وہ درد جو میں نے کل محسوس کیا…وہ پاکستان میں روز کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی خاندان محسوس کرتا ہے۔
وہ ننھی سی چڑیا…ہمارے صحن کے اک کونے میں بیٹھی تھی… سہمی سی… مجھے لگا کہ شاید وہ ویسے ہی بیٹھی ہے…میں پاس جائوں گی تو اُڑ جائے گی… میرے پاس جانے پر وہ کونے میں سمٹ گئی… ڈر تو مجھے بھی لگتا تھا۔ پر مجھے اس کی مدد کرنا تھی۔ میں نے ڈرتے ڈرتے پانی کا پیالا اُٹھایا اور اس کے آگے رکھ دیا۔ پانی اس کی چونچ سے لگایا تو وہ پینے لگی۔شاید اسے بھی امید ہو گئی ہو گی۔ اس کے پروں کے نیچے مجھے زخم نظر آیا میں ٹیوب اٹھا لائی…تبھی پاپا آئے اور مجھے ڈانٹ دیااور پھر اُسے دیوار پہ بٹھا دیا، انار کے درخت کے نیچے۔میں مطمئن ہو گئی تھی کہ اس کے ساتھی اسے دیکھ کر لے جائیں گے پھر بھی اک کپڑا رکھ دیا تھا میں نے تا کہ مکھیاں نہ لگیں اس کے زخم پہ…میں اندر کسی کام سے گئی اور باہر نکل کر دیوار کی طرف دیکھا تو وہاں چڑیا نہیں تھی…وہ دیوار سے نیچے گری پڑی تھی…اور شاید مر چکی تھی۔میں نے پہلی بار کسی کو ایسے مرتے دیکھا تھا کسی جان دار کو ….میں اسے اُٹھا کر باہر بھی نہیں پھینک سکی…پاپا اسے اُٹھا کر باہر رکھ آئے تھے…اتنا آسان ہوتا ہے کیا مرنا؟…اس جیسی اور چڑیاں ابھی بھی انار کے درخت پہ بیٹھی ہیں …پر وہ نہیں ہے۔
وہ چھوٹا سا اک بچہ…ہا سپٹل کے بیڈ پہ لیٹا ہوا…ایسا لگ رہا تھا جیسے سویا ہوا ہو…پر وہ تکلیف میں تھا… اسے اور اس جیسے اور بچوں کو کوئی نامعلوم گولی لگی تھی۔ آرمی والے پہنچ گئے تھے…اسے ایمبولینس میں ڈال کر ہسپتال لے جایا گیا …
اسے زندگی ملی تھی..پر موت کا ڈر باقی تھا…ماں تڑپ رہی تھی اُمید اور خوف کی کیفیت میں … ہاسپٹل میں اپنے بچے کو دیکھ کر…اسے تسلی ہوئی …وہ باہر آئی اور شکر ادا کرنے لگی… اچانک اس کے بچے کی حالت دوبارہ خراب ہونے لگی…وہ اندر گئی… بچہ مر چکا تھا…اس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ جنازہ جاتے دیکھتی…وہ سکتے کی کیفیت میں بیٹھی رہی…باپ اپنے ہاتھوں سے بچے کو قبر میں اتار آیا تھا…اس جیسے اور بچے اب بھی گلیوں میں کھیلتے ہیں …پر وہ نہیں ہے۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});