کچن میں ایک دن — نایاب علی

ہر انسان فارغ وقت میں کچھ نا کچھ کرنا چاہتا ہے۔ جب اسے فارغ وقت میں اس کا من پسند کام مل جائے تو وہ خوشی سے جھومنے بلکہ ہوا میں اُڑنے لگتا ہے۔
ہماری طبیعت بھی کچھ ایسی ہی ہے کہ جیسے ہی کوئی باہر جانے کو کہے، ہمارا دل بے اختیار بھنگڑا ڈالنے کو کرتا ہے۔ ایک دن گھر پر فارغ بیٹھے ایسے ہی ہم مکھیاں مار رہے تھے جب ابو کی آواز سنائی دی :
”چلیں باہر گھومنے چلتے ہیں۔” بس یہ سننے کی دیر تھی کہ ہم بھنگڑا ڈالنا شروع ہوگئے۔جس کے بعدہم تیار ہونے کو چل دئییاور آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر خود کو سنوارنے کے لیے جی جان سے محنت کرنے لگے۔ اتنی محنت تو ہم نے کبھی اپنے سکول کے امتحانات کے لیے نہیں کی تھی، اگر کی ہوتی تو آج ہم باعزت طریقے سے سب کے سامنے سر اٹھا کر چلتے۔جو چیز ڈریسنگ میز پر پڑی نظر آئی اسے لگاناایسے ضروری سمجھاجیسے اگر کسی چیز کو چھوڑ دیا تو وہ ہم سے ناراض ہو جائے گی۔ بیس منٹ کی مشقت کے بعد ہم تیار ہو گئے اورجب ہم نے خود کو آئینے میں دیکھا تو بلااختیار منہ سے ”واہ” نکلا۔ ہم دل ہی دل میں اپنی بلائیں لینے لگے۔ کوئی اور تو ایسا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا کیوں کہ گھر میں کسی سے ہماری بنتی ہی نہیں تھی۔لہٰذا ہم نزاکت سے شاہانہ چال چلتے ہوئے کمرے سے باہر نکلے،مگر گھر والوں کو ہماری خوشی راس نا آئی۔
باہر نکلتے ہی ہمیں مہمانوں کے آنے کی اطلاع دی اور ساتھ ہی ایک دل خراش خبر بھی سنا دی کہ ان مہمانوں کے لیے کچن میں جاکر کھانا بھی بنانا ہے۔ ہمارے منہ پر مثلث بن رہی تھی تو کبھی تکون، مختلف زاویوں کی شکل بنانے پر بھی گھر والوں کو ہم پر رحم نا آیا تو ہمیں کچن کارخ کرنا ہی پڑا۔ ہم نے کام جلدی نمٹانے کا سوچا اور جلدی سے پیاز کاٹ کر ہانڈی چولہے پر چڑھا دی اور خود آٹا گوندھنے کی تیاری کرنے لگے۔ آج اپنا سگھڑاپا دکھانے کا وقت آچکا تھا جب ہمیں اپنی قابلیت کا لوہا منوانا تھا۔ اس لیے ہمارے ہاتھ جلدی جلدی حرکت کر رہے تھے۔ کچھ دیر بعد ہمیں کچھ جلنے کی بو آئی جس میں سانس لینا بھی دشوار ہو رہا تھا۔ جیسے ہی ہماری نظر ہانڈی پر گئی تو ہماری آنکھیں اُبل کر باہر کو نکل آئیں۔ ہم ہانڈی میں گھی ڈالنا بھول گئے تھے۔ اور اب سر پکڑے اور منہ کھولے ہانڈی کو دیکھ رہے تھے۔ ہم نے بھاگ کر جلدی سے گھی ہانڈی میں انڈیلنا چاہا مگر وہ اُچھل کر زمین پر جا گرا اور ہم پھر سے ناکام ٹھہرے۔ اس ناقابلِ برداشت بدبو سے چھٹکارہ پانے کے لیے ہم اس میں پانی ڈالنے کی نیت سے آگے بڑھے مگر زمین پر پڑے گھی کی وجہ سے اپنا توازن کھو کر دھڑام سے زمین پر آگئے۔ اسی پر اکتفا نہیں ہوا بلکہ ہمارا ہاتھ خشک آٹے کے برتن پرجا لگا اور وہ بھی زمین پرہمارے ساتھ تشریف لے آیا۔ سلیقے سے سلجھے ہوئے ہمارے ہیئر اسٹائل میں چاندنی اُتر آئی۔ اس کے ساتھ ہی منہ پر بھی آٹے کی ایک موٹی تہہ جم گئی۔
ہم نے باربار اُٹھنے کی کوشش کی مگر ہر بار پائوں پھسل جاتا اور ہم واپس زمیں بوس ہوجاتے ۔ آخرکارکافی تگ و دو کے بعد جب ہم کھڑے ہوئے تو کچن سے کمرے کا رُخ کیا۔ وہاں جاکر جیسے ہی آئینے کے سامنے کھڑے ہو کرہم نے اپنی شکل دیکھی تو ”واہ”سننے والی شکل کا ”تراہ”نکل گیا اور ہمارے پیچھے کان پھاڑنے والے قہقہے بلند ہوئے۔ ان قہقہوں نے ہمارے حوصلے پست نہیں کیے اور پھر وہ ہم ہی کیا جو ہار مان جائیں۔ ہم نے تو تعلیمی امتحانات میں بھی پانچ پانچ بار ایک ہی کلاس میں پانچ کتابوں میں شان دار طریقے سے فیل ہونے کا ریکارڈ بنا رکھا تھا مگر پھر بھی ہمت نہیں ہاری پھر ہم نے باتھ روم کا رخ کیا اور ہاتھ منہ دھوکر کچن میں واپس تشریف لے آئے کیوں کہ مہمانوں کے لیے کھانا بھی تو تیار کرنا تھا۔ بس یہی سوچ کر ہم جلدی آگے بڑھے اور کام میں جت گئے۔
آخرکار ہماری دو گھنٹے کی محنت کا نتیجہ یہ نکلا کہ سالن نما کوئی آمیزہ تیار ہوا مگر یہ معلوم نہیں ہوا کہ وہ بنا کیا تھا؟ اس آمیزے میں ٹماٹر، لہسن، ادرک اور ہری مرچ جیسی چیزیں سمندری مخلوق کی طرح جابہ جااِدھر سے اُدھرآزادی سے
گھوم رہی تھیں۔ ہماری لغت میں تو یہ آمیزہ ”قورمہ” نامی کسی ڈش سے مشابہت رکھتا تھاجس میں گوشت کا یہ عالم تھا کہ ڈبکی لگا کر بھی بوٹی ڈھونڈنے نکلو تو دوپہر سے شام ہو جائے مگر اس آمیزے میں تیرتی ہوئی یہ سمندری مخلوق اس کوشش کو ناکام بنا دیتیں اور آپ کو بغیر بوٹی کے ہی مایوس لوٹنا پڑتا۔ اب مرحلہ روٹیاں بنانے کا تھا مگر یہاں روٹیوں کی جگہ اعلیٰ قسم کے نقشے بن رہے تھے۔ ہمیں خدشہ ہوا کہ اگر لوگوں کو پہلے معلوم ہو جاتا تو یقینا ہمیں دنیا کا نقشے بنانے کی پیش کش ضرور موصول ہوجاتی اور ہمارا نام تاریخ میں سب سے اعلیٰ نقشہ نویسوں میں سرفہرست ہوتا۔ اس عظیم مشقت کے بعد ہم کھانا بنانے میں کام یاب ہوگئے اور ہمارے چہرے پر ایسی خوشی نمودار ہوئی جیسے سکندرِ اعظم کی طرح دنیا فتح کرلی ہو۔
آخر کار مہمانوں کی آمد ہوئی اور انہیں کھانا پیش کیا گیا۔ وہ ماں ہی کیا جو سب کے سامنے اپنی اولاد کی تعریف نا کرے۔ اس دن بھی ماما نے ان کے سامنے ہمارے کھانے کی تعریف میں زمین آسمان ایک کر دیا۔ ابھی آدھا گھنٹہ ہی گزرا تھا کہ ہمیں مہمانوں کے پاس طلب کرلیا گیا۔ ہم دھڑکتے دل کے ساتھ وہاں پہنچے تو وہاں موجود مہمان آنٹی نے مُسکرا کر ہمیں دیکھا۔ ہمیں سمجھ نہیں آئی کہ اس مسکراہٹ کا مطلب کیا ہے؟ خیر ہمیں مطلب سمجھ کر کرنا بھی کیا تھا۔ کچھ دیر بعد ہمیں وہ مطلب سمجھ میں آنا شروع ہوگیا جب وہ اپنے پرس سے پیسے نکال رہی تھیں جسے دیکھ کر ہماری باچھیں کھل گئی اور بے اختیار دل چاہا کہ اپنے پیارے سے ہاتھوں کوچوم لوں جنہوں نے اتنے مزے کا کھانا بنایا مگر یہ خوشی اگلے ہی لمحے غارت ہوگئی جب ان آنٹی نے کہا:
”بیٹا یہ لو پیسے اور کسی کوکنگ کلاس میں داخلہ لے لو۔”
یہ سن کر ہم کمرے سے ایسے غائب ہوئے جیسے گدھے کے سرسے سینگ۔ اور آج تک کچن میں جانے کی جرأت نہ کر سکے۔

٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

خونی سایہ — عمارہ خان (پہلا حصہ)

Read Next

خونی سایہ — عمارہ خان (دوسرا حصہ)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!