گلانے — صوفیہ بٹ (قسط نمبر ۱)

خزیمہ داؤد کو پیار محبت کا راگ الاپنے والے جوڑوں سے بہت الجھن ہوتی تھی ۔ آج ساتھ جینے مرنے کی قسمیں کھائی جا رہی ہیں ، ایک دوسرے کی بانہوں میں بانہیں ڈالے گھوما جارہا ہے اور کل چھوٹی سی بات پر بریک اپ … اورپرسوں وہی ڈائیلاگ ، وہی جذبات کسی اور کے لیے ۔
کم از کم خزیمہ نے اپنی اسٹوڈنٹ لائف میں یہی دیکھا تھا ۔ چھٹی کلا س ہی سے لڑکے لڑکیوں کو پیار محبت کے دورے پڑنے لگتے ۔کالج جا کر دوسرا اور یونیورسٹی پہنچ کر تیسرا دورہ پڑتا ۔ مزے کی بات یہ کہ یہ دورے جان لیوا نہ ہوتے تھے۔ بندہ اپنے انجام کو پہنچتا، عملی زندگی میں قدم رکھ کر کسی چوتھے ہی بندے سے بیاہ رچا لیتا… ہاں کچھ جذباتی کم عمری میں جان لیوا کام کر بیٹھتے تھے مگر پیار محبت کے نام پہ خودکشی بھی اسے محبت کی تعریف نہیں بلکہ محبت کی توہین لگتی تھی۔اسے سوہنی منہیوال جیسی محبت کی داستانیں بھی پسند نہ تھیں ۔ جو لڑکی ماں باپ کی، بہن بھائیوں کی عزت قدموں تلے روند کر آدھی رات کو گھر سے نکل کر محبوب سے ملنے جاتی ہو ، وہ خزیمہ داؤد کے لیے تو love icon ہر گز نہ تھی۔
اسے محبت کے قصے کچھ خاص نہ بھاتے تھے مگر پھر ہوا کچھ ایسا کہ وہ لو اسٹوریز پڑھنے لگا ، دیکھنے لگا۔
ایسا تب سے ہواتھا جب سے نور ا س کی زندگی میں آئی تھی۔
ہاں … نور اس کی زندگی میں آئی تھی، وہ نور کی زندگی میں آیا تھا یا نہیں ، یہ اسے خبر نہ تھی۔وہ کچھ خبر ہونے ہی نہ دیتی تھی ۔ آج بھی اتنا ہی ریزرو تھی جتنا پہلے دن تھی۔
پہلا دن … ہاں اسے آج بھی پہلا دن یاد تھا جب اس نے ایک بہت خوب صورت آواز سنی تھی اور وہ اس جانب دیکھے بغیر نہ رہ سکا تھا ۔ہانیہ پہلی کلاس ختم ہونے کے بعد اٹھ کر سامنے کھڑی ہوئی اور لڑکیوں سے مخاطب ہو کر کہنے لگی۔
”بیوٹیز … تم میں سے میتھ میٹکس کس کی فرسٹ چوائس تھی ؟”وہ دیکھ نہیں سکا تھا مگر شاید نور نے ہاتھ ہلایا تھا جو ہانیہ اس کی طرف متوجہ ہوئی تھی۔
”تھینک گاڈ … ایک تو ملی ۔ مگر تم تونقاب میں ہو ، ہٹاؤ تو ذرا ۔ میں تمہیں دیکھوں تو…” ہانیہ اس کی طرف بڑھی جیسے ابھی چہرہ دیکھ کرہی چھوڑے گی۔ مگر نور نے اسے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا۔
”دیکھنے کی ضرورت بھی نہیں ۔ ” آواز تھی یا کوئی میٹھا گیت تھا ۔ خزیمہ داؤد نظر باز نہ تھا مگر اس کی جانب دیکھنے پر مجبور ہوا ۔وہ نقاب میں تھی۔
نقاب والی لڑکیوں سے جانے کیوں خزیمہ کو چڑ سی تھی۔ اس نے دیکھا تھا کہ ایسی لڑکیا ں عبایا پہن کر نقاب چڑھا کر سمجھتی ہیں کہ ان کا اسلام مکمل ہو گیا ۔ اب ہر وہ لڑکی جو پردہ نہیں کرتی، حجاب نہیں پہنتی ، دوپٹا سر پر نہیں لیتی ، وہ جہنمی ہے ۔
وہ ہلکا سا مسکرایا تھا ۔
اب ہانیہ سنے گی پردے کی اہمیت پر لیکچرز اور سیکنڈ سمیسٹر میں یا سیکنڈ ائیر میں منظر کچھ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ یہی لڑکی چا د ر، اسکارف اور پھر دوپٹے پہ آئے ۔اور کچھ بعید بھی نہیں کہ دوپٹا سر سے اتر کر گلے میں پہنچ جائے ۔
بڑی دیکھی تھیں اس نے ایسی لڑکیاں ۔ وہ نظر باز نہ تھا مگر رہتا تو اسی دنیا میں تھا ناں ۔ اس کی اپنی کزن بصرہ بہت سیدھی سادھی، باپردہ سی لڑکی ہوتی تھی۔ یونیورسٹی کے فائنل ائیر تک پہنچتے پہنچتے اس کے رنگ ڈھنگ ہی بدل گئے تھے ۔ خاندان کے لڑکے اسے بونگے اور لڑکیاں اسے دقیانوسی لگنے لگی تھیں۔
سیکنڈ سمیسٹر گزر ا، سیکنڈ ائیر بھی۔ اب تو تھرڈ ائیر کا سیکنڈ سمیسٹرتھا۔ اس لڑکی میں کوئی تبدیلی نہ آئی تھی البتہ خزیمہ کے خیالات آہستہ آہستہ تبدیل ہو رہے تھے ۔
ہاں وہ داستانِ محبت سننے ،پڑھنے اور دیکھنے لگا تھا۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

امی نے صبح صبح کھیر چڑھا دی تھی ۔اور ساتھ ساتھ ڈھیرسارا سرف ڈال کر بر آمدے اور صحن کا فرش بھی دھو ڈالا تھا ۔ ولی نیند سے اٹھ کر آنکھیں ملتا ہوا باہر آیا اور پائپ پر نظر پڑتے ہی اس کی پوری آنکھیں کھل گئیں ۔ رگ شرارت جو پھڑکی تو پائپ اٹھا کر امی اورباغیچے میں لگے پودوں کو نہلا ڈالا ۔ امی چیختی رہ گئیں مگر وہ سننے والا کب تھا ۔ خیر وائپر بھی بعد میں اسی نے لگایا تھا ۔
”اب نہا دھو کر ناشتا کرو پھر گوشت اور ہرا مسالا لے کر آؤ ۔میں کھانا تیار کر لوں ۔ اور ہاں دہی بھی لانا ۔ کھیرے نظر آئیں تو ضرور لے لینا ۔”پراٹھا پلٹتے ہوئے انہیں کچھ اور یاد آیا تھا۔
”امی بھائی کے پہنچنے میں ابھی بہت وقت ہے ۔ آپ ابھی سے ایمر جنسی نافذ کر رہی ہیں ۔” ولی کا احتجاج سامنے آیا۔
”نہیں! کہہ رہا تھا … بارہ ایک بجے پہنچ جائے گا۔” امی کے چہرے کی رونق دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ بہت دنوں بعد بیٹا گھر آ رہا تھا ۔
”بارہ ایک میں بھی ابھی چار گھنٹے ہیں ۔”اس نے کوفت سے کہا۔
”ہاں تو تمہیں تو چار گھنٹے پہلے ہی بتانا پڑتا ہے ناں ۔ تمہارا کچھ پتا ہے ؟ کیا خبر گھر سے سبزی لینے نکلو اور دو گھنٹے دوستوں میں ہی گم رہو۔ میں نے کھانا پکانا بھی ہے ۔” امی اب اسے روزانہ والی جھڑکیں دینے لگی تھیں۔
”ملکہ عالیہ کہیں تو یہ نوالہ یہیں رکھ کر آپ کے حکم کی تعمیل بجا لاؤں ۔” وہ سچ مچ ناشتا چھوڑ کر کھڑا ہو گیا تھا اور ان کے سامنے دونوں ہاتھ باندھ اور سر جھکا کر کھڑا ہو گیا تھا ۔امی اسے گھورتے ہوئے ہنس دیں ۔
اسے بھی بھائی کا بے تابی کے ساتھ انتظار تھاکتنے دن ہو گئے تھے ، انہیں دیکھا جو نہ تھا اور بات بھی بس ایک بار ہی ہو پائی تھی۔جیسے ہی بھائی نے بتایا کہ وہ آدھے گھنٹے میں پہنچنے والا ہے ، اس نے دروازے کے آس پاس منڈلانا شروع کر دیا تھا، دو بار تو گلی سے بھی ہو آیا ۔
”بھائی آبھی جائیں ، بہت بھوک لگی ہے ۔ ” پیٹ پہ ہاتھ رکھ کر مسکین سی صورت بنا کر کہتا ہوا وہ چوتھا کبا ب کھانے کچن میں پہنچا تھا جب دروازے پر بیل ہوئی ۔ امی اور وہ کچن سے فوراً باہر نکلے ۔ اس کے اندر نصرت فتح علی خان نے انگڑائی لی ۔
”میرا بھیا گھر آیا …۔او لعل نی …میرا بھیا گھر آیا ۔”
اس نے بیک وقت کباب نگلتے اور بھائی کو ویلکم کرتے ہوئے ” میرا پیا گھر آیا” کے مادھوری والے اسٹیپس لینے کا آغاز کیا مگرساتھ ہی نیا چہرہ دیکھ کراسی حالت میں منجمد ہوگیا۔امی کی حالت بھی کچھ ایسی تھی۔وہ مادھوری کے اسٹیپس تو نہیں لینے والی تھیں مگر بیٹے کا ماتھا چومنے وارفتگی کے ساتھ ضرور آگے بڑھیں تھیں اور پھر سکتے کی سی کیفیت میں آگئی تھیں ۔
”امی ! یہ گُلانے ہے ۔” نور الحسن نے خود آگے بڑھ کر ماں کو سلام کیا اور گُلانے کا تعارف کروایا۔
”امی! لگتا ہے آپ کابیٹا بہو لے آیا ۔” ولی نے ماں کے کان میں کھسر پھسر کی ۔
انہوں نے اسے پرے ہٹاتے ہوئے گُلانے کے سر پہ پیار دے کر اسے کرسی پر بٹھایا اور اُلجھی نظروں سے لختِ جگر کو دیکھ کر باورچی خانے میں چلی آئیں ۔ ولی بھی پیچھے پیچھے تھا ۔یہ اس کی بچپن کی عادت تھی۔ جہاں امی ،وہاں وہ۔
”امی ! آپ کے ارمان ادھورے رہ گئے ۔ مگر آپ غم نہ کریں ۔ میں ہوں ناں آپ کا بیٹا ، میں پورے کروں گا آپ کے سارے چاؤ۔ میری شادی پر آپ کیجیے گا سارے ارمان پورے ۔” ولی نے ماں کو گلے سے لگاتے ہوئے تسلی دی۔
”دفع ہو ۔” انہوں نے بازو سے اسے پرے کیا ۔ اور گلاسوں میں جوس انڈیل کر ٹر ے ا ٹھا ئے با و ر چی خا نے سے باہر آئیں ۔
ویسے تو انہیں لخت جگر سے یہ امید نہ تھی لیکن پھر بھی گلاس تھماتے ہوئے انہوں نے لڑکی کو غور سے دیکھا جو اپنی کپڑوں والی گٹھڑی ابھی بھی اپنی گود میں رکھے بیٹھی تھی۔ وہ تو بہت کم عمر تھی، شاید بارہ یا تیرا سال کی ۔ ہاں صحت اور قد کاٹھ بہت اچھا تھا ۔
”امی …کھانا بن گیا ؟” نور الحسن نے آستین موڑتے ہوئے پوچھا۔
”ہاں !ہاںلگاتی ہوں ۔ تم ہاتھ منہ دھو لو۔” امی نے لڑکی کا جائزہ لینے کا کام ملتوی کرتے ہوئے چھوٹے بیٹے کی طرف دیکھا ۔
”ولی ! میز پر کپڑ الگاؤ ، میں برتن نکالتی ہوں ۔ وہ رکھو یہاں ۔”
میز پر کپڑا لگاتے، برتن سجاتے اور پانی کی بوتل رکھتے ہوئے اس کا جی چاہا کہ لڑکی کو بتا دے کہ وہ بھی اس گھر کا چشم و چراغ ہی ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ ماں نے اسے ماسی بنا رکھا ہے ۔
٭٪٭٪٭٪٭٪٭
وہ پہاڑوں پر چڑھنے اترنے والی لڑکی تھی۔ کمرے سے باہر نکلتی تو پوری وادی اس کی نگاہ کے سامنے ہوتی ۔ یہ گھر بھلے اس کے گھر سے بڑا تھا مگر بند تھا ۔ کچھ دن اس کی عجیب کیفیت رہی ۔ جیسے ہی نورالحسن گھر سے باہر جاتا ، اسے لگتا کہ اس کی سانس بند ہو جائے گی۔ اجنبی دیس ، اجنبی لوگ ۔چند دن اس کی یہ حالت رہی پھر آہستہ آہستہ امی کے شفقت بھرے رویے نے اس کی جھجک دور کر دی۔ اس یتیم بچی پہ انہیں پیار آتا تھا جس نے اتنی سی عمر میں جانے کیا کیا غم دیکھ لیے تھے۔ وہ دعا گو تھیں کہ نورالحسن کو جلد ڈاکٹر فضل ا لٰہی کا پتا مل جائے تا کہ اس بچی کو خیریت سے اس شخص کے حوالے کر دیا جائے جسے گُلانے کے بابا قابلِ اعتماد جانتے تھے ۔
جب تک بچی اس گھر میں تھی ،وہ اسے اجنبیت کا احساس نہ ہونے دینا چاہتی تھیں ۔ اس لیے اسے اپنے ساتھ ساتھ رکھتیں ، اس کے ساتھ ڈھیروں باتیں کرتیں ۔ وہ باتیں جنہیں سننے کے لیے نورالحسن کے پاس وقت نہ ہوتا تھا اور ولی سن تو لیتا مگر بیچ میں دس اپنی کہانیاں سناتا تھا ۔
گُلانے انہیں ”پوجی ” بلانے لگی تھی۔ اسے ان کی شکل میں اپنی وہ پوجی نظر آتی تھی جس نے اسے اپنے پروں میں چھپا کر رکھا تھا ۔ ورنہ گل زمان تو شاید گھر کے ساتھ ہی اس کا سودا بھی کر ڈالتا ۔
اب وہ سوچتی تھی کہ بابا یقینا گل زمان کو، اس کی فطرت کو جانتے تھے ۔ اسی لیے انہوں نے اس کی ذمہ داری پوجی کو دینے کے بجائے ڈاکٹر فضل ا لٰہی کو فون کیا تھا ۔وہ بابا کے بہت اچھے دوست تھے۔ بابا اکثر ان کا ذکر کرتے تھے ۔ ایک بار وہ پشاور بھی آئے تھے ۔ ان دنوں اس کا رزلٹ آیا تھا ۔ وہ کلاس میں فرسٹ آئی تھی۔ بابا نے فخر سے انہیں بتایا تو انہوں نے اسے اپنے پاس بلا کر اس کا رزلٹ کارڈ دیکھا ، اسے پیار دیا اور ہزار روپے خرچی بھی دی تھی ۔
اس کے بعد اس نے انہیں بابا کے جانے کے بعد ہی دیکھا تھا ۔ وہ اس کے لیے بہت فکرمند تھے ۔ دوست سے کیا ہوا وعدہ نبھانا چاہتے تھے مگر گُلانے نے ساتھ جانے سے انکار کر دیا ۔ وہ جاتے جاتے بھی اسے رابطہ رکھنے کی تاکید کر کے گئے تھے مگر وہ غلطیاں اور نادانیاں کرتی گئی۔ اگر زلزلہ نہ آتا تو…
اس سے آگے سوچ کر اس کا دل کانپتا تھا ۔ وہ بھی ان بچوں جیسی تھی جو ہولناک زلزلہ کی دہشت بھول کر بعد میں خوش تھے ۔
زلزلہ آیا توپوجی کا غم اسے ملا مگر ساتھ ہی حبیب اللہ سے جان چھوٹی، گل زمان سے جان چھوٹی اور نورالحسن اسے ملا ۔
نورالحسن اور پو جی دونوں بہت اچھے تھے ۔ مگر ولی …
اف توبہ … ایک تو اتنا بولتا تھا ، پھر بولنے کی تمیز بھی نہ تھی۔ شروع کے چند دن تو شریف بنا رہا مگر آہستہ آہستہ یہ چولا اترنے لگا۔ اب تو ہر وقت وہ اسے چڑاتا تھا۔ کبھی اس کے لبا س پر، اس کے لب و لہجے پر ، تو کبھی اس کے مذکر و مونث کے استعمال پر مذاق اُڑاتا تھا ۔
بہرحال وہ یہاں مطمئن تھی۔ پوجی کے بعد وہ جو خود کو کھلے آسمان تلے ننگے سر کھڑا پاتی تھی ، اب ایک چھت اسے مل گئی تھی جہاں اسے اس وقت تک رہنا تھا جب تک ڈاکٹر فضل الٰہی کا پتا نہ چل جاتا۔
٭…٭…٭
برآمدے میں استری اسٹینڈ کے ساتھ رکھا یہ تخت امی کی پسندیدہ جگہ تھی ، جس کے ایک کونے پر سلائی مشین پڑی رہتی تھی ۔ نور الحسن کے چاہنے کے باوجود اس مشین کے ساتھ وہ اپنا ناتا نہ توڑپائی تھیں ۔ مشکل گھڑیوں کی ساتھی تھی وہ۔ ان کی امی کو اس سے اتنی ہی انسیت تھی جتنی کسی غم گسار ساتھی کے ساتھ ہوتی ہے۔
آج بہت دن بعداس وقت نور الحسن گھر پر تھا اور بہت دن بعد ہی اس نے غور سے امی کا چہرہ دیکھا تھا جس سے ہلکی ہلکی سرخی جھلک رہی تھی۔ان کی طبیعت بہت بہتر رہنے لگی تھی اور وہ خوش بھی رہنے لگی تھیں ۔ اس کی و جہ شاید گُلانے تھی جس نے ان کی زندگی میں عارضی طور پر بیٹی کی کمی پوری کر دی تھی۔ اس کے علاوہ وہ ان کا بہت خیال بھی رکھتی تھی۔ ذرا امی کو اٹھتے دیکھتی ، فورا ً بھاگ کر پاس آتی۔
”کیا کام پوجی ، تم ام کو بتاؤ۔ ”
امی منع کرتی رہ جاتیں اور وہ انہیں بٹھا کر خود کام کرنے لگتی۔ وہ روزانہ میلوں بھاگنے والی لڑکی تھی ، یہاں ہاتھ پہ ہاتھ باندھ کر بیٹھنا اسے مشکل لگتا تھا ۔ وہ بڑی چستی سے سارے کام نپٹاتی۔ امی کو آرام کا موقع ملنے لگا تھا ۔ بے شک دونوں بھائیوں کواور خاص طور پر نور الحسن کو اپنے زیادہ تر کام خود کرنے کی عادت تھی مگر عورت کے کام کبھی ختم نہیں ہوتے ۔ ساری زندگی ان کوا رام کا موقع نہ ملا ۔ بابا کی اچانک وفات نے ان کے کندھوں پہ بڑی چھوٹی ہزاروں ذمے داریاں ڈال دی تھیں ۔ ولی تو ابھی دو سال کا تھا جب بابا کا انتقال ہو ا۔ نور ا لحسن فرسٹ ائیر میں تھا ۔ کالج اوقات کے بعد کوئی نوکری کر کے ا س نے امی کا بوجھ کم کرنا چاہا تو امی سخت خفا ہو گئیں ۔
”آگے ساری عمر کمانا ہی تو ہے نور ا لحسن، پیٹ اور خواہشیں فارغ نہیں بیٹھنے دیتیں ۔ یہ تمہارے بے فکری کے دن ہیں ، انہیں میں چھین نہیں سکتی ۔ ”
”میری عمر کے اور بھی بہت سے لڑکے کام کرتے ہیں امی ۔” وہ کام کرکے اپنی ماں کا ہاتھ بٹانا چاہتا تھا۔
”کرتے ہیں … مگر میں نے دیکھا ہے پھر وہ ساری عمر کام ہی کرتے ہیں ۔ بچپن کا، جوانی کا حسین دور محنت مشقت میں گزار کر وہ مشین سے بن جاتے ہیں ۔ ان کی زندگیاں جذبات سے عاری ہوجاتی ہیں ۔ میں نے تو ایسا ہی دیکھا ہے ۔ میں نہیں چاہتی کہ کم عمری میں میرا بیٹا مشین بن جائے ۔ میں تمہیں بے فکری کی زندگی گزارتے دیکھنا چاہتی ہوں جو اس عمر کا تقاضا ہے ۔ ”امی کی آنکھوں میں اب ننھے ننھے موتی چمک رہے تھے۔
”مگر امی! اس طرح آپ پر بوجھ بڑھ جائے گا ۔”
”اولاد بوجھ نہیں ہوتی میری جان۔ ” انہوں نے اس کا ماتھا چوم کر کہا تھا ۔
”مگر امی ! آپ اب آرام اور بے فکری کی دن گزاریں یہ آپ کی عمر کا تقاضا ہے ۔” نورالحسن اپنی ماں سے بے پناہ محبت کرتا تھا۔ وہ انہیں دن رات محنت کرتا نہیں دیکھ سکتا تھا۔
”کیوں ؟ میں کوئی بوڑھی نظر آتی ہو ں کیا تمہیں ۔ ” امی نے گھور کر اسے دیکھا تھا ۔
”ابھی صحت اور نظر سلامت ہے میری ۔ تم بے فکر ہو کر پڑھو ۔ اس کے بعد آرام کروانا تم مجھے ۔ ”
اس نے تابعداری سے سر جھکا لیا مگر بے فکر نہ ہوا تھا ۔ امی جس طرح گزارہ کرتی اور گھر چلاتی تھیں ، وہ نورا لحسن خوب جانتا تھا ۔ وہ بہت سگھڑ خاتون تھیں۔ کبھی اچانک کوئی اضافی خرچ سر پر آپڑتا تو جانے کیسے کیسے بچت کی ہوئی ان کی رقم کام آجاتی۔ امی کو اگر کبھی پریشان کرتی تھیں تو ولی کی خواہشیں ۔ وہ بچہ تھا ، نو را لحسن کی طرح عقل سمجھ نہ ر کھتا تھا کہ محلے کے بچے کے پاس نئی سائیکل دیکھ لینے سے اپنے آپ نئی سائیکل نہیں آجاتی بلکہ اس کے لیے ماں کو رات رات بھر سوئی دھاگا پکڑنا پڑتا ہے ۔ دوست کے پاس پلے اسٹیشن ہو تو صرف فرمائش کرنے سے پلے اسٹیشن نہیں آجاتا بلکہ اس کے لیے کئی وقت چٹنی سے روٹی کھانی پڑتی ہے ۔
جب کبھی امی ولی کی کوئی خواہش پوری نہ کر پاتیں اور ضد کرتا وہ روتے روتے سو جاتا تو امی چپکے سے دوپٹے کے پلو سے اپنی آنکھیں صاف کرتیں ۔ اس وقت نور ا لحسن کادل چاہتا کہ اس کی تعلیم برسوں کے بجائے دنوں میں بلکہ گھنٹوں میں پوری ہو جائے ۔وہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جائے ۔ پھر امی کی آنکھ میں بے بسی کا پانی نہ آنے دے ، ولی کی ہر خواہش ہر ضد پوری کردے ۔
اس نے بہت محنت کی تھی، بہت زیادہ محنت۔ اور آج وہ اس مقام پر تھا جہاں امی کی معاشی فکریں دور ہو گئی تھیں اور ولی کی خواہشیں بھی کسی حد تک پوری ہونے لگی تھیں ۔ مگر اس کا خواب ابھی پورا نہ ہوا تھا ۔ اسے ابھی کامیابی کی مزید کئی سیڑھیاں چڑھنی تھیں ۔ اپنی فیلڈ میں اپنا نام ، اپنا مقام بنانا تھا ۔ ماں اور بھائی کے لیے دنیا کی ہر نعمت کا ڈھیر لگانا تھا ۔ یہ جنون اسے بہت مصر و ف کر تا جا ر ہا تھا ۔
٭٭٭٭٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

لالی — شاذیہ خان

Read Next

موسمِ گرما —- حرا قریشی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!