گلانے — صوفیہ بٹ (قسط نمبر ۲)

رات کے گیارہ بج رہے تھے ۔ عام طور پر اس گھر کے مکین اس وقت تک سو جاتے تھے سوائے نور الحسن کے ۔ مگر آج تو گُلانے بھی جاگ رہی تھی۔ نورالحسن پانی پینے کچن کی طرف آیا تواسے باغیچے کے پاس پڑی کرسی پر بیٹھا پایا ۔ اس نے محسوس کیا کہ وہ کتاب کھولے بیٹھی تھی مگر پڑھ ہر گز نہیں رہی تھی۔ جا نے ا س کا دھیان کہاں تھا ۔
گُلانے پرسوں سے کچھ اداس سی لگ رہی تھی ۔ مصروفیات کے سبب وہ وجہ نہیں پوچھ پا یا تھا۔ ابھی یوں اسے کھوئی کھوئی سی بیٹھے دیکھا تو پانی کا گلاس ہاتھ میں لیے باغیچے کی طرف ہی چلا آیا ۔ گُلانے کی نظر اس پر پڑی تو وہ اسے دیکھتی چلی گئی ۔وہ ہلکا سا کھنکارا تو گُلانے چونکی۔
”کس سوچ میں ہو ؟” وہ مسکراتے ہوئے پوچھ رہا تھا ، اس نے نفی میں سر ہلا کر کتاب کے الفاظ پڑھنے کی کوشش کی ۔
”گُلانے ۔” وہ دوسری کرسی پر بیٹھ چکا تھا جس کا مطلب تھا کہ اب جواب لے کر ہی جائے گا۔
”ڈاکٹر فضل الٰہی کا کچھ پتا چلا ؟”نورالحسن حیران ہوا ، اسے اچانک ان کی یاد کیسے آ گئی تھی۔
”نہیں ! دراصل آج کل میں بھی اپنی مصروفیات میں ایک طرح سے بھول ہی چکا ہوں ۔مجھے لگا تم یہاں ٹھیک ہو ، تمہارا دل بھی لگ گیا ہے تو فکر بھی چھوڑ دی ۔”وہ اپنے ہاتھوں کی لکیریں دیکھتی رہی ۔ نور الحسن کو یقین ہوا کہ کوئی بڑی بات ضرور ہے ۔ ورنہ وہ چپ کم ہی رہتی تھی۔ اور جو دل میں ہو وہ بیان کرنے میں تامل بھی نہیں کرتی ۔
”اچھا بتاؤ … اداس کیوں ہو ؟”وہ پھر نفی میں سر ہلانے لگی تھی مگر اس کی آنکھوں سے بہتے آنسوؤں نے نورالحسن کے گمان کو یقین میں بدلا۔
”گُلانے ! ”نور الحسن نے اسے روتا دیکھا تو بڑے پیار سے اسے مخاطب کیا۔
”آپ میرے مالک ہیں ، میرے بارے…”
”یہ پھر تمہیں فضول قسم کی بات کہاں سے یاد آگئی ؟” وہ تھوڑا چڑ کر بولا۔
”مجھے فدا سے شادی نہیں کرنی۔” اس نے بنا تمہید باندھے اپنی بات سامنے رکھی۔
پرسوں بڑی خالہ نے گھر جاتے ہی بیٹے کا عندیہ پا کر فون کر ڈالا تھا ۔ پوجی نے اسے بتایا تھا کہ انہوں نے فدا کے لیے اس کا رشتہ مانگا تھا ،اسے اپنے پیروں تلے سے زمین نکلی نکلی سی محسوس ہو رہی تھی۔
”اوہ ! تو یہ مسئلہ ہے۔ گُلانے فدا اچھا لڑکا ہے ۔” نو ر الحسن نے گہرا سانس خارج کرتے ہوئے کرسی کی پشت سے ٹیک لگائی ۔
”اچھے تو آپ بھی ہیں ۔ ” نور الحسن سیدھا ہو کر اسے دیکھنے لگا ۔وہ آج بھی ویسی ہی تھی، زیادہ دیر زبان کو سنبھال نہیں سکتی تھی۔ ابھی بھی بے اختیار جو منہ سے پھسلا تو زبان دانت تلے دبا گئی ۔
”مجھے ابھی شادی نہیں کرنی ۔ میں پڑھنا چاہتی ہوں ۔ ” اسے بات بنانی بہت مشکل ہوئی۔
”ٹھیک ہے کوئی تمہیں ڈسٹرب نہیں کرے گا ۔” اس نے پھر کرسی کی پشت سے ٹیک لگا لی تھی۔
گُلانے نے ممنون ہو کر اس کی طرف دیکھا اور پھر پلکیں جھپکا نہ پائی ۔
پورے چاند کی رات، رات کا یہ پہر ا و ر سامنے بیٹھا شخص … ماحول پہ فسوں طاری ہونے لگا ، ساری پژمردگی جاتی رہی۔وہ عجیب سحر میں مبتلا ہوگئی تھی۔
٭٭٭٭٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

ثریا مقصود تیسرے دن پھر آؤٹ لیٹ پر موجود تھی۔
”چلو ولید … ہماری ایک کسٹمر پکی ہوئی۔ویسے جس سیلز گرل یا سیلز بوائے کی وجہ سے کسٹمر بنے، اسے بونس ملنا چاہیے ۔”سرفرا ز مسکرایاتھا۔ ولید نے اس کی بات کو پسند نہیں کیا تھا ۔ وہ اسی سنجیدگی کے ساتھ اپنے کام میں لگا رہا ۔
عملہ جانتا تھا کہ وہ صرف اس وقت مسکراتا ہے جب کسی کسٹمر کو ویلکم کر رہا ہو یا اللہ حافظ کہہ رہا ہو۔ اس کے علاوہ نہ وہ مسکراتا تھا نہ ہی بات کرتا تھا ۔
”ابے یار !یہ اسکول نہیں ہے ۔ یہاں باتیں کرنے پر سزا نہیں ملتی۔” سرفراز نے شرارت سے کہا تھا ۔
”ویسے تم پیدائشی ایسے ہو یا بعد میں یہ نہ بولنے والی ، چپ چاپ رہنے والی بیماری لاحق ہوئی؟” سر فراز کے کہنے پہ ولید کو بہت کچھ یاد آنے لگا تھا ۔
”کان ہی کھا جاتے ہو تم تو ۔ کبھی تو چپ کر کے بیٹھ جایا کرو ۔ ” اس کی ماں کہا کرتی تھی اور وہ بغیر فل اسٹاپ، بغیر کومہ کے بولے چلا جاتا تھا ۔
یادوں نے اس کا دامن گھیر لیا ۔ قریب تھا کہ وہ ماضی میں مکمل طور پر کھو جاتا ‘ سرفراز کی آواز اور روحی کی ہنسی نے اسے چونکادیا ۔ وہ شاید ثریا مقصود کے بارے میں ہی بات کر رہے تھے ۔
” سینیٹر مقصود نثار کی بیوی ہے ۔ وہی مقصود نثار جس کا ماڈل جھرنا کے ساتھ بڑا اسکینڈل بنا تھا ۔ ”
سرفرا ز اور روحی اسے بتا رہا تھا۔ روحی بڑی دل چسپی کے ساتھ سن رہی تھی جب کہ اس طرح کی معلومات میں اسے کوئی دلچسپی نہ تھی۔
یہاں ہر عمر کی لڑکی اور عورت آتی تھی ۔ اور کئی بار کم عمر لڑکیاں اس کے سامنے کچھ ادائیں بھی دکھاتی تھیں ۔ اس کو دیکھ کر ایک دوسرے سے کچھ کہتی ہوئی یا اشارے کرتی بھی نظر آتی تھیں ۔ وہ دیکھ بھی لیتا تو نظر انداز کر دیتا ۔ اس عمر میں اکثر لڑکے لڑکیاں اس طرح کی حرکتیں کر جاتے ہیں ۔ مگر یہ تو ایک پینتالیس چھیالیس سالہ شادی شدہ خاتون تھی جو چہرے مہرے سے خاصی سلجھی ہوئی دکھائی دیتی تھی۔ یہ آخر کیا چاہتی تھی۔
وہ بغیر کسی پرواہ کے اسے دیکھتی تھی اور آج تو ا س نے عجیب حر کت کی تھی ۔ وہ ایک طرف کھڑاتھا ، ثریا مقصو د جیولری دیکھنے کے بہانے اس طرف آئی اور جاتے جاتے اس کا ہاتھ ہلکا سا دبا گئی تھی۔
ولید ششدررہ گیا تھا ۔
٭…٭…٭
اور جب سب ایک طرح سے ڈاکٹر فضل الٰہی نام کے کسی بندے کو بھول ہی چکے تھے تو ایک دن اچانک وہ خود ان تک آن پہنچے ۔
وہ کیمسٹری کی کتاب کھولے ”آئسو ٹوپس ” سمجھنے کی کو شش کر رہی تھی۔ جب نورالحسن نے اسے آواز دی ۔ اس کے چہرے پہ دبا دبا سا جوش تھا ۔ جیسے وہ اسے کچھ بہت خاص بتانا یا دکھا نا چاہتا ہو۔ وہ اسے لیے ڈ ر ائنگ روم کی طرف بڑھا ۔ متجسس گُلانے نے جیسے ہی اندر قدم رکھا تو وہیں تھم سی گئی ۔
اس کے سامنے وہ شخص کھڑا تھا جس پر اس کے بابا کو بہت اعتماد تھا ۔ جو دوست سے کیا وعدہ نبھانے آیا تو اس نے ساتھ جانے سے انکار کر دیا اور پھر دو سال بہت پچھتائی ۔ مگر اب تو زندگی نے ایسا موڑ لیا تھا کہ وہ پچھتانا بھول گئی تھی۔ پھر یہ شخص کہاں سے آگیا ؟
ڈاکٹر فضل الٰہی نے آگے بڑھ کر اس کے سر پر ہاتھ رکھا ۔ ان کی آنکھوں میں نمی تھی۔
” گُلانے ! جانا شمال میں تھا تم نے جنوب کا پتا دیا ۔ میں پورے کراچی میں ڈاکٹر فضل الٰہی کے بارے میں معلوم کرواتا رہا جو فزیشن ہیں ۔ جب کہ یہ انگلش کے پروفیسرڈاکٹر فضل الٰہی ہیں۔ ”نور الحسن ہنستے ہوئے اُنہیں تفصیل بتا رہا تھا۔
پروفیسر ڈاکٹر فضل الٰہی ہنستے رہے ۔
”میں ملک سے باہر تھا ۔ مہینا پہلے پاکستان آیا تو تم سے ملنے کے پی کے گیا تھا ۔ گل زمان نے بتایا کہ تمہاری شادی کر دی ہے ۔ جس شخص نے ہمیشہ تمہارے باپ کو تکلیف دی، بیوی کو آنسو دیے ، بیٹی کا سودا کیا ، اس سے مجھے بھلائی کی امید نہ تھی۔ میں ایک بار تم سے مل کر اطمینان کرنا چاہتا تھا مگر گل زمان تمہارا پتا دینے کو تیار نہ تھا ۔ بڑے حربے استعمال کر کے اس کامنہ کھلوایا ۔ ”ڈاکٹر فضل الٰہی بڑے پیار سے اسے تفصیل بتا رہے تھے۔
” چلواچھا ہے ! ہمیں اب ہمارا پیسا سود سمیت واپس ملے گا ۔ تو پروفیسر صاحب! تیس ہزار میں ہم نے اسے خریدا ، تین سال کا کھانا پینا ، کپڑا ، رہائش مل ملا کر ایک لاکھ ستر ہزار بنتے ہیں۔ اب آپ سے حساب کتاب کیا ، ایک پچاس ہی دے دیجیے ۔” امی اور نورالحسن کی گھوریوں کے باوجود ولی نے اپنا جملہ پورا کر کے ہی دم لیا۔جب کہ ڈاکٹر فضل الٰہی ہنس دیے تھے ۔
” پھر گُلانے بیٹی تیار ہے میرے ساتھ جانے کو ۔” انہوں نے گُلانے کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا ۔ آج سے چھے سال پہلے وہ ان کے ساتھ جانا نہیں چاہتی تھی۔ آج بھی اس کے چہرے پر کچھ ایسی ہی تحریر ثبت ہے ۔
”اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ بچی کو یہاں سے بہتر ماحول دے سکتے ہیں تو آپ اسے لے جا سکتے ہیں ۔” جواب امی نے دیا تھا ۔ گُلانے نے بے چینی سے پہلو بدلا۔
”ماحول کا تو پتا نہیں مگر ایسی ماں نہیں دے سکتا ۔” ڈاکٹر فضل الٰہی نے اس شفیق عورت کی طرف دیکھتے ہوئے جواب دیا جس کے چہرے سے مامتا جھلکتی تھی۔
”میرا خیال ہے کہ یہ فیصلہ گُلانے پر چھوڑتے ہیں ۔”ڈاکٹر فضل الٰہی کے کہنے پر گُلانے نے خود کو مشکل میں پایا مگر جب نظر گھر کے مکینوں پر پڑی ، اس گھر کے درو دیوار پہ پڑی تو فیصلہ کرنا آسان ہو گیا۔ پانچ سال پہلے وہ اس کے فیصلے پہ پریشان ہوئے تھے ۔ لیکن آج مسکرا رہے تھے ۔ وہ نور الحسن اور اس کی امی سے مل کر بہت مطمئن تھے ۔
”گل زمان نے خود کو بچانے کے لیے مجھے نہیں بتایا کہ اس نے گُلانے کا سو د ا کیا ہے بلکہ کہا تھا کہ اس نے نورالحسن سے اس کی شادی کی ہے ۔ میں سوچ رہا ہوں کہ ایسا ہی ہوتا تو خوب ہوتا ۔” جاتے جاتے وہ امی کو ایک نئی سوچ دے گئے۔
٭…٭…٭
نور الحسن کے پنج سالہ منصوبے میں شادی کا کوئی ذکر نہیں تھا ۔
وہ کمیشن پاس کر لے ، اپنا کیرئیر بنا لے ، ولی پڑھائی مکمل کر لے ۔ پھر اچھا سا گھر ، اچھی سی گاڑی …
ابھی تو اس منصوبے پر عمل درآمد کرنے کا ارادہ تھا مگر امی یہ کیا بات کر رہی تھیں ۔ اس کی شادی کی خواہش مند تو وہ تب سے تھیں جس دن اس کا ایم اے کا رزلٹ آیا تھا ۔ پہلے تو انہوں نے اپنی بھانجی ، بھتیجی کا نام لیا ۔ نور الحسن مانا نہیں تو انہوں نے دو اور لڑکیوں کی تصاویر اسے دکھائیں ، کئی کے بارے میں تفصیل سے بتایا ‘ مگر اس کا ایک ہی جواب تھا ۔
”ابھی مجھے شادی نہیں کرنی۔”
امی کا بھی ایک ہی سوال ہوتا تھا ۔
”کیوں ؟”
کئی دفعہ وہ اپنے فیوچر پلان امی کے ساتھ ڈسکس کرتا، کئی دفعہ یوںہی ٹال دیتا۔لیکن امی پر زیادہ اثر نہیں ہوتا تھا ، وہ پھر ہفتے دو ہفتے بعد یہ شادی کا ذکر لے بیٹھتیں ۔بقول ولی کے ”امی کا فیورٹ ٹاپک ‘ ‘ یہی تھا۔آج بھی جب وہ اس کے کمرے میں پلنگ پر آکر بیٹھیں تو نور الحسن سمجھ گیا کہ امی کون سی ضروری بات ڈسکس کرنے والی ہیں ۔ مگر امی نے جو بات کر دی وہ تو اس کے گمان میں بھی نہ تھی۔
”امی ! گُلانے مجھ سے بہت چھوٹی ہے ۔”نور الحسن بے یقینی کی کیفیت میں امی کو دیکھنے لگا۔
”پھر کیا ہوا ۔میں بھی تمہارے ابو سے بہت چھوٹی تھی ۔” امی کو اس کے اعتراض پر اعتراض ہوا۔
”امی … وہ اور دور تھا ۔”پر امی کی سادگی تھی یا خواہش، وہ سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔
”کیوں اس دور کے لوگ پاگل تھے ، عقل اور سمجھ سے عاری تھے ؟” امی نے اس کی کلاس ہی لے ڈالی ۔
”امی …میرے کہنے کا یہ مطلب نہیں ۔”نور الحسن نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی۔
”مگر مجھے تو تمہارے کہنے کا یہی مطلب سمجھ آتا ہے ۔ہم ہی بے وقوف تھے جو ماں باپ کے فرمان پر سر جھکا دیتے تھے ۔”امی نے اب اس پر جذباتی وار کرنا شروع کردیے تھے۔
”امی…”وہ زچ ہوکر بولا۔
”دیکھو نور الحسن! بہت کر لیں تم نے ا پنی من ما نیا ں ۔ میں بھی ما ں ہوں تمہاری ۔ میر ا بھی کچھ حق ہے ۔” انہوں نے ہاتھ اٹھا کر واضح کیا کہ اب ”نہیں ” کی گنجائش نہیں ۔
”امی آپ کا ہی ہر حق ہے ۔” اس نے امی کے قریب بیٹھ کر ان کے کند ھے پر ہا تھ ر کھا ۔
”بس تو پھر میری بات مانو۔ ”امی نے اٹل لہجے میں حکم صادر کیا۔
”امی …بس دو سال اور ۔” اس کا لہجہ بالکل معصوم بچوں والا تھا۔
” نہیں … لوگ باتیں کرتے ہیں، جوان لڑکی کو بنا کسی رشتے کے گھر بٹھا رکھا ہے۔”
”امی آپ لوگوں کی پرواہ نہ کریں ۔ ”
”جب تک انسان سانس لیتا ہے ، اسے لوگوں کی پرواہ کرنی پڑتی ہے ۔ گُلانے کے حوالے سے کسی کی پر و اہ تو وہ کم ہی کرتی تھیں مگر اسے راضی کرنے کے لیے ایسے ڈائیلاگ ضروری تھے ۔
”مجھے آپ کا فارمولا سمجھ نہیں آتا پھر بھی اگر آپ کو لوگوں کی زیادہ پرواہ ہے تو امی آپ فدا کے لیے ہی سوچ لیں ، میں گُلانے کو سمجھا لوں گا ۔اور خالہ کی ناراضی بھی ختم ہو جائے گی۔ ” نور الحسن نے آخری حربہ استعمال کرتے ہوئے کہا۔
”میں تو نہیں ہاں کروں گی فدا کے لیے ۔ ”امی آج اسے راضی کرنے کے موڈ میں ہی آئی تھیں۔
” اچھا لڑکا ہے امی ، بس تعلیم کی طرف دھیان نہیں دے پایا ، قصور خالہ اور خالو کا ہے جو اس کے ذہن میں بٹھا دیا کہ کپڑے کے دکان اسی نے سنبھالنی ہے ۔ ”
”ہے اچھا! مگر میرا دل چاہتا ہے کہ گُلانے میرے پاس رہے ، اسی گھر میں ۔ ” ڈاکٹر فضل الٰہی کا اشارہ ان کے دل میں سما گیا تھا ۔ اب وہ کچھ اور سوچنے کو تیار نہ تھیں ۔
”تو پھر ولی سے کر دیں بات پکی اس کی ۔ ”نور الحسن کو کچھ سمجھ نہ آیا تو اس نے ولی کا نام تجویز کردیا۔
”ہیں … تمہارا دماغ درست ہے ؟ ولی کا کوئی کام ایسا ہے جسے دیکھ کر میں سوچوں کہ اب یہ شادی بیاہ کے قابل ہو گیا ہے ۔ ثانیہ کے تین سال کے بچے کی طرح ناچتا رہتا ہے ۔ پہلے تمہاری شادی کروں گی پھر وقت آنے پر اس کا سوچوں گی۔ ”
”امی! جس سے آپ کہیں گی میں شادی کر لوں گا مگر گُلانے سے نہیں ۔ وہ مجھ سے بہت چھوٹی ہے امی۔” نور الحسن کے نگاہ میں ابھی تک وہ اجتماعی قبر کے سرہانے بیٹھی روتی ہوئی اپنی پوجی سے باتیں کرتی ہوئی بچی تھی۔
”پھر وہی راگ … چھوٹی ہے ، چھوٹی ہے ۔ دیکھنا پانچ سال بعد وہ تمہارے برابر کی لگنے لگے گی۔ مرد پر بڑھاپا دیر سے آتا ہے ۔ اس لیے بیوی کو عمر میں دس بارہ سال کم ہی ہونا چاہیے ۔” امی رشتہ آنٹی والیوں کی طرح اسے قائل کرنے کی پوری پوری کوشش کررہی تھیں۔
”وہ مجھ سے سولہ سترہ سال چھوٹی ہے امی ۔” نورالحسن کا ضبط جواب دینے لگا تھا۔
”ہاں تو پھر کیاہوا؟ تاریخ میں تم کوئی پہلے تو نہیں ہو گے جو خود سے اتنی چھوٹی لڑکی کے ساتھ شادی کرے گا ۔ ”
”امی ! یہ اس کے ساتھ زیادتی ہو گی۔ آپ جلد بازی میں مجھے غلط فیصلہ کرنے پر مجبور نہ کریں۔”
امی نے مجبور بالکل نہیں کیا ، بس ناراض ہو کر اٹھ گئیں تھیں ۔
٭٭٭٭٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

سمے کا بندھن — ممتاز مفتی

Read Next

مس ظرافت کا باورچی خانہ — حرا قریشی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!