گلانے — صوفیہ بٹ (قسط نمبر ۲)

کٹہرے میں کھڑی یہ عورت اسے بہت بری لگ رہی تھی۔وہ اسے سزائے موت سنانا چاہتا تھا۔
ہاں سزائے موت! ایک بے وفا عورت کے لیے اس سے کم سزا ہو ہی نہیں سکتی۔
عورت شادی شدہ تھی ، دو بچوں کی ماں تھی ۔ سال پہلے کسی دوسرے مرد کے ساتھ نکاح کر لیا تھا اور آٹھ ماہ قبل پہلا شوہر مردہ حالت میں اپنے گھر پایا گیا تھا ۔ مقدمہ اس کے پہلے شوہر کے بھائی کی طرف سے دائر کیا گیا تھا ۔ جس کا یہ کہنا تھا کہ اس عورت نے اس کے بھائی کو قتل کیا اور اس سے پہلے ہی نکاح پر نکاح کر کے اس نے بڑے جرم کا ارتکاب کیا ہے ۔ جب کہ عورت کا کہنا تھا کہ اس کا پہلا شوہر اسے طلاق دے چکا تھا مگر اس کے پاس تحریری ثبوت نہیں ہے ۔ کیوں کہ طلاق زبانی ہوئی تھی۔
حقیقت جو کچھ بھی تھی، اس عورت پہ دفعہ تین سو دو ہی لگتی تھی۔
بے وفا عورت قاتل ہی تو ہوتی ہے ۔
وکیل صفائی اور وکیل استغاثہ دونوں جر ح کر چکے تھے ۔ اب نگاہیں جج کی طرف تھیں اور جج تھا کہ اپنی ہی کوئی عدالت لگائے بیٹھا تھا ۔
قرة العین پہلو پر پہلو بدل رہی تھی ۔ جب تک اسے ہوش آیا کسی کے چہرے پہ طنزیہ مسکراہٹ ابھری تو کوئی پریشان ہوا۔ ریڈر اور اسٹینو ہونق بنے اسے دیکھ رہے تھے ۔اس نے فیصلہ اگلی پیشی تک ملتوی کر دیا اور چیمبر سے باہر آگیا ۔
آدھے گھنٹے بعد اعتبار احمد اس کے چیمبر آئے تھے ۔ انہیں دورانِ سماعت اس کی ذہنی غیرحاضری کی خبر مل چکی تھی۔
”مجھے لگتا ہے تمہیں کچھ دن آرام کی ضرورت ہے ۔” انہوں نے غور سے اس کا چہرہ دیکھا ۔
”ہوں …مجھے بھی یہی لگتا ہے ۔” اس نے کرسی کی پشت کے ساتھ ٹیک لگا کر تھکے تھکے انداز میں کہا ۔
” مجھے یہ بھی لگتا ہے کہ تمہیں شادی کرلینی چاہیے۔”انہوں نے ایک اور مشورہ دے ڈالا۔
”نہیں …مجھے ایسا نہیں لگتا ۔” وہ ایک دم سیدھا ہوا ۔
” ہم سفر کی ضرورت کسے نہیں ہوتی ۔ اگر کوئی یہ کہتاہے کہ اسے اچھے جیون ساتھی کی ضرورت نہیں تو وہ جھوٹ بولتا ہے ، دوسروں کے ساتھ بھی اور اپنے آپ کے ساتھ بھی۔” اعتبار احمد کے ساتھ اس کے ایسے مراسم تھے کہ وہ انہیں یہ بات کرسکتے۔
”اچھا جیون ساتھی…ہوں ۔” اس نے طنزیہ انداز میں ہنکارا بھرا ۔
” دنیا میں ایک ہی عورت نہیں تھی وہ ، اور بھی ہیں ۔ جو اچھی بھی ہیں ، وفادار بھی ہیں ۔” اعتبار احمد نے اسے سمجھانے کی کوشش میں بارڈر لائن عبور کر لی تھی۔ اس موضوع پر وہ کبھی کسی سے بات نہ کرتا تھا، وہ اپنی کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا ۔
” آپ صحیح کہتے ہیں ۔ مجھے کچھ دن آرام کی ضرورت ہے ۔” کوٹ پہن کر وہ چیمبر سے باہر نکل گیا تھا ۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

زندگی میں پہلی بار ایسا ہوا تھا کہ امی نے پورا ایک دن اور دس گھنٹے اس کے ساتھ کلام نہیں کیا تھا۔ پہلے تو وہ امی کی معصومیت بھری خفگی پر مسکراتا رہا مگر جب پورا ایک دن گزر گیا تو احساس ہوا کہ معاملہ گڑ بڑ ہے ۔وہ امی کے لیے پھول اور سوٹ لے کر آیا تھا اور اب یہ گفٹ چپکے سے ان کے کمرے میں رکھ کر انہیں حیران کر دینے اور پھر مسکرانے پر مجبور کرنے والا تھا ۔ اسے لگا کہ امی کچن میں ہیں ۔ وہ دبے قدموں امی کے کمرے کی طرف آیا اور پھر وہیں رک گیا ۔ اسے گُلانے کی آواز سنائی دی تھی۔
”پوجی ! صبح نو رالحسن نے آپ سے سبزی کا پوچھا ، آپ نے جواب کیوں نہیں دیا ؟” وہ مسکراتا ہوا امی کا جواب سننے کے لیے رک گیا ۔
”میں نے اب ا س سے بات نہیں کرنی ۔ زیادہ بڑا ہو گیا ہے ۔ ماں کے فیصلے غلط لگنے لگے ہیں اسے۔” امی جو گُلانے کے سر میں تیل لگا رہی تھیں، ان کے ہاتھ بھی خفگی کے اظہا ر کے طور پر تیز چلنے لگے۔
”مگر نو ر ا لحسن تو بہت اچھا ہے ۔” نورالحسن کی طرف داری اس پر لازم تھی۔
”خاک اچھا ہے … انکار کر دیا شادی سے ” امی تیزی سے بولیں۔
”کیوں ؟” بے ساختہ اس کے منہ سے نکلا ۔
”وہ کہتا ہے کہ تم اس سے بہت چھوٹی ہو۔” امی اسے نور الحسن سے ہونے والی بات بتا رہی تھی۔
”تو کیا ہوا، وہاں ہمارے وطن میں تو مجھ سے بھی چھوٹی لڑکی کی شادی پچاس ساٹھ سال کے مرد سے ہوجاتی ہے ۔ ” وہ اطمینان سے کہہ رہی تھی۔ امی نے آگے سے کچھ نہیں کہا تھا۔
” پوجی ! نو ر ا لحسن کی عمر بھلا کیا ہو گی؟” اس نے سر گھما کر پوچھا ۔
” چھتیس سال۔”
”لو تو یہ کون سی زیادہ عمر ہے ۔ پوجی ! آپ کے بیٹے کو ویسے ہی مجھ سے شادی نہیں کرنا ، اس لیے وہ بہانہ بنا رہے ہیں ۔”اس کی بات پر نور الحسن بے ساختہ مسکرا دیا ۔
وہ معصوم تھی ، بہت معصوم۔ اس کا دل کثافتوں سے پاک تھا ۔ اس کے دل میں جو ہوتا تھا ، وہی زبان پر ۔ جو بات آج تک شاہانہ اس کی امی تو کیا شاید اپنی امی سے بھی کہہ نہ پائی تھی ، وہ باتیں گُلانے نے معصومیت میں بڑے آرام سے کہہ ڈالی تھیں ۔
مرد کو عورت میں معصومیت پسند ہے ۔ نورالحسن نے بھی رات امی کے کمرے میں جا کر انہیں گلدستہ اور سوٹ پیش کرتے ہوئے وہ جملہ ادا کیا تھا ، جس کے بارے میں آج شام سے پہلے تک اس نے سوچا بھی نہ تھا کہ یہ الفاظ کبھی اس کے منہ سے نکلیں گے ۔
امی پہلے تو مارے حیرت کے اسے دیکھتی رہیں ، پھر اس کا ماتھا چوم لیا۔
٭…٭…٭
اسے کبھی کبھی لگتا تھا کہ وہ دوست دشمن میں تمیز کھونے لگا ہے ۔خلوص کے ساتھ دیے گئے مشورے بھی اسے تازیانہ بن کر لگتے ۔ وہ اپنے مخلص احباب کے ساتھ بھی تلخ ہونے لگا تھا اور ایسا صرف ان کی وجہ سے جنہوں نے پیار سے گلے لگا کر ان کی پیٹھ پر وار کیا تھا۔
گھر آکر اس نے ملازم کے ہاتھ سے پانی کا گلاس تھاما ،جوتے اتارے ، نہ ہی کپڑے تبدیل کیے اور سیدھا الماری کی طرف چلا آیا اور آہستہ سے اسے کھولا ۔
اوپر والے خانے میں سامنے ہی وہ رکھا تھا ۔
”شوکت علی… شوکت علی۔” وہ الماری کے دونوں پٹ تھامے چلایا ۔شوکت علی بھاگتا چلا آیا۔
”ماچس لے کر آؤ ۔”شوکت علی حکم کی تعمیل میں واپس بھاگا ۔
”میں آج اسے جلا ڈالوں گا۔ یہ قصہ تمام ہی کر ڈالوں گا ۔” اس نے گہرے سانس لیتے ہوئے تہیہ کیا ۔ جب کبھی اسے لگتا تھا کہ اس نے ماضی سے پیچھا چھڑا لیا ، تو الماری میں سب سے اوپر والے خانے میں رکھا یہ تحفہ جتاتا تھا کہ ایسا بھلا کب ممکن ہے۔ وہ کبھی اسے نہیں بھول سکتا تھا چاہے وہ بے وفا ہی تھی، دھوکا باز ہی تھی۔
وہ اس تحفے کو آگ لگا دے گا ۔وہ ان کی ہر یاد کو جلا کر بھسم کر ڈالے گا ۔اور نئی زندگی کا آغاز کرے گا، وہ زندگی جس میں ماضی کا کوئی ذکر نہ چلے گا ، گزرے کل کی کوئی بات نہ ہو گی۔اس نے ایک بار پھر مصمم ارادہ کیا جب کہ باورچی خانے میں ماچس کی تلا ش میں اِدھر اُدھر ہاتھ مارتا شوکت علی سوچ رہا تھا کہ سگریٹ تو جج صاحب پیتے نہیں ، پھر یہ ماچس کیوں منگوا رہے ہیں؟؟؟
٭…٭…٭

ڈول و سُرنا راغلہ
دا پے غلو اُرا راغلہ
ولی پختون رقص کرتے ہوئے گُلانے کے گرد اسٹیپس لے رہا تھا اوروہ شرماتے ہوئے پلکیں جھکائے کھڑی تھی۔ اس کے چہرے پر رنگوں کی بہارتھی۔آ ج کل ولی کا کام یہی تھا ۔ وہ چھپتی پھر تی اور ولی اسے ڈھونڈ ڈھونڈ کر تنگ کرتا ۔
”مجھے تو پہلے دن ہی سے شک تھا ۔ امی کو وارن بھی کیا تھا میں نے ۔ مگر وہ تو ”دفع ہو ” کہہ کر مجھے پرے کر دیتی تھیں ۔ دیکھا … دیکھا ”گُلانے کے چہر ے پر ر نگ بکھر بکھر جا تے ۔
نور الحسن شادی کے لیے راضی ہو گیا تھا مگر شرط یہ رکھی تھی کہ اس کا کمیشن کلیئر اور گُلانے کا ایف ایس سی ہو جائے ۔ امی کے لیے یہ ہی کافی تھا کہ وہ مان گیا ۔ اور گُلانے کے لیے یہ بہت کافی تھا کہ وہ مان گیا۔
” نورالحسن کی اور لڑ کی کی عمر و ں میں خا صا فر ق ہے ۔ میرے فدا کے ساتھ پھر بھی جچ جاتی یا ولی کے ساتھ کر دیتے رشتہ، گھر ہی رکھنی تھی لڑکی تو۔ ” خالہ کو لڑ کی سے پہلے ہی خطرے کی بُو آتی تھی۔ قیامت جیسا سراپا لیے پھرتی تھی۔ بڑے سے بڑے مومن کا دل بے ایمان ہو جاتا ۔ اب گیا نور الحسن ہاتھ سے۔ پھر بھی آخری کوشش کرنے میں کیا حرج تھا ۔
”ولی کے لیے تو میں نے سوچا نہیں ۔ ابھی پڑھ رہا ہے ، تعلیم مکمل کر کے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں اسے کافی عرصہ لگے گا ۔ فدا کے لیے پوچھا تھا میں نے ۔ اس کا دل راضی نہ تھا ۔ ” امی اپنی بہن کا موڈ بحال کرنے کی کوشش کر رہی تھیں جو مسکراتی بھی شاید اتوار کے اتوار تھیں ۔
”ہاں بھئی ! سامنے اتنا کماتا کھاتا لڑکا تھا تو دل کیوں راضی ہوتا ایک دکان والے پر ۔اور ولی کے لیے بھی اچھی بات کہی تم نے ۔ لڑکی سے تو بڑا ہی ہے ۔ ہو جاتا چند سالوں میں اپنے پیروں پر کھڑا ۔ لڑکی کون سی دوڑی جا رہی تھی۔ ” یہ وہی بہن تھیں جنہیں ایک غیر لڑکی گھر پر رکھنے پہ سب سے زیادہ اعتراض تھا ۔ امی مسکرا کر خاموش ہو رہیں ۔
”لڑکی تیرے چچا کے گھر میں تیرے لیے دو وقت کی روٹی نہیں تھی کیا ، جو آیا اور پیار دے کر چلا گیا ۔”خالہ کی گُلا نے پر نظر پڑی تو دل کی بھڑاس نکالے بغیر نہ رہ سکیں ۔
”وہ تو ساتھ چلنے کو کہہ رہے تھے مگر میں ہی نہیں گئی ۔” اس نے دھیمی سی آواز میں جواب دیا ۔
”ہاں … بی بی تم کیوں جاؤ گی؟چاچا اور اس کے لڑکے اتنے بے وقوف تھوڑی ہوں گے جتنی بے وقوف میری بہن اور اس کے لڑکے ہیں ۔” خالہ زہر خند لہجے میں بولیں۔
”جی ! ” اسے خالہ کی بات کی گہرائی سمجھ نہ آئی تھی۔
‘ ‘ ترور خبرے پہ زڑہ مہ اخلا، اغوئی دے منہ وادہ کڑے دے نو پا مازغے یے اثر شوُے دے، دے منہ وادہ نقصانات (خالہ کی باتیں دل پر نہ لو ، ان کی لو میرج ہوئی ہے ناں تو دماغ پر اثر ہو گیا ہے ۔ پیار کی شادی کے مضر اثرات )۔” ولی نے جلدی سے کہا تو وہ ہنس دی تھی۔
جب سے ولی کو پشتو بولنا آگئی تھی، وہ اور گُلانے رازداری والی باتیں پشتو میں کرتے تھے جو کسی کے پلے نہ پڑتیں ۔خالہ نے گھور کر دونوں کو دیکھا پھر توجہ دروازے سے داخل ہوتے نور الحسن پہ مبذول کر لی۔
” شاہانہ کی تنخواہ چالیس ہزار ہو گئی ہے ما شاء اللہ ۔ ” وہ خالہ کا حال چال پوچھنے بیٹھا تو انہوں نے گھما کر جال پھینکا کہ شاید بات بن جائے ۔
”ماشاء اللہ ” !امی نے سادگی سے سر ہلایا ۔
”خالہ ! یہ نوکری مناسب نہیں ہے ایک لڑکی کے لیے ۔ روز روز فیلڈ وزٹس ۔ پھر روٹین ایسی کہ پرسنل لائف ڈسٹرب ہو جاتی ہے ۔ ” نورالحسن کے جواب نے خالہ کو جلا کر رکھ دیا ۔
بڑی افسردہ سی ہو کر وہ اس کوچے سے نکلی تھیں ۔ جاتے جاتے کہہ گئیں کہ بات طے ہوجانے کے بعد لڑکا اور لڑکی کا ایک ہی گھر میں رہنا مناسب نہیں ۔ جوان خون ہے کب بہک جائے ، کچھ پتا چلتا ہے ؟ چاہے تو لڑکی کو ان کے ساتھ بھیج دیں ۔ ان کے لیے وہ شاہانہ اور بسمہ جیسی ہی ہے ۔
امی کو آپا کی بات مناسب لگی تھی۔ انہوں نے نور الحسن کے سامنے ان کی یہ پیش کش رکھی۔
”کمال ہے امی …آپ بھی خالہ کی باتوں میں آگئیں ۔ جب میرے اور گُلانے کے بیچ کوئی رشتہ نہیں تھا تب تو آپ کو یہ فکر جچتی تھی ۔ اب تو ہمارے بیچ ایک رشتہ ہے پھر آپ پریشان کیوں ہیں ۔”
امی بیٹے سے کھل کر آپا والی باتیں ڈسکس نہیں کر سکتی تھیں ۔ اس لیے چپ ہو گئیں۔
٭٭٭٭٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

سمے کا بندھن — ممتاز مفتی

Read Next

مس ظرافت کا باورچی خانہ — حرا قریشی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!