گلانے — صوفیہ بٹ (قسط نمبر ۱)

فجر کی نمازادا کر کے نور الحسن کیمپ سے باہر نکلا اور چاروں جانب نگاہ دوڑائی ۔
آج دھند کچھ کم تھی۔ ہو سکتا تھا کہ سورج بھی دیدار کروا دے ۔
اسے ورزش کی عادت تھی۔ اتنے دن اس روتے بلبلاتے ماحو ل میں وہ سب کچھ بھولا ہوا تھا۔ آہستہ آہستہ لوگ حقیقت کو قبول کر رہے تھے ۔ آج کیمپ میں زندگی کچھ نارمل لگی تو اس سے بھی بیٹھا نہ گیا۔ وہ ایک پہاڑی پر چڑھنے لگا جب کچھ اوپر جا کراس کی نظر نشیب پر پڑی ۔ اس وقت اسے وہاں دیکھ کر وہ چونک اٹھا ۔
وہ عورتوں کی اجتماعی قبر کے پاس بیٹھی آہستہ آہستہ سے قبر کی مٹی پر ہاتھ پھیر رہی تھی ۔ نورالحسن رہ نہ سکا اور اُتر کر اُس کی طرف آیا ۔
”یہاں کیوں بیٹھی ہو ؟” نورالحسن نے اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا ۔ اس نے کوئی جواب نہ دیا تھا ، اسی طرح قبر پر ہاتھ پھیرتی رہی۔
”تہ دلتا تنگ َ خو ناں اے کاناں (تم یہاں تنگ تو نہیں ہو ناں ؟ ) ”
نورالحسن کو سمجھ نہ آرہا تھا کہ وہ کیا کہہ رہی ہے ۔ لیکن اس نے دیکھا کہ وہ رو رہی تھی۔ اس کی خشک رہنے والی نیلی آنکھوں سے آنسو ایک تواتر کے ساتھ بہ رہے تھے ۔ اس کا سپاٹ رہنے والا چہرہ غم کی تصویر بنا ہوا تھا ۔
”زہ چے کلا لویا شمہ ، نو بیا تادے پارہ بہ زمکہ اخلم ، تہ بہ بے لا یوازے سملومہ(میں بڑی ہو جاؤں گی تو تمہارے لیے زمین خریدوں گی ، تمیں الگ سے سلاؤں گی) ۔”
”کس سے باتیں کر رہی ہو ؟” نو ر الحسن نے اس کے پاس بیٹھتے ہوئے پوچھا ۔ اس نے جواب نہیں دیا تھا ۔ شاید اس وقت وہ کسی کی مداخلت پسند نہیں کر رہی تھی۔ نورالحسن خاموشی کے ساتھ وہاں سے اٹھ کرکیمپ کی جانب آگیا تھا ۔ وہ اسد کو جگانے کا ارادہ رکھتا تھا جب باہر سے شور اٹھا ۔ نور الحسن باہر نکلا تو دیکھا کہ گل زمان سینہ کوبی کر رہا تھا ۔
”اما ر ا بچی … اما ر ا بچی کدر چلا گیا ، کس ظالم نے اٹا (اٹھا ) لیا اما ر ا بچی کو ۔ گل زمان لٹ گئی ، میرے مولا ! پر (پھر) لٹ گئی ۔ ”
نورالحسن اسے بتانا چاہتا تھا کہ وہ غم نہ کرے ۔ اس کی بیٹی صحیح سلامت ہے اور اس وقت اپنی ماں کی قبر پر بیٹھی ہے ۔ قبل اس کے کہ وہ مطلع کرتا ، اس نے بچی کو آتے دیکھا ۔ کسی نے گل زمان کو متوجہ کر کے بچی کی طرف اشارہ کیا تو وہ رونا دھونا بھول کر اس کی طرف بھاگا اور جا کر اسے سینے سے لگا لیا ۔
”زما لورے ۔ ” وہ اس کا ماتھا چوم رہاتھا ۔
لڑکی نے خود کو اس سے الگ کرتے ہوئے اپنا دوپٹا ٹھیک کیا اور چہرے پر ہا تھ پھیر تے ہو ئے ا پنے خیمے کی طر ف بڑ ھ گئی ۔ نور الحسن نے دیکھا کہ اس کا چہرہ ایک بار پھر سپاٹ تھا اور نیلی جھیلیں خشک تھیں ۔
٭٪٭٪٭٪٭٪٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

”بسنت کے لیے تم نے کون سا ڈریس سلیکٹ کیا نور؟” پیلے اور سرخ رنگ کی چنری کندھوں پر پھیلا کر آئینے میں اپنا جائزہ لیتے ہوئے ہانیہ نے نور سے پوچھا ۔
”میں بسنت میں نہیں جا رہی ۔” نور نے کلاس رجسٹر سے کچھ پوائنٹس نوٹ کرتے ہوئے مطلع کیا ۔
”کیا ؟” ۔”کیا کہا تم نے ۔”وہ چلا کر اس کی طرف مڑی اورکوئی جواب نہ پا کر اس کے قریب آئی۔
”میں بسنت میں نہیں جا رہی۔” اس نے اسی اطمینان کے ساتھ جواب دیا ۔
”دیکھتی ہوں میں، کیسے نہیں جاتی ہو۔ تمہارا تو باپ بھی جائے گا۔ ” ایک ہاتھ کمر پر ٹکا کر لڑاکا عورتوں کی طرح بولی ۔ لیکن اسے فوراً احساس ہوا کہ وہ کچھ غلط کہہ گئی ۔
”تمہیں بسنت میں جانا ہی ہو گا ۔” اس نے کچھ نرم لہجے میں کہا۔
”نہیں ہانیہ ! میں نہیں جاؤں گی۔ ” اس کے جواب میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔
اب وہ محکمانہ انداز سے التجا پر آگئی تھی لیکن نور کے جواب میں کوئی تبدیلی نہ آئی۔
”پلیزنور… پلیز پلیز پلیز۔” وہ جوکچھ دیرپہلے مولا جٹ بنی ہوئی تھی، منتوں ترلوں پر آ گئی۔
”ہانیہ ! میں وہاں جا کر کیا کروں گی۔”نور نے تنگ آکر پوچھا۔
”ہم گڈیاں (پتنگیں) اُڑائیں گے ۔”ہانیہ نے اسے کچھ نرم پڑتا دیکھ کر شوخی سے کہا۔
”ہاسٹل میں پتنگ منگوا لو ، میں تمہارا شوق پورا کر دوں گی ۔ ”
”یار ہاسٹل میں کیا مزہ ؟ ہم دو چار پاگل ہی لگیں گے یہاں گڈیاں اڑاتے ۔ پھر مقابلہ کس کے ساتھ کریں گے ۔ وہاں تو پورا ماحول بنا ہو گا ، میوزک ہو گا ، مستی ہو گی۔ ”ہانیہ اس کے قریب بیٹھتے ہوئے پرجوش انداز میں بولی۔
”میں کسی نامحرم کے سامنے پتنگ بازی نہیں کر سکتی ۔ ”نور کا چہرہ اور لہجہ اب بھی سپاٹ تھا۔
”او مائی گاڈ… یار مجھ سے نہ بولا کر یہ مشکل زبان ۔ ہانیہ نے اس کے سامنے ہاتھ جوڑے اب یہاں محرم نا محرم کا کیا ذکر ؟”
”ذکر ہے ہانیہ…” نور نے اسے رسانیت سے سمجھانے کی کوشش کی ۔
” وہ وہی نا محرم ہیں جن کے ساتھ ہم پڑھتے ہیں۔ وہی ہمارے ٹیچرز ہیں جن سے ہم پڑھتے ہیں۔ ہمارے ہی جونیئرزسینئرز ہیں جن سے ہم روز ملتے ہیں ۔ پھر آج وہ نا محرم ہو گئے ؟” ہانیہ نے ایک کمزور ذلیل پیش کی۔
”ان کے ساتھ پڑھنا یا ان سے پڑھنا الگ بات ہے ، کلاس میں لیب میں اٹھتے بیٹھتے، کھڑے خیال رکھ سکتے ہیں اپنے لباس کا ،اندازِ نشست کا ۔ جب کہ بسنت یا اس جیسے دوسرے مواقع پر لڑکیاں اور خواتین بے پرواہ ہو جاتی ہیں ، شرٹ اڑ کر کسی طرف کو جا رہی ہے ، بازو کہیں اٹھ رہے ہیں ۔ دوپٹا کہیں ڈھلکا ہوا ہے ۔ ”
”اومیری ماں! تم ہاسٹل ہی بیٹھو۔ میں فرح کے ساتھ چلی جاؤں گی۔” ہانیہ نے اس کے سامنے ہاتھ جوڑے ۔ اور دوبارہ سے بیڈ پہ پڑے کپڑوں کا تنقید ی جائزہ لینے لگی۔
”نور یار! میں اس ڈریس میں موٹی تو نہیں لگوں گی؟” لباس کے معاملے میں وہ مشکل ہی سے مطمئن ہوتی تھی۔
”نہیں ۔ ” اس نے کتاب پر جھکے جھکے جواب دیا ۔
ہانیہ کا دل چاہا کہ مکا مارے جا کر اسے ۔مگر ابھی دوسرے مسائل درپیش تھے ۔ کپڑوں کے بعد جیولری ، جوتے کی سلیکشن، فیشل ، آئی بروز ، ہیر اسٹائل … اف جانے کیا کیا … کسی تقریب میں جانے کی تیاری جنگی تیاریوں سے زیادہ مشکل ہوتی ہے لڑکیوں کے لیے ۔
”ویسے تم بھی چلتیں تو اچھا ہوتا ۔ خزیمہ داؤد مس کرے گا تمہیں ۔ ” جھمکا کان کے ساتھ لگا کر آئینے میں د یکھتے ہوئے اس نے شرا ر تی اند از میں کہا تو نور کی تیو ر ی پہ بل پڑ ے ۔ اسے ہانیہ کا ایسا مذاق بالکل پسند نہیں تھا۔
٭…٭…٭
کھانے کے پیکٹ آتے ہی سب اُن پر جھپٹ پڑے تھے ۔عورتوں اور مردوں کی الگ لگ قطاریں بنوائی گئی تھیں مگر اب یہ تفریق ختم ہو گئی تھی۔ سب کو پیٹ بھرنا تھا ۔
بچے اشتیاق سے پیکٹ کھول کر دیکھ رہے تھے ۔ وہ زلزلہ آنے پر خوش تھے ، آج کل وہ ، وہ سب کھا رہے تھے جو پہلے ٹی وی پر دیکھا کرتے تھے ۔ پہننے کو انہیں اچھے لباس مل رہے تھے ، نئے جوتے بھی ایک این جی او کی طرف سے بانٹے گئے تھے ۔ شدید سردی میں اوڑھنے کو گرم گرم کمبل بھی مل رہے تھے۔ دو یا تین وقت کھانا بھی ملتا تھا ۔ کریمیں اور لوشن بھی ملے ، ہینڈ واش اور شاور جیل بھی ملے ۔ کئی ایسی چیزیں بھی ملیں جن کا استعمال انہیں کیا ان کے بڑوں کو بھی نہیں آتا تھا ۔ اگرچہ بچوں کو بیماریوں نے زیادہ گھیرا تھا، پھر بھی وہ خوش تھے ، حیران تھے کہ زلزلہ بھی کیا خوب شے ہے ۔
نورالحسن اپنے خیمے کی طرف جا رہا تھا جب اس کی نظر دائیں طرف لگے خیموں میں سے ایک پہ پڑی۔ وہ کوئی کتاب پڑھ رہی تھی۔ وہ مسکراتے ہوئے ایک پیکٹ اٹھا کر خیمے کے سامنے چلا آیا ۔
”تمہیں بھوک نہیں لگی؟” اس نے جھک کر اس سے پوچھا۔ نیلی آنکھوں والی اور سنہری گھنگھریالے بالوں والی نے ا س کی طرف دیکھا اور نفی میں سر ہلا کر پھر کتاب میں مگن ہو گئی۔
”کیا پڑھ رہی ہو؟” وہ بنا اجازت خیمے کے اندر چلا آیا تھا ۔ لڑکی نے اسے دیکھا اور کتاب کا ٹائٹل اس کے سامنے کر دیا۔ وہ کسی این جی او کی طرف سے بچوں میں تقسیم کی گئی بچوں کی کہانیوں کی کتاب تھی۔
”واہ … مجھے پڑھنے والے بچے بہت پسند ہیں۔” نورالحسن نے اسے سراہنے والے انداز میں کہا۔
”امارے بابا کو بھی۔ ” وہ ایک دم جوش کے ساتھ بولی اور بولتے بولتے دھیمی پڑی ۔
”گڈ … کون سی کلاس میں پڑھتی ہو۔” اس نے باتوں کا سلسلہ آگے بڑھاتے ہوئے پوچھا۔
”پانچویں۔”
”پانچویں!” نورالحسن نے کچھ حیرت سے دہرایا ۔ اس کے حساب سے بچی کو اس وقت ساتویں یا آٹھویں کلاس میں ہونا چاہیے تھا ۔
”آٹویں میں اوتا ، اگر گاؤں نہ آجاتا ۔ اُدر گاؤں میں اسکول نئیں ناں ۔ ” بچی کو شاید اس کی آنکھوں میں لکھی حیرت نظر آ گئی تھی اسی لیے وہ اداسی سے بولی۔
”اوہ … پہلے شہر میں رہتی تھیں، تم؟”
”آں… پشاور ۔ ” اس نے پیچھے کو ہاتھ کا اشارہ کرتے ہوئے اسے جغرافیائی حدود اربعہ سمجھانے کی کوشش کی ۔
”اچھا، تو شہر سے گاؤں آ…” اس کا جملہ مکمل نہ ہوا تھا جب گل زمان جھک کر خیمے میں داخل ہوا۔ نور الحسن کو وہاں پا کر پہلے تو وہ ٹھٹکا، پھر سنبھل کر مسکرایا ۔
”آؤ گل زمان… تمہاری بچی نے بتایا کہ پہلے تم پشاور رہتے تھے ۔ وہاںو ہ اسکول بھی جاتی تھی۔ پھر گاؤں آنے کی ضرورت کیوں پڑی؟ یوں تو اس کی تعلیم ادھوری …”
”بائر ٹی وی والی آئی اے ۔ چلو بچے چلو ، ام نے انٹر ویو دینی اے ۔ ” گل زمان نے اس کی بات کاٹ کر بچی کے سر پر ہاتھ رکھا ۔ بچی ہو نٹ بھینچ گئی تھی۔ نور الحسن سمجھ گیا کہ گل زمان اس موضوع پہ بات کرنا نہیں چاہتا ۔ وہ اٹھ کر باہر آنے لگا اور پھر پلٹا ۔
”تمہارا نام کیا ہے ؟”
نیلی آنکھوں ، گھنگھریالے سنہری بالوں اور شہد جیسی رنگت والی نے گل زمان کی طرف دیکھا، پھر آہستہ سے جواب دیا۔
”گُلانے۔”
٭…٭…٭
ہونٹوں پہ کبھی ان کے میرا نام ہی آئے
آئے تو سہی ، برسرِ الزام ہی آئے
مونال کا رومانیت بھرے ماحول میں غزل کی مترنم آواز اثر دکھانے لگی تھی۔قرةالعین نے چائے کی چسکی لیتے ہوئے اس ستم گر کی طرف دیکھا جو کھانا کھا لینے کے بعداب ریلنگ کے پاس کھڑا اسلام آباد شہر کی روشنیاں دیکھ رہا تھا ۔ ا س نے سگریٹ سلگا لیا تھا ۔وہ سمجھ گئی تھی۔وہ ان کے بیچ سے اٹھ کر ہی اس لیے گیا تھا کہ اسے سگریٹ کی طلب ہو ر ہی تھی۔
حیران ہیں ، لب بستہ ہیں ، دل گیر ہیں غنچے
خوشبو کی زبانی تیرا پیغام ہی آئے
”عینا ! چلو تصویریں لیتے ہیں ۔” علینہ نے اپنے موبائل کا کیمرا آن کیا ۔
”تم لڑکیوں کا بس چلے تو کورٹ میں بھی سیلفیاں لینا شروع کر دو۔” اعتبار احمد ہنسے۔
”سر… وہاں بھی لیتی ہیں سیلفیاں ، بس آپ کے سامنے نہیں لیتیں۔” منیب نے کہا تو تینوں لڑکیوں نے اسے گھورا جو ان کے سینئرز اور باسز کے سامنے پول کھول رہاتھا ۔
”چھوڑیں ایڈووکیٹ منیب ! لڑکے بھی کسی سے کم نہیں رہے اب، نماز تراویح ادا کرتے ہوئے سیلفی، جنازوں میں مر جانے والے کے ساتھ سیلفی ۔” فروا فوراً بولی۔
”یہ بخار سب کو چڑھا ہے بھئی، میں گھر میں کہیں بھی بیٹھا ہوں ، کھڑ ا ہوں ۔ میری بیٹی ایک دم وارد ہو گی ، کبھی کندھے سے لگ کرکبھی آگے کھڑی ہو کر”پاپا سیلفی” کہے گی اور ساتھ ہی کلک ہو جاتا ہے۔ اوراب تو کبھی کبھی میں بھی فرنٹ کیمرا کھول لیتا ہوں مگر ڈر کر بند کر دیتا ہوں ۔” اعتبار احمدکی بات پر سب ہنس پڑے ۔
ان کے اندر اپنے عہدے کا غرور نہ تھا ، وہ اپنے جو نئیرز کے ساتھ دوستانہ رویہ رکھتے تھے اور سیروتفریح کے اس دن تو وہ ان کے ساتھ بالکل گھل مل گئے تھے ۔ خورشید عطا بھی کسی حد تک ان کا ساتھ دے رہے تھے مگر وہ شخص… وہ شخص یہاں بھی ویسا ہی تھا جیسا عدالت میں نظر آتا تھا ۔یوں ہی تو وکلا گروپ نے اس کا نام مسٹر مغرور نہیں رکھا ہوا تھا۔
تھک ہار کر بیٹھے ہیں سر کوئے تمنا
کام آئے تو پھر جذبۂ ناکام ہی آئے
قرةالعین اس کے پاس جا نا چاہتی تھی، اس کے قریب کھڑا ہونا چاہتی تھی، چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے اس کے ساتھ باتیں کرنا چاہتی تھی’ مگر کل رات والی عزت افزائی وہ بھولی نہیں تھی ۔ اس لیے اپنی آرزو دل میں دبائے ان سب کے بیچ بیٹھی رہی ۔
”میں بہادر تو اس کو مانوں جواس کیس کی ہیرنگ کے دوران سیلفی لے کر دکھائے جس کے جج مسٹر مغرور ہوں ۔” منیب کے چیلنج پر سب نے کانوں کو ہاتھ لگائے۔
”عینا یہ کا م کر سکتی ہے ۔ ” فروا نے ہنستے ہوئے کہا۔
”وہ دن اس کا کورٹ میں آخری دن ہو گا ۔ ” منیب ہنسا ۔
”کیوں عینا … کرتی ہو یہ چیلنج قبول ؟”
علینہ کے پوچھنے پر اس نے کوئی جواب نہ دیا تھا ۔ چائے پینا شاید اس کے لیے زیادہ ضروری ہو گیا تھا ۔
”میرا خیال ہے اب نکلنا چاہیے ، صبح پونے سات بجے کی فلائٹ ہے ۔” خورشید عطا اٹھے۔ ان لڑکے لڑکیوں نے تو ہنستے کھیلتے ، باتیں کرتے ہوئے ، تصویریں بناتے ہوئے یوں ہی رات گزار دینی تھی۔ ڈرائیور کو گاڑی پارکنگ سے نکال کر سامنے لانے کا کہہ کروہ سب مونال سے باہر آ گئے۔

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

لالی — شاذیہ خان

Read Next

موسمِ گرما —- حرا قریشی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!