دروازہ پوری شدت کے ساتھ کھٹکھٹایا گیا۔ ایسی دل دہلا دینے والی دستک سن کر وہ بری طرح سہم گئی۔یہ لمحات اُس کے لیے قیامت ِ صغری ٰ سے کم نہ تھے۔ رنج و الم سے معمور اس کا معصوم دل یک دم اچھل کا حلق میں آگیا۔ اسے اپنے قدم مَن مَن بھاری محسوس ہونے لگے ۔ ایک مایوس کن نگاہ اس نے مسلسل دھڑدھڑاتے بیرونی دروازے پر ڈالی۔ اگلے ہی لمحے اس کی نگاہیں قریبی چارپائی پر پڑے آٹھ سالہ مامون کا طواف کرنے لگیں جو ہمیشہ ایسی صورت ِ حال سے خوف زدہ ہوجاتا تھا ۔دروازہ ابھی تک زور دار انداز میں مسلسل کھٹکھٹایا جا رہا تھا۔ اس بار تو ساتھ ایک کرخت مردانہ آواز بھی گھر والوں کے دل و دماغ پر ہتھوڑے برسانے لگی تھی ۔
”ابے کھولو دروازہ …کھولتے کیوں نہیں ہو میں تمھارے باپ کا نوکر ہوں کیا؟ نکلو یہاں سے… دفع ہوجائو… چھوڑ دو ہماری جان ،کہاں سے آگئے یہ بھوکے ننگے،بے غیرت لوگ ۔”
شور کی آواز سن کرمامون آنکھیں مَلتے ہوئے اُٹھ بیٹھا۔ وہ واقعی خوف زدہ تھا۔ اسے نیند سے بے دا رہوتا دیکھ کرڈری سہمی ماں نے ایک جھر جھری لی ،پھر کچھ توقف کے بعد ایک بڑی چادر چہرے پر ڈال کر منہ ڈھانپ لیا۔ اب وہ خوف کے سائے میں بیرونی دروازے کی طرف قدم بڑھانے لگی۔
”اماں! نہیں، اماں… آپ نہیں جائیں گی،میں دیکھتا ہوں ۔” حسب ِ معمول آج پھر آٹھ سالہ مامون اپنی ماں کو باہر جانے سے روک رہا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ اب کیا ہونے والا ہے مگر ماں بھلا کیسے رکتی وہ اپنے بیٹے کو خطرے میں نہیں ڈال سکتی تھی سو خود ہی دروازے کی طرف چل دی۔ ویسے بھی آج اسرار صاحب کچھ زیادہ ہی غصے میں تھے۔ مسلسل غلیظ گالیاں اور طعنے دینے کے ساتھ ساتھ وہ دروازے پر لاتوں اور مکوں کے وار بھی کیے جارہے تھے۔
ماں کو باہرجا تا دیکھ کرننھے مامون نے چارپائی سے چھلانگ لگائی اور تیزی سے دروازے کی طرف لپکا۔ وہ گھر کے صحن میں ہی چارپائی پر بیٹھا ہوم ورک کرنے میں مصرو ف تھا کہ نیند نے اسے اپنی آغوش میں لے لیا تھا۔ اس سے چھوٹی تین سالہ مائرہ آس پاس کے ماحول سے بے نیاز قریب کھڑی انگوٹھا چوسنے میں مصروف تھی۔ اب وہ دروازے کی طرف بڑھ رہاتھا۔
”اماں! آپ چلیے واپس…” سیانے مامون نے اپنی ماں کو حکم جاری کیا۔ دروازے پرجارحانہ دستک جاری تھی، وہ دوڑتا ہوا گھر کی دہلیز پار کرکے باہر نکل گیا۔ حسبِ سابق اسرار انکل کو غضب ناک حالت میں دیکھ کرمامون ذرا سہم گیا۔ اُسے علم تھاکہ آج بھی اسرار انکل اس کے ساتھ کوئی اچھا سلوک نہیں کرنے والے …اسے یقین تھا کہ انکل آج بھی اُسے اور اُس کی ماں کو جلی کٹی سُنائیںگے اور پھروہی ہوا…جس کا پہلے سے یقین تھا۔ اسرار صاحب برسے اور خوب ہی برسے… مامون بے چارا سر جُھکائے سب برداشت کرتا رہا۔
”انکل! وہ …ایک دو دن تک نا…” اس کی بات درمیان سے اُچک لی گئی ۔
”کیا مطلب ایک دو دن …؟ بے وقوف سمجھ رکھا ہے ہمیں؟ اپنی ماں کو باہر نکالو،تم لوگوں کے پاس کرائے کے پیسے نہیں تو یہ گھر جلدی سے خالی کردو ۔اب اس سے زیادہ میں برداشت نہیں کر سکتا۔ بہت ہوگئی، تین تین ماہ کا کرایہ سر چڑھا رکھا ہے۔” اسرار صاحب کے منہ سے کف اُڑ رہی تھی۔ دروازے کے دائیں پٹ کی اوٹ لیے فرخندہ پریشانی کے عالم میں تھوک نگل رہی تھی۔ وہ باپردہ خاتون تھی۔ اپنی بے بسی پر کڑوے گھونٹ پی کر دروازے کے پیچھے سے بول ہی پڑی:
”بھائی صاحب! بس جلد ہی آپ تک کرائے کے پیسے پہنچ جائیں گے ۔”
”خاک پہنچ جائیں گے۔ یہ تم لوگوں کا ہر مہینے کا معمول ہے۔ تمہاری وجہ سے مجھے اچھا خاصا ذلیل ہونا پڑتا ہے۔ کمینگی کی کوئی حد ہوتی ہے۔ نہ جانے بھوکے ننگے سارے لوگ ہمارے پلے ہی کیوں پڑتے ہیں۔” اسرارصاحب گالیوں کی بوچھاڑ کے ذریعے اپنے دل کی بھڑاس نکال رہے تھے۔ دروازے کی اوٹ میں اب خاموشی تھی پھر رفتہ رفتہ وہاں سے سسکیوں کی آواز آنے لگی ۔جاتے جاتے اسرار صاحب نے وہ غلیظ زبان استعمال کی کہ شریف آدمی سنتے ہی زمین میں گڑ جائے ۔
آٹھ سالہ مامون آنکھوں میں، غصہ اور بے بسی لیے اسرار احمد کو جاتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ قدرے توقف کے بعد سہما ہوا مامون ماں کے پاس چلا آیا۔ اس نے اپنے آپ کو بے بس محسوس کیا کہ اپنی اور اپنی ماں کی سرعام بے عزتی پر صرف مٹھیاں بھینچ کررہ گیا تھا۔ ننھی آنکھوں کے گوشے پُرنم تھے۔
”اماں! اسرار انکل ہم سے روزانہ پیسے کیوں مانگنے آتے ہیں کیا ہمارے پاس ان کو دینے کے لیے پیسے نہیں ہیں؟” آخر مامون نے معصومیت بھرے لہجے میں اپنی ماں سے پوچھ ہی لیا۔ ماں نے ایک سرد آہ بھرکر سات ماہ کی گڑیا رانی کو چار پائی سے اٹھایا اورجواب دیے بغیر آنکھوں میں آنسو لیے کمرے میںچلی گئی۔
ننھا مامون یہ منظردیکھ کر ایک بار پھر افسردہ ہوگیا۔
”اماں مجھے دودھ پینا ہے۔” تین سالہ مائرہ اپنی توتلی زبان میں بار بار رٹ لگائے جارہی تھی، چٹاخ کی آواز سے ایک تھپڑ مائرہ کا گال سرخ کرگیا۔
”مائرہ! اپنی زبان بند رکھ… دیکھ نہیں رہی کہ اماں پریشان ہیں، ہمارے پاس دودھ کے پیسے نہیں۔ اماں نے تمہیں کتنی باربولا ہے کہ ابا دودھ لینے گئے ہیں ۔”مامون نے روتی چیختی مائرہ کو غصیلی نظروں سے دیکھااور پھر خودبھی رودیا۔
”مگر ابا کو گئے ہوئے تو بہت دیر ہوچکی ہے وہ واپس کیوں نہیںآرہے؟” ننھی مائرہ قمیص کے دامن سے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے منہ میں بڑبڑارہی تھی۔ تب مامون نے ہچکیاں لیتی مائرہ کو آگے بڑھ کر گلے لگا لیا اور اس کے آنسو صاف کرنے لگا۔
٭…٭…٭
اعظم صاحب کو فوت ہوئے ابھی چند ماہ ہوئے تھے۔ مامون، مائرہ اور چھے ماہ کی گڑیا رانی اپنی اماں کے ساتھ کرائے کے مکان میں رہ رہے تھے۔ تیس سالہ فرخندہ نے کبھی تصور میں بھی نہیں سوچا تھا کہ زندگی اس قدر کٹھن ہوجائے گی۔ وہ چار بہنو ں اور دو بھائیوں میں سب سے چھوٹی تھی ۔ شادی کے بعد باقی بہن بھائیوں سے قدرے خوش حال بھی لیکن قدرت کے کھیل بھی نرالے ہیں ۔ فرخندہ سے پیار کرنے والا باوفاشوہر ایک دن دفتر سے آتے ہوئے ٹریفک حادثے کا شکار ہوگیا ۔مکان بھی کرائے کا تھا اور دوسرے اخراجات بھی منہ کھولے کھڑے تھے۔ تب ہی حالات نے بہت تیزی سے ایسا پلٹا کھایا کہ گھر کا خرچ چلانا بھی فرخندہ کے لیے مشکل ہوگیا۔
ادھر بچے جب باپ کی شفقت سے محروم ہوئے تو روز انہیں زندگی ایک نیا روپ دکھا رہی تھی۔ مامون تو بہت جلد سمجھ دار ہو گیا۔ ادھرمائرہ اپنے ننھے دماغ میں سوچتی رہتی کہ ان کے پاس جونی، عبیرہ اور نائلہ کی طرح نئی نئی چیزیں، آئس کریم اور کھلونے کیوں نہیں ہیں، لیکن مامون اب ان باتوں کو بھو لتا جا رہاتھا۔ حالا ت نے چھوٹی عمر ہی میں اس کی سو چوں کادھا را بدل ڈالا تھا۔ اب وہ، بجلی کا بل، مکان کا کرایہ، گھر کا راشن اور اسی طرح کے دوسرے الفاظ سے آشنا ہوچکا تھا، لیکن ایک بات اس کے ننھے دماغ میںگردش کرتی رہتی۔ ابا کے بعد اماں تو اکثر روتی رہتی ہیں مجھے ایسا کیا کرنا چاہیے کہ میں اماں کو چپ کرا سکوں۔ یہی سوال اسے تنگ کرتا رہتا تھا۔وہ اکثر اسی طرح کی باتوں میں اُلجھا رہتا۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});