کی میکر
حنا نرجس
اوہ! چابی تو کمرے میں ہی رہ گئی۔ اب کیا ہوگا؟ پڑھیے ایک سبق آموز کہانی۔
”واہ ممّا! آپ کے ہاتھوں میں تو جادو ہے۔ آہا! کتنی خوب صورت لگ رہی ہے میری فراک ہے نا!” حرا نے واپس رکھتے ہوئے اپنی ماں کے ہاتھ چوم لیے۔
یہ عالیہ کی مہارت تھی کہ اپنے جالی دار گلابی دوپٹے پر سفید اور گلابی لیس لگا کر حرا کا اتنا پیارا فراک سی ڈالا تھا۔ پہلی نظر میں کسی مہنگے برانڈ کے تیار کردہ فراک کا گمان ہوتا تھا۔ دونوں ماں بیٹی ابھی فراک دیکھ رہی تھیں کہ بیرونی دروازہ کھلنے کی آواز آئی۔ بابا آ گئے تھے۔ حرا نے بہ مشکل ان کے کھانا کھانے تک انتظار کیا پھر وہی سوال کر دیا جس کے لیے وہ بابا کے آنے کا انتظار کر رہی تھی۔
”بابا! آپ مجھے پانچ سو روپے دے رہے ہیں نا؟”
”اوہ! ابھی نہیں بیٹا! اصل میں…” وہ کچھ کہتے کہتے رک گئے۔
”بابا! آپ کو پتا ہے! صبح آخری تاریخ ہے۔ کل ہر صورت پیسے جمع کروانے ہیں، ورنہ میرا نام ٹرپ پر جانے والے بچوں میں شامل نہیں ہو گا۔” حرا نے قدرے اُداس لہجے میں کہا۔
”میں کوشش تو کر رہا ہوں بیٹا! امید ہے ایک دو دن تک… بلکہ ٹیچر سے کہو کہ وہ تمہارا نام ٹرپ پر جانے والے بچوں میں شامل کر لیں۔ ہم سوموار تک پیسے جمع کروا دیں گے۔”
”سوری بابا! وہ ایسے نہیں مانیں گے۔ آپ مجھے صبح پیسے ضرور دے دیں۔ ممّا تو میرا فراک سی چکی ہیں اور گلابی جوتے میرے پاس پہلے ہی موجود تھے۔ ویسے بھی اب میں سب دوستوں کو بتا چکی ہوں۔ پلیز آپ…” یہ کہتے کہتے اُس کی آنکھیں بھیگ گئیں۔
”بیٹا! تم اللہ سے دعا کرو۔ وہ ضرور کوئی سبیل پیدا کر دے گا۔” بابا نے حرا کا کندھا تھپتھپاتے ہوئے کہا۔
”میں ضرور دعا کروں گی بابا!” حرا یہ کہہ کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔
اپنے بستر پر آنکھیں موندے لیٹا کامل علی خود بھی دعا کر رہا تھا۔ وہ چابی بنانے کا ماہر یعنی ”کی میکر” تھا۔ خود تعلیم حاصل نہ کر سکا لیکن اپنی بیٹی کو اعلیٰ تعلیم دلانا چاہتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اُس نے حرا کو اپنی مالی حیثیت سے قدرے اونچے انگلش میڈیم اسکول میں داخل کروایا تھا۔ وہ تیسری جماعت کی طالبہ تھی۔ حرا بے جا ضد کرنے والی بچی نہیں تھی۔ وہ گھر کے حالات کو سمجھتے ہوئے اکثر اپنی خواہشات پر قابو پا لیا کرتی لیکن دو ہفتے قبل جب ٹیچر نے بچوں کے لیے ایک روزہ ٹرپ کا اعلان کیا تو حرا کا دل اُچھلنے لگا تھا۔
٭…٭…٭
صارم اپنے ٹیوٹر سر طارق کو دروازے تک خدا حافظ کہہ کر اپنے کمرے کی جانب آیا۔ اس نے دروازے کا ہینڈل گھمایا: ”اوہ! چابی تو کمرے کے اندر ہی تھی اور دروازہ غلطی سے لاک ہوگیا۔ اب کیا ہوگا؟” صارم پریشان ہوگیا۔
”امی! امی! میرے کمرے کی چابی اندر ہی تھی لیکن دروازہ لاک ہو گیا؟ ابو کب آئیں گے؟” صارم امی کے کمرے کی طرف بھاگا۔
”تمہارے ابو کچھ دیر تک آجائیں گے لیکن تالا کھلوانے کے لیے تو کی میکر کو ہی بلوانا پڑے گا۔”
”اوہو! یہ سب آج ہی ہونا تھا۔ کل میرا ریاضی کا پیپر ہے۔ کیا کروں میں اب؟”
”کتابیں تو تمہارے ہاتھ میں ہیں۔ ایک رات کے لیے تم میرے کمرے میں سو جاؤ۔”
”لیکن میرا کیلکولیٹر اور یونیفارم بھی تو اندر ہی ہے۔” صارم نے روہانسے لہجے میں کہا۔
ابو ذرا تاخیر سے گھر آئے تو صارم نے انہیں اپنی پریشانی سے آگاہ کیا۔ ”اوہ! اب تو کوئی ”کی میکر” بھی نہیں ملے گا۔ مارکیٹ بند ہوچکی ہے۔” صارم کے ابو نے افسوس سے ہاتھ ملتے ہوئے کہا پھر انہوں نے صارم کو سونے کے لیے بھیج دیا۔
٭…٭…٭
صبح صارم اور اُس کے ابو نمازِ فجر ادا کر کے راحیل صاحب کے گھر چلے آئے راحیل صاحب نے خوش دلی سے اُن کا استقبال کیا۔ صارم کے ابو نے اپنا مسئلہ بیان کیا:
”راحیل بھائی! مجھے یاد پڑتا ہے کہ ایک بار آپ کے چھوٹے بچے نے خود کو کمرے میں لاک کر لیا تھا اور پھر آپ کو تالا کھلوانے کے لیے کی میکر کو بلوانا پڑا تھا۔ کیا مجھے بتا سکتے ہیں وہ کی میکر کہاں ملے گا؟”
“ہاں، کیوں نہیں بھئی! میں آپ کو اُس کا رابطہ نمبر دیتا ہوں۔” راحیل صاحب نے کی میکر کا نمبر انہیں دے دیا۔
اِدھر کامل علی مسجد سے نماز پڑھ کر نکلا ہی تھا کہ اُس کے موبائل کی گھنٹی بج اٹھی۔ دوسری جانب اسے کوئی اپنا مسئلہ بتا رہا تھا۔ ”جی! جی میں حاضر ہوتا ہوں جناب!” کامل نے یہ کہہ کر فون بند کردیا پھر گھر آکر اپنے اوزار لیے باہر نکل گیا۔ اِدھر حرا کی ممّا اسے اسکول کے لیے جگا رہی تھیں۔
کامل اپنے کام میں ماہر تھا۔ چند منٹ میں ہی اُس نے صارم کے کمرے کا لاک کھول دیا۔ یہ دیکھ کر صارم کی جان میں جان آگئی۔ ابو نے ”کی میکر” کا شکریہ ادا کیا اور بتائی گئی اُجرت سے کچھ زیادہ رقم دیتے ہوئے کہا:
”آپ نے صبح سویرے میری مشکل حل کردی۔ آپ کا بہت شکریہ۔”
٭…٭…٭
بابا گھر پہنچے تو حرا بے دِلی سے اسکول کے لیے تیار ہو رہی تھی۔ چہرے پر افسردگی کے آثار واضح تھے۔ کامل کو اُس کی روٹھی شکل پر بہت پیار آیا۔ اُس نے آگے بڑھ کر حرا کے ماتھے پر پیار کیا اور اُسے پانچ سو روپے تھما دیے۔ یہ دیکھ کر حرا تو حیران ہی رہ گئی۔
”بابا! کیا یہ اصلی ہیں؟” حرا کے اِس سوال پر بابا مسکرا دیے۔
”بیٹا! تم نے دعا کی تھی نا! بس اللہ نے آپ کی دعا قبول کر لی اور صبح سویرے مجھے ایک کام دے دیا۔ ایک بچے کا کمرہ لاک ہو گیا تھا، وہ کھولنا تھا۔ اور پتا ہے کیا؟ وہ بچہ بہت پریشان تھا۔ مجھے یقین ہے کہ اُس نے بھی تمہاری طرح دعا کی ہو گی اور دُعا نے چابی کا کام کیا۔ اللہ نے دونوں کا مسئلہ حل کر دیا۔”
حرا کا چہرہ خوشی سے چمکنے لگا۔ وہ بے اختیار پکار اٹھی: ”تھینک یو اچھے اللہ میاں! اور بابا جانی! آپ کا بھی بہت شکریہ۔”
٭…٭…٭
آرٹ بریف
1۔ ایک سادہ سے گھر کا منظر جہاں بارہ سالہ حرا کی 40 سالہ ماں اُس کو گلابی رنگ کا فراک دکھا رہی ہے۔ قریب ہی 44 سالہ کامل صاحب گھنی مونچھیں ہلکی ڈاڑھی والے۔ کچھ پریشان سے کھڑے ہیں۔
2۔ ایک عالی شان گھر کا منظر۔ جہاں پندرہ سالہ صارم اپنے کمرے کے باہر پریشان کھڑا ہے اور اپنی امی کو کچھ بتا رہا ہے۔ ساتھ اس کی 38 سالہ مما حیرانی سے کمرے کا لاک دیکھ رہی ہیں۔
٭…٭…٭