نسرین نے کلائی پر بندھی چھوٹے ڈائل والی گھڑی میں گھومتی سوئیوں کو دیکھا اور نائیلون کی چارپائی پر سوئے ناصر کو کندھے سے پکڑ کر ہلانے لگی۔ کچھ دیر ہلانے پر بھی حرکت نہ ہوئی تو ناصر کے کان کے قریب منہ لے جا کر اعلان کیا۔
”اٹھو! جلدی سے دودھ لے کر آئو۔”
”اچھا۔ اٹھتا ہوں۔” ناصر نے دائیں سے بائیں کروٹ لیتے ہوئے بوجھل آواز میں جواب دیالیکن نسرین نے اسے بازو سے پکڑ کر ہلانا جاری رکھا۔
”کہا نا جلدی اٹھو! بچوں نے اسکول جانا ہے۔ روز دیر کر دیتے ہو۔”
ناصر مزید جھٹکے نہ سہ سکا اور جھنجھلا کر اٹھ بیٹھا۔ ادھ کھلی غصیلی آنکھوں سے نسرین کو دیکھا۔ پھر اس کے ایک ہاتھ سے برتن اور دوسرے سے پیسے لیے اور بڑبڑاتے ہوئے گھر سے نکل گیا۔
نسرین کو کئی اور کام تھے لہٰذا وہ ناصر کی بڑبڑاہٹ سنی اَن سنی کرتے ہوئے بچوں کی طرف متوجہ ہوگئی جو ابھی تیار نہیں ہوئے تھے۔ رمیز پتلون تھامے صحن میں چکر لگا رہا تھا اور فریحہ فراک پر لگے سیاہی کے داغ کو تکے جا رہی تھی۔ نسرین نے پہلے فریحہ کی فراک کا پلو پکڑ کر سیاہی دھوئی لیکن نشان رہ گیا، پھر وہ رمیز کو پتلون پہنانے لگی۔ اسی دوران اسے یاد آیا ابھی چائے کے لیے پانی رکھنا ہے۔ کیتلی میں پانی بھرتے ہوئے سالن کی سڑانڈ نتھنوں تک پہنچی تو نسرین نے چہرے سے پسینہ پونچھتے ہوئے ہنڈیا چولھے سے اتار دی۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
نسرین کو گیس کی بندش کا خوف تھا اس لیے ہاتھ تیز تیز چلانے لگی۔ توا رکھا اور اوپر سے گول نیچے سے چپٹے پیڑے بنائے۔ چپاتی توے پر ڈالنے لگی تو فریحہ بہتی ناک کے ساتھ حاضر ہوگئی۔ نسرین نے چپاتی جلدی سے توے پر پھینکی، فریحہ کی ناک صاف کی اور چپاتی کو پلٹ دیا۔پھر اس نے گھڑی پر نظر ڈالی جس کی تیزی سے گھومتی سوئیوں نے اس کے ماتھے پر ایک شکن اور بڑھا دی۔نسرین نے بیرونی دروازے کی طرف دیکھا اور پھر بے دھیانی سے روٹیاں پکانے لگی۔روٹیاں پکا چکی توتوا اور کیتلی بھی چولھے سے اتار دی اور ناصر کا انتظار کرنے لگی۔ جب وہ آیا تو خالی ہاتھ ڈول ہلاتا ہوا باورچی خانے میں آدھمکا۔
ہر دوسرے تیسرے دن ناصر دودھ لینے میں ناکام ہو کر گھر لوٹتا تو نسرین کی برداشت جواب دے جاتی۔ ان کے بچے تھے تو چھوٹے لیکن بڑے سمجھ دار، موقع کی نزاکت بھانپتے ہوئے چپکے سے کھسک جاتے تھے۔ نسرین ان کے غائب ہونے سے پہلے کھانے کے لیے کچھ نہ کچھ ڈبے میں بھر دیتی تھی۔ اس کے بعد نسرین اور ناصر ایک دوسرے پر دھونس جمانے کی کوشش کرتے۔
”آج پھر دودھ نہیں لائے؟” نسرین نے ہاتھ قمیص سے پونچھتے اور سر کو قدرے اوپر جھٹکا دیتے ہوئے پوچھا۔
”ختم ہو گیا تھا۔” ناصر آرام سے چارپائی پر بیٹھتے ہوئے بولا جس پر نسرین کی ناک مزید پھول گئی۔
”تو کسی اور سے لے آتے۔”
”تین گوالوں کو منہ دکھاآیا ہوں۔ اب کیا پورا شہر پھروں؟” ناصر تیکھے لہجے میں جواب دیتے ہوئے لیٹ گیا۔
”سارا شہر کیا پھرو گے؟ ایک کام تم سے ہوتا نہیں۔ یونہی چارپائی توڑتے رہو۔” بچے اسکول جاچکے تھے۔ نسرین کو بچوں کے سامنے خفت کا خوف نہیں تھا۔ اس نے حلق کی کمان سے ایک تیر کھینچ کر زبان کے ذریعے ناصر پر چھوڑا جو ٹھیک نشانے پر لگا اور وہ درد سے کراہ اٹھا۔
”یہ کیا ہر وقت طعنے دیتی رہتی ہو؟ تمہاری نوکری کیا لگ گئی میرے پیچھے ہی پڑ گئی ہو۔”
”ہاں میری نوکری لگ گئی اور تمہاری قسمت جاگ اٹھی۔ گھر بیٹھے روٹیاں توڑتے رہو۔” نسرین اتنا کہہ کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔ ناصر تلملاتے ہوئے اٹھ بیٹھا اور پیچھے سے پانڈیوں کی طرح آواز لگائی۔
”آٹھ مہینے نہیں ہوئے نوکری پر لگے اور طعنے دیا کرو آٹھ سو مرتبہ روزانہ… مفت میں روٹیاں… بک بک کرتی رہتی ہے۔” ناصر کی اس بات کا نسرین کی طرف سے جواب نہ آیا ۔ کچھ دیر بعد وہ تیار ہو کر کمرے سے نکلی۔ ناصر کو اَن دیکھا کرتے ہوئے دروازے تک پہنچی۔ دروازہ کھولنے سے پہلے کچھ دیر رکی لیکن پیچھے مڑ کر نہ دیکھا ۔ پھر زور سے دروازہ کھولا اور اس سے زیادہ زور سے بند کر دیا۔ ناصر کو دروازہ بند ہونے کی آواز بالکل زناٹے دار تھپڑ جیسی لگی۔ اس نے تھوڑا سا سر اٹھایا اور جھٹک کر سو گیا۔
سورج سر پر آیا تو پسینے میں شرابور ناصر اٹھ بیٹھا۔ نہا دھوکر باورچی خانے میں گیا،جو ملا کھا لیا۔ دروازوں کو تالے لگائے اور نوکری کی تلاش میں نکل پڑا۔ اس کی منزل نائیلون کے دانے بنانے والا کارخانہ تھا۔ پہلے وہ کپڑا بنانے والے کارخانے میں کام کرتا تھا۔ اچھی بھلی نوکری تھی۔ اسی سے یہ مکان بنایا تھا۔ کرسی پر بیٹھ کر کام کرتا تھا۔ اچھی گزر بسر ہوتی تھی اورگھر والی بھی عزت کرتی تھی۔
پھر ملک میں توانائی کی قلت اور بڑھ گئی ۔ اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے چلنے والی مشینیں آٹھ گھنٹے بھی نہ چل پاتیں اور چھے گھنٹے چلنے پر بھی بل اٹھارہ گھنٹے کا ہی آتا۔ مصنوعات پر لاگت بڑھ گئی اور پیداوار گھٹ گئی تھی۔ سرمایہ دار کو جس کارخانے سے نقصان ہوتا، اسے بند کر دیتا ۔ ہنر مند چھابڑی لگاتے یا کہیں ٹھیلا سجا لیتے۔ مزدور سڑکوں پر جوتیاں گھساتے۔ ریڑھی بان الگ پریشان رہتے۔ پڑھے لکھوں کو پہلے ہی کام مشکل سے ملتا تھا اب مرحلے اور بھی دشوار ہو گئے۔ ناصر کوئی دکان چمکا لیتا لیکن وہ حساب کتاب کرنے والا بندہ تھا۔ ایک مرتبہ نوکری کیا چھوٹی، پھر کہیں ٹک کر کام نہ کر سکا لیکن آج اسے نوکری ملنے کی بڑی امید تھی۔
ناصر راستے کی دھول اور بسوں کا دھواں کھاتے ہوئے کارخانے پہنچا تو پتا چلا کہ اِدھر بھی حالات زیادہ ساز گار نہیں۔ مالک پہلے ہی بات بات پر ملازم نکال رہا ہے اور کارخانہ بند کرکے دوسرے ملک جانے کے چکر میں ہے جہاں بجلی، گیس اور پانی سمیت مزدورسستے ملتے ہیں اور ٹیکس بھی کم دینا پڑتا ہے ۔ کارخانے سے چہرے پر ناکامی کا ٹھپا لگوائے وہ باہر نکلا تو اس نے سوچا کہ اب وقت کیسے کاٹے؟ اسی دھیان میں وہ پہلے ایک دوست کے پاس گیا، اس کے بعد دوسرے اور پھر تیسرے کے ساتھ رونے روتا رہا ۔ جب سورج کسی اور جہان کو منور کرنے گیا تو وہ بھی اپنے گھر کو ہو لیا۔
نسرین باورچی خانے میں بیٹھی ترکاری بنا رہی تھی۔ اس کے چہرے کا کھچاؤ، مزاج کی خشکی کا پتا دے رہا تھا۔ ناصر نظر بچا کر بچوں کے کمرے میں چلا گیا۔ کمرے تھے ہی کتنے اس کے گھر میں… صرف دو۔ ایک میں بچے اور دوسرے میں ناصر اور نسرین رہتے۔ پیچھے ایک باورچی خانہ اور غسل خانہ بچتا۔ باورچی خانے میں نسرین بیٹھی تھی۔ غسل خانے میں زیادہ سے زیادہ وہ ایک سگریٹ پی سکتا تھا۔ اپنے کمرے میں جانا نہیں چاہتا تھا کہ وہاں نسرین سے بار بار ٹاکرا ہوتا۔ بچوں کا کمرا ہی بہتر تھا جو مہمان خانے کا کام بھی دے دیتا۔ بچوں کے کمرے میں چیزیں بکھری پڑی تھیں۔ فریحہ اور رمیض ایک ہی چارپائی پر بیٹھے اپنی کتابوں اور کاپیوں سے کھیل رہے تھے۔ دوسری چارپائی پر ناصر نے قبضہ کرلیا۔
ناصر کو بچے بڑے اچھے لگتے تھے۔ جب سے وہ بے کار ہوا تھا، بچوں نے پیسے مانگنے چھوڑ دیے تھے۔ اسے لگتا یہ نسرین کا کمال ہے۔ وہ کچھ دیر بچوں کو دیکھتا رہا پھر دوسری طرف کروٹ لے کر بچوں کے متعلق سوچنے لگا۔ سوچتے سوچتے اسے بھوک محسوس ہوئی۔ وہ بھوک دبانے کی کوشش کرتا رہا لیکن نوکری کی تلاش کی طرح یہاں بھی ناکامی ہو رہی تھی۔ پیٹ بھرا ہو تو دماغ میں اوٹ پٹانگ خیالات آتے ہیں ، اگر خالی ہو تو کچھ بھی نہیں رہتا۔ سوچ کے گھوڑے ایک مرکز کے گرد طواف کرتے رہتے ہیں۔ اس کی سوچ کا مرکز بھی بھوک تھی لیکن وہ نسرین کی باتوں کے خوف سے روٹی مانگنا نہیں چاہتا تھا۔
ناصر نے کافی دیر سہانی یادوں سے پیٹ بھرنے کی ناکام کوشش کی مگر زیادہ دیر بھوکا رہنے سے تیزابیت ہونے لگی۔ وہ تیزاب کو تھوک کے راستے نکال بھی نہیں پایا تھا کہ اس کا سر دکھنے لگا ۔ جب پنڈلیوں میں چبھن ہونے لگی تو وہ چارپائی سے اٹھا اور جا کر نسرین سے پوچھا۔
”کب تک کھانا تیار ہو جائے گا؟”
”ابھی بنا رہی ہوں۔” نسرین نے اندر اٹھتے ابال پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے جواب دیا۔
”اچھا! ذرا جلدی کردو۔” ناصر اس کے چہرے کے اتار چڑھائو کو نظر انداز کر کے غسل خانے کی طرف جانے لگا مگر نسرین کے جواب نے اس کے پیروں میں زنجیر ڈال دی اور اس کے قدم غسل خانے کے قریب رک گئے۔
”اتنی ہی بھوک لگی تھی تو خود بنا لیتے۔ تم کون سا کام پر گئے تھے۔”
”سارا دن کام ڈھونڈتا رہا ہوں۔” ناصر نے پتلون کی پیٹی کھولتے ہوئے ترنت جواب دیا۔اس کا ایک پائوں غسل خانے کے باہر اور دوسرا اندر تھا۔
”یہ بہانے کسی اور کو سنائو۔ کام ڈھونڈ رہے تھے تو ملا کیوں نہیں؟” نسرین کا سر جھکا اور آنکھیں اٹھی ہوئی تھیں۔ وہ دن بھر کی تکان ناصر پر نکالنے کی پوری تیاری میں لگ رہی تھی۔
”کام ہے ہی نہیں، ملے گا کہاں سے، تمہارے باپ کی دکان پر؟”’ ناصر نے معدے میں موجود مروڑ اٹھاتی تیزابیت کوزبان کے راستے خارج کیا تو نسرین نے سر بھی اٹھا لیا۔
”اپنے باپ کی زمین پر گھاس کاٹو۔ میرے باپ کی دکان میں تمہیں کون گھسنے دے گا؟”
ناصر نے غسل خانے والا کام بیچ میں چھوڑا اور نسرین کے سامنے آ کھڑا ہوا۔ گھاس کاٹنے والی بات ہی ایسی تھی۔ گائوں چھوڑنے کی وجہ یہی بنی تھی۔ وہ کچھ دیر نسرین کو دیکھتا رہا۔ وہ چھری سے سبز مرچیں ایسے کاٹ رہی تھی جیسے کچھ اور ہو۔ ناصر اسے یوں مرچیں کاٹتے دیکھ کر ایسے بے چین ہوا جیسے پالتو کتے کی دم پر مالک کا پیر آ گیا ہو۔ اس نے دو تین بار اپنے سر میں انگلیاں پھیریں۔ دماغ کو بڑا ٹٹولا، پھر ہتھیار ڈال دیے۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});