گلانے — صوفیہ بٹ (قسط نمبر ۱)

”یہ لے لو صاب۔” وہ سب گاڑی کا انتظار کر رہے تھے جب ایک بچہ اور ایک بچی ہاتھوں میں تھیلیاں لیے ان کی طرف آئے اور ملتجی لہجے میں کہتے ہوئے تھیلیاں ان کے سامنے بڑھائیں ۔
”یہ کیا ہے؟” علینہ نے حیرت سے پوچھا۔
”کچنار۔” بچی نے جواب دیا ، یہ کچنار ان پہاڑی بچوں نے دن بھر کی محنت کے بعد اکٹھی کی تھی۔ رات تک ہر بچے کی ایک دو تھیلیاں بک جاتیں تو وہ اپنا بوجھ خود اٹھانے کے قابل ہو جاتااور ماں باپ کا بھی کچھ بھلا ہو جاتا۔
”اسے پکاتے کیسے ہیں؟” قرةالعین نے باقاعدہ انٹرویو شروع کر دیا ۔
”گوشت کے ساتھ، قیمہ کے ساتھ، آلو کے ساتھ…” بچہ اسے سمجھانے لگا تھا جبکہ بچی سامنے آتے شخص کو دیکھ کر ان کی طرف بھاگی۔
”تم یہ خرید لو صاب۔”
وہ جو کسی کے ساتھ موبائل پر بات کر رہا تھا ، میلی سی اوڑھنی والی اس بچی کو دیکھ کر اپنی جگہ پہ منجمد ہوا ۔ اور بہت دیر تک ہلنے کے قابل نہ رہا۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

”مجھے میڈیم میں یہ ڈریس نکال دیں ۔”
”سوری میم …میڈیم تو ختم ہو گیا ۔ویسے آپ اسمال بھی ٹرائی کر سکتی ہیں ۔صرف ایک انچ کا تو فرق ہوتا ہے ہم آپ کو آلٹر کروا دیں گے ۔” عروہ ابو بکر کی خوش اخلاقی عروج پر تھی۔
”نہیں اسمال تنگ کرے گا۔”
”نو میم…یہ تنگ نہیں کرے گا ، آپ نے خود پہننا ہے ناں ۔آئی ایم شیور تھوڑا کھلے گا تو آپ کو پورا آجائے گا ۔پھر بھی اگر ایسی کوئی بات ہوئی تو آپ چینج کروا لیجیے گا۔”
کسٹمراس کے بہلاوے میں نہ آئی تھی۔وہ دوسرے ریک کی طرف بڑھ گئی تھی۔
”میم! یہ فارمل میں نیو کلیکشن ہے ۔ بہت ڈفرنٹ ہے آپ ٹرائی کریں آپ کو اچھی لگے گی۔” اب وہ اسے نئی کلیکشن دکھا رہی تھی۔
”اوک… یہ ڈریس میڈیم میں نکال دیں ۔”
”اوہ! سوری میم… میڈیم میں تو نہیں یہ، لارج ہے ۔دونٹ وری … آلٹر ہو جائے گا۔”
”آپ کے پاس میڈیم سائز ہے بھی یا نہیں ۔” اب کسٹمر تپ گئی۔
”میم تھے ، آپ کے آنے سے کچھ دیر پہلے ہی لاسٹ پیس سیل آؤٹ ہوا۔” اسے کسٹمر ہاتھ سے جاتی ہوئی دکھائی دی۔
”میم آپ یہ دیکھ لیں ، بہت پسند کر رہے ہیں کسٹمرز اس ڈیزائن کو ۔ اور یہ کلرز بھی دیکھیں، ریڈ، سی گرین اور بلیک میں سے آپ چوز کر سکتی ہیں ۔ اور ریزن ایبل پرائس میں ہے۔”
وہ کسٹمر کے پیچھے پیچھے تھی۔اور پیچھے پیچھے رہنے کا فائدہ یہ ہوا کہ جب کسٹمر اس آؤ ٹ لیٹ سے باہر نکل رہی تھی تو خالی ہاتھ نہ تھی۔ اس کے ہاتھ میں ایک شاپنگ بیگ تھا جس میں پڑی قمیص کی قیمت ریزن ایبل ہر گز نہ تھی۔
”میم… آپ اسمال ٹرائی کریں ۔ آئی ایم شیور آپ کو آجائے گا… ہاہاہا…فگر دیکھا تھا میم کا…آنا تھا کبھی اس کو اسمال۔” روحی اس کی نقل اتارتے ہوئے ہنسی۔
عروہ نے بھی ہنستے ہوئے بیگ سے ایک شاپر نکال لیا تھا جس میں چکنائی سے بھرا اخبار تھا۔ یقینا اس میں پراٹھا تھا ۔آج پھر وہ ناشتا کر کے نہیں آئی تھی۔
ولید نے اسکرین سے نظر ہٹا کر ہنستی ہوئی عروہ کو دیکھا ۔کوئی اسے دیکھ کر اندازہ نہیں لگا سکتا تھا کہ اس لڑکی نے آتے ہی منیجر سے بری طرح ڈانٹ کھائی تھی۔وہ آج پھر لیٹ تھی۔
٭…٭…٭
”تم ام کو کرید(خرید) لو نورالحسن ۔”
نورالحسن نے نہایت حیرت کے ساتھ سامنے کھڑی گُلانے کو دیکھا جو دوسرے پہاڑی بچوں کی طرح ہاتھ میں تھیلی لیے کچھ او ر نہیں بیچ رہی تھی بلکہ اپنا سودا کر رہی تھی۔
وہ چشمے میں منہ دھونا چھوڑ کراٹھ کھڑا ہوا تھا ۔یہ ٹھیک تھا کہ دوتین بار اس کے ساتھ بات چیت کرنے کے بعد اب وہ نورالحسن کے ساتھ کچھ بے تکلف ہو گئی تھی مگر وہ اس طرح کی بات کر دے گی ، اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا ۔
”تیرے پاس تیس ہزار تو ہو گا ناں… چل تیس نہیں تو پچیس … چل تیر ے پا س نہیں تو تیرے مو ٹے وا لے د وست کے پا س تو ہو گا ناں تیس ہزار۔تم اُس سے لے لو ۔” نورالحسن کو بت بنا دیکھ کر وہ اسے اب صلاح دے رہی تھی۔
”اتنی دیر سوچو گے تو اُدر گل زمان امارا سودا کر دے گی۔” گُلانے اسے خاموش کھڑا دیکھ کر سپاٹ لہجے میں بولی۔
”گل زمان ؟ ” اسے لگا جیسے اسے کرنٹ لگ گیا ہو۔
”وئی… جو میرا باپ بنا پرتی اے (جو میرا باپ بنا پھرتا ہے)۔”
”وہ تمہارا باپ نہیں ؟” اسے لڑکی کی باتوں پر حیرت ہو رہی تھی۔
”ناں۔امارا بابا تو چار سال پیلے مر گئی۔” اس کے لہجے میں افسردگی تھی۔
”پھر یہ کون ہے؟” اس انکشاف پر وہ پھر چونکا تھا۔
”اما ر اپوجی کا گھر والا۔”
”یہ پوجی کون ہے؟”
”اما ر ا بابا کا بین۔”
”یعنی تمہاری پھوپھو کا شوہر ہے وہ۔ ” گُلانے نے فوراً سر ہلایا ۔ نورالحسن کو تو کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ یہ سب کیا ہورہا ہے؟
”وہ کیوں کرے گا تمہارا سودا؟” اسے یقین نہیں آرہا تھا ۔ وہ اتنے دنوں سے روتے بلکتے گل زمان کو دیکھ رہا تھا، اپنی بیوی کے غم میں بے حال بے چارا بیوی اور بچی کے علاوہ کوئی اور بات ہی نہ کرتا تھا اوراس بیٹی کو تو سینے سے لگا کر رکھتاتھا جو اس وقت نا سمجھ میں آنے والی بات کر رہی تھی۔
”گل زمان تو ا ما ر ے کو بیچ دیا تھا۔ و ہ تو ا چا اوا ز لز لہ آگئی اور وہ مر گئی۔” گُلانے اسے تفصیل بتانے لگی۔
”کون مر گئی؟ تمہاری پوجی ؟”
”او نئیں …ابیب اللہ (حبیب اللہ) جس نے اما را پیسہ دی۔ پوجی تو بوت اچا تھا ۔” وہ اداسی سے بولی۔
”اچھا!” اس نے سر ہلایا ۔وہ بات کو مکمل طور پر اب بھی سمجھ نہ پایا تھا مگر اسے اس کہانی میں دلچسپی ضرور پیدا ہو گئی تھی۔
”اچا تو پر اوتا ناں جب گل زمان بھی مر جاتی۔(اچھا تو پھر ہوتا ناں جب گل زمان بھی مر جاتا)۔” نور الحسن کو ہنسی آگئی تھی۔ گُلانے نے ناگوا ر نظرو ں سے ا سے دیکھا ۔وہ کو ئی لطیفہ سنا رہی تھی کیا اسے۔
” گُلانے تمہارا پھوپھا تو تم سے بہت پیار کرتا ہے ۔” وہ سنجیدہ ہوا اور اس کے سامنے اپنا تجزیہ رکھا ۔
”پیسے سے کون پیار نئیں کرتا ؟” اس کے جواب پر نورالحسن کو مزید سنجیدہ ہونا پڑا۔ اس نے گُلانے سے ساری بات پوچھی تو اس پر انکشاف ہوا کہ اس کے ماں باپ تو انتقال کر چکے ہیں ۔ وہ تین برس کی تھی جب اس کی ماں کا انتقال ہو ا۔ وہ چوتھی کلاس میں پڑھ رہی تھی جب اس کے بابا کو کینسر ہوا تھا ۔ بابا نے موت کی آہٹ سن کر جانے کیوں کراچی میں رہنے والے اپنے دوست ڈاکٹر فضل ا لٰہی کو فون کر کے کہا تھا کہ ان کی بیٹی کو وہ لے جائیں ۔ اس کے بابا نے اس کی پرورش اور دیکھ بھال کی ذمہ داری دوست کو ہی دی تھی۔ مگر جب تک بابا کا دوست پہنچتے ، اس کی پوجی اس کی خاطر پشاور آکر رہنے کے لیے تیار ہو چکی تھی۔
بابا کا دوست آیا تھا اسے لینے پشاور مگر گُلانے نے ساتھ جانے سے منع کر دیا تھا۔ باپ کی نصیحت کے باوجود اس شخص کے ساتھ جاتے ہوئے اسے ڈر لگ رہا تھا جس کو وہ پہلے صرف ایک بار ملی تھی۔ وہ اپنی پوجی کے ساتھ رہنا چاہتی تھی۔ وہ اس کے باپ کی سگی بہن تھی، اس کی سگی پھوپھی ، اس کا واحد سگا رشتہ ۔ بابا کو کھو کر ابھی تک وہ سنبھلی نہ تھی ۔ پوجی کو کھو دیتی تو پھر اس کے پاس بھلا کیا رہ جاتا۔
ڈاکٹر فضل الٰہی مرتے ہوئے دوست سے کیا ہوا وعدہ نبھانا چاہتے تھے مگر گُلانے کے ساتھ زبردستی نہیں کر سکتے تھے ۔ ویسے بھی گل خانم کے ساتھ بچی کا خون کا رشتہ تھا ، شاید اس کا پھوپھی کے ساتھ رہنا ہی مناسب تھا ۔ وہ واپس چلے گئے تھے ۔
پوجی گل زمان کے ساتھ اس کے پاس رہنے چلی آئی تھی ۔ پوجی اس سے بہت پیار کرتی تھی۔ گل زمان کا سلوک بھی ٹھیک تھا ۔ وہ گل زمان کو کاکا (چچا ) کہتی تھی۔ کاکا اور پوجی دونوں بہت اچھے تھے مگر اماں بابا کی جگہ بھلا کوئی اور لے سکتا ہے ؟
اداس اور غمگین گُلانے نے کتابوں میں اپنا دل لگانا شروع کر دیا ۔ اس کا با با اسے خوب پڑھانا چاہتا تھا۔ اس نے دل میں تہیہ کر لیا تھا کہ وہ ڈاکٹر بنے گی ۔ بچی تھی ، نہ جانتی تھی کہ ماں باپ سر پہ نہ رہیں ، زندگی کی ڈور کسی اور کے ہاتھ میں آجائے تو خواب پورے ہوتے ہیں نہ ہی ارادے ۔ وہ پانچویں کا امتحان دے کر فارغ ہوئی تو اسکول کی ایک سینئر سے لی ہوئی چھٹی کی کتابوں کی ورق گردانی کرنے لگی۔ مگر ابھی چھٹی کی کلاسز شروع بھی نہ ہوئی تھیں کہ ایک د ن گل زمان نے اعلا ن کر دیا کہ وہ گاؤں جا رہے ہیں۔ تب اسے پتا چلا کہ گل زمان نے گھر بیچ دیا ہے ۔
وہ بہت روئی تھی۔ وہ گھر اس کے اماں بابا کی یاد تھا ، ان کی نشانی تھی۔ تب چھوٹی سی عمر میں ہی اسے احساس ہو گیا تھا کہ اس کے بابا نے جو فیصلہ کیا تھا ، وہ ٹھیک تھا۔ اسے ڈاکٹر فضل ا لٰہی کے ساتھ چلے جانا چاہیے تھا ۔ اس نے وہ کاغذ ڈھونڈنے کی کوشش کی جس پر جاتے جاتے ڈاکٹر فضل ا لٰہی نے اپنا پتا اور فون نمبر لکھ کر دیا تھا ۔
”جب کبھی بھی ضرورت پڑے ، بلا جھجک مجھے فون کر لینا۔”
اس نے وہ کاغذ بہت ڈھونڈا مگر نہ ملا ۔ اس نے خودہی تو بے پروائی کے ساتھ اسے کہیں رکھ دیا تھا اور اب پچھتا رہی تھی۔
اسے پوجی کے ساتھ گاؤں آنا پڑا۔ گاؤں میں اسکول نہیں تھا۔ اس کی تعلیم ادھوری رہ گئی جس کا اسے بہت غم تھا ۔ گل زمان لا لچی انسان تھا ۔ دو سال بعد ہی اس نے حبیب اللہ نامی پچپن سالہ کسی بندے کے ساتھ تیس ہزار میں اس کی بات طے کر دی تھی ۔ پوجی کا اس کے ساتھ بہت جھگڑا ہوا تھا، گل زمان نے اسے مارا بھی تھا ۔ بے بس پوجی اسے سینے سے لگا کر روتی رہی تھی۔ وہ اپنی بیٹی کو نہ بچا سکی تھی ، وہ اپنی بھتیجی کو بھی نہ بچا سکتی تھی۔ جمعے کو نکاح تھا ، پوجی نہ بچا سکتی تھی مگر زلزلہ معصوم گُلانے کو بچا گیا ۔
نورالحسن انسانوں کی سوداگری یا تجارت کے خلاف تھا اور کبھی یہ سوچا بھی نہ تھاکہ وہ ایک لڑکی کا سودا کرے گا مگر گُلانے سے ساری بات سن کر اس نے مزید غور و فکر کرنے میں وقت ضائع نہ کیا اور اسد سے تیس ہز ار مانگ لیے۔اس کے اپنے پاس جو رقم تھی وہ شروع کے تین دن میں ہی رضاکارانہ طور پر کئی کام کر تے ہو ئے خر چ ہو چکی تھی۔ جب وہ تیس ہزار لے کر گل زمان کے پاس گیا تو اس کی ڈیمانڈ بڑھ چکی تھی۔ تیس ہزار مول تو اس نے مندی کے دنوں میں لگایا تھا ،اب تو ”منڈی” کے دن تھے۔ زلزلہ آنے کے بعد دنیا بھر سے لوگ امدادی کارروائیوں میں حصہ لینے کے لیے آرہے تھے۔ معصوم سی گُلانے کو سینے سے لگا کر جب وہ بیوی کی موت پر، بے گھر ہو جانے پر، جوان ہوتی بیٹی کو لے کر مارا مارا پھرنے پر روتا تھا تو ہزاروں کی امداد تو ویسے ہی اسے مل جاتی تھی۔ اس کے خیمے میں اتنا مال جمع ہو چکا تھا کہ شہر جاکر وہ تیس ہزار سے دُگنا کما سکتا تھا۔
نورالحسن سمجھ چکا تھا کہ گُلانے کامستقبل خطرے میں ہے۔ گل زمان اپنے مفاد کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے ۔ابھی تو لوگ یہاں صرف خلقِ خدا کے لیے، خدمتِ خلق کے لیے اکٹھے ہوئے تھے۔ مگر گل زمان اور اس جیسے کئی لالچی اس موقع پر بھی فائدہ اٹھا رہے تھے۔ گل زمان نے اسے پر بھی بتایا کہ کسی گورے نے اسے پیش کش کی ہے کہ وہ گُلانے کو ایڈاپٹ کر لے گا اور اسے ہزار ڈالر دے کر جائے گا۔ اس نے نورالحسن کو یہ حساب لگا کر بھی بتا دیا تھا کہ ایک ڈالر کتنے روپے کا ہے اور ہزار ڈالر کے کتنے بنیں گے۔
نور الحسن فکر مند ہو گیا تھا ،اسے گل زمان کو دھمکانا پڑا ۔
”تم گُلانے کے باپ ہونے کا جو ڈراما کر رہے ہو ناں ۔ سب کے سامنے آیا تو جانتے ہو ناں پھر … تمہارا تو کوئی سگا رشتہ بھی نہیں ہے اس بچی کے ساتھ ۔ اوراگر یہ پتا چل گیا کہ تم نے اس یتیم بچی کا گھر بیچ کر اس کا حق مارا ہے ؟ اپنی بیوی اور اس بچی کی رضا کے بغیر تیس ہزار کے عوض اس کا رشتہ طے کر دیا تھا ؟ اس وقت اگرکسی این جی او یا میڈیا تک یہ ایشو پہنچ گیا تو … یہ جو تم کیمروں کے سامنے معصوم اور غم زدہ بن کر بین ڈالتے ہو ناں … پھر تمہاری تصویر ٹی وی پہ آئے گی مگر کسی اور طرح سے …”نور الحسن کا یہ دھمکانا کام کر گیا۔
گل زمان کو بات سمجھ میں آ گئی تھی۔ اس نے تیس ہزار تھام کر گُلانے کو نورالحسن کے حوالے کر دیا۔
٭٪٭٪٭٪٭٪٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

لالی — شاذیہ خان

Read Next

موسمِ گرما —- حرا قریشی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!