گلانے — صوفیہ بٹ (قسط نمبر ۱)

سبز پہاڑوں میں گھری اس وادی کا حسن ہر ایک کو اپنی طرف کھینچتا تھا۔ گرمی کے دنوں میں ملک کے مختلف حصوں سے لوگ یہاں چھٹیاں گزارنے آتے ، غیر ملکی سیاح بھی اس سبز وادی کی تعریف سن کر اکثر یہاں کا رخ کر لیتے’ مگر جو یہیں جمے پلے تھے، انہیں شایداس کی خوبصورتی اور دل فریبی کا صحیح اندازہ نہ تھا ‘ لیکن باہر سے آنے والا مبہوت رہ جاتا۔ رنگوں، پھولوں، خوشبوؤں، جھرنوں ، چشموں اور حسین لوگوں کی اس وادی میں عمر گزار دینے کو جی چاہتا تھا۔
اس سال بھی لوگ یہاں اکٹھے ہوئے تھے مگر وجہ یہاں کے پہاڑ، جھرنے اور حسین لوگ نہ تھے، بلکہ سبب اس وادی کی بربادی تھا ۔ رنگ ، پھول، جھرنے ، چشمے ویسے کے ویسے تھے مگر ان پہاڑوں کے سینے پر سجے سینکڑوں گھر بھربھری مٹی بن کر ڈھے چکے تھے ۔ کھلکھلاتے ، گیت گاتے حسین چہرے غم زدہ اور سہمے سہمے سے تھے ۔ پچھلے ہفتے موت کا جو رقص ان آنکھوں نے دیکھا ،وہ اب عمر بھر فراموش نہیں ہونا تھا۔
نورالحسن نے دور تک لگے خیموں پر نظر دوڑائی ۔ اندر باہر آہ و بکا تھی ۔ کسی نے اپنے گھر کا ایک فرد کھویا تھا تو کسی کا پورا کنبہ ہی زلزلے نے نگل لیا تھا۔ جس گھر کے تمام افراد محفوظ تھے ، دہشت ان کی آنکھوں سے بھی برستی تھی۔مال ، مویشی ، گھربا ر کا غم الگ ، ابھی تو جانے والوں کو رو رہے تھے سب ۔ غم کی اس گھڑی میں ہر پاکستانی اور انسانیت کا درد رکھنے والا ہر فرد ان کے ساتھ تھا، نہ صرف پورے ملک سے بلکہ دنیا بھرسے امداد ی ٹیمیں یہاں پہنچی ہوئی تھیں ۔ ہر شعبے سے تعلق رکھنے والی ٹیمیں رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات دینے کے لیے یہاں کا رخ کر رہی تھیں مگر ان کا درد کم نہ ہوتا تھا۔ انہوں نے جو کھو دیا تھا، وہ عظیم نقصان تھا جس کا متبادل اب نہیں ملنا تھا ۔ چاہے چاول، آٹا، دال، پانی کی بوتلوں ، بسکٹوں ، کریموں اور دواؤں سے ان کے خیمے بھر جائیں ، چاہے امدادی چیکوں سے ان کی جیبیں بھاری پڑنے لگیں۔ لیکن جو وہ کھو چکے تھے، وہ اب انہیں نہیں مل سکتا تھا۔
”آج دو اور زخمیوں نے دم توڑ دیا۔” اسد نے اس کے قریب آکر کھڑے ہوتے ہوئے آہستہ آواز میں بتایا۔
”انا للہ و انا الیہ راجعون۔” نورالحسن نے اونچی آواز میں کہا ۔ بے شک ہم سب کو اللہ کی طرف ہی لوٹ کر جانا ہے ۔ ہماری منزل وہی ہے۔ یہ روزِ اول سے طے ہے۔ پھر بھی موت کو قبول کرنا جانے مشکل امر کیوں ہے ۔
وہ دونوں افسردہ سے کافی دیر وہیں اسی پہاڑی پر کھڑے رہے، یہاں تک کہ دور بادلوں کے بیچ ایک ہیلی کاپٹر نمودار ہوا۔ یہ پاک آرمی کا ہیلی کاپٹر تھا شاید تازہ کھانے کے پیکٹ اور دوائیں آئی تھیں۔
وہ دونوں کچھ مطمئن دکھائی دیے۔ دواؤں کی یہاں اشد ضرورت تھی۔ زخمیوں کو تو علاج کی ضرورت تھی ہی ، ساتھ بارش اور شدید سردی کی وجہ سے بیمار پڑنے والے افراد میں بھی روز بروز اضافہ ہوتا چلا جا رہا تھا۔
ہیلی کاپٹر کے پیروں نے وادی کی سطح کو چھوا ، اس کے پر ابھی بھی پھڑ پھڑا رہے تھے ۔ سیڑھی لگتے ہی وردی میں ملبوس ایک جوان تیزی سے نیچے اترا ، پھر اس نے ہاتھ بڑھا کر اس میں بیٹھے افراد کو اتارنا شروع کیا ۔
آدھے گھنٹے بعد ایک اور ہیلی کاپٹرزخمی متاثرین کو لے کر پہنچا ۔ انہوں نے سنا تھا کہ پاک آرمی کے جوانوں نے آج ایک گاؤں کو ریسکیو کیا ہے۔ ا س گاؤں کے اسی فیصد گھر تباہ ہو گئے تھے اور کئی جانیں چلی گئیں۔
اس دن جو زلزلہ متاثرین ہیلی کاپٹر کے ذریعے کیمپ تک پہنچائے گئے ، ان میں ایک لڑکی تھی جس نے کپڑوں کی ایک گٹھڑی سینے سے لگا رکھی تھی۔ جس کی آنکھیں نیلی ، بال سنہری اور رنگت شہد جیسی تھی۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

”مل گیا سکون؟ ہرادیا خزیمہ داؤ د کو؟ اب خدا کے لیے آج کی رات سکون سے سونا اور مجھے بھی سونے دینا۔” ہانیہ نے بیگ اور کتاب میز پر رکھتے ہوئے اس کے آگے ہاتھ جوڑے۔ وہ ہلکا سا مسکرائی اور کامن روم میں لگے آئینے کے سامنے کھڑی ہو کر اپنا نقاب صحیح کرنے لگی۔
”یار… میں زیادہ موٹی ہو گئی ہوں۔” اس کے ہٹتے ہی ہانیہ آئینے کے سامنے آئی اور گھوم پھر کر تنقیدی نظروں سے اپنا جائزہ لیا۔
”یہ سوال تم نے صبح بھی پوچھا تھا۔”
”ہاں تو اس کے بعد ناشتا بھی تو کیا تھا پھر گنے کا جوس بھی پیا۔” ہانیہ نے لپ گلوس لگاتے ہوئے اسے مطلع کیا۔
”نہیں! تم موٹی نہیں لگ رہیں۔” ایک بار پھر اسے تسلی دینی پڑی، چاہے جھوٹی ہی سہی۔
”اچھا؟ چلو پھر سموسے کھاتے ہیں ۔” تسلی ہوتے ہی زبان ذائقہ مانگنے لگی۔
”نہیں… تم چلی جاؤ ۔مجھے بھوک نہیں ۔” اس نے حسب توقع جواب دیا تھا ۔
”ایکسکیوزمی… سموسے آپ کھلا رہی ہیں، اپنے رزلٹ کی ٹریٹ۔” ہانیہ کمر پر ہاتھ رکھ کر اس کی طرف آئی۔
”ٹریٹ ہاسٹل میں لے لینا۔” اسے ڈیپارٹمنٹ میں اِدھر اُدھر گھومنا پسند نہ تھا۔ کلاس، لیب، لائبریری یا پھر یہ کامن روم۔ اس کے علاوہ وہ بچتی تھی باہر نکلنے سے ۔مگر ہانیہ اس کی مانتی تھی تو اپنی منواتی بھی تھی۔ زبردستی اسے لے کر کینٹین کی طرف آ گئی۔نقاب میں کھانا خاصا مشکل کا م تھا اور” کھانا” ویسے بھی اب اس کا شوق نہیں محض ضرورت رہ گیا تھا ۔
”چٹنی زیادہ دیجیے گا بھائی ۔اور …اور ” ہانیہ تھوڑا سا ا و نچا ہو کر پیا لے کے ا ند ر جھا نک ر ہی تھی۔
”آپ سموسے کے ساتھ چٹنی نہیں بلکہ چٹنی کے ساتھ سموسا لے لیا کریں ۔”کینٹین والے باقر بھائی نے چڑکر ہانیہ کو مشورہ دے ڈالا۔
”زیادہ باتیں نہ بناؤ۔ تم جانتے ہو اس ڈیپارٹمنٹ کا ڈین میرا کیا لگتا ہے ؟” ہانیہ نے ہاتھ کمر پر ٹکاتے ہوئے کہا۔
”کیا لگتا ہے ؟” سوال باقر بھائی کی طرف سے نہیں بلکہ خزیمہ داؤد کی طرف سے کیا گیا تھا جو سن گلاسز ہاتھ میں لیے اس کے پیچھے کھڑا تھا ۔وہ چونک کر جو مڑی تو چٹنی کا پیالہ ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے جا گرا۔ ان دونوں کے علاوہ باقی خلقِ خدا نے بھی چھلانگیں مار کر اپنے کپڑے بچانے کی کوشش کی، کچھ کام یاب ہوئے، کچھ نہیں ۔
”خزیمہ ! تم جہاں بھی جاتے ہو گل ہی کھلاتے ہو۔” وہ جو اپنے کپڑوں پر چٹنی کے چھینٹے دیکھ کر اسے گھور رہا تھا ،بے ساختہ مسکرا دیا اور بے اختیار ہی نظریں دور کرسی پر بیٹھی نورکی طرف اٹھیں جو خیالوں کی دنیا میں کہیں پہنچی ہوئی تھی۔وہ اسی طرح مسکراتا ہوا اس کی جانب آ گیا تھا ۔
”آپ کو مبارک ہو ۔” وہ اس کے نزدیک پڑی دوسری کرسی پہ بیٹھتے ہوئے بولا، وہ بری طرح چونک اٹھی تھی۔
”کیا میری شکل میری آواز ایسی ہے کہ مجھے دیکھ کر لوگ نارمل ری ایکٹ نہیں کر سکتے ۔” وہ ہنس کر پوچھ رہا تھا ۔
”شکل اور آواز نہیں…تمہاری حرکتیں ایسی ہیں ۔” ہانیہ نے سموسوں کی پلیٹ اور چٹنی کا پیالہ میز پر رکھتے ہوئے جواب دیا جب کہ نور کو کوئی بات سمجھ نہیں آ رہی تھی۔وہ اپنی دنیا میں رہنے والی لڑکی تھی۔ آس پاس یہاں تک کہ سامنے ہوتی باتوں پر بھی اس کا دھیان نہ رہتا تھا ۔
”میں نے مبارک باد پیش کی تھی آپ کو ۔” خزیمہ نے اس کی گری پلکوں کو دیکھتے ہوئے یاد دلایا۔
”کس بات کی مبارک با د… سیکنڈ آنے کی ،میری دوست سے پیچھے رہ جانے کی۔” ہانیہ کھلکھلا کر ہنسی۔
”اعلیٰ ظرف ایسے ہی ہوتے ہیں ۔” خزیمہ نے گردن اکڑائی۔
”اعلیٰ ظرفی تو تب دیکھنے والی ہو گی جب باقی دو مضامین کا رزلٹ بھی اناؤنس ہو گا۔” ہانیہ نے بھی اسی طرح گردن اکڑا کر کہا۔
”جی …میری پوزیشن سیکنڈ رہے گی۔معلوم ہے ۔ تم اپنی سناؤ …ہم تمہاری ٹاپ تھرٹی فائیو میں آنے کی امید رکھیں ناں ۔ویسے تمہیں زیادہ مارجن بھی دے سکتے تھے اگر کلاس میں تھرٹی فائیو سے زیادہ اسٹوڈنٹس ہوتے تو ۔” وہ ہنس ہنس کر جتا رہا تھا اور ہانیہ تلملا رہی تھی۔
”دفع ہو جاؤ یہاں سے، میری ٹریٹ کا مزہ کرکرا نہ کرو۔” اس نے تیسرا سموسا ہاتھ میں پکڑتے ہوئے اس کے طعنے مزید جھیلنے سے انکار کیا ۔
”ٹریٹ …کون دے رہا ہے ؟” خزیمہ نے اب سنجیدہ نظروں سے نور کو دیکھتے ہوئے کہا۔
”ظاہر ہے سیکنڈ والے تو سوگ منائیں گے ،فرسٹ پوزیشن والے ہی دیں گے ناں ۔” ہانیہ نے اسے چھیڑتے ہوئے کہا۔
”سیکنڈ والوں کوبھی ٹریٹ مل جائے تو سوگ کم ہو سکتا ہے ۔” اس نے ایک بار پھر نور کو دیکھا تھا۔
”چلو ہانیہ جلدی کرو، کلا س شروع ہونے والی ہے ۔” وہ پہلی بار بولی تھی۔
”ٹھہرو تو…تمہارے حصے کا سموسا تو کھا لوں ۔” ہانیہ نے جلدی سے چوتھا سموسا اُٹھایا۔
خزیمہ داؤد نے دیکھا ،اس کی آنکھیں بولتی تھیں۔ صاف صاف کہتی نظر آتی تھیں۔”نو گو ایریا۔”
باز وہ پھر بھی نہیں آتا تھا ۔وہ تھا ہی ایسا ،بچپن ہی سے۔جس مووی یا ڈرامے پر ہدایت ہوتی تھی ”بچے نہ دیکھیں ” وہ ضرور دیکھتا تھا۔ بعد میں بھلے وہ ڈراؤنی فلم اس کے خوابوں میں آتی اور دہشت زدہ ہو کر بار بار نیند سے جاگ اٹھتاتھا ۔ممنوعہ چیزیں اور جگہیں اس کے اندر تجسس کو ابھارتی تھیں ۔ جب وہ چھاؤنی کے اسکول میں تھا ، ممنوعہ جگہ کا بورڈ دیکھ کر بھی آگے چلا گیا۔ ایک فوجی نے اسے پکڑ لیا اور آدھ گھنٹے تک مرغا بنائے رکھا۔ پھر جب وہ مزید یہ سزا نہ سہ پایا تو اسے گارڈ روم پربنے لاک اپ میں بند کر دیا۔ اس سے سب تفصیلات لے کر اس کے گھر فون کر کے مطلع کر دیا گیا کہ ان کے بیٹے کو چار گھنٹے کی جیل ہو گئی ہے ۔اس کے بعد وہ اسے گارڈ روم سے لے جا سکتے ہیں ۔
سرحد پار کر کے اس نے ہمیشہ سزا ہی بھگتی تھی مگر باز کبھی نہیں آیا تھا۔
٭٪٭٪٭٪٭٪٭
”اماراکوروالا ( گھر والی ) اللہ کو پیارا ہو گیا ، امارا کور والا … ام لٹ گئی ۔ ” سخت سردی میں کھلے آسمان تلے بغیر کسی سوئیٹر بغیر کسی گرم چادر کے کھڑا گل زمان سر پر ہاتھ مارتے ہوئے ماتم کر رہا تھا ۔ اس کی زخمی بیوی نے کچھ دیر پہلے دم توڑ دیا تھا ۔
”امارا گر (گھر) گر گئی ۔ سب کچھ دب گئی اس کے نیچے ۔ امارا کوروالا کی ، امارا بچی کی جان بچا کے باگی۔ امارا زندگی کی ساتھی مر گیا۔ امارا بچی یتیم ہو گیا… زما لورے (میری بیٹی)… زمالورے۔” اس نے ساتھ کھڑی بارہ تیرہ سالہ بچی کو سینے سے لگایا اور بین کرنے لگا ۔
جنہوں نے اپنے پیارے کھوئے تھے ، ان کا غم بھی تازہ ہوا۔ کئی عورتوں نے چادر کے کنارے سے آنکھیں صاف کیں۔ کئی مردوں نے ادھر اُدھر منہ کر کے اپنی آنسو چھپائے ۔ بہت سوں کی آنکھیں رو رو کر خشک ہو چکی تھیں ۔ ان کے پاس ایک دوسرے کو دینے کے لیے تسلی بھی نہ بچی تھی۔
بچے ہی تھے جو یہاں بھی کھلکھلا رہے تھے ، کھیل رہے تھے ، مستیاں کر رہے تھے ۔ ماں باپ کی صورت دیکھتے تو لمحہ بھر کے لیے سنجیدہ ہو جاتے ، چند ساعتوں بعد ویسے کے ویسے ۔ سچ ہے بچوں کے لیے دونوں جہانوں میں جنت ہے ۔ غم اور فکر ان کے لیے نہیں بنے ۔
اس شخص کے نوحے سن کر نور الحسن رہ نہ سکا اور جا کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا ۔
”صاب … اما ر ا کوروالا ۔” وہ آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر سسک پڑا ۔
”صبر… صبر۔” اس ایک لفظ کے علاوہ کوئی اور تسلی کوئی اور دلاسہ نہ تھا اس کے پاس ۔
”صاب … اما ر ا جوان بچی … گھر کتم ہو گیا ۔ کدر لے کے جاؤں اسے۔”
”اللہ رحم کرے گا۔” نور الحسن نے تسلی دیتے ہوئے لڑکی کی طرف دیکھا ۔
باپ کے برعکس وہ بالکل خاموش تھی۔ اس کا چہرہ سپاٹ تھا اور نیلی آنکھوں کی سطح بالکل خشک۔
٭…٭…٭
یہ محبت اچھے خاصے انا والے بندے کو بھی فقیر سا بنا دیتی ہے۔
کوئی اور ہوتا تو ایڈووکیٹ قرةالعین غنی اتنی بے عزتی کروانے کے بعد شاید ہفتہ بھر یا مہینا بھر اس بندے سے کلام نہ کرتی مگر اس بندے کے لیے اس کی انا نیند کی گولیاں کھا کر سو جاتی تھی ۔
وہ جو صبح سے سوچے بیٹھی تھی کہ اس بندے سے ہم کلام نہیں ہونا جب تک وہ اپنے رویے پر نادم نہ ہو، مگر ہوا یوں کہ دامنِ کوہ وہ اپنے دھیان میں چلی جا رہی تھی۔ جب اسے اس ستم گر کی آواز سنائی دی۔
”مس غنی …خیال سے ۔”
وہ چونکی ، اسی لمحے اس کے ہاتھ میں موجود منرل واٹر کی بوتل پر کوئی جھپٹا تھا ۔اس کے منہ سے چیخ نکلی اور وہ ڈر کر پیچھے ہٹی ۔ بندر اس کے ہاتھ سے بوتل چھین کر یہ جا وہ جا۔
”اسلام آباد کے بندر بھی منرل واٹر پیتے ہیں ۔” منیب کی بات پر سب ہنس پڑے ۔ اس نے مسکراتے ہوئے اس شخص کی طرف دیکھا جوپھر سے لاتعلق ہو چکا تھا ۔ قرةالعین کی مسکراہٹ گہری ہو گئی۔
”مس غنی …خیال سے ۔”
اس نے بندر کو اس کی طرف بڑھتے پا کر فقط اتنا کیا کہہ دیا کہ اسے محسوس ہوا کہ وہ نادم بھی ہو گیا اور رات والے رویے پر معذرت بھی کر لی۔ اس کی خود ساختہ خفگی دور ہو گئی تھی۔دامن کوہ میں جو اِن کا گروپ فوٹو بنا ، اس میں وہ اس کے بائیں جانب جا کھڑی ہوئی تھی ۔
”عینا ! لوک ورثہ میں جب کہا کہ مسٹر مغرور کے ساتھ کھڑی ہو جاؤ ، تب تو میم یوں پرے ہٹی جیسے ان کو جانتی تک نہ ہو اور اب ان کے پہلو میں یوں آکھڑی ہوئی جیسے ان کی نوبیاہتا دلہن ہو ۔” جیسے ہی گروپ فوٹو بنوا کر وہ سب اِدھر اُدھر ہوئے ، ایڈووکیٹ علینہ اطہر نے اس کی کلا س لی۔
”دفع ہو۔” علینہ کے کندھے پر دھپ لگاتے ہوئے اس کے چہرے پہ سر خی پھیلی۔
”اف …کیا ویو ہے ۔جی چاہتا ہے یہیں رہ جاؤں۔” آسمان کی لالی نے فیصل مسجد پر بھی رنگ بکھیر رکھا تھا ۔ علینہ نے بیک گراؤنڈ میں مسجد کو لے کر دامنِ کوہ میں تصویر بنوائی۔
منیب گروپ میں ایک تصویر دکھا رہا تھا ، جسے دیکھ کر سب ہنستے ہوئے یا مسکراتے ہوئے قرةالعین کی طرف دیکھ رہے تھے ۔ اسے تجسس ہوا تو آگے بڑھ کر منیب کے موبائل پر نظر ڈالی۔ وہ اِن تاریخی لمحات کی تصویر تھی جب بندر اس کے ہاتھ سے بوتل چھین رہا تھا اور وہ ڈر کے مارے چیخ رہی تھی۔
”بدتمیز۔ڈیلیٹ کرو اسے۔ ” وہ منیب کے پیچھے پڑی تھی مگر وہ کسی طور بھی اس کی تصویر ڈیلیٹ کرنے کو تیار نہ تھا ۔
”سٹی کورٹ میں فریم کروا کے لگاؤں گا ۔” منیب نے ہنستے ہوئے اسے چھیڑا تھا۔
ان دونوں کے بیچ تکرار جاری تھی۔ قرةالعین اس سے موبائل چھیننے کی کوشش کر رہی تھی۔
کشمیر ہائی وے پر بھاگتی دوڑتی روشنیوں سے نظر ہٹا کر اس نے ان دونوں کی طرف دیکھا تو اس کی نظروں کے سامنے ایک منظر فلم کی طرح چلا ۔ اس کا جی چاہا کہ سامنے کھڑے ہنستے ہوئے لڑتے ہوئے منیب طاہر اورکھلکھلاتی ہوئی لڑکی قرةالعین غنی کو آگ لگا دے ۔ ہر کم عمر ہر جوان لڑکے اور لڑکی کو آپس میں بے تکلف دیکھ کر اس کی یہی کیفیت ہونے لگتی تھی۔
٭٪٭٪٭٪٭٪٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

لالی — شاذیہ خان

Read Next

موسمِ گرما —- حرا قریشی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!