گلانے — صوفیہ بٹ (قسط نمبر ۱)

”آپ…” نورالحسن نے اسے پھر ٹوکا ۔
”ہاں … آپ … آپ ۔” وہ رٹا لگانے والے انداز میں دہرانے لگی۔
”ہاں کے بجائے جی کہا جائے تو زیادہ مناسب ہے ۔ ” نورالحسن نے مسکراتے ہوئے اسے ایک اور بات سمجھائی۔
”پیلے ام کو اک لپظ تو یاد کرنے دو ۔ ” وہ جھنجلائی تو نورالحسن ہنس دیا ۔
”ٹھیک ہے پہلے ”آپ ” یاد کر لو ۔ اور امی کو بھی آپ کہا کرو ۔ ”اس نے ہنسی روکتے ہوئے کہا۔
”ٹیک اے… سب کو آپ بولے گا مگر ولی کو نہیں ۔ ” اس نے سر جھٹکتے ہوئے کہا۔
”ولی بھی تم سے بڑا ہے ۔”
”لگتی تو نئیں اے ۔ اس کی ہر کام بچوں والی اے ۔ ” وہ ہاتھ چلا کر بولی تو نو ر ا لحسن ہنس دیا ۔
”اچھا پوچھو کیا پوچھنا ہے ؟”نور الحسن کو جیسے اچانک یاد آیا کہ گُلانے اس کے پاس کوئی بات کرنے آئی تھی۔
”تم … او آپ … آپ ام سے شادی کب کرے گی ؟”
”شادی ؟” اس سوال پر وہ ایک دم چونکا۔
”آں … شادی۔ تم نے ام کو کریدا ،شادی کے لیے کریدا ناں ؟ ”
”نہیں … میں نے تمہیں اس مقصد سے نہیں خریدا ۔”وہ اب بھی حیران تھا۔
”پر (پھر) ؟”اس نے سنجیدگی سے نورالحسن کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”گُلانے ! میں تمہیں گل زمان سے بچانا چاہتا تھا جو امانت تمہارے بابا نے ڈاکٹر فضل الٰہی کو سونپنی تھی ، وہ بحفاظت ان تک پہنچانا چاہتا تھا ۔ اور بس … ”نورالحسن اسے سمجھاتے ہوئے بولا۔
”ڈاکٹر پضل الٰہی تم کو … آپ کو کاں سے ملے گی؟ ” اس کے معصومیت سے کیے گئے سوال پر وہ بے ساختہ مسکرا دیا ۔
”میں انہیں دھونڈنے کی پوری کوشش کررہا ہوں ۔ ان شا اللہ وہ مل جائیں گے ۔ ”
”اچا ۔ ڈاکٹر پضل الٰہی تم … آ …آپ کو نئیں ملا تو آپ ام سے پر شادی کرے گی ؟”وہ ایک بار پھر سے شادی پر آگئی تھی۔
”یہ شادی وادی کا خیال ذہن سے نکالو ، مجھے امید ہے کہ وہ ضرور مل جائیں گے ۔ میں نے کراچی میں رہنے والے اپنے تمام دوست احباب کو کہہ رکھا ہے کہ وہ ان کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کریں ۔ جب تک کہ ہمیں اس سلسلے میں کامیابی حا صل نہ ہو ، تمہارا وقت ضائع نہیں ہونا چاہیے ، تم ایڈمشن لے لو اسکول میں ۔ پہلے ہی دو ڈھائی سال کا وقفہ آ گیا تمہاری پڑھائی میں ۔ ” نور الحسن نے اسے مصنوعی ڈانٹنے والے انداز میں کہا۔
”آں ، ام کو ڈاکٹر بننے کا بڑا شوق اے ۔” تھی تو وہ بچی ہی، فوراً ہی موضوع بدل گئی۔
”چلو پھر اتنا اچھا پڑھو کہ تم ڈاکٹر بن جاؤ ۔”
”جب ام ڈاکٹر بن جائے گا پر تم… آپ ام سے شادی کرے گا ؟”ڈاکٹر سے بات اچانک پھر شادی پر آگئی تھی۔
”شادی کا ذکر کہاں سے گُلانے ؟”وہ جو بات بدل جانے پر پرسکون ہوگیا تھا، پھر چوکس ہوگیا۔
”تم … آپ … آپ نے ام کو کرید ا اس لیے ؟ اچا سمجھ آگیا … سمجھ آ گیا ۔ ” اس نے یوں سر ہلایا جیسے خود گتھی سلجھا لی ہو ۔ نور الحسن ہنس دیا تھا ۔
”شکر کرو … سمجھ آگئی ورنہ یہاں ولی ہوتا تو اس نے پٹھان کا کوئی لطیفہ سنا دینا تھا ، پھر تمہیں غصہ آنا تھا ۔ ”اس نے ہنستے ہنستے ہی کہا۔
”آں … وہ سمجھتی اے ، پٹان پاگل اے ۔ آپ کو تو ایسا نیئں لگتی ناں۔” وہ پھر سے ہاتھ چلا کر اسے بتانے لگی۔
”نہیں مجھے ایسا نہیں لگتا ۔ دیکھو تم نے کتنی جلدی ”آپ ” کہنا سیکھ لیا ۔ ”نور الحسن نے اسے سراہا۔
”آں … بابا بی کیتی تی ، امارا گُلانے بوت ذئین اے (بابا بھی کہتے تھے کہ ہماری گُلانے بہت ذہین ہے )۔ ” و ہ فخر کے ساتھ بتا تی ہوئی ٹرے اٹھا کر کمرے سے نکل گئی ۔ نور الحسن نے اس کے جانے کے بعد چائے پیتے ہوئے ایک فائل کھو ل کر سامنے کی ا و ر پڑ ھتے پڑ ھتے بے سا ختہ مسکر ا د یا تھا ۔ ا سے گُلا نے کی معصومیت بھر ی با تیں یا د آگئی تھی۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

ولید کے پیپرز تھے ، وہ ایک ہفتے کی چھٹی لینا چاہتا تھا مگر سنبل کمال کی نیو کلیکشن لانچ ہو رہی تھی ۔ ان دنوں رش ایسا ہوتا کہ وہ پانچوں بھی کسٹمرز کو ڈیل کرنے کے لیے کم پڑ جاتے ۔منیجرنے اس سے کہا تھا کہ وہ چھٹی پر جانا چاہتا ہے تو کوئی نعم البدل دے ۔ ظاہر ہے وہ ایسا کرنے سے قاصرتھا ۔
کام میں مصروف وہ یہی سوچ رہا تھا کہ مسئلے کو حل کیسے کیا جائے ۔ ظاہر ہے پیپرز تو دینے تھے۔ اس کی زندگی کا ایک مقصد تھا ، اسے اپنے پیاروں کے خواب پورے کرنے تھے ۔ اس مقصد سے وہ کسی قیمت پر پیچھے نہیں ہٹ سکتا تھا ۔ اس نے سوچ لیا تھا کہ وہ منیجرسے کہہ دے گا کہ اس کی تنخواہ کاٹ لی جائے، پھر بھی وہ نہیں مانا تو نوکری چھوڑدے گا ۔ آگے اللہ مالک ہے ۔
”سنو۔” وہ ایک کسٹمر کو ڈیل کرنے کے بعد شوز کارنر کی طرف کھڑا تھا جب عروہ اس کے قریب آئی تھی۔
”تم بے فکر ہو کر اپنے پیپر ز دو ۔ میں کسی کا ارینج کر لوں گی۔”
”آپ …مگر کیسے؟”اس نے تجسس سے عروہ سے پوچھا۔
”ابھی نماز کے وقفے میں وضو کے لیے گئی تھی تو لائم لائٹ کی ایک سیلز گرل سے میری بات ہو گئی ہے ۔ جتنے دن تمہارے پیپرز ہیں وہ اپنی بہن کو لے آئے گی۔ لڑکی ٹرینڈ ہے ، یہیں کسی آو ٹ لیٹ پر کام کرتی تھی ۔ آج کل ان بن ہونے کی وجہ سے گھر بیٹھی ہے ۔ وہ آ جائے گی تمہاری جگہ ۔ تم ریلکس ہو کر پیپر دو۔ اسے اتنے دن کا پے کر دینا ۔”
کچھ لڑکیاں آؤٹ لیٹ میں داخل ہوئیں تو وہ جلدی سے ان کی طرف بڑھی۔
”السلام و علیکم ۔” شائستگی کے ساتھ انہیں خوش آمدید کہہ کر وہ ان کے ساتھ ساتھ چلی۔
وہ ممنون سا ہو کر اسے دیکھنے لگا تھا ۔یہ اس کی عروہ ابوبکر کے ساتھ براہ راست پہلی بات چیت تھی۔
٭٭٭٭٭
نور الحسن نے گُلانے کو ساتویں آٹھویں کی کتابیں لا کر دی تھیں تا کہ وہ ٹیسٹ کی تیاری کر سکے ۔ اس نے شہر کے بہترین اسکول کے پرنسپل سے بات کر لی تھی۔ انہوں نے ساتویں اور آٹھویں کا سلیبس دے دیا تھا ۔ اگر گُلانے اس نصاب میں سے تیاری کر کے ایک ٹیسٹ پاس کر لیتی تو اسے جماعت نہم میں داخلہ مل جاتا ۔اس طرح اس کی پڑھائی میں جووقفہ آیا تھا ، وہ اثر انداز نہ ہوتا ۔ امی نے اس سے ساری ذمے داریاں واپس لے کر ولی کے کندھوں پر ڈال دی تھیں ۔ وہ بلبلا کر رہ گیا ۔
”اتنی بڑی ہو گئی ہو ، ابھی سیونتھ میں ۔ ” وہ ہنستا تھا ۔
آج کل گُلا نے کے پاس اس کی باتوں کو دل پر لینے کا وقت بھی نہ تھا ۔ وہ جی جان سے محنت کر رہی تھی۔ڈاکٹر بننے کا جو خواب اس نے کبھی دیکھا تھا ، وہ پورا ہونے کی امید اسے نظر آنے لگی تھی۔
اس دن وہ انگریزی کی کتاب کھولے ہل ہل کر جانے کیا یاد کر رہی تھی جب و لی سر د با تا ہو ا اپنے کمر ے سے نکلا تھا ۔
”چا ئے بنا د و ایک کپ ۔”
”ام پڑھتا اے۔” گُلانے نے وہیں سے ہاتھ ہلا کر انکار کیا ۔
”تمہار ا کو ن سا پی ا یچ ڈ ی کا سیمینا ر ہے ۔ جو ایک کپ چا ئے کے لیے ا ٹھ نہیں سکتیں۔”ولی نے دانت بھینچ کر کہا۔
” نورالحسن بتا ری تھی… اما ر ا پانچویں کا سر ٹیفکیٹ اور اسکول لیونگ سر ٹیفکیٹ بن گئی اے ۔ کل تک ٹی سی ایس آجائے گی۔ ام کو ابی بوت کچھ یاد کرنا اے ۔” وہ پھر ہل ہل کر جملہ یاد کرنے لگی تھی۔
”رٹا ہی مارنا ہے ناں ، چائے بناتے ہوئے مار لو ۔ قائد اعظم از دا فاؤنڈر آف پاکستان … قائد اعظم از دا فاؤنڈر آف پاکستان …قائد اعظم از دا فاؤنڈر آف پاکستان … پھر کہیں جا کر تمہارے بھیجے میں بیٹھنا ہے کہ قائد اعظم پاکستان کے بانی ہیں ۔”وہ اس کا مذاق اڑاتے ہوئے بولا۔
”ا م ر ٹا نہیں ما ر تا ۔ ام کو کبر (خبر ) ا ے ۔” اس نے نیچے دیکھتے ہوئے بڑی بیپروائی سے اس کا جواب دیا۔
”کیا خبر ہے ؟”وہ تجسس سے اسے دیکھنے لگا۔
” یہ کہ …قائد اعظم از دا پاؤنڈ ر آپ پاکستان ۔” اس نے سر اٹھا کر اترا کر پورا انگریزی جملہ سنایا ۔ولی ہنسا اور پھر ہنستا چلا گیا ۔ گُلانے نے توجہ نہ دی۔نو ر ا لحسن کا یہ بھائی تھا ہی پاگل۔وہ سنجیدگی سے اُسی طرح ہل ہل کر ایک پیراگراف یاد کرنے لگی۔
”اچھا گُلانے … بولو فاؤنٹین ۔”
”پاؤنٹین ۔”ولی پھر ہنسنے لگا ۔
”اچھا بولو …فنگر ۔”
”پنگر۔”ولی نے پشتو بولنے والوں کو ”خ” کی جگہ ”ک” اور ”ہ” کی جگہ ”ا” بولتے تو دیکھا تھا مگر اسے پتا نہیں تھا کہ پشتو میں ”ف” حروف تہجی نہیں ، جس کی وجہ سے اکثر ”ف” کو ”پ” بول جاتے ہیں ۔ گُلانے کی یہ کمزوری ولی کے ہاتھ آگئی تھی۔ اسے گُلانے کو چڑانے کے مزید مواقع حاصل ہو گئے تھے۔ اس نے شام تک ”ف” سے شروع ہونے والے لفظ اس کے منہ سے کہلوا کہلوا کر اس کے ناک میں دم کر دیا تھا ۔ گُلانے کو جب سمجھ آیا تو منہ بناتی امی کے پاس چلی آئی تھی۔
”پوجی ! ام کو آپ کا یہ بچہ پسند نئیں۔” اس کے لیے ”آپ” پکارنا اور خاص طور پر ولی کو ”آپ” کہنا بڑا ہی مشکل کام تھا مگر نو ر الحسن کہے اور وہ نہ مانے ، ایسا تو ہو نہیں سکتا تھا ۔ وہ اس کے لیے بڑا درجہ رکھتا تھا ۔
ا می نے پر ات میں آ ٹا چھانتے ہوئے ولی کی طر ف د یکھا ۔
”ہیں … تمہیں نورا لحسن پسند نہیں ۔” و لی نے پو ر ی آ نکھیں کھول کر اسے پھر چڑایا۔
”ام نو ر ا لحسن کا بات نئیں کرتا ۔ آپ کی بات کرتا ۔ نو ر ا لحسن تو امارا مالک اے ۔ وہ تو ام کو بہت اچھا لگتی۔” گُلانے نے اسے دو بہ دو دیکھتے ہوئے کہا۔
”ہیں … امی ” ولی نے ماں کو آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارہ کیا مگر ہ سادہ عورت سمجھ نہ پائی۔
”امی … ابھی بھی وقت ہے۔ بچا لیں اس پہاڑی لڑکی کے چنگل سے اپنے لاڈلے سپوت کو۔” اس نے ماں کے کان میں منہ ڈال کر خطرے کا الارم بجایا ۔
”دفع ہو ۔” امی نے آٹا گوندھتے ہوئے کہنی کے ساتھ اسے پرے کیا ۔ وہ گُلانے کو گھورتا ہوا کچن سے نکل گیا جو اس تجسس میں تھی کہ اس فتنے باز نے پوجی کے کان میں جانے کیا کہا ہے ۔
٭٭٭٭٭
سارا اسٹاف گنگ تھا اور عروہ ابو بکر کی زبان چل رہی تھی۔منیجرکے ماتھے پر پسینا آ گیا۔ سنبل کمال یا ثقلین کمال کی بات تو چلو الگ ہوتی ہے مگر اس سے نیچے کام کرنے والے عملے میں سے کسی کی آج تک ہمت نہ ہوئی تھی کہ اس کے سامنے چوں چراں بھی کر جائے ۔یہ لڑکی …یہ لڑکی بھی آج تک توسر جھکا کر اس کی سنتی آئی تھی ۔ آج جو سنانے پر آئی تو بس اللہ پناہ۔
”بتاد ی میں نے آپ کو ساری بات …سمجھ نہیں آئی تو پھر سن لیں ۔ میری بہن گھر سے بھاگ گئی ، میرا بھائی سائبر کرائم کے جرم میں حوالات میں بیٹھا ہے ۔ میرا باپ بدنامی اور غم سے بیمار پڑ گیا۔اب مجھے اپنے ابو کو اسپتال لے کر جانا ہوتا ہے ، مجھے اپنے بھائی کے کیس کے لیے کبھی وکیل کے پاس جانا پڑتا ہے ، کبھی عدالت کے چکر لگانے پڑتے ہیں…چھٹی کرنا، دیر سویر ہونا میری مجبوری ہے، آپ نے رکھنا ہے تو رکھیں ،نکالنا ہے تو نکال دیں ۔”وہ بول رہی تھی اور بس بول رہی تھی۔ اس کی آنکھوں سے آنسو اور آواز سے لرزش واضح تھی لیکن وہ بلا تکان بول رہی تھی۔
نازک صورت حال پہ اس نے خود ہی آر یا پار ہونے کا فیصلہ کر لیا تھا ۔
ثقلین کمال نے ایک نظر آؤٹ لیٹ کے پورے اسٹاف پر ڈالی پھر انہیں اپنی اپنی جگہ پر جانے کا کہا اور عروہ کو کسٹمرز کے لیے رکھے گئے صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔ اس کے بیٹھنے کے بعد وہ سامنے بیٹھ کر اس سے کچھ بات چیت کرنے لگا تھا ۔منیجراپنی جگہ بیٹھا پہلو پہ پہلو بدلتا رہا ۔
”یہ لڑکی یقینا اب میری شکایتیں کر رہی ہو گی۔ اور ثقلین کمال کرے گا اس کی باتوں کا یقین ۔ آخر سامنے لڑکی جو بیٹھی ہے ۔” وہ بڑ بڑاتے ہوئے ماؤس اِدھر اُدھر گھما رہا تھا ۔
ثقلین کمال ڈیزائنر سنبل کمال کا بھائی تھا اور مینجمنٹ وہی دیکھتا تھا ۔ وہ دو تین ماہ بعد ہر آؤٹ لیٹ پر وزٹ کر کے وہاں کی کارکردگی چیک کرتا ۔ جس دن اس نے آنا ہوتا، سارے عملے کو مصیبت پڑی ہوتی تھی۔ خاص طور پرمنیجرکے منہ پر بارہ بج جاتے جب تک کہ وہ وزٹ کر کے ایک ایک تفصیل لے کر واپس نہ چلا جاتا ۔ فرنیچر ، اے سی ، واٹر ڈسپنسر یہاں تک کہ لائٹس اور کراکری تک باریکی کے ساتھ چیک کرتا ۔ عملے کی کارکردگی کی رپورٹ بہت تفصیل سے لیتا ۔منیجرجوعملے کی چھوٹی موٹی آپس کی چپقلش، ان کی دیر سویرکو چھپا جاتا تھا ، آج اس نے ضروری سمجھا کہ عروہ ابوبکر کی شکایت لگا ہی دی جائے کیوں کہ اب اس لڑکی پر اس کی ڈانٹ تو اثر نہیں کرتی تھی ، ڈھیٹ بن کر سنتی رہتی ۔ عزتِ نفس تو جیسے اس لڑکی کی تھی ہی نہیں۔سب سنتی ، منہ سے ”سوری ، سوری ” کرتی ، مگر اپنی روٹین نہ چھوڑتی تھی۔ دھمکا کر بھی دیکھ لیا ، تنخواہ کاٹ کر بھی دیکھ لیا ۔ اب اور کیا کرتا ۔ شکایت اوپر ہی پہنچانی تھی ناں ۔
مگر ایسا کیا تو بُرا ہی کیا ۔ وہ نہ جانتا تھا کہ آج کے بعد یہ لڑکی اور شیر ہو جائے گی۔
ثقلین کمال آدھے گھنٹے بعدچلا گیا تھا ۔ عروہ اسٹور میں چلی گئی تھی۔ولید ایک کسٹمر کے کہنے پر مطلوبہ سائز کی شرٹ لینے اند ر گیا تو اس نے دیکھا،عروہ ابو بکر رو رہی تھی۔
٭٭٭٭٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

لالی — شاذیہ خان

Read Next

موسمِ گرما —- حرا قریشی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!