اے شب تاریک گزر —- صدف ریحان گیلانی (پہلا حصّہ)

کھڑکیاں دروازے بند کرلینے سے اگر زندگی کے ہارے ہوئے لمحوں کا آسیب اپنی ہیبت ناکی سمیت کہیں فنا ہوجاتا تو پھر بھلا دنیا میں دکھ ہی کیا رہ جاتا مگر مصیبت تو یہی ہے کہ چاہے خود کو کسی اونچی فصیلوں والے قلعے میں بھی محصور کرلو۔ یہ آسیب وہاں پر بھی پھڑپھڑاتا ہوا پہنچ جاتا ہے۔
بہتیرا جھٹکو، نظریں چراؤ، منہ پھیرلو۔
لیکن یہ کم بخت کچھ یوں اپنے خونی پنجوں میں دبو چتا ہے کہ پور پور نیلی پڑجاتی ہے۔ ساری آہیں،کراہیں پن کر سینے میں سر پٹخنے لگتی ہیں۔ مارے نالے حلق میں گھٹ گھٹ جاتے ہیں۔ روح صحراؤں کے سفر پر نکل پڑتی ہے۔
کہنے کوتو وہ دو گھنٹوں سے کمرہ بند ہوئے سورہی تھی لیکن کیا وہ واقعی سورہی تھی؟
آہ… نیند !! جس کی وہ کبھی بے حد رسیا تھی۔ خوب سوتی مزے سے جی بھر کر بے فکری کے جھولوں میں نہ صرف اپنے بستر پر بلکہ وہ تو کہیں بھی پڑ کر سوجاتی ہیں۔ نیند تو آنکھ بندکرنے کی محتاج ہوتی یوں آکر پلکوں پر بسیرا کرتی کہ پھر کوئی سر پر آکر ڈھول پیٹتا رہے اس کی بلا سے۔ ہک ہاہ۔ کیادن تھے وہ بھی جب زندگی پورے رنگوں کے ساتھ اس کے اندر جیتی لیتی تھی اور … اب تو جیسے دمے کے جھٹکے لگتے تھے سانس بھی کھینچ کھینچ کر لینا پڑتا تھا۔
آخر ہمارے ہاتھ کی لکیریں ویسی ہی کیوں نہیں رہتیں جیسی ہم چاہتے ہیں۔ صاف ستھری سیدھی سڑک کے جیسی جس پر خوابوں کی رتھ دوڑتی چلی جائے۔ بغیر رکے، بنا جھٹکا کھائے، کوئی اسپیڈ بریکر نہ روکے، کوئی اشارہ نہ ٹوکے، ہر راستہ ہوا کے پروں کے ساتھ ساتھ طے ہوتا چلا جائے۔ مگر… اوف یہ سب خواب، خیال، تصورانہی ہاتھوں کی الجھی، گنجلک لکیروں میں گم ہوگیا تھاجی تو چاہتا تھا اپنی ہی ہتھیلیوں کو کھرچ ڈالے، لیکن کیاہوتا پھر؟…
آخر چاہا ہی تھا کیا اس تقدیر سے؟
صرف ایک خواب؟
فقط اک آرزو؟
اک تمنا…
اک خواہش…جو یو ں لاحاصل قرار دی گئی کہ بدلے میں آنکھیں ہی بے خواب کردی گئیں۔ ابھی تو تتلیوں، پھولوں کے رنگ آنچل میں سمیٹنا چاہے تھے کہ جانے کہاں سے کانٹے اگ آئے۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

سامنے قیمتی مشروب سے بھرا پیالہ رکھا ہو اور پیاس لگی ہوپانی کی۔ تو پھر وہ پیالہ نظروں میں جچتا نہیں۔ جی ہی نہیں کرتا اسے ہونٹوں تک لے جانے کو… پانی … پانی… روم روم سے آواز آتی ہے۔
بڑھتی تشنگی جان کو جھلسانے لگتی ہے روح تڑک کر نڈھال پڑجاتی ہے۔ وہ بھی خار خار ہوگئی تھی۔ زخم تازہ تھے سوداد بھی اسی قدر تھا اور پھر اپنے ایسے زخم پرانے ہو بھی جائیں تو ان پر کھرنڈ آتا ہی کہاں ہے وہ تو ہمیشہ اسی طرح رہتے ہیں۔ پانی پر جمی کاٹی کی طرح۔ ذرا سا چھولو تو پر درد وہی اذیت رسانی۔ جو رگ رگ کو کاٹتی چلی جائے۔ کنپٹیوں سے ہوکر بہتا مائع آج پھر تکیہ بھگورہا تھا۔ اندھیرے کمرے میں یک لخت روشنی کی کرن سی پھوٹنے لگی سائڈ ٹیبل پر رکھا سیل فون تھر تھرارہا تھا۔
دونوں ہتھیلیوں سے آنکھیں رگڑتے ذرا سا سراٹھا کر چمکتی اسکرین پر نظر ڈالی ”عروج کالنگ” اوہنوں۔ اس نے کوفت سے سرپھر تکیے پر ڈالا۔ وہ کسی سے بات نہیں کرنا چاہتی تھی اور اس وقت پھر عروج؟ حلق تک میں کرواہٹ گل گئی تھی۔
بندکمرے میں دم گھٹنے لگا تھا اس نے بڑھ کر کھڑکیاں کھول دیں۔
اک اور شام غم ڈھل رہی تھی اک اور شب تاریک کو صدا دے کر افق کی لالی اور اس کی آنکھوں کی سرخی میں کوئی خاص فرقا نہ دکھتا تھا۔ عارض نرگس سے ہورہے تھے۔ طبیعت پر عجب کسل مندی سی چھائی تھی۔ جو کھلے پٹ سے اندر آتی تازہ ہوا سے بھی دور نہ ہوئی اور شاید دور ہو بھی نہیں سکتی تھی کیونکہ جب خزاں اندر بہت دور تک اپنا خیمہ گاڑلے تو پھر باہر کے سب موسم بے اثر ہوجاتے ہیں۔
کتنی دیر وہ چوکھٹ پر ہتھیلیاں ٹکائے سورج کو گگن کے پار اترتے دیکھتی رہی۔ فون وقفے وقفے سے تھرتھراتا رہا اس کی صرف اک نظر عنایت کو جو وہ ہر گز بخشنے پر تیار نہ تھی۔ واش روم جاکر جلتی آنکھوں پر ٹھنڈے پانی کے کتنے ہی چھینٹے مارے لیکن لگتا تھا کہیں چنگاری سی اب بھی دبی ہے۔ دوپٹے کے پلوسے چہرہ تھپتھپاتی لاؤنج میں چلی آئی۔
خیر نال اٹھ گئی دھی رانی ۔ میں تمہارے ہی پاس آرہی تھی۔ چائے لے آؤں پتر۔ اسے دیکھتے ہی صفیہ بوا کچن سے نکلیں۔
ہاں بوا چائے لے آئیں اور ہاں میرے سر میں بہت درد ہے۔ ساتھ کوئی پین کلر بھی لادیں پلیز۔
اور وہ نہ بھی بتاتی تب بھی انہوں نے دیکھ لیا تھا۔ بے رونق ستا ہوا چہرہ، سوجی آنکھیں، جو صاف چغلی کھا رہی تھیں۔ بے اختیار ان کا ہاتھ اس کے ماتھے پر ٹکا۔
سر میں درد کیوں ہے پتر۔ خیرتے ہے ناں اور یہ روز روز سر میںدرد کیوںہونے لگاہے پتر۔ پھر تمہارا بنا مشورے گولیاں پھنکنا اور تو ٹھیک نہیں ہے بچے۔ دیکھو تو یہ رنگ کیساپیلا پھٹک ہورہا ہے۔ میں تو کہتی ہوں کسی اچھے سے ڈاکٹر کو دکھاؤ۔
ڈاکٹر… اف سینیسے اک ہوک سی اٹھی۔ جوروگ جو نک بن کر اس کی روح کو چمٹ گئے تھے ان کا علاج اب کسی ڈاکٹر کے پاس تھا کیا؟ اگر کہو تو سر میں تیل ڈال دوں لگتا ہے کئی دن سے کنگھا ہی نہیں کیا۔
دیکھو تو کیا حشر ہورہا ہے۔ ان کی انگلیاں اس کے الجھے بالوں میں پھنس گئی تھیں۔ اچھا آپ تیل بھی لگادیجئے گا کیا فرق پڑتا ہے۔ ابھی تو جائیں چائے اور پین کلر لے آئیں پلیز… زرتاشہ نے صوفے کی بیک سے سرٹکا کر آنکھیں موند لیں۔ بوا کچن کی جانب مڑگئیں۔
ارے بھئی تم خود ادھرہو۔ فون کہاں ہے تمہارا۔ عروج کب سے کال کررہی ہے تمہیں حد ہوتی ہے لاپروائی کی۔ یہ لو عروج ڈارلنگ بات کرلو اس سے۔
نفیسہ اچانک جانے کدھر سے نکلیں تھیں اور قبل اس کے کہ وہ کچھ سمجھتی یا منع کرپاتی انہوں نے اپنا قیمتی سیل فون اس کے کان سے چپکا دیا تھا۔ مرتا کیا نہ کرتا کہ مصداق اب کیا ہوسکتا تھا علاوہ بات کرنے کے۔
خواہ مخواہ کی خوش اخلاقی بگھارنا اس کے نزدیک ہمیشہ سے منافقت کے زمرے میں آتا تھا اور غضب یہ کہ اب اسی منافقت کے سہارے سفر زیست طے کرنا ہوگا۔کبھی بہت زعم سے ہم کئی باتوں پر کاندھے اچکاکر ”آئی ڈونٹ کیئر” کہہ دیتے ہیں اور پھر یوں ہوتا ہے کہوہی باتیں کسی وقت پلٹ کر منہ چڑانے لگتی ہیں تب ہم کچھ بھی نہیں کرسکتے سوائے خود سے ہی نظریں چرانے کے۔ عروج سدا کی باتونی، ہنوز،کتنی خوش باش رہتی ہے ناں وہ اور اسے تو ہنستے لوگوں سے جیسے چڑ سی ہونے لگی تھی دو چار باتوں پر ہوں ہاں کرکے اس نے فون واپس ماں کی جانب بڑھایا جو بغور اس کے انداز دیکھ رہی تھیں۔ ان کی لاڈلی سے اس نے ٹھیک سے بات نہیں کی تھی سو اس جرم کی پاداش میں کلاس بھی لگ سکتی تھی اور فی الوقت کسی بھی طرح کی نصیحت سننے کا موڈ نہ تھا فوری کھسکنے کا سوچا مگر بھلا ہو بوا کا جو چائے لے آئیں تھیں مطلوبہ لوازم سمیت…
یہ کیا ہے ؟ نفیسہ کی نظر ٹرے میں رکھی دوا پر تھی۔
بیٹی کے سر میں درد ہے۔ میں نے تو کہا اسے مت کھایا کرو الٹی پلٹی دوائیں۔ کسی اچھے سے ڈاکٹر کو دکھالو۔ دیکھو تو حالت کیا ہوگئی ہے اس کی۔ بوا فکر مند ہورہی تھیں۔ انہوں نے بھی اس کا چہرہ جانچا۔
ہاں تو درد تو ہوگا ناں جب سارا سارا دن کمرے میں بند رہوگی۔ پتہ نہیں کیا ہوتا جارہا ہے تمہیں۔ سب مینرز بھولنے لگی ہو کتنا کہا اسے اپنا خیال رکھا کرو۔ فریش رہا کرو۔ آخر ٹینشن کیا ہے۔ تمہیں تو اب کسی سے بات کرنا بھی گوارہ نہیں۔ کیا سوچتی ہوگی عروج ارے اسے کس لئے اگنور کررہی ہو۔ کیوں بات نہیں کرنا چاہتی اس سے پتہ ہے ناں کون ہے وہ۔ اس سے ایک نہیں دو دو رشتے ہیں تمہارے اور دونوں ہی توجہ اور عزت کے متقاضی ۔ کیا سوچتی ہوگی وہ بچی۔ تم لوگوں نے ہر مقام پر مجھے بس تنگ کرنے کی قسم کھائی ہے اور ایک وہ جلاد ہے کم بخت ۔ اس کا علیحدہ نخرہ ہے۔ وہ بھی بات نہیں کرتا اس سے فون تک نہیں اٹھاتااس کا اور اس کی وجہ سے کتنی اپ سیٹ رہتی ہے بے چاری۔ اب اگر تم بھی یوں ایٹی ٹیوڈ دکھاؤ گی تو سمجھ لو کہ یہ تمہارے ہی حق میں اچھا نہیں ہوگا۔ ارے تمہیں تو چاہیے کہ تم اس کے ساتھ نہیں بولو دوستی بڑھاؤ اسے ابھی سے اپنی مٹھی میں کرنے کی کوشش کروگی تو کل کو…
پلیز مام لیو اٹ۔ میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ جی نہیں چاہا بات کرنے کو پھر کبھی کرلونگی ابھی چھوڑ دیں یہ قصہ حلق میں اترا گھونٹ کونین گھلا ہوگیا تھا کپ ٹیبل پر پٹخ دیا۔
ہاں تو کیوں ٹھیک نہیں ہے طبیعت ؟ کیا ہوگیا ہے؟
”ہر وقت منہ پھلائے پھرتی رہتی ہو۔ جب گونگے کا گڑ کھائے رہوگی تو یہی ہوگا۔ شکل دیکھی ہے آئینے میں اپنی۔ برسوں کی بیمار لگ رہی ہو حلیہ دیکھو ذرا اپنا کتنے روز ہوگئے ڈریس چینج نہیں کیا تم نے؟ کتنی بار میں نے کہا پارلر سے ہو آؤ۔ حالت سدھار لو اپنی مگر تم نے تو جیسے کوئی بھی بات نہ ماننے کا تہیہ کررکھا ہے۔” اور اس نے بے اختیار سراٹھا کر انہیں دیکھا تھا۔
اب بھی یہ الزام؟؟ ان کے کہنے پر اس نے چپ چاپ اپنی پوری زندگی داؤ پر لگادی پھر بھی وہ خوش نہیں تھیں۔ اک کندچھری تھی جو عین شہ رگ کے اوپر رکھی گئی تھی۔ کرب کے مارے پلکیں بیچ لیں۔
ستا ڈالا ہے تم دونوں نے تو مجھے۔ ایک وہ ہے جسے رتی بھر میرا احساس نہیں اتنا لاڈ پیار کیا اس دل کے لئے دیا تھاکہ میرے ہی مقابلے پر اتر آوؑ۔ میرے ہی فیصلوں کو رد کرنے کی جرات کرو۔ حد ہوگئی اور تمہیں تو میرا کہا اپنا بھی خیال نہیں ہے۔ ایسا کیا ہوگیا ہے آخر اس چپ کی وجہ جان سکتی ہوں میں کیا ثابت کرنا چاہتی ہو اس رویے سے۔ میں نے کوئی ظلم کردیا ہے تمہارے اوپر؟
کیا بات ہے؟ کیوں ڈانٹ رہی ہو میری گڑیا کو؟ وہ عادتاً نان اسٹاپ شروع ہوچکی تھیں کسی کی پراہ کئے بغیر۔ غیاث ہمدانی ابھی آفس سے لوٹے تھے سیدھا وہی چلے آئے۔
ارے میری ایسی قسمت کہاں کہ میں انہیں ڈانٹ سکوں۔ یہ تو آپ کی شہہ ہے جو انہوں نے میری زندگی اجیرن کررکھی ہے۔ اب یہی دیکھ لیں مسز علیم کی بیٹی کی مہندی ہے آج اور میں نے چار روز پہلے سے بتارکھا ہے۔ لیکن ذرا صورت دیکھیں اس کی یہ ہے کہیں لے جانے کے لائق۔ میں نے شرمندہ ہونا ہے وہاں۔ اس کا پورا سسرال انوائیٹڈ ہوگا وہ سب کیا دیکھیں گے۔ دنیا تو پل میں رائی کا پہاڑ کھڑا کرتی ہے۔ اسے تو کسی سے بات کرنا بھی گوارہ نہیں رہا۔ اس کی بدمزاجی کی کیا کیا وضاحتیں دونگی میں لوگوں کو۔ آج عروج کا فون آیا تھا۔ اب وہ پوری تفصیل بیان کررہی تھیں اور غیاث ہمدانی کی نظر بیٹی کے جھکے چہرے اور لرزتی پلکوں پر تھی۔
اچھا سب باتیں چھوڑ و تم جاؤ میرے لئے اچھی سی چائے بنواؤ اور ساتھ میں کچھ کھانے کو بھی بہت بھوک لگی ہے۔ وہ اس کے ساتھ ہی بیٹھ گئے اور اسے بازو کے گھیرے میں لے لیا گویا اپنی شفقت بھری پناہ میں اور یہ تو ہمیشہ سے ہوتا آیا تھا۔ جب کہیں نفیسہ بیگم اپنی جلالی طبیعت کی دھوپ سے بچوں کو گرمانا شروع کرتیں وہیں وہ ان کے لئے گھنی چھایا بن جاتے۔ ماں کی عتاب بھری سختیوں سے وہی تو بچاتے آئے تھے انہیںَ بلا کے نرم مزاج غیاث ہمدانی جب کسی اور کے ساتھ تلخی نہیں برت سکتے تھے تو پھر اپنی اولاد کے معاملے میں تو وہ بالکل ہی موم کا دل رکھتے تھے خصوصاً اس سے تو انہیں بے پناہ محبت تھی اکثر گھرانوں میں باپ کی سخت گیری کے آگے ماں بچوں کے لئے ڈھال بن جاتی ہے جبکہ یہاں معاملہ یکسر الٹ تھا بچپن سے ہی وہ ماں سے زیادہ ان کے قریب رہی تھی۔ ماں کا شعلہ مزاج اسے ہمیشہ ان سے دور اور خائف رکھتا تھا۔
اور اب تو وہ ان سے بالکل ہی خفا ہوگئی تھی مگر اظہار کی جرات نہ تھی۔
اب بھی وہی ہمیشہ کی طرح جی چاہ رہا تھا باپ کے سینے میں منہ چھپا کر ایک بار تو خوب سارا رولے تاکہ اندر جمع ہوتی کثافت کچھ تو بہہ جائے گوکہ اسے یہ بھی علم تھا۔ جو پھول نوچ کر تپتی ریت پر پھینک دیئے جائیں وہ پھر سے خوشبو نہیں دیتے۔
ہاں بیٹا اب بتاؤ کیا بات ہے؟ کیوں تنگ کررہی ہو اپنی ماں کو؟ طریقے سے نفیسہ بیگم کو وہاں سے ہٹانے کے بعد وہ اس کی طرف متوجہ ہوئے۔
میں کیوں تنگ کرونگی ماما کو وہ تو میں یونہی… تیزی سے پلکیں جھپکا جھپکا کر آنسو اندر اتارتی وہ انہیں بالکل وہی چھوٹی سی گڑیا لگی جب وہ ماں کے غصے سے بچنے کو ان کے دامن میں پناہڈھونڈا کرتی تھی وہ سہمی، گھبرائی ہوئی ذرتاشہ اب اتنی بڑی ہوگئی تھی کہ اسے اپنے آپ کو سنبھالنا بھی آگیا تھا۔
اور اچھا اس کا مطلب آپ نہیں آپ کی مام آپ کو تنگ کررہی ہیں۔ ناٹ گڈ۔ انہوں نے جیسے کچھ سمجھتے سرہلایا۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

خونی سایہ — عمارہ خان (تیسرا اور آخری حصہ)

Read Next

اے شب تاریک گزر — صدف ریحان گیلانی (دوسرا حصّہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!