ثقلین کمال نے عروہ کو کافی رعایت دے دی تھی۔ لیٹ وہ پہلے بھی آتی تھی، اب بھی آتی تھی۔ مگر اب منیجرکو تضحیک محسوس ہوتی تھی کیوں کہ اب وہ اس پر گرج برس نہیں سکتا تھا ۔ وہ اس سے خار کھانے لگا تھا تو وجہ سمجھ آتی تھی۔ روحی کیوں اکھڑی اکھڑی سی رہنے لگی تھی، یہ عروہ کو سمجھ نہیں آتا تھا ۔
اس دن ایک لڑکا ان کی آؤٹ لیٹ پرآیا جو کچھ لیڈیز شرٹس دیکھنا چاہ رہا تھا۔ ایسی آؤٹ لیٹس پر کسٹمرز کی زیادہ تعداد صنف نازک پر مشتمل ہوتی ہے۔ مرد آتے بھی ہیں تو فیملی کے ساتھ۔ بیگمات کپڑے ، بیگ ، جیولری دیکھتیںہیں اور وہ بچے سنبھالتے ہیں یا بور ہو کر صوفے پر بیٹھ کر موبائل میں گم ہو جاتے ہیں ۔ ایسے جوڑے بھی چلے آتے ہیں جن کی ایک دوسرے پر اٹھتی نظروں ہی سے پتا چل جاتا ہے کہ گھر والی گھر بیٹھی ہے اور کمائی باہر والی پہ لٹائی جا رہی ہے ۔ کبھی کبھار منچلے بھی یار دوستوں کے ساتھ چلے آتے ، انہیں خریدنا کچھ نہیں ہوتا ، بس مسکرا مسکرا کر بات کرتی ہوئی سیلز گرلز کے ساتھ بات کرنے کا موقع مل جاتا جس سے ان کی صحت کو خوب افاقہ حاصل ہوتا ۔
وہ لڑکا کچھ لیڈیز شرٹس دیکھنا چاہتا تھا۔ روحی نے اسے کئی شرٹس دکھائیں مگر اسے پسند نہ آئیں۔ ایک دم اس نے عروہ کی طرف اشارہ کیا ۔
”مجھے ایسی شرٹ دکھائیں لائٹ کلرز میں ۔ ”
عروہ نے اس وقت سنبل کمال کی کلیکشن میں سے ہی ایک شرٹ پہنی ہوئی تھی ۔ سنبل کمال عید کے موقع پر پورے اسٹاف کو ایک ایک ڈریس گفٹ کرتی تھی۔ ورنہ عروہ ، شمسہ ، روحی جیسی سینکڑوں لڑکیاں صرف ان ڈریسز کوحسرت بھری نگاہوں سے دیکھ سکتی تھیں، انہیں خریدنہیں سکتی تھیں ۔ اگر خرید سکتیں تو یہاں ایک ایک آ ئٹم سیل کرنے کے لیے لوگوں کے آگے پیچھے مسکرا مسکرا کر کیوں پھرنا پڑتا ؟
” سوری، یہ شرٹ تو عید کلیکشن میں سے تھی ۔ اب یہ اسٹاک ختم ہو گیا ۔ ” روحی نے عروہ کی شرٹ پر ایک نظر ڈال کر معذرت کی ۔
”ایکسکیوزمی میم … کیا آپ مجھے تھوڑا گائیڈ کر سکتی ہیں ۔ دراصل آپ کی چوا ئس اچھی ہے ناں ۔ ” وہ لڑکا عروہ کی طرف آگیا تھا ۔
”شیور ۔ ” عروہ اس کے ساتھ ایک ریک کی طرف بڑھ گئی ۔
لڑکے نے اس کے مشورے پر ایک شرٹ لے لی تھی اور اب دوسری کے لیے رائے مانگ رہا تھا ۔ سب اپنے اپنے کام میں مصروف تھے جب عروہ کی آواز آؤٹ لیٹ میں گونجی تھی۔ سب کی طرح ولید نے بھی مڑ کر اس طرف دیکھا جہاں وہ ہاتھ کے اشارے سے اس لڑکے کو باہر دفع ہونے کو کہہ رہی تھی۔
”دس از انسلٹنگ ۔ ” لڑکا بھڑک اٹھاتھا ۔
” جو کچھ آپ نے کہا ، وہ زیادہ انسلٹنگ تھا ۔ ”عروہ کی آنکھوں سے شرارے نکل رہے تھے۔
”میں نے ایسا کیا کہہ دیا؟” وہ لڑکا دونوں ہاتھ اٹھائے حیرت سے بولا۔
”گیٹ لاسٹ ۔ ” سب کو لگا کہ عروہ اس لڑکے کوتھپڑ مار دے گی۔
”تم جانتی ہو ، کسے یہ الفاظ کہہ رہی ہو ؟” لڑکے کا چہرہ لال ہوا تھا اور عروہ کا اس سے زیادہ لال۔
”سر … سر پلیز ۔”منیجرگڑبڑا کر بھاگا چلا آیا تھا اور لڑکے کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کر رہا تھا ۔
”اتنی عزت پیاری ہے تو گھر کیوں نہیں شرافت سے بیٹھتی ہو؟ لڑکیوں کو اپائنٹ کیوں کیا جاتا ہے ؟ اسی لیے نہ کہ کسٹمرز اٹریکٹ ہوں ۔ ”
”تم حد سے بڑھ رہے ہو ۔” ولید کو برا لگا تھا ۔ وہ آگے بڑھ کر بولا تھا ۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
”مجھے نام بتائیں اس پاک باز لڑکی کا اور اس ہیرو لڑکے کا ، میں کمپلینٹ کروں گا ان کی ۔ ”وہ ولید کو گھورتے ہوئے بولا۔
”سر پلیز۔ ”منیجرگڑ گڑانے پر آ گیا تھا ۔
”پہلے ہی من مانیاں کرتی تھی، اب تو اندر باہر حواری پیدا کر لیے ۔ ” شمسہ روحی کے کان کے پاس بڑبڑائی ۔
” ایسی ہی لڑکیاں ہوتی ہیں جو ڈرامے کر کر کے نوکری کرنے والی سب لڑکیوں کا نام خراب کرتی ہیں ۔” روحی نے نفرت آمیز لہجے میں کہا۔
روحی کچھ عرصہ پہلے تک تو عروہ کی د و ست ہو ا کر تی تھی مگر جب سے ثقلین کمال نے اسے خصوصی ر عا یت د ی تھی ،تب سے وہ اس سے چڑنے لگی تھی۔
لڑکا دھمکیاں دیتا چلا گیا اورمنیجرسر تھامے بیٹھا تھا ۔ پہلے تو یہ لڑکی درد سر تھی آج اس اچھے خاصے سلجھے ہوئے لڑکے کو بھی جانے کیوں ہیر و بننے کا شوق چڑھ گیا تھا ۔ اس نے ولید کو بلا کر کسٹمر اور عروہ کے بیچ کے جھگڑے میں کود پڑنے پر ڈانٹا تھا ۔
”کوئی عورت کو بے عزت کرے ، مجھ سے برداشت نہیں ہوتا۔” ولید اب بھی جذباتی ہورہا تھا۔
” نوکری میں بہت کچھ برداشت کرنا پڑتا ہے ۔ ”منیجرنے اسے سمجھانا چاہا ۔
”جی بہت کچھ برداشت کرنا پڑتا ہے مگر ذلت نہیں ۔ ”
”ذلت بھی برداشت کرنی پڑتی ہے…تمہیں کیا لگتا ہے مس ابو بکر منہ چھپا کر گھر بیٹھ جائیں گی ؟ نہیں…وہ یہ ذلت سہ کر پھر نوکری پرآئے گی ۔ دیکھ لینا تم ۔ ” منیجراسے سمجھاتے ہوئے بولا۔
ایسا ہی ہوا تھا ۔ عروہ ابوبکر نوکری پر آ رہی تھی۔
ذلت سے بھی کمینی شے تھی غربت ۔
٭٭٭٭٭
نو ر ا لحسن نے گُلانے کو اپنے کمرے میں بلایا تھا ۔ ویسے تو وہ اس کمرے میں دن میں کئی چکر لگا لیتی تھی مگرزیادہ تر اس کی غیر موجودگی میں ۔ آج اسے نو ر ا لحسن نے خود بلایا تھا ، اس لیے وہ الجھی ہوئی سی کمرے میں داخل ہوئی ۔
”بیٹھو گُلانے ۔” نورالحسن نے اسے کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور اپنے سامنے رکھی کتاب بند کر دی۔
”میں نے تم سے ضروری بات کرنے کے لیے تمہیں بلایا ہے ۔ میری بات غورسے سنو گُلانے۔” وہ سنجیدگی کے ساتھ اس سے مخاطب ہوا ۔ گُلانے نے سر اٹھا کر ان کی طرف دیکھا ۔
”تم اس گھر میں ایک باندی نہیں ہو ، کوئی کام والی نہیں ہو ۔ تم اس گھر کی ایک فرد ہو ۔ اور میں… میں بس نو را لحسن ہوں ۔ تمہارا مالک نہیں ہوں۔” وہ سیدھا اصل بات پر آیا تھا ۔
”مالک تو آپ او ناں ۔ آپ نے ام کو کریدا ۔”یہ بات اس کے لاشعور میں بیٹھ گئی تھی کہ نورالحسن اس کا مالک ہے۔
” میں تم سے پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ بھول جاؤ اس بات کو ۔ ” اسے گُلانے کی نادانی پر غصہ آرہا تھا ۔
”آں … ام کویاد اے آ پ کو ام سے شادی نئیں کرنا ۔ آپ نے ام کو کریدا کہ ام آپ کی اور آپ کے گر والوں کی کدمت کر سکے۔ ”گُلانے نے خود سے سمجھتے ہوئے کہا۔
”او گُلانے ۔ ” نور الحسن نے ماتھا پکڑا ۔
”کیا کبھی میں نے تم سے ایسا کہا ؟”گُلانے نے نفی میں سرہلایا ۔
”پھر ؟ ” اس نے نیلی آنکھوں میں جھانکا جو پہلی بار نورالحسن کو اس موڈ میں دیکھ کر خائف ہو رہی تھیں۔
”میں نے تمہیں پہلے بھی بتایا تھا کہ میری نیت صرف یہ تھی کہ گل زمان جیسے لالچی بندے سے تمہیں بچا سکوں ۔ جانے وہ پیسے کی لالچ میں تمہیں کہاں ، کس کے ہاتھ بیچ دیتا ۔ میری نیت یہ بھی تھی کہ تمہیں ڈاکٹرفضل الٰہی تک پہنچا سکوں ۔ ”
”مگر ڈاکٹر پضل الٰہی تو ملی نئیں ناں ۔”گُلانے نے زور دیتے ہوئے کہا۔
”مل جائیں گے گُلانے ۔ مایوس کیوں ہوتی ہو ۔”نور الحسن نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔
”اگر وہ مل گئی اور اس نے آپ کا تیس ہزار واپس نئیں کی تو ؟ پر تو آپ ای امارا مالک رے گی ناں ۔”
” او میرے اللہ ۔ ” نور الحسن نے اپنے بالوں میں انگلیاں پھنسائیں ۔
”سر میں درد اے ۔ ام چائے بناتا آپ کے لیے ۔ ” وہ فورا ً اٹھنے لگی تو نور الحسن نے اسے ہاتھ کے اشارے سے وہیں بیٹھے رہنے کا حکم دیا ۔ وہ بیٹھ گئی تھی۔
”گُلانے ! ” نورالحسن نے اب نرمی سے اسے پکارا ۔
”بھول جاؤ تیس ہزار کو ، بھول جاؤ یہ بات کہ میں نے تمہیں خریدا ۔بھول جاؤ کہ یہاں کوئی آقا اور باندی والا معاملہ ہے ۔ ” گُلانے حیرت سے اسے دیکھتی گئی ۔
”تم اس گھر میں ایسے ہی رہو، جیسے میں رہتا ہوں جیسے ولی رہتا ہے ۔ کیا امی ایک ماں کی طرح تمہارا خیال نہیں رکھتیں ؟”اس نے فورا ً اثبات میں سر ہلایا ۔
”ٹھیک ہے پھرآئندہ تمہارے منہ سے میں کوئی فضول بات نہ سنوں ۔ جب تک اس گھر میں ہو، اس گھر کی بیٹی بن کر رہو۔ ”وہ ابھی تک حیرت میں تھی ۔ پوجی کی لڑکی شندانہ کو بھی دوسرے وطن سے آیا کوئی مرد خرید کر لے گیا تھا ۔ پانچ سال بعد ملنے آئی تو چار بچوں کی ماں تھی۔ اس کے مالک نے اس کے ساتھ شادی بھی کیا اور اس کو زر خرید باندی بھی بنا کر رکھا ۔یہ نو ر ا لحسن عجیب تھا ۔
اس نے اس کے ساتھ شادی کی نا ہی نوکرانی بنایا ۔ اس نے اسے اس گھر کی بیٹی بنا دیا تھا ۔
اپنی قسمت پہ رشک کرتے ہوئے اس نے سوچا تھا ۔
”اچا اے ڈاکٹر پضل الٰہی نہیں مل رئی (اچھا ہے کہ ڈاکٹر فضل الٰہی نہیں مل رہے )۔ ”
٭…٭…٭
”نور چل ناں یار ، ہاسٹل کا بے مزہ کھانا کھا کھا کر دل تنگ پڑ گیا ہے ۔ مزے کا کھانا کھا کر آئیں ۔ ” ہانیہ نے بھنڈی کی شکل دیکھتے ہی ایک بار پھر نور کی منت کی ۔
”ہانیہ ! میں تمہیں کل ہی منع کر چکی ہوں ۔ ” نور ایک بار جو فیصلہ کر لیتی تھی اسے بدلتی نہیں تھی ، ہانیہ یہ اچھی طرح سے جا نتی تھی مگر اس کے اند ر اعتماد بھی اس کے وزن کے لحاظ سے ہی بھرا ہواتھا ۔ اسے ہمیشہ خوش فہمی ر ہتی تھی کہ وہ نو ر کو منا لے گی۔
”کل رات منع کیا تھا ناں تو کیا ہوا ، بارہ گھنٹے میں تو دن رات میں بدل جاتا ہے اور رات دن میں ، تیرا ارادہ بدل نہیں سکتا کیا ؟”
”نہیں ، میرا ارادہ نہیں بدلے گا۔” نور کا لہجہ اب بھی اٹل تھا۔
”ظالم ، مجھے بھنڈی کھلا کھلا کر بھنڈی بنا دینا ۔” ہانیہ نے ایک بار پھر پلیٹ کی طرف دیکھا ۔
”بھنڈی تو تمہیں پسند ہے ناں ۔” نور نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
” پسند تھی، ہاسٹل کے میس میں سبزیوں کے ساتھ جو سلوک ہوتا ہے ناں ،اس کے بعد بھنڈی تو کیا کسی اور سبزی کو منہ لگانے کو دل نہیں چاہتا ۔ ”ہانیہ نے برا سا منہ بناتے ہوئے کہا۔
”مگر تم تو دو روٹیاں کھا چکی ہو ۔ ” وہ نوالہ توڑتے ہوئے مسکرائی۔
”اب بندہ پیٹ بھی نہ بھرے کیا ؟”
”ہاں تو پیٹ ہی بھرنا ہے ناں ، تو میس کے کھانے سے بھرو ، زیادہ لالچ نہ دکھاؤ ۔” اب نور اسے سمجھا رہی تھی، بلکہ خود بچنے کی کوشش کررہی تھی۔
”ایمان سے ، سو ڈھیٹ مرے ہوں گے جب تو پیدا ہوئی ہو گی۔”ہانیہ نے تاسف سے کہا تو نور ہنس دی۔
”دیکھ میرا ہاضمہ خراب ہو گیا ہے میس کے کھانے کھا کھا کے ۔” اسے نیا حربہ سوجھا تھا نور کو منانے کا ۔
”کھچڑی بنا د و ں ؟” نور صرف پڑھائی کے معاملے میں جینئس نہ تھی بلکہ اس کے حیلے بہانے ، حربے اور طریقے سب سمجھنے میں بھی خوب ذہین تھی۔
”تیری رحم دلی پہ صدقے جاؤں ۔ ” ہانیہ گلاس اٹھا کر اسے دے ہی مارتی جو اس میں لسی نہ ہوتی۔
”چلو ہم ویک اینڈ پر کسی ریسٹورنٹ چلتے ہیں ۔” نو ر کو ر حم آ ہی گیا ۔
”ویک اینڈ پر میں نے گھر جانا ہے ، اب تیرا تو گھر … ” ہانیہ نے بولتے بولتے زبان دانتوں تلے دبائی جب کہ نور نے یوں ظاہر کیا جیسے کچھ
سنا ہی نہیں اور بھنڈی کے ساتھ ر غبت سے اسے آ ج ہی ر و ٹی کھانی ہے ۔
”سوری !” ہانیہ نے شرمندہ سے لہجے میں کہا ۔
”کس بات کے لیے ۔” وہ کسی کو شر مند ہ نہیں د یکھ سکتی تھی۔
”نور ! تم میرے ساتھ چلو ناں ہمارے گھر ۔ قسم سے بہت مزہ آئے گا ۔”اب ہانیہ کا منانے کا رخ تبدیل ہوگیا تھا۔
”پھر کبھی چلوں گی ۔”نور نے اسی طرح پلیٹ پر نظریں جمائے کہا۔
”ویسے تمہارا یہ ”پھر کبھی ” میری حیا تی میں ہی آجا ئے گا ناں ؟”نور نے کندھے اچکائے تو ہانیہ نے اس کی گردن پکڑ نی چا ہی مگر پھر ارادہ موقوف کرکے تیسری روٹی کھانے لگی۔
٭…٭…٭
چڑیوں کی آج دعوت تھی۔
آٹا ختم ہونے والا تھا ، امی نے صبح سویر ے ہی گندم دھو کر خشک ہونے کے لیے صحن میں پڑی چارپائی پر صاف کپڑا بچھا کر دانے اس پر بکھیر دیے تھے ۔ ان کا ارادہ تھا کہ دانے کل تک بالکل خشک ہو جائیں گے تو چکی سے پسوا لیں گی۔ چڑیاں آتیں اور چونچ میں ایک ایک دانہ لے کر اڑ جاتیں ۔ وہ چڑیوں کو اڑاتی نہ تھیں ۔ انہیں لگتا تھا کہ جو دانہ وہ اپنی چونچ میں بھر کر لے جاتی ہیں ، وہ ان کے حصے کا رزق ہے ۔
موسم ایک دم تبدیل ہوا تھا ۔ بارش کا تو پتا نہیں برسنے کا رادہ تھا یا نہیں لیکن گہرے سرمئی بادل دیکھتے ہی امی کو فکر ہوگئی ۔ آج ہی کپڑے دھوئے تھے اور آج ہی گھنٹا بھر لگا کر گندم بھی دھوئی تھی۔ اب کالی گھٹا دیکھ کر انہوں نے ولی کی خوب ایکسر سائز کروا ڈالی تھی۔
”چھت سے کپڑے اتار لاؤ ۔”
”موٹر پر ٹب الٹا کر کے رکھ دو ۔”
”گندم والی چارپائی گھسیٹ کر صحن میں کر دو ۔”
پہلے وہ یہ سب کا م بڑی شرافت کے ساتھ کر دیا کرتا تھا مگر اب اسے لگتا تھا کہ ساری ذمے داریاں بھلا اس کے مضبوط کاندھوں پر ہی کیوں ؟
”ایک بات بتائیں امی آپ ، مجھے تیس ہزار میں خریدا ہے کیا آپ نے؟ زر خرید غلام ہوں کیا آپ کا ؟ گُلانے سے کروایا کریں سارے کام۔”ولی سارے کام کرنے کے بعد امی کے پاس آ بیٹھا تھا۔
”کیوں گُلانے زر خرید ہے کیا ؟” امی نے عینک کے پیچھے سے اسے گھو را ۔
”تو اور کیا … تیس ہزار ، پورے تیس ہزار میں خریدا ہے بھائی نے اسے، خوب دبا کر کام لیں آپ اس سے۔”ولی جو کہ منہ پھٹ ہی ثابت ہوا تھا، روانی سے اماں کو بتا رہا تھا۔
” تیس ہزار ۔ ” امی کو کچھ سمجھ نہیں آئی تھی۔
”جی امی! ١ آپ کا یہ جو شرافت کا پیکر بڑا بیٹا ہے ناں ، اس نے باندی خریدی ہے ۔” ولی نے کان کے پاس آکر امی کو معلومات دیں ۔
”دفع ہو ۔ ” امی نے حسب ِعادت اسے ہاتھ سے پرے کیا ۔
”مانیں نہ مانیں ، ولی نیوز چینل آج ایک بار پھر بازی لے گیا ۔ سب سے پہلے اہم خبر بریک کرنے والا یہی چینل ہے ۔ ناظرین ! ولی نیوز چینل ، سب سے پہلے آپ تک ۔”ولی نیوز کاسٹر کی طرح اپنی بات نشر کرنے لگا۔
امی حیرت سے اس کا منہ تکتی رہیںوہ کسی سوچ میں تھیں اور چہرے پر تفکر تھا ۔
نور الحسن نے کبھی ان کے ساتھ جھوٹ نہ بولا تھا ۔
تو کیا اب بولا تھا ؟
٭٭٭٭٭
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});