”مجھے یہ شرٹ چینج کرنی ہے ۔ گھر جا کر ٹرائے کی تو مجھے کچھ مزہ نہیں کیا ۔” خاتون نے شاپنگ بیگ کاؤنٹر پر رکھا ۔
” ان وائس ہے آپ کے پاس ۔” ولید نے پو چھا ۔ آج کل منیجرچھٹی پر تھا اور وہ ہی اس کی ڈ یوٹیز سنبھال رہا تھا ۔
”یس !” خاتون نے و ا لٹ سے ر سید نکا ل کر سامنے کی۔
”ٹھیک ہے …آپ کچھ اور دیکھ لیں ۔” ولید نے ان وائس دیکھنے کے بعد کہا اور خود کمپیوٹر اسکرین پر دیکھنے لگا ۔
”مجھے کچھ بھی پسند نہیں آرہا ۔آپ کی نیو کلیکشن فضول ہے ۔” تھوڑی دیر بعد خاتون منہ بناتے ہوئے واپس آئی۔
”معافی چاہتا ہوں میم … آپ جیولری دیکھ لیں ۔ آئی ہوپ آپ کو بہت پسند آئے گی ۔”
”نہیں مجھے جیولری ابھی نہیں لینی۔” خاتون نے اپنے کٹے ہوئے بالوں کو سنوارتے ہوئے اس کا مشورہ رد کیا ۔
ولید کی ہر طرح کے لوگوں کو ڈیل کرنے کیعادت تھی ، اس لیے پیشہ ورانہ مسکراہٹ چہرے پر لاتے ہوئے اسے بیگز اور شوز دیکھنے کا مشورہ دیا ۔
”اوکے ۔” وہ کندھے اچکاتی اس کارنر کی طرف چلی گئی جہاں بیگز کا ڈسپلے تھا ۔سب بیگز کو الٹ پلٹ کر دیکھنے کے بعد اس نے ایک بیگ پسند کر لیا تھا ۔
”اس کا فریش نکال دیں ۔” خاتون نے عروہ کو کہا اور خود کاؤنٹر کی طرف آ گئی۔اس کی نگاہیں ولید پر جمی ہوئی تھیں جو ایک شرٹ کے ٹیگ پر بار کوڈ ریڈر پھیر رہا تھا ۔
”کچھ لوگ کچھ جگہوں پر کتنے مس فٹ ہوتے ہیں ۔” خاتون نے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے اس لڑکے کو دیکھا جس کی عمر کچھ زیادہ نہیں تھی مگر خوب صورت نقوش ، گند می ر نگت ،اچھے قد کاٹھ والا یہ لڑکااپنی عمر کے دوسرے لڑکوں کے برعکس سنجیدہ لگ رہا تھا ۔ پتا نہیں ، نیا آیا تھا یا اس نے ہی آج غور کیا تھا۔
”میم آپ کے ایٹ ہنڈرڈ ابھی باقی ہیں ، آپ کچھ اور دیکھ سکتی ہیں ۔” ولید نے بیگ کی قیمت دیکھ کر بتایا ۔
”اس وقت تو میں آپ کو دیکھ رہی ہوں ۔” خاتون تھوڑا سا اس کی طرف جھک کر سرگوشی کے سے انداز میں بولی۔ ولید ششدر رہ گیا ۔
”آپ مجھے بیلنس کارڈ بنا دیں ۔ ابھی مجھے کچھ پسند نہیں آ رہا ۔ میں پھر آجاؤں گی۔” اس کا لہجہ کچھ عجیب سا تھا ۔ولید دراز میں سے ایک کارڈ نکال کر فل کرنے لگا ۔
”نام؟” اس نے نظریں نیچے کیے ہی پوچھا ۔
”ثریا مقصود۔ ”
”کانٹیکٹ نمبر بھی نوٹ کر لیں ۔” وہ اپنا موبائل نمبر بتانے لگی۔
” اس کی ضرورت نہیں ۔ ” ولید فوراً بولا ۔
”ضرورت پڑ سکتی ہے ۔” وہ مسکراتے ہوئے پھر سرگوشی کے انداز میں بولی اور شاپنگ بیگ اٹھا کر آؤٹ لیٹ سے باہر نکل گئی۔ ولید کے ماتھے پہ پسینا چمکنے لگا تھا ۔
٭…٭…٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
نور الحسن اس وقت امی کو اپنے کمرے میں دیکھ کر فکر مند ہوا ۔ عموماً جب وہ گھر آ جاتا اور کچھ دیر ان کے پاس بیٹھ کر باتیں کیا کرتا تھا ۔ بعد میں وہ مطمئن ہو کر سو جاتی تھیں ۔و ہ انہیں دیکھ کر اپنی کرسی سے اٹھ کھڑا ہوا ۔ امی پلنگ پر جا کر بیٹھیں تو وہ دوبارہ کرسی پر بیٹھ گیا ۔
”نور الحسن! تم میرے وہ بیٹے ہو جس نے ہمیشہ ماں کا سر اونچا کیا ہے۔ تمہیں دیکھ دیکھ کر میں نے خود کو ہمیشہ جوان اور توانا محسوس کیا ۔ مگر آج میں خو د کو بوڑھا محسوس کرنے لگی ہوں ۔ ”آج وہ وقت پر گھر آیا تھا او ر اس نے ر ا ت کا کھانا سب کے ساتھ کھایا تھا ۔ کھانے کے دوران بھی اسے محسوس ہوا کہ امی کچھ چپ چپ سی ہیں ۔ مگر ابھی بات کرتے ہوئے تو اسے ان کی خفگی باقاعدہ محسوس ہوئی ۔
”امی ! ایسی کیا خطا ہو گئی مجھ سے ؟” نور الحسن حیرانی سے بولا۔
” گُلانے کیسے اور کہاں سے تمہارے پاس آئی ؟ ” وہ فوراً مدعاپر آئیں ۔ نور الحسن نے گہرا سانس خارج کیا اور امی کو دیکھا ، وہ بہت سنجیدہ لگ رہی تھیں ۔
”امی ! بتایا تھا ناں کہ کیمپ میں وہ اکیلی … ”
”نور ا لحسن ! مجھ سے سچ بولو ۔ ”امی نے اس کی بات کاٹتے ہوئے سخت لہجے میں پوچھا۔
”امی ! سچ ہی ہے ۔ گُلانے کیمپ میں ملی تھی مجھے ۔” نور الحسن کا لہجہ دھیما اور آنکھیں جھکی ہوئی تھیں۔
”ملی تھی یا خریدا تھا ؟”امی نے ولی کی دی گئی معلومات اس تک باہم پہنچائیں۔
”خریدنا پڑا تھا امی۔ ”نور الحسن سپاٹ لہجے میں بولا۔
امی صدمے سے کافی دیر کچھ بول نہ پائیں ۔ انہیں ابھی تک لگ رہا تھا کہ ولی نے مذاق میں ایسا کہا تھا ۔ انہیں پوری امید تھی کہ نورا لحسن ان کی بات کو جھٹلا دے گا ۔ مگر اس نے تو گویا اقرار کر لیا تھا کہ اتنے دن ماں کو بے وقوف بناتا رہا ۔
” نو ر الحسن ! تم … تم ایسے انسانیت سوز کام کب سے کرنے لگے ؟ ” وہ پھی پھٹی آنکھوں کے ساتھ بولیں۔
” اور پھر اس لڑکی کے لیے تم نے اپنی ماں سے جھوٹ بولا۔ ”
”نن… نہیں امی ۔ ” نورالحسن نفی میں سر ہلانے لگا ۔وہ اٹھ کر ان کے پا س چلا آیا ۔ اسے احساس تھا کہ ان کی خفگی بر حق تھی۔
” امی … میں نے جھوٹ نہیں بولا، صرف پردہ رکھا تھا۔ امی آپ جانتی ہیں کہ ایک خریدی ہوئی لڑکی کی لوگوں کی نظر میں کیا عزت ہو سکتی ہے ۔ جس لڑکی کا مول لگ جائے پھر وہ بے مول ہو جاتی ہے۔ لوگ اسے بھی چیز ہی سمجھنے لگتے ہیں ۔ وہ چیز نہیں ہے امی! انسان ہے ۔ مجھے یہ بتاتے یا کہتے ہوئے ہی شرم آتی ہے کہ میں نے ایک انسان کو پیسا دے کر خریدا ۔” نور الحسن کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے۔
”ایسی بھی کیا نوبت آ گئی تھی کہ تمہیں اسے خریدنا پڑا ۔ مجھ سے سچ بولنا نور الحسن ۔” امی اس وقت اس کی باتوں پر یقین کرنے سے قاصر تھیں۔
”امی ! میں نے پہلے بھی اس کے بارے میں سچ ہی بولا ہے ۔بس آدھا سچ مصلحت کے تحت چھپا گیا ۔ اس کا پھوپھا اس کا سودا کرنا چاہتا تھا ۔ حقیقت معلوم ہونے کے بعد میں خود غرض نہ بن سکا ۔ اس لیے اسے بچانے کے لیے میں نے اس کی لگائی گئی قیمت ادا کی، ورنہ جانے اس کا پھوپھا کیسے شخص کے حوالے کر دیتا اسے ۔ اس نے اپنی بیٹی کا سودا کرتے ہوئے نہیں سوچا تو بیوی کی بھتیجی کے لیے بھلا کیا سوچتا؟ میں اسے وہاں سے بچا کر ڈاکٹر فضل الٰہی کے حوالے کرنا چاہتا تھا اور بس … اس کے علاوہ میری اور کوئی نیت نہیں تھی امی ۔ بے فکر رہیں ، آپ کا بیٹا عیاش نہیں ہے ۔” نور الحسن کی آواز آخری جملہ ادا کرتے ہوئے باقاعدہ کانپ رہی تھی۔
”مجھے اپنی تربیت پر بھروسا ہے ۔ میں جانتی ہوں کہ میرے بیٹے عیاش نہیں ہیں ۔ مجھے دکھ اس بات کا تھا کہ میرے بیٹے نے پہلی بار مجھ سے جھوٹ بولا ۔”امی نے آخری جملے پر محسوس کرتے ہوئے اب کی بار نرمی سے کہا تھا۔
”وہ انسان ہے امی ، میں اسے ہر ایک کی نگاہ میں معتبر دیکھنا چاہتا تھا ۔ آپ کی اور ولی کی نگاہ میں بھی ۔ اس لیے کچھ سچ چھپا گیا ۔ ”نور الحسن اب بھی رو رہا تھا۔
” لیکن کب تک چھپا رہے گا ؟ خاندان میں پتا چلا تو کیسی کیسی باتیں ہوں گی؟ پہلے ہی سب کئی سوال کرتے ہیں گُلانے کے بارے میں ۔ اور جب یہ بات ان تک پہنچی تو کوئی رشتہ نہیں دے گا تمہیں۔ان کی نظر میں تمہارا کردار ہی مشکوک ٹھہرے گا ۔ ” انہیں دوسری فکریں بھی ساتھ ہی ستانے لگی تھیں ۔
”امی ! آپ گُلانے کے بارے میں وہی بتائیں ، جو ابھی تک بتا رہی ہیں ۔ ولی کو بھی منع کریں کہ وہ اس طرح سے اعلان نہ کرتا پھرے ۔آپ کون سا جھوٹ بول رہی ہیں امی ۔ بس آدھا سچ چھپا رہی ہیں ، چھپاتی رہیے ۔ اس میں کسی کا نقصان نہیں ۔ اور جہاں تک بات ہے رشتے کی ، یہ فکر چھوڑیں ابھی۔ ”
”کیسے چھوڑ دوں ، عمر دیکھی ہے اپنی ، فرقان تم سے دو مہینے چھوٹا ہے اور تین بچوں کا باپ بن گیا ہے ۔ ”امی، اچانک روایتی ماں بن گئی تھیں۔
”امی ! علی بھائی مجھ سے تین سال بڑے ہیں ، اور ایک بھی بچے کے باپ نہیں ۔ ”نور الحسن نے بھی اسی انداز میں جواب دیا۔
”وہ تو اللہ نے اسے اولاد نہیں دی ، اللہ کی مرضی ۔ شادی تو دس سال پہلے ہو گئی تھی ۔ ” امی خفگی بھول کر ا ن باتوں کی طر ف آ گئیں جو ا ن کے ہفتہ و ا ر معمو لا ت میں شا مل تھیں ۔ نور ا لحسن نے پر سکو ن ہو کر گہر ا سا نس خا ر ج کیا۔
٭…٭…٭
اس نے گاڑی سے اترتے ہوئے ایک اچٹتی سی نگاہ سامنے ڈالی تو ان دونوں کو ایک ہی بنچ پر بیٹھے دیکھا ۔ ایسا منظر آج کل اور بھی کئی آنکھیں دیکھ رہی تھیں ۔ ایڈووکیٹ قرةالعین غنی اور ایڈووکیٹ منیب طاہر ساتھ ساتھ نظر آنے لگے تھے ۔ وہ انہیں نظر اندا ز کرتا آگے بڑھ گیا تھا ۔ قرةالعین کی نظریں اس کے پیچھے پیچھے گئیں ۔اس کے مسکراتے لب سکڑگئے تھے ۔
جو وہ کر رہی تھی ، ٹھیک تھا یا غلط ؟ وہ ایک بار پھر سوچ میں پڑگئی تھی۔
”بڑا گھمنڈی ہے یہ بندہ، تمہیں کیا لگتا ہے ؟ ” منیب نے تبصرہ کرتے کرتے اس سے سو ا ل کر ڈالا ۔ وہ چپ ہو گئی تھی۔ اس شخص کے بارے میں بات کرتے ہوئے وہ ڈرتی تھی کہ کہیں اس کا چہرہ اس کے جذبات کی عکاسی کر کے رسو ا نہ کر دے ۔
”مانا کہ جج بن گیا ہے مگر ایسا بھی کیا غرور کہ سینئر وکلا کو بے عزت کر کے رکھ دے ۔”منیب طاہر نے کچھ یاد آنے پر کہا تھا۔
” پراسیکیوٹر گوہر نبیل نے بات ہی ایسی کی تھی۔ انہیں کوئی حق نہیں پہنچتا کسی کو ماں بہن کی گالی دینے کا وہ بھی کیس کی سماعت کے دوران ۔”قرة العین نے سچائی سامنے رکھنے سے زیادہ اس کے دفاع میں یہ بات کی تھی۔
وہ خود کو اس شخص کی حمایت کرنے سے روک نہیں پائی تھی جس کو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ کس کے ساتھ اٹھتی بیٹھتی ہے، کس کے ساتھ دیکھی جاتی ہے ۔ اس کو جانے کیوں اس دن یہ خوش فہمی سی ہو گئی تھی کہ وہ ایڈووکیٹ منیب طاہر سے جلتا ہے ۔ دماغ پر ابھی وکالت نے اتنا اثر نہیں چھوڑاتھا ، دل ابھی تھوڑا افسانوی سا تھا۔ اسے لگا کہ کسی اور پر توجہ دے کر اس بے دردکو اپنی جانب مائل کیا جا سکتا ہے ۔ وہ اسے اور جلانے لگی تھی۔ اس پر اثر ہوا یا نہیں ، اس بارے میں تو وہ وثوق کے ساتھ کچھ نہ کہہ سکتی تھی مگر منیب پر خاصا اثر ہو چکا تھا ۔
اس کا ہیئر اسٹائل بدل گیاتھا ،پرفیوم مہنگا ہو گیا تھا ۔کوٹ اور جوتے برانڈڈ ہو گئے تھے ۔جملوں میں انگریزی جملوں کا تڑکہ تو پہلے بھی لگتا تھا ، اب ایکسنٹ بھی گوروں جیسا بنانے کی پریکٹس کی جا رہی تھی۔ ایک پڑھی لکھی لڑکی جو ایک وکیل بھی تھی، اس کی رفاقت خاندان، برادری اور حلقہ احباب میں سر اونچا کرنے کے لیے کافی تھی ۔
وہ سنجیدہ ہونے لگا تھا۔سنجیدہ تو قرةالعین بھی تھی مگر اس کے معاملے میں ہر گز نہیں ۔
”کچھ بھی کہو … مجھے یہ بندہ پسند نہیں ۔” منیب نے اس کی طرف داری پر منہ بنا کر کہا ۔ اس ناپسندیدگی کی وجہ وہ خود بھی آج تک جان نہ پایا تھا ۔
شاید اس کی مقناطیسی شخصیت ، شاید اس کا غرور یا شاید قرةالعین کا اس کی طرف جھکاؤ۔
٭…٭…٭
گُلانے اور ولی کے بیچ جنگِ عظیم چھڑ ی ہو ئی تھی۔ امی پڑ و س میں ثانیہ بھابی کی طرف گئی ہوئی تھیں ۔ نو ر ا لحسن ہی کو ان کے بیچ ثا لث کا کردا ر اد ا کر نا پڑ ا ۔
”بھائی ! یہ مجھے پشتو میں پتا نہیں کیا کیا کہتی ہے ؟” ولی نے منہ بناتے ہوئے بھائی سے شکایت کی۔
”کیا کہتی ہے ؟”نور الحسن نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
”یہ تو آپ اس سے پوچھیں ناں ۔ ”نور الحسن نے گُلانے کی طرف دیکھا تو اس نے کندھے اچکائے ۔
”اس کی معصوم شکل پر مت جائیں بھائی ۔ یہ مجھے کہتی رہتی ہے ”وئی سادہ گلا”۔ پہلے تو میں سمجھتا رہا کہ میری سادگی کی تعریف کرتی ہے، وہ تو آج میرے پٹھان دوست نے بتایا کہ ا س کا مطلب ”بیو قوف اور احمق” ہے ۔نورالحسن نے پھر گُلانے کی طرف دیکھا تو وہ نظریں جھکا گئی۔ البتہ صاف ظاہر ہوتا تھا کہ مسکراہٹ چھپانے کی بھی کوشش کی جا رہی ہے ۔
”یہ مجھے اور پتا نہیں کیا کیا پشتو میں کہتی رہتی ہے۔ ْ”ولی نے اگلی شکایت سامنے رکھی۔
”گُلانے ! ” نورالحسن نے تنبیہی اندا ز میں اسے پکارا ۔
”یہ بی تو امارا مذاق اڑاتی۔ ”گلا نے نے بھی شکایتی انداز میں اسے کہا۔
دونوں نے ایک دوسرے کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھا۔ قبل ا س کے دونوں کے بیچ جھڑپ پھر شروع ہوتی ، نو ر ا لحسن نے مسئلے کا حل یہ نکالا کہ ولی گُلانے کو پڑھائی میں مدد دیا کرے گا اور ساتھ ہی اس کی اردو بہتر کرے گا ۔ گُلانے ولی کو پشتو سکھائے گی تاکہ ولی کو لاعلمی میں پھر کوئی خطاب نہ مل جائے ۔
”جی ! ٹیک اے ۔” نور الحسن جو بھی کہے ، وہ آج بھی اس کے لیے مالک ہی تھا ۔ اس کا نمک کھا رہی تھی وہ ۔ اس کی بات ماننا اپنا فرض سمجھتی تھی وہ ۔ جو کچھ اس نے کہا وہ سر جھکا کر ”جی… جی ” کرتی رہی۔
”پر (پھر) ام بھی اس سے چھوٹا اے ، اس کو بولو… اس کو بولیں ام کو تنگ نہ کیا کرے ۔” گُلانے نے نہایت معصومیت سے کہا۔
” ولی کرو وعدہ ۔ ”نور الحسن نے ولی کو پکارتے ہوئے کہا۔
اس نے بھی فورا ً ”جی ” کہا ۔ نورا لحسن اس کا بھائی تھا ۔ وہ اپنے بھائی کا فرماں بردار زیادہ تھا ۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});