چھوٹے چھوٹے کنکر پاؤں میں چبھ کر جب انہیں زخمی کرتے تو اس کی روح کلبلا اٹھتی۔ آسمان پر چمکتا سورج قہر برساتا تو اسے یاد آتا کہ کبھی کوئی مہربان سائباں اس کے لیے بھی چھاؤں تھا۔ اردگرد جو نہیں رہے وہ محبت اور چاہتوں کی بنیاد پر کھڑی دیواروں کے حصار یاد آتے۔ وہ یاد نہ بھی کرتی مگر گزرا ہوا کل بار بار اس کے سامنے آ کھڑا ہوتا۔ جب جسم بھوک سے نڈھال ہوتا ، جب دھوپ اس کے نازک سے بدن کو جھلسانے لگتی، اڑتی ہوئی خاک جب اس کی روح تک کو گرد آلود کر دیتی جسے دیکھ کر اسے اپنے وجود کی کم مائیگی یاد آتی تو وہ سوچنے لگتی کہ میری ذات تو اس خاک سے بھی ارزاں ٹھہری۔
”کیا کلمہ گو ہونا ہی اس صدی کا سب سے بڑا جرم ہے؟”
آندھی کی شدت سے سرخ پڑتے آسمان کو فریاد کناں نگاہوں سے دیکھتے ہوئے زینب نے سوچا۔
اپنے دو ننھے بچوں کی انگلی تھامے وہ گلی گلی خوار اور محلوں کی خاک چھان رہی تھی۔ وہ بھکارن نہیں تھی۔ ابھی کچھ روز پہلے وہ ایک آرام دہ ، پرسکون اورخوش حال زندگی گزار رہی تھی جہاں فکر و غم گھر کی دہلیز پھلانگنے کی جرات بھی نہیں کرسکتے تھے۔ خوشیوں اور آسائشوں سے سجا گھر جہاں زینب ، اس کا شوہر اور بچے جنت جیسی زندگی گزار رہے تھے۔ ایک دین دار اور مسلم گھرانا جو اپنی روایات اور مرئوجہ اصولوں پر زندگی کی بنیاد رکھے ہو ئے تھا کہ یکایک بغاوت کی ایک لہر پورے ملک میں جاگی۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
بغاوتیں ایسے ہی نہیں جاگا کرتیں ، ان کے پیچھے کوئی نہ کوئی نظریہ اور سوچ ہوا کرتی ہے۔ ایسی ہی بغاوت ہندوستان میں اس وقت پھیلی جب ہندو چاہتا تھا کہ انگریز عنان حکومت اس کے سپرد کر کے ہندوستان سے چلا جائے۔ اس وقت دو قومی نظریہ پروان چڑھا۔ وہ ہندوستان میں مسلمانو ں کی نسلوں کی بقا کی جنگ تھی جسے بے حساب جان و مال اور عصمتوں کی قربانی کے بعد زندہ رکھا گیا۔ شام کی سر زمین سے بھی ایسی ہی ایک تحریک نے اس وقت جنم لیا جب وہاں کے جابر حکمران نے سورئہ اخلاص میں انحراف کیا ، جب اس نے خدائی کا دعویٰ کر دیا اور لوگوں سے خود کو سجدہ کرنے کی کافرانہ خواہش ظاہر کی۔ اس نے عہدِ فرعون و نمرود کی یاد تازہ کر دی۔ اس کے ملعون سپاہیوں نے گلیوں، سڑکوں اور چوراہوں پر لوگوں کو زدو کوب کرنا شروع کر دیا کہ وہ اس کے نام کا کلمہ پڑھنے لگیں۔ بشارالاسد کے سوا کوئی خدا نہیں۔ اس کے پوسٹرز پر آویزاں تصویروں کو سجدہ کرنے کے لیے کہا جانے لگا۔
زینب کے ہنستے بستے گھر کو نہ جانے کس کی نظر کھا گئی۔ وہ ایک سرد صبح تھی جب اس کا جواں سال دیور گھر سے سودا سلف لینے نکلا۔ وہ اپنے حال میں مست سائیکل پر سوار جا رہا تھا کہ دو فوجیوں سے ٹکراتا ٹکراتا بچا اور خود ہی سائیکل سمیت زمین پر آرہا۔ بجائے اس کے کہ وہ لوگ اس کا شکریہ ادا کرتے، ایک فوجی نے اسے کالر سے پکڑ کر سیدھا کھڑا کیا اور زدو کوب کرنے لگا۔
”چھوڑ دو مجھے، میں نے کیا کیا ہے؟” وہ چلّانے لگا۔ دوسرے نے آگے بڑھ کر پہلے فوجی کو روکا۔
”اچھا تم کہتے ہو تو چھوڑ دیتے ہیں، مگر تمہیں اس کے لیے بس ایک جملہ کہنا ہو گا۔” وہ خباثت سے مسکرایا۔
”کیا؟” مار کھا کر ہانپتا ہوا بلال بولا: ”تمہیں کہنا ہو گا کہ بشارالاسد میرا خدا ہے۔” مکّاری سے کہہ کر وہ انتظار کرنے کی اداکاری کرنے لگا۔ بلال نے زمین پر تھوک دیا اور نفرت سے بولا۔
”تمہیں وہ غلام یاد نہیں ؟” ”کون سا غلام؟” ان دونوں نے حیرت سے اسے دیکھا:
”وہی بلال جس نے ہر ستم سہ لیا مگر دامن حق نہیں چھوڑا۔ وہی بلال جن کی اذان کی آواز مکّے میں گونجتی تھی تو دلوں پر رِقت طاری ہو جاتی تھی۔” بلال نے طنز سے مسکرا کر انہیں دیکھا اور اپنے دونوں ہاتھ کانو ں تک لے جا کر اذان دینا شروع کر دی ”اللہ اکبر ، اللہ اکبر” اردگرد سے لوگ اذان کی آواز سُن کر وہاں جمع ہونے لگے ، سب جاننا چاہتے تھے کہ آخر یہ معا ملہ کیا ہے ؟ لوگو ں کوجمع ہوتے دیکھ کر بھی فوجیوں کے رویوں میں کوئی فرق نہیں آیا۔ انہوں نے اس بار مل کر بلال کو مارنا شروع کر دیا تھا۔
٭…٭…٭
بلال بن داد کو مار مار کے ادھ موا کر دیا گیا۔ اس کی ایک ٹانگ میں فریکچر ہوا جب کہ پیشانی پھٹ گئی اور پورا جسم زخموں سے چور ہوگیا۔ لوگوں نے اسے ہسپتال پہنچایا۔ خاور بن داد کا غم کے مارے برا حال تھا۔ اسے اپنے بھائی سے بہت پیار تھا، اسے اس حالت میں دیکھنا اس کے لیے بہت تکلیف دہ تھا مگر وہ بے بس تھا اپنا ہی سر دیوار میں مار کر زخمی تو کر سکتا تھا مگر طاقت کے ایوانو ں میں کوئی ہلچل نہیں مچا سکتا تھا نہ ہی کسی کا کچھ بگاڑ سکتا تھا۔
٭…٭…٭
فوج کے خلاف عوامی نفرت میں اضافہ ہو رہا تھا۔ لوگ ایسے ظالم اور جابر حکم ران کو اٹھا کر پھینک دینا چاہتے تھے۔ حکمران اگر ان سے روٹی چھین لیتا تو وہ صبر کر لیتے۔ انہیں ضروریات زندگی سے محروم کر دیا جاتا، تو بھی وہ برداشت کر جاتے، مگر اس جابر نے تو ان کے ایمان پر حملہ کیا تھا۔ طاقت کے نشے میں اندھا ہو کر وہ خود کو خدا سمجھنے لگا تھا۔ خاور بن داد نے بھی ظلم کے بادشا ہ کے خلاف تحریک کا حصہ بننے کا فیصلہ کر لیا تھا۔
”ہم ظلم کے خلاف سر نگو ں نہیں ہوں گے ، وقت کے یزید کو حساب دینا ہو گا، ہم اسے حکومت کے ایوانوں سے کھینچ کر باہر لا پھینکیں گے۔” خاور غصّے میں دھاڑا۔ زینب نے اپنے شوہر کی غضب ناک حالت دیکھی تو دل میں د عا کرنے لگی۔
”یا اللہ، سب ٹھیک رکھنا۔” زینب کی دعائیں بھٹک گئیں کہ پھر کبھی انہیں عرش تک جانے کا راستہ نہ مل سکا۔
٭…٭…٭
صورتِ حال گمبھیر سے گمبھیر تر ہوتی جا رہی تھی۔ شام کی عوام سڑکوں پر نکلنے کے لیے مجبور تھی۔ شام کھنڈر بننے جا رہا تھا اور اِس بات کا کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ محض ایک معمولی سا مظاہرہ خونی دنگل میں تبدیل ہونے والا ہے۔ پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ دنیا کی چھوٹی بڑی طاقتوں نے ان پر دھاوا بول دیا۔ اس کام میں انہوں نے ایک دوسرے کو اس طرح دعوت دی جیسے کوئی کسی کو دعوتِ شیرازدیتا ہے۔
٭…٭…٭
شام کے عوام کو اندازہ بھی نہیں تھا کہ ان کے گھر کی چھتیں ان پر ہی مسمار کی جانے والی ہیں۔ خاور کہتے تھے۔
”ظالم حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنا جہاد ہے۔”
وہ کتنے خوش فہم تھے۔ انہیں جمع ہو نا تھا اور ایک آمر کے خلاف احتجاج ہی تو ریکارڈ کرانا تھا۔ مگر اس کا نتیجہ کیا ہونے جا رہا تھا وہ نہیں جانتے تھے۔
اُن کے لیے کربلا جیسا میدان سجنے والا تھا۔
٭…٭…٭
گلی میں آندھی سی دھول اٹھ رہی تھی۔ پانچ سالہ صالحہ نے زینب کے کندھے سے سر ٹِکا کر آنکھیں بند کر لیں جب کہ صالحہ سے دو سال بڑے عبداللہ نے گرد سے گھبرا کر چھوٹے چھوٹے ہاتھ آنکھوں پر رکھ لیے۔ اس لمحے زینب کے دل میں عجب خیال نے سر اُٹھایا۔
”میں بھی تو گلی کی دھول ہی بن بیٹھی ہوں اتنی بے اماں تو کبھی نہ تھی میں۔ جانے زندگی کیا سے کیا ہو گئی۔”
ایک سینہ دہکاتی سانس اس کے بوجھل سینے سے نکلی اور آہ کی سواری کرتی ہوئی آسماں کی طرف محوِ پرواز ہوگئی۔
٭…٭…٭
کیاکربلا ابھی تھما نہیں؟ کاروان کربلا درماندہ و آفت کنندہ اسی سر زمین طیب پر ہی تو آ کر رُکا تھا؟ کیا کربلا نے اپنے سفر کا آغاز وہیں سے شروع کیا جہاں سانس لینے ذرا تھما تھا ، کیا کربلا یونہی اہلِ اسلام پر صدی در صدی وارد ہوا کرے گا؟ یہ مقام کربلا ہی تو تھا ، بھوک ، پیاس ، در ماندگی ، موسمی شدت اور دشمن کی یلغار۔ اہلِ شام سے ان کا تمام اثاثہ چھینا جا چکا تھا۔ گھر ، امان،پناہ ،تحفظ ،زندگی اور بدلے میں موت بانٹی گئی تھی جو مفت اور بے حساب تقسیم ہو رہی تھی۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});