اور اس دن گُلانے اور ولی کے بیچ شاگرد اور استاد کا جو رشتہ قائم کیا گیا ، اس نے خاصا بہتر نتیجہ نکلا ۔ان کی آپس کی تکرار میں کافی حد تک کمی آئی ۔ ولی اس کو پڑھاتے ہوئے خود کو معتبراور بڑا سمجھنے لگا ، وہ اسی میں بڑا خوش تھا جبکہ گُلانے اس کو پشتو سکھاتے ہوئے بڑا فخراور جوش محسوس کرتی۔ دونوں کو ایک دوسرے کی خوبیوں کا اندازہ ہوا ۔ گُلانے کو پتا چلا کہ ولی اتنا برا بھی نہیں ہے جتنا اس نے سمجھ رکھا تھا اور ولی کو اندازہ ہوا کہ گُلانے اتنی کند ذہن بھی نہیں ہے جتنی اس نے سمجھ رکھی تھی۔
وہ گُلانے کے نویں جماعت کے سالانہ امتحانات کے دن تھے ، ولی اپنی دیگر مصروفیات ترک کر کے اسے بہت وقت دے رہا تھا ۔ وہ اسے اگلے دن ہونے والے پیپر کا ٹیسٹ بنا کر دیتا ، اس کی غلطیاں اسے سمجھاتا، اسے بتاتا کہ کو ن سا ٹاپک زیادہ اہم ہے اوراگلے دن گُلانے حیران رہ جاتی جب پیپر میں زیادہ تر وہی سوالات آتے جو ولی اسے بتاتا تھا ۔ وہ ان دنوں ولی کو ”ولی ” ہی ماننے لگی تھی۔ امتحانی مرکز میں بھی وہی اسے چھوڑنے اور لینے جاتا ۔
جس دن گُلانے کے پیپرز ختم ہوئے تھے ، اس دن شام میں ولی کو پرانی محبوبہ یعنی کہ کرکٹ یاد آئی تھی ۔ جب وہ کھیل کرواپس لوٹا تو اس کا چہر ہ سرخ تھا اور آنکھوں میں غصہ بھرا ہوا تھا ۔ امی اور اس نے بہت پوچھا مگر ولی نے اپنے غصے کی وجہ نہیں بتائی۔بس اس نے گُلانے سے یہ کہا تھا کہ آئندہ وہ نقاب کر کے گھر سے باہر نکلا کرے ۔
گُلانے ابھی استادِ محترم کی مرید ہوئی تھی مگر اتنی نہیں کہ من و عن اس کی باتیں مانتی۔
جس دن اس کا نتیجہ آیا ، گُلانے سارے گھر میں چہکتی پھر رہی تھی۔ ا س نے بیاسی فیصد نمبر حاصل کیے تھے ۔ ولی نے کالر کھڑے کر کے اسے اپنی محنت قرار دیا اور اس میں کچھ غلط بھی نہ تھا ۔ اس نے گُلانے کے ساتھ بہت محنت کی تھی اور یہ بھی درست تھا کہ گُلانے نے خود بھی جی جان سے محنت کی تھی۔
وہ دونوں بہت خوش تھے ، امی اور نور الحسن بھی بہت خوش تھے ۔ خوش نہیں تھے تو خاندان والے نہیں تھے ۔ ایک غیر لڑکی کو گھر رکھنے پر کوئی اعتراض کرتا تھا اور کوئی سمجھاتا تھا کہ جس گھر میں دو جوان لڑکے ہوں ، وہاں ایک نا محرم کم عمر لڑکی کا رہنا درست نہیں ۔
امی کو اپنی اولاد پر، اپنی تربیت اور اپنے گھر کے ماحول پر بھروسا تھا ۔ انہوں نے لوگوں کی باتوں کو سنجیدہ نہیں لیا تھا ۔
” چچا تایا کی اولادیں بھی تو اکثر ایک ہی گھر میں اکٹھے رہ کر پروان چڑھتی ہیں ۔ پھر اللہ کے فضل سے میرے بیٹے بدنیت نہیں ہیں ۔”امی کسی کے استفسار پر فخر سے کہتیں۔
انہوں نے یہ سوچ کر دل کو بہلا لیا اور لوگوں کی باتوں کی طرف اتنی توجہ نہ دی۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
ڈاکٹر فضل الٰہی کا ذکر اب کم کم ہوتا تھا ۔ نور الحسن نے ان کی تلاش چھوڑی تو نہ تھی مگردیگر مصروفیات میں تگ و دو کم کردی تھی ۔ امی کو جس دن سے پتا چلا تھا کہ نور الحسن نے گل زمان سے گُلانے کو حاصل کرنے کے لیے رقم ادا کی تھی ۔ اس دن سے انہیں گُلانے پر اپنا حق لگنے لگا تھا ۔ وہ جو گُلانے کو امانت سمجھ کر ہر نماز میں اور اٹھتے بیٹھتے دعا دیا کرتی تھیں کہ گُلانے عزت اور حفاظت کے ساتھ ڈاکٹر فضل الٰہی تک پہنچ جائے ، اب یہ دعا مانگتی تھیں کہ بچی عزت اور سلامتی کے ساتھ ان کے گھر ہی رہے ۔ انہیں وہ بیٹی جیسی عزیز ہونے لگی تھی۔ اور گُلانے … گُلانے تو ڈاکٹر فضل الٰہی کے بارے میں اس وقت سوچتی تھی جب وہ گل زمان کی قید میں تھی۔ نورا لحسن کے ساتھ آنے کے بعد وہ پھرڈاکٹر فضل الٰہی نام کے کسی بھی بندے کو بھول چکی تھی ۔ کبھی نورالحسن ذکر بھی کرتا تو اسے کوفت محسوس ہوتی ۔
٭…٭…٭
”شادی لڈو موتی چور کے ، جو کھائے پچھتائے ، جو نہ کھائے پچھتائے ۔ ” کیک کے ڈبے میں لڈو کہیں نہیں تھا مگر اعظم نے پورا گانا گنگنا ڈالا تھا۔
”تمہاری منگنی ہو گئی ہے کیا ؟” سونیا نے پوچھا تو خزیمہ نے مسکراتے ہوئے نور کو دیکھا جو کتاب کھولے بیٹھی تھی۔
”نہیں… آگ کا ایک دریا ہے جو ابھی پار کرنا ہے۔ یہ تو میرے بھائی کی شادی کی خوشی میں کھلایا ہے ۔”خزیمہ نے ڈرامائی انداز میں کہا۔
”ہمیں کیوں نہیں بلایا ؟” کئی سمت سے نعرہ اعترا ض بلند ہوا۔
” جن کو بلایا تھا ، وہ کون سا آگئے ۔” نور کے سامنے ڈبا کرتے ہوئے اس نے آہستہ سے گلہ کیا۔ نور نے کیک کا ٹکڑا اُٹھایا نہیں تھا ۔
”لے لیں… یقین کریں باقی ساری کلاس کو بھی کھلایا ہے ۔ ” خزیمہ نے اس کے پچھلے اعتراضات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہا کہ مبادا وہ انکار نہ کر دے ۔ اسی لیے تو وہ سب سے آخر میں اس کی طرف آیا تھا ۔
نور نے ایک ٹکڑا اٹھا لیا اور اسے ٹشو پیپر میں لپیٹ کر بیگ میں رکھنے لگی۔وہ نقاب کر تی تھی ، اس لیے ہاسٹل سے باہر بہت کم کھاتی پیتی تھی ۔
”نو ر ! یہ بھی رکھ لو ، میں نے صبح ناشتے میں سویاں کھائی ہیں ، ابھی میٹھا لوں گی تو موٹی ہو جاؤں گی ۔” ہانیہ نے ترستی نگاہوں سے کیک پیس کو دیکھتے ہوئے صبر کیا اور اسے نور کی طرف بڑھایا ۔
”یہ باقی تم گھر لے کر جاؤ گے کیا ؟ یہ بھی ادھر دو ۔ ” اس نے خزیمہ کے ہاتھ سے ڈبا لینا چاہا۔
”دیکھ لو اور موٹی ہو جاؤ گی ۔ ”خزیمہ نے اسے ڈراتے ہوئے کہا۔
”میرے ڈائٹ پلان کی تم فکر مت کرو ۔ ” اس نے ڈبا خزیمہ کے ہاتھ سے جھپٹ کر نور کی طرف بڑھایا۔
نور کو اس کی یہ حرکت اچھی نہیں لگی تھی۔ اس نے کیک والا ڈبا نہیں تھاما ۔خزیمہ کی مسکراہٹ سنجیدگی میں بدلی۔
عجیب بے بسی کا مقام تھا ۔ قدم تھے کہ اس جانب اٹھتے جا رہے تھے جہاں منزل کا نشاں تک نہ ملتا تھا ۔
٭…٭…٭
”کب تک بٹھا کر رکھنا ہے ایک غیر لڑکی کو اپنے گھر ؟” امی نے بڑی بہن کے سوال کا جواب دینے کے لیے ہونٹ وا کیے مگر بڑی بہن جواب کے لیے سوال نہیں کرتی تھیں۔
”لوگ باتیں کرتے ہیں ۔ غضب خدا کا… گھر میں دو جوان لڑکے اور تمہیں احساس ہی نہیں کہ تم نے کیا چیز ان کے سامنے سجا رکھی ہے ۔ اب بھلا انسان خطا نہ کرے تو کیا کرے۔ ” آپا ساری جمع کی باتیں امی سے کررہی تھیں۔
”آپا ! اس کا چچا … ”
”اس کا چچا کیا چاند پر چلا گیا جو ابھی تک مل نہیں رہا ۔ فرض کیا مل نہیں رہا تو کیا تمہاری ذمے داری ہے اس لڑکی کو پڑھانا، لکھانا، کھلانا پلانا۔” آپا تیز لہجے میں بولیں۔
”آپا ! آپ تو جانتی ہیں مجھے بیٹی کا کتنا شوق … ”امی روہانسی ہوکر بولیں۔
”بیٹی کو شوق ہے تو بہو لے آؤ ۔ ”آپا اپنے مقصد کی طرف آئیں ۔ مگر سلسلہ شروع ہوا ہی تھا کہ گُلانے چائے اور دیگر لوازمات سے سجی ٹرے لیے کمرے میںداخل ہوئی ۔آپا نے گھور کر دیکھا مگر پھر دیکھتی رہ گئیں ۔
لڑکی بلا کی خوبصورت تھی ، کم عمر تھی پھر ملازماؤں جیسی خصوصیات بھی رکھتی تھی۔ اتنی بری تو نہ تھی۔ بہو بنانے پر غور کیا جا سکتا تھا ۔
”ایسا کرو لڑکی… شاہانہ اور بسمہ کی چائے وہیں لے جاؤ ۔ ” بسمہ کو نورالحسن سے مشورہ کرنا تھا پڑھائی کے سلسلے میں کوئی ۔”امی سرہلا کر رہ گئیں ۔گُلانے ہمیشہ امی کی اس بہن کی موجودگی میں خود کو مشکل میں پاتی تھی۔ توہین آمیز طرز تخاطب ، حقارت بھری نگاہیں محسوس کر کے وہ زیادہ تر ان سے چھپ چھپ کر ہی رہتی تھی ۔
”سنو لڑکی ! ‘ ‘ وہ دونوں کو چائے پیش کر کے ٹرے اٹھا کر کمرے سے نکلنے لگی تھی جب خالہ نے اسے پکارا ۔
”دوپٹا تو ٹھیک سے لیا کرو ۔ ماں باپ نے تمیز نہیں سکھائی کیا ؟”
ٹرے میز پر رکھ کر کندھوں پر پھیلے دوپٹے کو مزید پھیلاتے ہوئے اس کی آنکھوں کی سطح زیرِ آب آئی۔ وہ اس کو بھلے ڈانٹ لیں ، برا بھلا کہہ لیں ، مگر اس کے ماں باپ کا ذکر وہ بھی ایسے الفاظ اور ایسے انداز میں اسے اور اداس کر گیا ۔
” میں چاہتا ہوں کہ تم میتھ میٹکس یا فزکس میں ماسٹرز کرو اور لیکچررشپ کی طرف آجاؤ ۔ ” کمرے میں داخل ہوتے ہوئے نور الحسن کی آواز اس کے کان میں پڑی۔
”زیادہ تر گرلز کالجز میںفزکس اور خاص طور پر میتھ میٹکس کی فیمیل لیکچررز نہیں ہیں ۔ جس کی وجہ سے وہاں بچیاں مشکل کا سامنا کرتی ہیں ،انہیں ٹیوشنز لینی پڑتی ہیں، اکیڈمیز جوائن کرنی پڑتیں ہیں یا پھران گرلز کالجز کو بوائز کالجز اور پرائیویٹ کالجز سے میل لیکچررز کو ہائر کرنا پڑتا ہے ۔ اگر گرلز کالجز میں ان دو مضامین کے لیے لیکچررز ہیں بھی تو زیادہ میل ہیں ۔ سندھ کے ایک گرلز کالج میں جو حادثہ ہوا ،اس کے بعد سے میری خواہش ہے کہ اتنی بچیاں میتھ میٹکس اور فزکس کی طرف آئیں کہ فیمیل ٹیچرز کی کمی کو پورا کیا جا سکے۔” گُلانے چائے پیش کرتے ہوئے نورالحسن کی بات غور سے سن رہی تھی۔
”مجھے ٹیچنگ بورنگ لگتی ہے ۔” بسمہ نے ناک چڑھائی ۔
” اپنی اپنی پسند کی بات ہے ۔ ویسے تو ہر شعبہ ہی قابلِ عزت ہے مگر جہاں تک بات ہے میری ذاتی پسند یا نا پسند کی تو میں عورت کے لیے درس و تدریس کا شعبہ سب سے بہتر سمجھتا ہوں ۔” نور الحسن اپنی رائے دینے کے بعد چائے پینے لگا ۔
”آؤ گُلانے ! تم بھی ہمارے ساتھ چائے پیو ۔ ” بسمہ نے اسے اٹھتے دیکھ کر روکا ۔
”میں چائے نہیں پیتی ۔” اس کی بھیگی آواز سن کر اور آنکھوں کی نم دار سطح دیکھ کر نورالحسن چونکا ۔
”ہوں … تم تو قہوہ پیتی ہوگی ۔ اسی لیے اتنی اسمارٹ ہو ۔ ”بسمہ نے اگلا جملہ جڑا۔
شاہانہ نے پہلو بدلا ۔ بہن کے منہ سے اس لڑکی کی تعریفیں اسے کچھ پسند نہیں آرہی تھیں ۔ گُلانے خاموشی کے ساتھ کمرے سے نکل گئی۔
٭٭٭٭٭
عروہ ابو بکر نے غیر محسوس طریقے سے اپنی آنکھوں کے نم گوشے صاف کیے اور پراٹھے کا لقمہ توڑ کر منہ میں ڈالا ۔ صبح سویرے بھائی کے کمرے سے آنے والی مٹھائی کی پلیٹ پھر نگاہ کے سامنے آئی تو لقمہ نگلنا دو بھر ہوگیا ۔ اس نے اخبار پہ پڑے پراٹھے کو لپیٹ دیا ۔
زندگی مشکل سے مشکل تر ہوتی جا رہی تھی۔ اسریٰ اگر گھر سے بھاگ گئی تھی تو ٹھیک ہی کیا تھا ۔ اس گھر میں رہ کر تو وہ صرف شادی کے خواب دیکھتی جیسے و ہ دیکھا کرتی تھی۔
زندگی اسپتال ،کورٹ کچہری اور نوکری کے گرد چکر لگاتے بسر ہو رہی تھی۔اسے سمجھ نہیں آتی تھی کہ وہ اکیلی کیا کیا کرے ۔
بیمار باپ کو اسپتال لے جایا کرے ، بھائی کی رہائی کے لیے وکیلوں کے ترلے منتیں کیا کرے یا پھر اس نوکری کو وقت دے؟کبھی کبھی اس کا دل چاہتا تھا کہ کوئی گاڑی اسے روندتی ہوئی گزر جائے ، یا ہر وقت جان کو آئی پرانی موٹر سے کرنٹ ہی لگ جائے ۔ زندگی اور اس سے جڑے مسائل کا قصہ تو تمام ہو ۔ لیکن باپ پر نظر پڑتے ہی اس خواہش پر توبہ کر اٹھتی ۔
زندگی نے اس شخص کا بڑا امتحان لیا تھا ۔ کہنے کو ان کی چار اولادیں تھیں مگر انہوں نے سکھ کسی طرف سے نہ پایا تھا۔
بڑا بیٹاشادی کے بعد اپنی زندگی میں اتنا مصروف ہو گیا کہ باپ کے پا س چند گھڑی بیٹھنے کا وقت نہ تھا اس کے پاس ۔کسی نہ کسی طرح وقت نکال کر بیٹھ بھی جایا کرے اگر با پ کو اس کی صورت دیکھتے ہی جوان بیٹی کی شادی ، چھوٹے بیٹے کا مقدمہ اور اپنی دوائیں یاد نہ آ جایا کریں ۔مہینے میں چند ہزار کمانے والے پر ایسے تذکرے بھی بڑا بوجھ ڈالتے ہیں ۔
بڑی بیٹی اسریٰ نے گھر بیٹھ کر کئی سال تک رشتے کا انتظار کیا مگر جانے کیا ہوتا کہ رشتہ طے پاتے پاتے ختم ہو جاتا اور جب اسے سمجھ آنے لگی کہ اصل کھیل کون کھیل رہا ہے تو مزید وقت ضائع کرنے کے بجائے ایک دن یہ دہلیز پار کی اور پھر لوٹ کر نہ آئی ۔
ابھی وہ یہ بدنامی سہنے کی کوشش کر رہے تھے کہ چھوٹے بیٹے عدیل کو ایک دن پولیس پکڑ کر لے گئی ۔ پتا چلا کہ ا س نے کمپیوٹر کے ذریعے کوئی اکاؤنٹ ہیک کر کے بڑی رقم نکلوائی ہے ۔ عدیل کے ساتھ اس کام میں د و اور لڑکے بھی شامل تھے ، ان کی ضمانت ہو گئی ۔ عدیل ابھی تک حوالات میں تھا ۔ وجہ ابو خود تھے ۔
”عدیل اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کر کے باہر آئے یا اپنے حصے کی سزا بھگتے ۔”
اب کورٹ کچہری کے چکر لگاتے ہوئے اسے احساس ہوتا تھا کہ اس جرم کی جتنی سزا بنتی تھی اس سے زیادہ عرصہ تو مقدمے کا فیصلہ ہونے میں لگ جانا تھا ۔
یہ سب تو ایک عرصے سے چل رہا تھا ، پھر آج کیوں اس کا دل اتنا بھرا ہوا تھا کہ اس کا رونے کو جی چاہ رہا تھا ۔ کیا و ہ پلیٹ جس میں پڑے چار رس گلے اس کا منہ چڑا رہے تھے؟
”میری خالہ کی منگنی ہو گئی ہے ۔” فاریہ نے پلیٹ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے بتایا تھا ۔
”کہاں ؟” پلیٹ تھامتے ہوئے اس نے پوچھا ۔ اگر اسے پتا ہوتا کہ جواب کیا آنے والا ہے تو وہ کبھی یہ سوال نہ کرتی ۔وہ بہت دیر پلیٹ ہاتھ میں تھامے سکتے کی سی کیفیت میں کھڑی رہی تھی۔
اچھا کیا اسریٰ گھر سے بھاگ گئی ۔ اسے بھی بھاگ جانا چاہیے تھا ۔اس گھر میں رہ کر بھلا ہو پاتی اس کی شادی ؟
” ایس کے فائیو ٹو میڈیم میں نکال دیں پلیز۔” ولید اسٹور میں داخل ہوا تووہ جلدی سے ہاتھ صاف کرتی ہوئی اٹھی اور مطلوبہ قمیص نکال کر اس کو دی ۔ ولید نے آنسوؤں سے بھری اس کی آنکھیں دیکھیں اور شرٹ لے کر باہر نکلنے لگا ۔
”سنو ! ” عروہ نے جلدی جلدی آنکھیں صاف کر کے اسے پکارا ۔ وہ رک کر اس کی طرف دیکھنے لگا ۔
”اس دن میری فیور میں بولنے کابہت شکریہ ۔” عروہ نے نم آنکھوں سے اسے کہا۔
”میں آپ کی نہیں عورت کی فیو ر میں بولا تھا۔ جو ماں ،بہن ، بیوی اور بیٹی ہے ، وہ قابلِ احترام ہے ۔ اس کے لیے آپ کو تھینک فل ہو نے کی ضرورت نہیں ۔”ولید نے اسی سنجیدہ لہجے سے کہا۔
” جب سب آپ کو ہی غلط سمجھ رہے ہوں ، اس وقت میں حمایت میں بولا گیا ایک جملہ بھی بہت خاص لگتا ہے’ بھلے وہ خاص آپ کے لیے نہ بولا گیا ہو ۔” وہ پژمردہ سے انداز میں بولی ۔
ولید کو سمجھ نہ آ رہا تھا کہ وہ کیا جواب دے ، فقط یہ کہہ سکا ۔
”رویا نہ کریں ، رونے سے مسائل حل نہیں ہوتے ۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});