گلانے — صوفیہ بٹ (قسط نمبر ۲)

دوپہر کا وقت تھا اور شدید گرمی کے دن ۔ اس لیے کسٹمرز نہ ہونے کے برابر تھے ۔منیجرآج کل فارغ وقت میں آؤٹ لیٹ پر نہ پایا جاتا تھا ۔ سب فارغ بیٹھے خوش گپیوں میں لگے ہوئے تھے ۔ لڑکیوں کا” بھابی نامہ ” جاری تھا ۔
روحی کو تو خیر ابھی بھابی کا خاص تجربہ حاصل نہ ہو اتھا مگر بھائی نے جو لڑکی پسند کر لی تھی ،اسے دیکھ کر لگتا تھا کہ خوب ہی تجربہ حاصل ہونے والا ہے ۔ ہونے والی بھابی کی فرمائشیں ختم ہی نہ ہوتی تھیں۔ شمسہ کی بھابی ہر ہفتے روٹھ کر میکے چلی جاتی تھی۔
” خوش قسمت ہو تم ، میری بھابی تو میکے بھی نہیں جاتی۔ چند دن تو سکون حاصل ہو ۔ ” عروہ نے پانی کی بوتل منہ سے لگاتے ہوئے شمسہ پر رشک کیا ۔
” ویسے میں نے تو سوچ لیاہے ۔ میں بہت اچھی بھابی بنوں گی۔ ” شمسہ نے دل و جان سے مثالی بھابی بننے کا عہد کیا تو پانی پیتے پیتے عروہ کو اچھو لگا ۔ وہ کھانس بھی رہی تھی اور ہنس بھی رہی تھی۔ اس کی آنکھیں پانی سے بھر گئی تھیں ۔ ولید نے دیکھا ۔ ہنستے ہوئے اس کی آنکھیں پانی سے جو بھرتی تھیں تو وہ بہت دلکش لگنے لگتی تھی۔
اس کا مزاج بھی عجیب تھا ۔ کبھی چڑ چڑے مزاج کی لگتی ، کبھی بے نیاز سی بنی رہتی اور کبھی بہت پرواہ کرنے والی لگتی ۔ کبھی بہت سنجیدہ لگتی ، کبھی ہنس مکھ ۔
” اگر مجھے تمہارے الفاظ پر یقین ہوتا تو اپنی بھابی بنا لیتی تمہیں۔” وہ اپنی آنکھیں صاف کرتے ہوئے شمسہ سے کہہ رہی تھی۔
”کس بھائی کے لیے … وہ جو جیل بیٹھا ہے ۔” روحی نے طنز کیا ۔
”جیل بیٹھا ہے تو کیا ہوا ، باہر بھی تو آئے گا ۔لوٹاہوا پیسا بڑا ہے اس کے پاس ۔ منہ نہیں کھولتا۔”عروہ اس بات پر دب جانے کے بجائے کھلکھلا کر بولی۔
”ہاں … خود باہر آ کر عیش کرے گا اور تمہیں کورٹ کے چکر لگوا لگوا کر خوار کر رہا ہے ۔ ” اس بات پر عروہ کے چہرے کا رنگ بدلا ۔ بھلے روحی طنز کر رہی تھی مگر تھا تو سچ ہی ناں ۔
” کیا کریں …بھائی نام ہی خود غرضی کا ہے۔ ” اچھے خاصے موڈ کو تلخی کا تڑکا لگا ۔
” نہیں … بھائی خود غرض نہیں ہوتے… میرا بھائی…” ولید کے منہ سے بے اختیار نکلا اور پھر ایک دم ہی چپ ہو گیا۔ سب نے حیرت کے ساتھ اسے دیکھا ۔ شاید یہ پہلی بار ہی تھا جب اس بندے نے خود سے گفت گو میں حصہ لیا تھا ۔اور اسے جانے کیا کیا یاد آنے لگا تھا کہ اس کے بعد جو چپ لگی تو پھر نہ ٹوٹی۔
٭٭٭٭٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

نور الحسن نے شاید پہلی بار گُلانے کو غور سے دیکھا تھا ۔
وہ بچی اب بڑی ہو گئی تھی جو خالی نظروں اور سپاٹ چہرے کے ساتھ کیمپ میں موجود ہر بندے کو دیکھا کرتی اور اجتماعی قبر کے پاس بیٹھ کر باتیں کیا کرتی تھی۔ آنسو وہ وہاں ابدی نیند سوئی پوجی کے لیے بہایا کرتی تھی۔
وہ بچی اب بڑی ہو گئی تھی۔ اس پر شباب جو آیا تھا تو نگاہ ٹھہرتی نہ تھی۔ وہ بہت خوب صورت تھی۔ نور الحسن کو اب پتا چلا تھا کہ شاعرمحبوبہ کی تعریف میں غزلیں یونہی نہیں کہہ ڈالتے ۔ یہ محض ان کے تخیل کا کمال نہیں ہوتا۔ یہ حسن و دل کشی واقعی پائی جاتی تھی۔ اسے گُلانے کو دیکھ کر یقین آتا تھا ۔ اس کی نیلی آنکھیں گہری جھیلیں تھیں ۔ اس کے ہونٹ پنکھڑی گلاب کی تھے ، اس کے عارض گلاب تھے ۔ اس کے بال سنہری دھوپ تھے ۔ اس کی چال قیامت تھی ، اس کا سراپا غضب تھا ۔
وہ تین سال سے اس کے گھر میں تھی ، اس کی نگاہ میں تھی مگریوں اپنی اپنی سی دل کے قریب قریب سی اب لگنے لگی تھی او ر لوگ جانے کیا سمجھتے تھے ۔
”مجھے پہلے ہی پتا تھا ، وہ تمہیں اپنی خوب صورتی سے اپنی طرف مائل کر لے گی۔ ” شاہانہ نے کہا۔
”حسن پر حُسن کا جادو چل گیا ۔” امی اسے چھیڑ رہی تھیں ۔
” مجھے تو پہلے ہی پتا تھا ، جولڑکی کی کہانی ہمیں سنائی جا رہی ہے ، اس سے زیادہ یہ دل کا معاملہ ہے ۔ لڑکی کم عمر ہو اور حسین ہو تو کون مرد نہیں بہکتا ۔” خالہ کی طنز بھری باتیں سن کر بھی وہ مسکراتا رہا تھا ۔
وہ انہیں یہ نہیں سمجھا پایا تھا کہ گُلانے اتنی خوب صورت نہ بھی ہوتی تب بھی دل کا رشتہ جڑ جانے کے بعد نو ر الحسن کو وہ اپنی اپنی سی لگتی کیوں کہ وہ صورت سے زیادہ سیرت کا دل دادہ تھا ۔ وہ حُسن کو پتا نہیں کس نمبر پر رکھتا تھا ، پہلے نمبر پر تو کم سے کم نہیں ۔ پہلے درجوں پہ کردار ، وفا ، اور سچائی جیسے اوصاف تھے۔اور اسے یقین تھا کہ گُلانے کی مٹی میںیہ سب صفات گوندھی ہوئی ہیں ۔ حُسن تو ظاہری سی شے تھا ، سب اس کے دل دادہ تھے ، وہ بھی حسن کو سراہتا تھا مگر اس کے لیے قیمتی گُلانے کی باطنی و مخفی خوبیاں تھیں ۔
٭…٭…٭
”سر ! کیا آپ حبہ نظیر کا کیس چیمبر میں ہی چلا سکتے ہیں؟ وہ ایک حسا س لڑکی ہے ، ہو سکتا ہے کورٹ روم میں گبھراجائے یا بول نہ پائے ؟” قرة العین حبہ نظیر کے کیس کے حوالے سے ا س سے درخواست کی تو اس نے اجازت دے دی ۔
سماعت اس کے چیمبر میں ہی چلی تھی۔ حبہ نظیر بہت خوف زدہ تھی ۔ صحیح طور پر اپنے بچاؤ کے لیے کچھ بول بھی نہ پا رہی تھی مگر قرةالعین نے بہت اچھے انداز میں اپنی مؤکل کا دفاع کیا۔ وہ متاثر ہوا تھا۔ سماعت کے بعد اس نے قرة العین کی تعریف بھی کی جس سے اس کا چہرہ کھل اٹھا تھا ۔
”اپنے پروفیشن کے ساتھ مخلص ہونا بہت ضروری ہے ۔ تب ہی انسان کامیابی پاتا ہے اور عزت بھی۔ ”اس نے مس غنی کی تعریف بھی ان الفاظ میں کی تھی۔
” میں مانتی ہوں کہ پروفیشن کے ساتھ مخلص ہونا ضروری ہے مگرمخلص دوستوں کے ساتھ پروفیشنل ہونا بھی ضروری ہے کیا ؟”اس نے حبہ نظیر کیس کی فائل سے سر اٹھا کرسوال کیا جسے وہ سمجھ تو گیا مگر جواب دینا ضروری نہ جانا ۔ قرةالعین غنی کی آنکھوں کے سامنے پھر بہت سے سوالیہ نشان ناچنے لگے تھے ۔
”کیا اس بے درد کو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ کسی کے ساتھ اٹھتی بیٹھتی ہے ، کس کے ساتھ گھومتی ہے ۔ کیا واقعی اس کی ذات ،اس کے جذبات ، اس کا وجود اس شخص کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا ۔ کیا واقعی وہ یک طرفہ جذبے کے سہارے آگے بڑھ رہی تھی؟
”منیب نے مجھے پرپوز کیا ہے ؟” اس نے تو اپنی طرف سے دھماکا کرنے کی کوشش کی تھی مگر دوسری طرف چہرہ ویسا ہی سپاٹ تھا جیسا اس خبر کے دیے جانے سے پہلے تھا ۔
”آپ کا اس کے بارے میں کیا خیال ہے ؟” اس کی خاموشی پر قرةالعین نے خود ہی پوچھا۔
”ہوں … اچھا لڑکا ہے ۔”وہ ایسے ظاہر کر رہا تھا جیسے نیچے پڑی فائل سے زیادہ اہم اس کے لیے اس وقت دنیا کی کوئی چیز نہیں۔
”کیا ؟” ”اس دن… اس دن تو آ پ کہہ ر ہے تھے کہ اس سے دو ر رہا کرو ، وہ میرا بھی فیوچر خراب کرے گا ۔”اسے جھٹکا لگا۔
”میں نے یہ نہیں کہا تھا کہ وہ اچھا نہیں ہے ، میں نے کہا تھا کہ وہ ایک غیر سنجیدہ وکیل ہے ۔ اور پروفیشنل لائف میں غیر سنجیدگی میں پسند نہیں کرتا ۔ غیر سنجیدہ وکیل اچھا پارٹنر ثابت نہ ہو ، ایسا تو کہیں بھی نہیں لکھا ۔ بلکہ لڑکیاں تو پسند ہی ایسے لڑکوں کو کرتی ہیں ۔”وہ تقریری انداز میں اپنی بات کررہا تھا۔
”لڑکیاں تو سنجیدہ لوگوں کو بھی پسند کرتی ہیں ۔” اس کا لہجہ ذو معنی تھا ۔
”اگر وہ ایسا کرتی ہیں تو بعد میں پچھتاتی ہیں ۔”
”واقعی! پچھتا تو میں بھی رہی ہوں ۔ کس سنگ دل سے دل لگا بیٹھی ہوں۔ ” قر ة العین نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے سوچا ۔
٭…٭…٭
سردیوں کی آمد آمد تھی۔ دن معتدل اور راتیں خنک ہونے لگی تھیں ۔ وہ ثانیہ بھا بی کے ساتھ بازار سے سفید اور سر خ ر نگ کی اون خر ید لائی تھی۔
‘ ‘ تمہیں نٹنگ آتی ہے ؟” ثانیہ بھابی نے حیران ہو کر پوچھا تو اس نے اثبات میں سر ہلایا ۔
جس علاقے میں وہ پلی بڑھی تھی وہاں سردی کی شدت یہاں کی نسبت بہت زیادہ ہوتی تھی اور ریڈی میڈ کپڑوں کا رواج بابا کے ہاں تو تھا مگر پوجی کے گھر نہیں ۔ ماں کی صورت تو اس لیے یاد تھی کہ تصویر دیکھ رکھی تھی ۔ کئی شوق پورے کیے بغیر چلی گئی تھیں وہ ۔ وہاں کون چاؤ سے اس کے لیے فراکیں بناتا اور سوئیٹر بُنتا۔ بابا سب کچھ ریڈی میڈ لے کر آتے مگر بابا کے جاتے ہی گل زمان کی طرف سے ہر فضول خرچی پر پابندی لگ گئی تھی۔ چاہے اس کو نظر آنے والی فضول خرچی گُلانے اور پوجی کی اشد ضرورت ہی کیوں نہ ہوتی۔ پوجی اپنے لیے اور اس کے لیے خود ہی کپڑوں پر کڑھائی کرتیں ، خود ہی سلائی کرتیں ۔ سوئیٹر بھی اپنے ہاتھ سے بُنتیں کبھی سلائیوں کے ساتھ تو کبھی کروشیہ کے ساتھ ۔ انہوں نے اون سے اس کے لیے فراکیں ، دستانے اور جرابیں تک بنائیں تھیں ۔ اس نے انہی سے سیکھا تھا سار ا ہنر ۔
اون اور سلائیاں لانے کے بعد وہ بہت مصروف نظر آنے لگی تھی ، امی کے پاس بیٹھی پتا نہیں کیا کیا مشورے لیتی رہتی۔ نورالحسن نے ایک دن دیکھا توڈانٹ دیا ۔
”یہ کن کاموں میں پڑ گئی ہو تم گُلانے ؟ سوئیٹر تو ریڈی میڈ بھی مل جائیں گے ۔ تم اپنی اسٹڈیز پر دھیان دو۔ یہ سلائیاں پکڑکر تم اچھا گریڈ نہیں لا سکتیں ۔ اس کے لیے پڑ ھنا پڑ تا ہے ۔”
پڑھتی تو وہ دل جمعی کے ساتھ تھی مگر سوئیٹر بنانا نہیں چھوڑا تھا، بس اتنا ہوا تھا کہ نورالحسن کی آ و از سنتے ہی تیز ی کے ساتھ سلا ئیا ں چھپادیتی۔ ولی کو تو بس کوئی کمزوری ہاتھ آنی چاہیے تھی اس کی ۔ سو آج کل وہ بڑے کام یہ کہہ کر نکلوا لیتا۔
”بھائی کو بتا دوں گاکہ تم پڑھنے کے بجائے اون اور سلائیوں کے ساتھ کھیلتی رہتی ہو ۔”
” بلیک میلر! مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کہ تم کس پر چلے گئے ہو۔” وہ چڑ کر کہتی۔
وہ بڑبڑاتی، اسے کئی باتیں سناتی مگر اس کا کام کرنے پر مجبور ہو جاتی۔اور ولی آج کل یہ لائحہ عمل تیار کر رہا تھا کہ یہ سوئیٹر مکمل ہو نے کے بعد گُلانے کا کون سا ایسا عمل ہو گا جس پر دھمکا کر وہ اپنے کام نکلوا سکے ۔ نور الحسن کی دیوا نی کی کوئی نہ کوئی کمزوری اس کے ہاتھ میں رہنی چاہیے تھی۔
٭…٭…٭
وہ آئینے کے سامنے کھڑی تھی اور اس کے لبوں پر بہت پیاری سی مسکراہٹ تھی۔
وہ جب بھی آئینے میں دیکھتی تھی،اپنا عکس نہیں دیکھتی۔ اس کی نظریں اس چین کو تکتیں ، اس کے ہاتھ اس موتی کو چھوتے ۔ اور جانے کیوں اس کے چہرے پر رنگ بکھر بکھر جاتے ۔ قیمت میں یہ چین معمولی تھی مگراب کوئی اس کی قیمت لگاتا تو نور کی جان سے کم قیمت نہ لگتی۔
ہانیہ کمرے میں داخل ہوئی تو اسے آپ ہی آپ مسکراتے دیکھا ۔یہ کوئی آج کی بات نہ تھی ، اس نے اکثر اسے اس کیفیت میں پایا تھا ۔کبھی کبھی ا سے لگتا تھا کہ یہ لڑ کی پاگل ہے جو خو د ہی با تیں کر تی ہے ، خو د ہی مسکر ا تی ہے ۔ او ر کبھی کبھی و ہ اس کی حسین مسکراہٹ میں کھو جاتی تھی۔ کبھی کبھی وہ اسے ایک معما لگتی ، اسرار لگتی ۔ جانے کیوں وہ عام لڑکیوں جیسی نہیں لگتی تھی۔ کچھ تھا بہت خاص اس میں ۔ایسے ہی تو خزیمہ داؤد بنا دیکھے دل ہا ر نہیں بیٹھا تھا ۔
و ہ دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی اس کے پیچھے جا پہنچی ۔ آئینے میں اس کا عکس دیکھ کر نور چونکی ۔
”میں جب اس آئینے میں دیکھتی ہوں تو مجھے اپنا ہی عکس دکھائی دیتا ہے ۔” وہ غور سے نور کو دیکھتے ہوئے تنگ کر نے لگی۔
”ظاہر ہے ۔ ” وہ نظریں چراتے ہوئے الماری کی طرف بڑھی ۔
”کیا ظاہر ہے ؟” اس نے چھیڑنے والے انداز میں کہا۔
”اپنا ہی عکس دکھائی دے گا ۔”نور بدستور نظریں چراتے ہوئے بولی۔
”مگر مجھے کیوں لگتا ہے کہ تمہیں کوئی اور دکھائی دیتا ہے ۔ ”الماری کا پٹ کھولتے کھولتے وہ وہیں ساکت ہوئی اور پھر مسکرائی ۔
”مجھے بھی اپنا آپ ہی دکھائی دیتا ہے ۔ ”
” اچھا ! ” ‘ ‘ پہلے مجھے گمان تھا کہ یہ کوئی طلسمی آئینہ ہے جس میں ایک شہزادی کو اپنا شہزادہ دکھائی دیتا ہے ۔ مگر قسم لے لو میں جب بھی دیکھتی ہو ں اپنا ہی تلوں سے بھرا منہ دکھائی دیتا ہے ۔ تمہارے پاس کوئی منتر ہے کیا نور ؟” وہ پھر اس کے پیچھے آ کھڑی ہوئی ۔
”کیا بچوں والی باتیں کر رہی ہو ۔” وہ الماری میں جانے کیا ڈھونڈنے لگی تھی۔
”کیا کروں دل تو بچہ ہے جی ۔ ابھی بھی فیری ٹیلز مسمرائز کرتی ہیں ۔ پھر بتاؤ طلسمی آئینے اور اس طلسمی چین کا کیا کنیکشن ہے ۔”وہ آج ٹلنے والی نہیں تھی۔
”سو جاؤ ہانیہ ۔ ”نور نے بات بدلنے کی کوشش کی۔
”یار یہ تو زیادتی ہے ، کہتی مجھے دوست ہو اور دوست ہی سے پرسنلز شیئر نہیں کرتی۔ میرے بارے میں دیکھو ، تمہیںاے ٹو زی سب پتا ہو گا ۔ میں نے کبھی تم سے کچھ سیکرٹ رکھا ۔”ہانیہ نے اسے ”ایموشنل بلیک میل” کرنے کی کوشش کی۔
‘ ‘ میرے پاس بتانے کو کچھ نہیں ہانیہ ۔” وہ افسردگی سے بولی ۔ وہ اپنی اس پیاری سی مخلص دوست کو خفا نہیں کرنا چاہتی تھی مگر جن زخموں کے منہ بڑی مشکل سے سی دیے تھے ، اب وہ ٹانکے اُدھیڑکر کیا ملتا ۔
”بس یہ بتا دو ۔” ہانیہ نے اس کی چین میں انگلی ڈال کر کھینچی۔اس کے چہرے پر پھر اتنے دلکش رنگ بکھرے تھے کہ ہانیہ نظر نہ ہٹا پائی ۔
”نور ! تمہیں کسی سے محبت ہے ؟” رنگوں کی برسات پھر ہوئی ۔ ہانیہ نے دل ہی دل میں اعتراف کیا کہ اگر وہ شخص اس وقت اسے دیکھ لے جس کے لیے یہ رنگ و مسکان ہے تو شاید چار گنا زیادہ اس کی محبت میں مبتلا ہو جائے ۔
”کون ہے وہ ؟”ہانیہ نے سرگوشی کے انداز میں پوچھا۔
”ہے ایک شخص ۔” اس نے اختصار سے کام لیا۔
”خزیمہ داؤد ؟” ا س نے ڈرتے ڈرتے پوچھا ،نور کے چہرے کے تاثرات پل بھر میں تبدیل ہوئے ۔
”ہانیہ ! کتنی بار کہا ہے کہ اس کا نام مت لیا کرو ۔”
” وہ کلاس کا سی آر ہے ،نام تو لینا پڑتا ہے ۔” اس نے ہاتھ اٹھا کر معصومیت سے اپنا بچاؤ کیا ۔
”لو بھلے، مگر مجھے اس نام سے زچ مت کیاکرو۔ مجھے پسند نہیں کہ میرے نام کے ساتھ کسی اور کا نام جڑے ۔ چاہے مذاق میں ہی سہی۔” نور نے قدرے غصے سے کہا۔
”ٹھیک ہے پھر اس بندے کا نام بتا دو جس کی محبت میں مادام مبتلا ہیں تو میں خزیمہ کا نام نہیں لیا کروں گی۔”
نور نے ایک لمحہ کے لیے اسے دیکھا اور پھر نام بتا دیا ۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

سمے کا بندھن — ممتاز مفتی

Read Next

مس ظرافت کا باورچی خانہ — حرا قریشی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!