہ اُسی اطمینان سے لیٹا اُسے دیکھتا رہا اور جب بولا تو اطمینان ہنوز قائم تھا
‘دل نہیں چاہ رہا نا چھوڑنے کا۔’ اُسکا اطمینان عرشیہ کو سر سے پاؤں تک جلا گیا
‘تمھارا دل تو مائی فُٹ! زیادہ فری ہونے کی کوشش مت کرو میرے ساتھ، اور ہاتھ چھوڑو۔’ اِس بات پر روحیل نے بے ساختہ قہقہہ لگایا لیکن اِس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتا دروازہ دوبارہ بج اُٹھا اور اِس بار رابیل کی کھنکدار آواز سُنائی دی۔
‘تم نے پہلے کیوں نہیں بتایا کہ دروازے پر کوئی ہے؟’ روحیل اُسکا ہاتھ چھوڑتا ایک لمحے میں صوفے سے اُٹھااور اُسی تیزی سے اپنا تکیہ اُٹھا کر بیڈ پر پھینکا۔ عرشیہ کو اُسکے انجان بننے پر مزید غصہ آیا۔
‘کب سے تواُٹھا رہی تھی لیکن تمھیں تو بس اپنی فالتو حرکتوں سے فُرصت۔۔۔’
‘اوہ شٹ اپ(Oh Shut up)!’ روحیل نے اُسکی بات کاٹ دی۔ایسے فضول الفاظ استعمال کرنے پر روحیل کو بُرا لگا تھا
‘اب جاؤ کھولو دروازہ، اور کسی سے یہ مت کہہ دینا کہ میں صوفے پر تھا۔’
‘اِتنا ہی بے وقوف سمجھا ہے کیا مجھے؟’ عرشیہ نے ظنز کیا جسکا روحیل نے تُرکی بہ تُرکی جواب دیا
‘بے وقوف تو تم ہو اور وہ بھی بہت بڑی! کبھی فُرصت سے بتاؤنگا، ابھی جاؤ دروازہ کھولو۔’
وہ تیزی سے باتھروم میں غائب ہوگیا اور عرشیہ پیچ و تاب کھا کر رہ گئی۔
************************

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

اشکِ وفا — ماریہ نصیر (پہلا حصّہ)

Read Next

اشکِ وفا — ماریہ نصیر (تیسرا اور آخری حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!