”میرا بیٹا ماشاء اللہ بہت خوبصورت ہے۔”
”جی جی ماشا اللہ۔”
اُن کے پانچویں بار دہرانے پرمیرا جواب بھی مختلف نہ تھا۔ ”وہ بڑا ہوکر آرمی آفیسر بنے گا۔ کہتا ہے ملک سے تمام دہشت گردوں کا خاتمہ کردوں گا اور اماں تمہیں سلیوٹ کیا کروں گا ہر صبح یہی بس خواہش ہے۔”
”اچھی بات ہے اماں جی۔” میں نے پھیکی مسکراہٹ سے جواب دے کر اپنی بیٹی زروا کو ایک بازو سے دوسرے پر منتقل کیا۔
”میرا چاند” اب اماں خود کلامی کررہی تھیں۔
میں اس وقت شہر کے مشہور چائلڈ اسپیشلسٹ کے کلینک میں موجود تھی اور اپنی بیٹی کے چیک اپ کاانتظار کررہی تھی۔ پچھتر نمبر ٹوکن ملا تھا جب کہ چونتیسواں نمبر چیک اپ کروانے میں مصروف تھا۔ خاصے معروف ڈاکٹر تھے۔ ویٹنگ روم میں خوبصورت کرسیوں کی قطاریں اور لوگوں کا ہجوم شدید سردی میں ہر بچہ ہی متاثر تھا۔ سامنے اسکرین پر بچوں کے پسندیدہ کارٹون ٹام اینڈ جیری چل رہے تھے اور میرے ساتھ بیٹھی خاتون بے حد باتونی تھیں اُن کا نمبر چھہتر تھا۔ اپنے بیٹے کے چیک اپ کے لیے آئی تھیں جو ایک طرف بنے پلے ایریا میں کھیلنے میں مصروف تھا۔ زروا مجھے شدید پریشان کررہی تھی۔ بخار اور سردی کی وجہ سے بے تحاشا چڑچڑی ہوگئی تھی۔ مجھے دو منٹ کھڑے اور دو منٹ اُس کی فرمائش پر بیٹھنا پڑ رہا تھا جس سے بے انتہا کوفت محسوس ہورہی تھی لیکن گیارہ ماہ کی بیمار بچی سے میں ایسی توقع ہی رکھ سکتی ہوں۔
”سات سال کا ہوجائے گا اگلے ماہ میرا ایشان۔” جیسے ہی میں بیٹھی اماں جی کا ایشان نامہ پھر سے شروع ہوگیا۔ ”یہ دیکھو پچھلے سال ٹرافی جیتی ہے اس نے اپنے اسکول میں سب سے بہترین مقرر کی۔” آئی فون پر اگلی تصویر میری نظر کے سامنے کرتے انہوں نے کہا۔
اب کے میں نے قدرے غور سے دیکھا سات سال کا گول مٹول سا بچہ جو کہ بے حد چمک دار آنکھوں کے ساتھ اپنے اساتذہ کے ہمراہ ٹرافی لیے کھڑا ہے۔
”بہت شان دار اللہ اُسے اور کامیابیاں دے۔” میں نے اماں جی کا جوش اور ولولہ دیکھ کر دل سے دعا کی۔
”تمہیں پتا ہے ایک بار بچپن میں۔” میری دلچسپی دیکھتے ہوئے وہ ایشان کا کوئی بچپن کا غیر اہم واقعہ لے کر بیٹھی گئیں صد شکر مجھے اپنے خاوند آتے دیکھائی دیے میں زروا کو انہیں دے کر ریلیکس ہوکر زنانہ انتظار گاہ میں پھر سے جا بیٹھی۔
اماں جی نے مجھے دوبارہ آتے دیکھا، تو خوشی سے اُن کی باچھیں کھل گئیں۔ سائیڈ اسکرین پر باسٹھ نمبر روشن تھا۔ بس کچھ دیر اور…
”میرے ایشان کو دال چاول بہت پسند ہیں۔ اُس کے فیورٹ کھیل فٹ بال اور والی بال ہیں۔” ایشان کا ہیئر اسٹائل اُس کا لباس اور وہ کتنا صفائی پسند ہے۔ اس کے آئیڈیل راحیل شریف ہیں، ایوب خان کے دور کی فوجی موویز دیکھتا ہے۔ اُس کی اصول پسند طبیعت۔ اُس کا نرم مزاج۔” یہ ماں تو اپنے بیٹے کی دیوانی لگتی تھی۔
”میرے ایشان نے اُس روز مجھے کہا تھا اماں دعا کرنا میرا ٹیسٹ ٹھیک ہوجائے۔ اگر ٹیسٹ میں مارکس کم آئے تو میرا فلو اور زکام جس کی وجہ سے میں اچھی تیاری نہیں کرسکا شاید کبھی ختم نہ ہو۔” اسکرین پر چوہتر نمبر کی بپ ہوئی۔
”اوہ اچھا اماں جی آپ کے بیٹے کو فلو اور زکام ہے۔ اللہ بہتر کرے نظر نہیں آرہا ہے کہاں ہے وہ؟”
میں نے سوالیہ نظروں سے اُن کی طرف دیکھا مجھے حیرت بھی ہوئی کہ اتنا پیار جتا رہی ہیں اور بیٹے کو کھیلنے کے لیے پلے ایریا میں بھیجا ہوا ہے بہ جائے اپنے پاس بٹھانے کے۔ میں نے ایک نظر دور کھیلتے بچوں کو دیکھا۔ اماں جی کے کچھ کہنے سے پہلے میڈیکل اٹینڈنٹ نے زروا کے نام اور نمبر کی بپ بجا دی۔ میں جلدی سے شیشے کے دوسرے پار کمرے میں چلی آئی جہاں ڈاکٹر صاحب نے ہر مریض کی طرح مجھے بھی تسلی دیتے ہوئے دواؤں کا پلندہ تھما دیا۔
امید کا دامن پکڑے اپنی بیمار بیٹی کو لیے جب میں باہر آئی تو اماں جی اور میڈیکل اٹینڈنٹ کے درمیان بحث چل رہی تھی۔ میرے خاوند میڈیکل کارنر سے دوائیں لے رہے تھے۔ میں زروا کو اُٹھائے چپکے سے وہاں چلی آئی۔
”اماں جی کیوں اپنا اور ہمارا ٹائم ضائع کررہی ہیں۔ بُلائیں آپ کا بیٹا ہے کہاں؟ بیٹا اُس نے فون پر کہا تھا اُسے فلو ہے۔ ٹیسٹ تھا اُس کا مگر لوگ کہتے ہیں سولہ دسمبر کو تمہارا بیٹا شہید ہوگیا تھا۔”
میرے دل پر ایک دھچکا سا لگا اور میں پچھلی کہانی پر ہکا بکا سی رہ گئی۔ اُسی لمحے میرے شوہر نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اپنی طرف متوجہ کیا اور میں اُن سے مزید کچھ کہے سنے بغیر بوجھل قدموں سے باہر کی جانب چل دی۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});