گلانے — صوفیہ بٹ (قسط نمبر ۱)

سیل کے دن تھے ۔ ان دنوں ہجوم کا یہ عالم ہوتا کہ جیسے سب کچھ مفت مل رہا ہو۔ قدم رکھنے کی جگہ نہیں تھی۔ پورے اسٹاف کو سر کھجانے کی فرصت نہیں ملتی۔ ایسے میں اگر عروہ ابوبکر ہزارہا تاکید کے بعد بھی لنچ ٹائم پر ڈیوٹی پہ حاضر ہو تومنیجر کا غصہ جائز لگتا ہے ۔منیجرکیا ، اب تو روحی ، شمسہ اور سرفراز بھی اعتراض کرنے لگے تھے ۔وقت پر ڈیوٹی پر پہنچنا صرف ان کا فرض تھا کیا ؟
وہ بڑبڑانے لگے تھے ، پھر آہستہ آہستہ صدائے احتجاج بھی بلند کرنے لگے تھے ۔صرف ایک ولید تھا جو کچھ نہیں بولتا تھا ۔ وہ کسی معاملے میں بھی کچھ نہیں بولتا تھا ۔ خاموشی کے ساتھ آتا جاتا ، خوش اسلوبی کے ساتھ اپنی ڈیوٹی پوری کرتا اور بس ۔
منیجرکو اس سے کبھی کوئی شکایت نہ ہوئی تھی۔
درد سر بننے کے لیے عروہ ابو بکر ہی کافی تھی۔ وہ بہت چھٹیاں کرتی تھی اور لیٹ آنا تو اس کا معمول تھا ۔ آئے دن اس کی منیجرکے سامنے پیشی ہوتی۔ اس کو وارننگ دی جاتی ۔وہ سنتی رہتی تھی، جواب نہیں دیتی تھی مگر دیر سے آنا چھوڑتی نہ تھی۔ پچھلے مہینے تو دو سے زائد جو چھٹیاں اس نے کی تھیں، اس کی تنخواہ بھی اسی کے حساب سے کاٹ لی تھی۔ اس ماہ اس نے چھٹیوں میں کمی کر دی مگر دیر سے آنا نہیں چھوڑا تھا۔ منیجراب اس سلسلے میں بھی کوئی لائحہ عمل تیارکرنے کے بارے میں سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے لگا تھا ۔ اس کی دیکھا دیکھی اب شمسہ بھی کبھی کبھار لیٹ آنے لگی تھی۔ مزید ڈھیل دی گئی تو سارا عملہ بگڑ جائے گا ۔
رات گیارہ بجے جب کوئی کسٹمر موجود نہیں تھا تو عملے نے کچھ سکون کا سانس لیا تھا۔اتنے میں منیجرنے اسے طلب کیا ۔
وہ جانتی تھی کہ ایسا کچھ ہونے والا ہے ۔ کوڈ SK11-B کے ہر سائز کو الگ الگ سیٹ کرتے ہوئے اس نے ایک گہری سانس خارج کی اور کاؤنٹر پر چلی آئی ۔
”مجھے صرف یہ بتا دیں کہ آپ نے نوکری کرنی ہے یا نہیں؟” یہ لڑکی بہت بڑا مسئلہ تھی۔
وہ خاموش کھڑی رہی۔ بھلا اس سوال کا وہ کیا جواب دیتی ۔ نوکری کرنی تھی، اسی لیے تو رات کے گیارہ بجے اس کے سامنے ہاتھ باندھے سر جھکائے کھڑی تھی۔
”میں نے کل وارن کر دیا تھا ناں کہ سیل کے دن میں کوئی چھٹی نہیں ، کوئی دیر نہیں ۔” منیجرکی آواز اب تھوڑی بلند تھی۔
”سر! مجھے ابو کو لے کر اسپتال … ”
”مس ابوبکر …ہر گھر میں مسئلے ہوتے ہیں ، سب کے ساتھ پرابلمز جڑی ہوئی ہیں۔ میرا بچہ تین دن سے بیمار ہے ۔ کیا میں بھی اس کے ساتھ جڑ کر بیٹھ جاؤں اور نوکری کو مذاق سمجھ لوں۔” منیجراس کے روز روز کے بہانوں سے تنگ آگیا تھا۔
”اب اس کی طبیعت کیسی ہے سر ؟” اس نے جس فکرمندی کے ساتھ پوچھا ، ایک لمحے کے لیے تومنیجرگنگ ہوا ۔ روحی منہ دوسری طرف کر کے مسکرانے لگی ۔
”آپ کو اسے خود ڈاکٹر کے پاس لے کر جانا چاہیے تھا سر ۔”
”اور یہاں … یہاں کیا فرشتے میرا کام سنبھالتے ؟” منیجراس بات پر تپ گیا تھا۔
”فرشتے کی ڈیوٹیز کچھ اور ہیں سر۔ ہم ہیں ناں سر۔ ہم دیکھ لیں گے ۔ آپ اپنے بیٹے کو وقت دیں ۔” عروہ منیجرکو ایسے تسلی دے رہی تھی جیسے وہ باس ہو اور منیجراس کا ماتحت۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

”جی… آپ ہیں ناں … آپ کے حوالے کر دیتا ہوں سب کچھ ، پھر یہ بتا ئیں کہ کل آؤٹ لیٹ بند رہے گی ، یا لنچ کے بعد کھلے گی ؟ ”منیجرطنزیہ لہجے میں بولا ۔
شمسہ ، سرفراز اور روحی ہنس دیے تھے ۔منیجرکو لگا کہ صورتِ حال غلط ہو رہی ہے ۔ اس نے پھر لہجے کو بارعب بناتے ہوئے لیکچر دینا شروع کیا ۔
”سوری سر ، آئندہ لیٹ نہیں ہو گا ۔”عروہ اب دوبارہ سر جھکائے کھڑی تھی۔
”یہ تو آپ پچھلے سات مہینے سے کہہ رہی ہیں ۔”منیجرکو اب اس کی معذرت پر بھی غصہ آتا تھا۔ وہ خاموش رہی ۔
”یہ آپ کو لاسٹ وارننگ ہے ، آئندہ بھی آپ کی یہی روٹین رہی تو گھنٹے کے حساب سے آپ کی تنخواہ کٹے گی۔ جائیں جا کر نیو اسٹاک کو سیٹ کریں ۔” منیجرنے بات ختم کرتے ہوئے کہا۔
”تھینک یو سر۔”اس نے سر جھکا کر کہا اور اسٹور میں چلی گئی۔
باقی عملے کی طرح ولید کو بھی لگتا تھا کہ وہ ڈھیٹ ہے اور جانتا تھا کہ وہ آئندہ بھی پہلے جیسی روٹین پر ہی چلے گی۔
٭٪٭٪٭٪٭٪٭
نورا لحسن کو امی کی ایک عادت پسند نہ تھی ۔
انہیں کسی اور کاکام پسند نہیں آتا تھا ۔ اس نے کئی بار مددگار کے طور پر کوئی عورت یا لڑکی رکھوا کر دی مگر امی کو کسی کے کپڑے دھونے کا طریقہ نہ بھاتا اور کسی کا کپڑے تار پر پھیلانے کا سلیقہ پسند نہ آتا۔ جھاڑو پونچھے سے تو وہ کسی سے مطمئن نہ ہوتیں ۔ کسی کو جھاڑو لگانے کا سلیقہ نہ تھا تو کسی کو چیزوں پر پڑی گرد نظر نہ آتی تھی۔ ان سب کا نتیجہ یہ ہوتا کہ یا تو ملازمہ جواب دے جاتی یا امی جواب دے دیتیں ۔
”اللہ ہاتھ پاؤں سلامت رکھے ، کسی کا محتاج نہ کرے ۔ میں خود کر لوں گی سب ۔” اور ولی سر تھام کر رہ جاتا ۔ اب امی نے اسے ماسی بنا دینا تھا ۔ امی کھانا بناتیں تو کھانا لگانا اور برتن دھونا اس کی ذمے داری تھی۔ امی کپڑے دھوتیں تو کپڑوں کو تار پر پھیلانا اور اتارنا اس کا کام تھا ۔امی جھاڑو لگاتیں تو پونچھا لگانا اس کے ذمہ تھا ۔ مگر یہ سب ستم پہلے وقتوں کی کہانی ہوئے ۔ اب تو گُلانے آگئی تھی ۔ امی سے زیادہ اُسے آرام کا موقع ملا تھا۔ اب وہ سارے کاموں سے بری الذمہ ہو نے لگا تھا ۔ کچھ دن تو اس نے آنے والی کو مہمان سمجھ کر ”نہیں … نہیں ، تم رہنے دو، میں کر لوں گا۔” جیسے ڈائیلاگ بولے تھے مگر جب اندازہ ہوا کہ آنے والی چند دن کی مہمان نہیں بلکہ شاید مستقل مکین ہی ہے تو وہ کالر سیدھا کر کے ، کندھے جھاڑ کر ، گردن اکڑا کر مسند شاہی پر جا بیٹھا ۔
”ولی ! بھائی آیا ہے ، پانی دو اُسے۔”امی حکم دیتیں ۔
”گُلانے … بھائی آئے ہیں ، پانی دو انہیں ۔”حکم آگے فارورڈ ہو نے لگا ۔
کچھ ہی دنوں میں اسے سمجھ آ گئی کہ لڑکی کام کی چیز ہے ۔ بہت اٹھا لیا نقصان چھوٹے ہونے کا، اب اس گھر میں کوئی اس سے بھی چھوٹا تھا جس پر وہ رعب ڈال سکتا اور حکم چلا سکتا تھا ‘ لیکن یہ شہنشاہت زیادہ دن نہ چلی تھی۔
لڑکی نے بہت جلدی ثابت کر دیا تھا کہ وہ منہ میں زبان رکھتی ہے ۔امی اور بھائی کے سامنے معصوم سی بنی رہنے والی اسے جواب دینے لگی تھی۔ پہلے تو کچھ دن وہ اس کے مذکر و مونث میں پھنسا رہا، پھر جیسے اس کے ہاتھ گُلانے کی بڑی کمزوری آ گئی۔تکلفات کا سلسلہ جلد ختم ہو گیا ۔ چند ہی دنوں بعدگھر میں کچھ اس طرح کا منظر تھا ۔
”پوجی …تم ولی کو سمجاؤ ،ام کو تنگ کرتی اے۔ ” گُلانے کمرے میں داخل ہوئی۔ امی اور نورالحسن نے بات ادھوری چھوڑ کر اس کی طرف دیکھا۔
”اماں …تم گُلانے کو سمجھاؤ ، ام کو تنگ کرتا اے۔” ولی بھی پیچھے پیچھے کمرے میں داخل ہوا۔
”ولی… ا نسا ن کے بچے بنو۔” امی نے اسے گھورا ۔
”کیا امی …پہلے گُلانے بی بی ہم کو لڑکی بنانے پہ تلی ہے اور اب آپ … آپ تو حد ہی کرتی ہیں امی۔ لڑکی لڑکا چھوڑ ،انسان ہی نہیں رہنے دیا ۔” ولی سراپا احتجاج ہوا تو گُلانے ہنسنے لگی ۔
نور ا لحسن نے دیکھا کہ کیمپ میں خاموش خاموش رہنے والی لڑکی یہاں آکر خوش رہنے لگی تھی ۔
٭٭٭٭٭
وہ جانتا تھا کہ کٹہرے میں کھڑا شخص بے گنا ہ ہے مگر ثبوتوں اور جھوٹے گواہوں کے جال میں اس طرح پھنس گیا تھا کہ ہاتھ پاؤں مار کر بھی نکل نہیں پا رہا تھا ۔ قتل اپنے پیچھے سراغ ضرور چھوڑتا ہے ۔ اسی سراغ کو ڈھونڈ کر ایڈووکیٹ قرة العین غنی کو اپنے مؤکل کو بے گنا ہ ثابت کر نا تھا ۔ مگر وہ تو کسی اور ہی کام میں لگی ہوئی تھی۔اس کی کشادہ پیشانی پر بل پڑے ۔
آج کی ساری بحث وکیل استغاثہ نے اپنے مؤکل کے حق میں کر لی تھی۔ کیس کی سماعت اگلے ہفتے تک ملتوی کرتے ہوئے وہ اپنی کرسی سے اٹھا اور تیز قدموں کے ساتھ چلتا ہوا اپنے چیمبر میں آ گیا ۔
”مس غنی کو بلا ؤ ۔ ‘ ‘ کر سی پر بیٹھتے ہو ئے ا س نے نائب قاصدکو حکم د یا ۔ ا س کے چہر ے کے تاثر ا ت د یکھ کر کو ئی بھی ا ند ا زہ کر سکتا تھا کہ و ہ ا س و قت کس قد ر غصے میں ہے ۔
”مس غنی ! کسی کی زندگی آپ کے نزدیک کیا معنی رکھتی ہے ؟” قرة العین ابھی آفس میں داخل ہو کر معاملے کو سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی جب اس کی طرف سے نہایت سنجیدگی کے ساتھ سوال آیا ۔
”جی سر؟ ” وہ سمجھ نہیں پائی تھی۔
”مذاق لگتی ہے کسی کی زندگی آپ کو ؟” ا س کا غصہ اس کے لہجے سے ظاہر تھا ۔ قرةالعین نے نفی میں سر ہلایا ۔
”پھرسرمد رئیس کا کیس آپ لڑ رہی ہیں یا اس کے ساتھ مذاق کر رہی ہیں ؟”
”سوری سر ! میں سمجھی نہیں ۔ ”قرة العین حیرانی سے اسے دیکھنے لگی۔
”جب آپ کا فوکس پراسیکیوٹر کے منہ سے نکلتے ہوئے لفظوں پر ہونا چاہیے تھا ۔جب آپ کا دھیان اپنے مؤکل کے دفاع پر ہونا چاہیے تھا ۔آپ اپنے موبائل میں گم تھیں ۔”
اس نے سر جھکا لیا ، وہ جان گئی تھی کہ وہ شرط جیتنے کے چکر میں مجر م بن بیٹھی ۔
”آپ کو گھر بیٹھ جانا چاہیے مس غنی ۔ ”اس کا پارہ آسمان کو چھو رہا تھا۔
”سوری سر ! منیب نے شرط لگائی …”اس کی آواز اس کا ساتھ دینا چھوڑ گئی تھی۔
”مس غنی ! آپ اس وقت خاموش رہیں تو یہ زیادہ بہتر ہو گا ۔ آپ کے فضول قسم کے ایکسکیوزز مجھے زیادہ مایوس کریں گے ۔ ” وہ سر جھکا کر بیٹھ گئی ۔
”آپ کوئی کالج گرل نہیں ہیں ۔ اپنی عمر دیکھیں ، اپنا مقام دیکھیں ۔ کیاایک وکیل کوزیب دیتا ہے کہ وہ ایسی حرکت کرے وہ بھی دورانِ سماعت ؟ آپ جیسے لوگ ہر شعبے میں اس کا نام خراب کرنے کے لیے پہنچ جاتے ہیں ۔”وہ سر جھکا کر سنتی رہی ۔ غلطی اس کی تھی ، اسے احساس تھا ۔
”سوری سر ! آئندہ ایسا نہیں ہو گا ۔”وہ خفت سے بولی۔
”ایڈووکیٹ منیب طاہر کی کمپنی میں رہیں گی تو آئندہ بھی حماقتیں کریں گی۔ ایل یل بی ، ایل ایل ایم کی ڈگری حاصل کر کے ہر کوئی وکیل نہیں بن سکتا ۔ یاد رکھیں ۔ ” اس کا غصہ کسی طور ٹھنڈا نہیں ہو رہا تھا۔
”جی سر۔ ”اس نے پھر سر جھکا کر کہاتھا ۔
سیلفی اسے خاصی مہنگی پڑی تھی۔
٭٭٭٭٭
وہ کیمپ والا نورالحسن بہت اچھا تھا ۔ جو اس سے باتیں کرتا تھا ، اس کو وقت دیتاتھا ۔ یہاں لا کر تو جیسے اسے بھول ہی گیا تھا ۔ آتے جاتے حال چال پوچھ لیتا اور اپنی فا ئلوں میں گم ہو جا تا ۔ ایک تو گھر دیر سے آتا ۔ دوپہر اور رات کا کھانا اکثر اس کے بغیر ہی کھایا جاتا تھا ۔ گھر آتا تو بھی مصروف ہی دکھائی دیتا ۔ ہاں امی کے پاس بیٹھ کر ایک دو گھنٹے ضرور انہیں وقت دیتا تھا ۔ یہی وہ وقت تھا جب امی ولی کی شکایتیں بھی لگاتیں اور وہ بھائی کی شرارتوں سے بھی محظوظ ہوتا ۔گُلانے نے محسوس کیا تھا کہ وہ اپنے بھائی سے بہت پیار کرتا ہے ۔ امی شکایتیں بھی لگاتیں تو وہ مسکرا کر سنتا رہتا ۔
اس دن بھی وہ کافی دیر سے گھر آیا تھا ۔
”چلیں آپ کی حاضری ہے قاضی نے عدالت لگائی ہے ۔ ” ولی نے دروازہ کھولتے ہی مطلع کیا ۔
”امی جاگ رہی ہیں ؟ ” اس نے آنکھیں سکیڑتے ہوئے ولی سے پوچھا۔
”آپ کی صورت دیکھے بنا انہیں نیند کب آنی ہے ۔ ”ولی نے مؤدب ہونے کی ناکام کوشش کی۔
وہ شرمندہ سا امی کے کمرے میں چلا آیا ۔وہ نماز ادا کر رہی تھیں ۔ نورالحسن اُن کے پاس ہی نیچے بیٹھ گیا ۔انہوں نے سلام پھیر کر اس کا چہرہ غور سے دیکھا ۔
”تھک گئے ہو ۔ جاؤ جا کر سو جاؤ۔ ” وہ ماں تھی ۔ ڈانٹنا بھول گئی تھی ۔
”ابھی کہاں امی … ابھی بہت کام ہے ۔” وہ واقعی تھکا ہواسا لگ رہا تھا ۔
”بہت مصروف کر لیا ہے تم نے خود کو ۔ ”وہ اسے پاس بٹھاتے ہوئے بڑے پیار سے بولیں۔
”نام بنانے کے لیے بہت محنت کرنی پڑتی ہے امی ۔ ”اس کا جنون، اس کا ولولہ اس کے لہجے میں بول رہا تھا۔
”اللہ کامیاب کرے تمہیں بیٹا۔ ”وہ ماں جو تھوڑی دیر پہلے بناوٹی غصہ دکھانے والی تھی، بیٹے کے سامنے آتے ہی ممتا اس پر غالب آگئی۔
”ماں کی دعا جس کے ساتھ ہو ، وہ کامیاب ہے امی ۔ ”اس نے ماں کا ہاتھ چوم کر کہا۔
امی نے نہال ہو کر اس کا ماتھا چوما اور نوافل ادا کرنے لگیں ۔ وہ اٹھ کر اپنے کمرے میں چلا آیا۔ گُلانے نے اس کا چہرہ دیکھا ، وہ اسے بہت تھکا تھکا سا لگا ۔وہ اس کے لیے چائے بنانے کچن میں چلی آئی تھی۔ آج اسے نورالحسن سے ضروری با ت بھی کرنی تھی۔
”جزاک اللہ گُلانے۔ ” نورا لحسن نے اس کے ہاتھ میں چائے کا کپ دیکھ کرکہا ۔ اس و قت اُسے چائے کی شد ید طلب ہو ر ہی تھی ۔
”یہ تو گُلانے کا پرض اے ۔ ” اس نے سر جھکا کر کہا ۔
”تم بہت کا م کرنے لگی ہو ۔ پڑھنے کا ارادہ نہیں ہے کیا ؟” اس نے چائے کی چسکی لیتے ہوئے کہا۔
”پڑنا تو ام کو بوت سارا اے ۔ بابا کیتی تھی کہ لڑکی کے لیے بھی پڑائی اتنا ضروری اے جتنا لڑکے کے لیے ۔ ”گُلانے اسے دیکھتے ہوئے بولی۔
”ٹھیک کہتے تھے تمہارے بابا ۔ پشاور میں تمہار ا جو اسکو ل تھا ، اس کا نام بتاؤ ،تمہا ر ا سرٹیفکیٹ منگوانا ہے ۔ پھر تمہار ا ایڈ مشن کروا دیں گے۔ ”
”سچ نورالحسن ؟” اس کی آنکھیں چمک اٹھیں ۔ نورالحسن نے مسکر اکر سر ہلایا ۔
”وہ تو ٹیک اے ۔ مگر تم ام کو ایک بات … ”
”اپنے سے بڑے کو آپ کہتے ہیں گُلانے ۔ ” نور الحسن نے نر می سے اسے سمجھایا ۔
”ٹیک اے … آپ ام کو ایک بات بتاؤ کہ تم …”

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

لالی — شاذیہ خان

Read Next

موسمِ گرما —- حرا قریشی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!