گئے موسم میں جو کھلتے تھے گلابوں کی طرح ۔ پروین شاکر
گئے موسم میں جو کھلتے تھے گلابوں کی طرح
دل پہ اتریں گے وہی خواب عذابوں کی طرح
راکھ کے ڈھیر پہ اب رات بسر کرنی ہے
جل چکے ہیں مرے خیمے مرے خوابوں کی طرح
ساعت دید کہ عارض ہیں گلابی اب تک
اولیں لمحوں کے گلنار حجابوں کی طرح
وہ سمندر ہے تو پھر روح کو شاداب کرے
تشنگی کیوں مجھے دیتا ہے سرابوں کی طرح
غیر ممکن ہے ترے گھر کے گلابوں کا شمار
میرے رستے ہوئے زخموں کے حسابوں کی طرح
یاد تو ہوں گی وہ باتیں تجھے اب بھی لیکن
شیلف میں رکھی ہوئی بند کتابوں کی طرح
کون جانے کہ نئے سال میں تو کس کو پڑھے
تیرا معیار بدلتا ہے نصابوں کی طرح
شوخ ہو جاتی ہے اب بھی تری آنکھوں کی چمک
گاہے گاہے ترے دلچسپ جوابوں کی طرح
ہجر کی شب مری تنہائی پہ دستک دے گی
تیری خوش بو مرے کھوئے ہوئے خوابوں کی طرح
Tags: Alif Kitab commercial writing covid-19 inspector jamshed kids stories non fiction novels Read online sarah qayyum stories for kids umera Ahmed write اشتیاق احمد افسانچہ الف لیلہٰ داستان ۲۰۱۸ الف نگر باجی ارشاد پروین شاکر سلسلہ وار ناول شاعری شریکِ حیات فکشن کی ۵۳ اقسام اور اشکال ۔ فکشن ۔ کمرشل رائٹنگ قرنطینہ ڈائری کہانیاں نیکی سیریز