یہ راہ مشکل نہیں — عائشہ احمد

اﷲ پاک نے دنیا کو ایسے ہی نہیں بنایابابا، آدم کو بنانے کے بعد اماں حوا کو پسلی سے پیدا کرنا کوئی معمولی بات نہیں اور پھر ابلیس کا سجدے سے انکار کرنے میں بھی اس ربِ کائنات کی کوئی مصلحت چھپی تھی۔ آدم اور حو ا کو زمین پر بھیجنا بھی بے وجہ نہیں تھا۔ آدم اور حوا کو نیکی اور برائی کا راستہ بتا کر انہیں دنیا میںجینے کا طریقہ اور ساتھ ہی حلال اور حرام کا فرق بھی سمجھا دیا گیا تھا۔
٭…٭…٭
کومل کی طبیعت سنبھلنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ تنویر ہر جگہ اس کو لے کر گیا لیکن ڈاکٹر ز کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ بیماری کیا ہے۔ کومل مشہور بزنس مین تنویر کی اکلوتی بیٹی ہے۔ اس لیے تنویر کی جان اس میں تھی۔ ایک دن اس نے گردے میں درد کی شکایت کی۔ ڈاکٹرز نے وہ عام سا درد بتایا لیکن اس کے بعد کومل کی طبیعت ٹھیک نہیں ہوئی۔
وہ ملک کے ہر بڑے ڈاکٹر کے پاس گیا لیکن کوئی بھی اس کی بیٹی کا علاج نہیں کر پایا۔ اس وقت بھی وہ ایمرجنسی وارڈ میں تھی۔ اسے سانس لینے میں دشواری ہورہی تھی۔ ڈاکٹر نے اسے مصنوعی سانس کی نالی لگائی ہوئی تھی۔ شیشے کے پار وہ اپنی بیٹی کو زندگی اور موت کی کشمکش میں دیکھ رہا تھا لیکن بے بس تھا۔ بیٹی کے لیے چاہ کر بھی کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ جب اس کی بیوی فوت ہوئی تب کومل دس سال کی تھی لیکن بیٹی کی خاطر اس نے دوسری شادی نہیں کی۔ حالاں کہ کئی خوب صورت لڑکیاں اس سے شادی کی خواہش مند تھیں مگر اس نے سب پر کو مل کو ترجیح دی۔ اب کومل کی بیماری نے اسے پریشان کر کے رکھ دیا تھا۔ کوئی ایسا اسپتال نہیں تھا جہاں وہ اسے نہ لے کر گیا ہو لیکن ڈاکٹرز اس کی بیماری سمجھ نہیں پارہے تھے۔ وہ پیسہ پانی کی طرح بہا رہا تھا لیکن کوئی افاقہ نہیں ہوا۔ اس کے دوست نے اسے امریکا جانے کا مشورہ دیا۔ وہ کومل کو لے کر امریکا بھی گیا لیکن اُس کی حالت جوں کی توں تھی۔
”پاپا جانی کیا میں مر جائوں گی؟” کومل کے اس سوال پر وہ تڑپ کر رہ جاتا۔
”نہیں پاپا کی جان…! ایسا کچھ نہیں ہوگا۔” وہ اسے تسلی دیتا لیکن حقیقت میں یہ ایک فریب تھا جو نہ صرف وہ کومل بلکہ خود کو بھی دے رہا تھا۔
٭…٭…٭
تنویر کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو مٹی کو بھی ہاتھ لگائیں تو سونا بن جائے۔ اس نے اپنے کام کا آغاز ایک چھوٹی سی کیمیکل فیکٹری سے کیا تھا اور آج اس کا کاروبار نہ صرف پورے ملک میں پھیلا تھابلکہ غیر ملکی سطح پر بھی اس کا نام تھا اور حکومتی سطح پر ملنے والے ٹھیکے بھی تنویر کیمیکلز گروپ آف کمپنیز کو ملتے جس کے لیے تنویر ہر جائز اور ناجائز ہتھکنڈے استعمال کرتا۔ رشوت بھی دیتا اوریوں وہ ہر کنٹریکٹ حاصل کر لیتا۔ اس بات پر اس کی اپنی بیوی سے لڑائی رہتی۔ وہ ہمیشہ اسے کہتی کہ اتنی دولت کیا کرنی ہے، ایک ہی تو بیٹی ہے ہماری لیکن تنویر پر ایک ہی دھن سوار تھی۔ اس کی بیوی کینسر میں مبتلا ہوکر اس دنیا سے چلی گئی لیکن تنویر نے پھر بھی ہوش کے ناخن نہ لیے۔
٭…٭…٭
کومل کی بیماری روز بہ روز بڑھتی جا رہی تھی اور تنویر کو کوئی راہ سجھائی نہیں دے رہی تھی اس کے ایک دوست نے اسے ایک بزرگ کا پتا بتایا اور کہا کہ اس کے پاس چلے جائو، اس کی دعا میں شفا ہے۔تنویر کومل کو ساتھ لیے اس بزرگ کے پاس پہنچ گیا۔ انہوں نے کومل کو دیکھا جو سوکھ کر کانٹا ہوگئی تھی۔بزرگ کافی دیر کومل کو دیکھتے رہے تنویر کے چہرے پر بے چینی نمایاں تھی۔ اسے یقین تھا کہ اس بزرگ کی دعا سے کومل ٹھیک ہو جائے گی۔
”بابا جی میری بیٹی ٹھیک ہو جائے گی نا؟ سنا ہے آپ کی دعائوں میں بڑا اثر ہے۔” تنویر بے تابی سے بولا۔بزرگ نے اسے غور سے دیکھا، ان کے چہرے پر دھیمی سی مسکراہٹ رینگ گئی۔
”بابا جی! آپ میری بات کا جواب دینے کے بجائے مسکرا رہے ہیں۔” تنویر مایوسی سے بولا تو بزرگ اسے چند لمحے دیکھتے رہے پھر بولے:
”میں اس لیے مسکرایا ہوں کہ انسان دوسرے انسانوں پر کتنا یقین رکھتا ہے، لیکن جو ذات اسے دنیا میں لانے کا وسیلہ بنتی ہے،اسے دنیا کی ہر آسائش مہیا کرتی ہے اس پر کبھی اعتبار نہیں کرتا، اس سے مدد نہیں مانگتا۔ اس سے دعا اور شفا کی امید نہیں رکھتا۔” بابا جی کومل کی طرف دیکھتے ہوئے بولے۔
”ماں، باپ کے کیے کی سزا ہمیشہ اولاد کو ملتی ہے لیکن ماںباپ کو اس بات کااحساس نہیں ہوتا۔” وہ تو بس دنیا کی دوڑ میں لگے ہوتے ہیں۔بابا جی بغیر رکے بولے۔
”لیکن بابا جی میں نے کبھی کچھ ایسا غلط نہیں کیا۔ کبھی کسی کو دکھ نہیں دیا۔ہمیشہ دوسروں کا خیال رکھتا ہوں۔ صدقہ خیرات تو بہت زیادہ کرتا ہوں۔” پھر میرے اوپر ایسی مصیبت کیوں آئی؟ پہلے بیوی چھوڑ کر چلی گئی اور اب بیٹی کو لمحہ لمحہ موت کی طرف بڑھتا دیکھ رہا ہوں۔” تنویر رو دیا تھا۔
”حرام کھانا چھوڑ دے ،تیرے سارے مسئلے حل ہوجائیں گے۔” بزرگ نے کہا تو تنویر کے ساتھ کومل بھی چونک گئی۔ تنویر پھٹی پھٹی نظروں سے بزرگ کی طرف دیکھ رہا تھا جیسے انہوں نے کوئی بم پھوڑ دیا ہو۔
”بابا جی…”تنویر تھوک نگلتے ہوئے بولا۔
”جس بدن میں حرام مال کی آمیزش ہو جائے اس کی دعا قبول نہیں ہوتی بیٹا، پھر چاہے جتنا مرضی صدقہ خیرات کر لے،جتنا مرضی اﷲ کی راہ میں خرچ کرلے لیکن وہ قبول نہیں ہوتا میرے بچے۔” بزرگ نے گہری سانس لیتے ہوئے کہا۔ تنویر نظریں نیچی کیے یہ سب سُن رہا تھا۔ وہ بزرگ سے نظریں نہیں ملا پا رہا تھا۔ کومل بھی دبی دبی آواز میں رو رہی تھی۔
”یہ دنیا انسان کے لیے ایک امتحان گاہ ہے جسے عبو کرنے کے لیے آگ کا دریا پار کرنا پڑتا ہے اور کام یابی اسے ہی ملتی جو اﷲ کے بتائے ہوئے راستے پر چلتا ہے اور اﷲ کے بتائے ہوئے راستوں میں سے ایک راستہ حلا ل ہے۔ یہ راہ مشکل نہیں ہے بیٹا! بس اپنا نفس مارنا پڑتا ہے۔” تنویر نے سر اوپر کیا تو اُس کا چہرہ آنسوئوں سے تر تھا۔

٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

متحیر — لبنیٰ احمد

Read Next

ٹوٹی ہوئی چپل — علینہ ملک

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!