چہرہ — اعتزاز سلیم وصلی

ان دونوں کے درمیان فیس بک کے ذریعے ہونے والی دوستی مضبوط ہوتی چلی گئی۔دونوں ایک دوسرے کی عادت بن گئے اور یہ شہزاد کی یہ عادت کب محبت میں بدل گئی۔ وہ بے خبر تھا۔ اظہار وہ کئی بار کر چکا تھا، مگر شازیہ نے نہ کبھی ہاں کی تھی اور نہ کبھی نہ۔ وہ اس کی باتیں سن کر ہنستی اور بس اتنا جواب دیتی۔
”یہ مصنوعی دنیا ہے دوست۔یہاں کے جذبے عارضی اور رشتے کمزور ہیں۔”
”میں تم سے ملنا چاہتا ہوں۔” کافی دنوں سے اس کے دل میں آئی خواہش آخر الفاظ کی صورت میں شازیہ کے ان باکس میں ظاہر ہوئی۔
”مایوسی ہو گی مل کر۔”
”کیوں؟”
”بس ویسے”
”مجھے بتاؤ نا شازیہ۔ تم اتنی دل چسپ باتیں کرتی ہو۔اتنی خوب صورت ہو پھر مایوسی کیوں ہوگی؟”
”ایک بات بتاؤ؟”شازیہ نے الٹا سوال کیا۔
”پوچھو۔”
”تمہیں کیا لگتا ہے۔فیس بک پر جس طرح میں ہنستی مسکراتی ہوں۔ اسی طرح حقیقت میں بھی ہوں گی؟”
”ہاں۔”
”ایسا نہیں ہے شہزاد۔ ایسا بالکل نہیں ہے۔ تم میرا دکھ محسوس نہیں کر سکتے۔”
”شازیہ مجھے تم سے محبت ہے۔میں تمہارا ہر درد،ہر دکھ خود محسوس کرنا چاہتا ہوں۔ خود سہنا چاہتا ہوں سب۔”یہ محبت کا اظہار تھا جو شہزاد جیسے سنجیدہ شخص نے کیااور کس سے کیا؟ایک مصنوعی دنیا کی ایک انجان لڑکی سے۔ جس کے بارے میں وہ پوری طرح جانتا بھی نہیں تھا۔ یہی سوال شازیہ نے پوچھا۔
”شہزاد!تم مجھے نہیں جانتے۔صرف چند تصویریں دیکھی ہیں کچھ دن کال پر بات کی ہے۔ہم کبھی ملے نہیں پھر یہ محبت کا دعویٰ سچ مانوں یا جھوٹ؟”
”جومرضی سمجھو شازی! مجھے تم سے محبت ہے چاہے کچھ بھی ہو جائے۔میں ہمیشہ تمہارے ساتھ رہوں گا۔”
”کیوں کانٹوں پر گھسیٹ رہے ہو۔جب مجھ سے ملو گے مجھے دیکھو گے۔ تم بھی سب کی طرح چھوڑ جاؤ گے۔”
”مجھ پر یقین کرو پلیز… پلیز شازیہ مجھ پر یقین کرو۔”
”اچھا چلو۔ کل بتاؤں گی ملنے کا فائنل پروگرام۔” شہزاد کے لیے اتنا بہت تھا۔ اسے یقین تھا وہ شازیہ کو منا لے گا۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
شاہین کو گھر سے نکال دیا گیا۔زبیدہ کے جنازے کے فوراً بعداس ‘بے شرم’کو’ غیرت مند ماموں ‘نے گاؤں سے باہر کا راستہ دکھا دیا۔
”جامرکہیں۔اپنی ماں کی بھی جان لے لی منحوس،اب ہمیں بدنام نہ کر۔” باقی دونوں بھی بڑے بھائی کے ساتھ تھے۔غیرت تھی یا بوجھ سے چھٹکارا۔ وہ کچھ نہ سمجھ سکی بس چپ چاپ شہر آگئی۔ شہر اسے اچھا لگا۔ یہاں اتنے لوگ تھے،سب اپنی دنیا میں گم۔ کسی کو کیا فکر کوئی گھر سے نکالا ہوا ہے یا بدنامی کا داغ ماتھے پر سجائے ہوئے ہے۔ یہاں اس کی کالج کی دوست تھی جو اچھے گھر کی تھی۔ خوش قسمتی سے اس کا موبائل نمبر شاہین کو یاد تھا۔ اس نے رابطہ کیا، تو وہ ڈرائیور کے ساتھ لینے آگئی۔شاہین کے آنسو تھم نہیں رہے تھے۔ ہانیہ نے بڑی مشکلوں سے اسے چپ کروایا۔ہانیہ کے گھر دو دن رہنے کے بعد اس کے باپ ہی کی مدد سے اس نے ایک آفس میں نوکری کرلی۔ یہ فون آپریٹر کی جاب تھی۔ ان کے گھر پر بوجھ بننے کی بجائے وہ خواتین کے ایک ہوسٹل میں چلی آئی۔ یہاں سب کی اپنی زندگی، اپنی دنیا اور اپنی پریشانیاں تھیں۔ کوئی گھر کو اکیلی چلا رہی تھی۔ کسی کا سسرال اسے نوکری پر مجبور کررہا تھا، تو کوئی شاہین کی طرح دنیا میں اکیلی تھی۔ زندگی نے ہرعورت کو الگ امتحان میں ڈال رکھا تھا۔
انہی دنوں شاہین کو نیا شوق لگا۔ اس نے دنیا کی پریشانیوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے الگ دنیا میں قدم رکھ دیا۔ یہ فیس بک کی مصنوعی دنیا تھی۔ اس دنیا میں شاہین نے خود کو نیا کردار دیا۔ وہ امیر گھر کی ہنستی مسکراتی لڑکی بن کررہتی تھی جو ہر فکر اور غم سے دور تھی۔ لوگ اسے میسج کرتے۔ کئی اس کی قسمت پر رشک کرتے تو کئی حسد میں مبتلا ہو جاتے۔ اس کے پاس ڈھیر ساری تصویریں تھیں۔ یہ ایک امیر لڑکی تصویریں تھیں جو اپنی گاڑی میں سیلفیاں لے رہی ہوتی تو کبھی یورپ کے ٹورپر مصروف ہوتی۔ اسے اپنے نام سے اپ لوڈ کرکے شاہین نے عارضی خوشی حاصل کرنا شروع کردی۔ یہاں لوگ اس سے بات کرنے کو ترستے تھے۔ایک ایک سیکنڈ میں دس دس میسج آتے۔کوئی اس سے ملنے کو ترستا تو کئی ویڈیو کال کرنا چاہتے تھے۔کئی لوگوں تو اسے ایک بار کال کرنے کا باقاعدہ معاوضہ دینے کا بھی کہا تھا۔عجیب سی نفسیات ہو گئی تھی شاہین کی۔دنیا نے ٹھکرایا تو کیا ہوا۔ اس دنیا نے تو جگہ دے دی تھی۔ وہ ہمیشہ اپنی اصلیت کو چھپا کر خوش رہنا چاہتی تھی، مگر وقت ایک جیسا نہیں رہتا۔وقت نے اس کا ایک اور امتحان لینے کا فیصلہ کرلیا تھا۔
٭…٭…٭
شہزاد ہوسٹل کے سامنے پہنچ کررک گیا۔ پٹھان چوکیدار اتنی رات گئے اسے دیکھ کر چونک گیا۔اس نے مشکوک نظروں سے اسے دیکھا۔وہ کچھ دیر خاموش کھڑارہا۔چوکیدار نے مخصوص پشتو لہجے میں سوال کیا۔
”کس سے ملنا اے؟”
”شازیہ سے۔”
”اتنی رات کو لڑکی سے ملاقات نئیں او سکتی، کل آنا۔”
”میرا ملنا ضروری ہے۔”
”خوچہ! تم کو سمجھ کیوں نئیں آرہا، میڈم بوت سخت اے۔ ام کو بھی نکال دے گا۔” اس نے سخت لہجے میں جواب دیا۔
”میری میڈم سے بات کرواؤ۔” وہ اسے گھورتا ہوا اندر چلا گیا۔کچھ دیر بعد واپس آیا تو بولا۔
”میڈم اندر بلاتی اے۔”وہ اندر بڑھ گیا۔یہاں آفس کی طرح سجے ایک کمرے میں ہوسٹل کی مالکن بیٹھی تھی۔میڈم دردانہ کے چہرے پر بیزاری کے تاثرات تھے۔
”جی آپ کا نام؟”
”شہزاد۔”
”کس سے ملنا ہے؟”
”شازیہ سے۔”
”شازیہ…ہممم۔”اس نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
”شازیہ نام کی لڑکی تو پورے ہوسٹل میں نہیں۔” شہزاد چونک گیا۔
”پرسوں شام مجھے ہوٹل میں ملی تھی۔اسی ہوسٹل کا ایڈریس دیا تھا اس نے۔”
”ایک منٹ چیک کرتی ہوں۔”اس نے کچھ دیر اپنے سامنے پڑا رجسٹر کھنگالااور دوبارہ سر اٹھا کر بولی۔
”شازیہ تونہیں ،البتہ نازیہ ہے ایک”۔شہزاد نے نفی میں سرہلادیا۔
”شازیہ ہی سے ملنا ہے۔”وہ یہی کہہ کر مایوسی سے سرہلا کر باہر جانے لگا۔ابھی وہ دروازے سے باہر نکلنے ہی لگا تھا کہ میڈم نے آواز دی۔
”سنو۔” اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔
٭…٭…٭
”شاہین پلیز میری پیاری بہن…مان جاؤ۔” ہانیہ اس کی منتیں کررہی تھی مگر اس کا سر بدستور نفی میں ہل رہا تھا۔
”مجھ سے نہیں ہو گا ہانی۔ میں کیسے کروں گی یہ سب۔”
”تم نے اسے صرف اپنا چہرہ دکھانا ہے بس۔ وہ خود چلا جائے گا۔میں نے اسے اپنی پکس دکھائی ہیں۔”وہ اس کا مطلب سمجھ رہی تھی۔اس کے دل میں درد اٹھا۔
”کیا جل جانے کے بعد میرا چہرہ صرف اس لیے رہ گیا ہے؟”اس نے دکھ سے ماہین کی طرف دیکھا۔
”میرا یہ مطلب نہیں تھا شاہین۔ میں تو بس یہ چاہتی ہوں وہ کسی طرح میری جان چھوڑ دے۔” شاہین نے اسے ساری کہانی سنانے کو کہا۔اس کی زبانی جو کچھ معلوم ہوا۔۔اس کاخلاصہ یہ تھا۔
ہانیہ ایک ادبی گروپ میں ایڈ تھی جہاں مختلف قسم کے مقابلے ہوتے تھے۔ایسے ہی ایک مقابلے کا ونر شہزاد تھا جس کی تصویریں ہانیہ نے دیکھ رکھی تھیں۔ جانے کیوں اسے شرارت سوجھی۔ اس نے شہزاد کو میسج کردیا۔یوں ان کی دوستی ہو گئی۔ہانیہ نے اسے اپنے متعلق عجیب عجیب کہانیاں سنارکھی تھیں۔وہ دکھی آتما بن کر اسے ستاتی رہی تھی۔اس نے اپنا نام بھی فرضی بتایا ہوا تھا۔وہ اس کے عشق میں گوڈے گوڈے ڈوب چکا تھااور اب ملنے کی ضد کررہا تھا۔ غلطی ہانیہ سے یہ ہوئی کہ اسے اپنی تصویریں دے دیں۔ اب وہ ڈر رہی تھی کہ کہیں یہ تصویریں پھیلا نہ دے۔ اس لیے شہزاد سے شاہین کو ملوانا چاہتی تھی تاکہ شہزاد اسے دھوکے باز سمجھ کر بھول جائے۔ ہانیہ اسے پسند کرتی تھی، مگر اچھا ٹائم پاس کرنے کے بعد اب وہ بس جان چھڑانا چاہتی تھی کیوں کہ ایسے ریلیشن کو اس کے ماں باپ کبھی قبول نہ کرتے۔
شاہین نے ساری بات سننے کے بعد گہری سانس لی اور بولی۔
”دل ٹوٹ جائے گا بے چارے کا۔ فیس بک سے اعتبار اٹھ جائے گا۔”
”تو کیا ہوا؟ اچھا ہوا میں تھی جس نے اسے بے وقوف بنا کر پیسے وغیرہ نہیں لیے ورنہ کوئی اور ہوتی تو ہزاروں کما لیتی۔ میں نے توبس محبت محبت کھیلی ہے۔ اب کھیل ختمخ قصہ ختم۔” ہانیہ کی ہنسی اسے بہت بری لگی، مگر وہ اس کا احسان نہیں بھول سکتی تھی جو شہر میں آجانے کے بعد ہانیہ نے اس پر کیا تھا۔اس نے کچھ دیر سوچا اور پھر اثبات میں سرہلادیا۔
”میں ملتی ہوں اس عقل کے اندھے سے۔” وہ”یاہوو”کہتے ہوئے اس سے لپٹ گئی۔ کچھ دیرتک دونوں نے پلان ڈسکس کیا اور فائنل ہونے کے بعد سکون کا سانس لیا۔ اگلے دن شام کو شاہین ایک ہوٹل میں بیٹھی شہزاد کا انتظارکررہی تھی۔دونوں کی ملاقات طے تھی۔شاہین نے اسے پہلی نظر میں پہچان لیا۔ہانیہ نے اس کی تصویریں دکھا رکھی تھیں۔شاہین نے ہاتھ ہلا کر اسے اپنے پاس بلایا۔وہ سامنے بیٹھ گیا۔ شاہین نقاب میں تھی۔ اب اسے جذباتی ڈائیلاگ بولنے تھے۔ شہزاد نے نقاب اتارنے کا کہا۔
”میں نہیں اتار سکتی شہزاد۔مجھے معاف کردو۔ میں نے دھوکا دیا ہے تمہیں۔”نجانے کیوں یہ الفاظ کہتے ہوئے اس کا لہجہ حقیقت میں لڑکھڑا گیا۔
”مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا شازیہ۔ مجھے چہرہ دکھاؤ اپنا۔”شاہین نے نقاب اتار دیا۔شہزاد کچھ دیر حیرت سے اسے دیکھتا رہا اور بولا۔
”یہ جلا کیسے؟اور وہ تصویریں کس کی دی تھیں تم نے؟”
”بس کسی نے جلا دیا تھا۔ میری نہیں کسی دوست کی تھیں۔ اس بے چاری کو تو پتا ہی نہیں کہ میں نے تصویریں تمہیں دے دی ہیں۔ میرا کوئی بنگلہ نہیں، کوئی کوٹھی نہیں۔ کالج چوک کے پاس ہوسٹل میں رہتی ہوں۔تم بھی مجھے چھوڑ جاؤگے نا شہزاد؟ سب چھوڑ جاتے ہیں۔کون رہتا ہے میری جیسی لڑکی کے ساتھ۔” وہ خاموش بیٹھا تھا۔ کچھ دیر بعد بولا۔
”تم نے مجھے دھوکا کیوں دیا شازیہ۔ میں تو تمہیں سچے دل سے چاہتا تھا۔”
”سچے دل سے چاہنے والے کیا صرف شکل وصورت سے پیار کرتے ہیں؟”
”نہیں،مگر مجھے کیا پتا تمہارا چہرہ کیسے جلا؟تمہارا کردار کیسا ہے، تم کون ہو، ماضی کیا ہے تمہارا۔ میں ایسی لڑکی کو اپنا سکتا ہوں نہ میراخاندان اجازت دے گا۔”
”کیا محبت ان سب چیزوں کی محتاج ہے شہزاد؟ کیا محبت کے لیے ماضی کا صاف ستھرا ہونا ضروری ہے؟”
”یہ سب کتابی باتیں ہیں حقیقت میں تم نے جھوٹ بولا ہے مجھ سے اور حقیقت چھپائی ہے۔”شہزاد اسے باتیں سناتا رہا۔ وہ چپ چاپ سنتی رہی۔وہ بار بار اس کے تیزاب سے جھلسے چہرے اورخواتین کے ہوسٹل میں اس کی رہائش کو درمیان میں لا کر اس کے کردار پر بات لے آتا۔ ہر بار شاہین نئے سرے سے تکلیف محسوس کرتی۔آدھے گھنٹے بعد وہ صرف اتنا کہہ کر چل دیا۔
”آئندہ میری توبہ فیس بک پر کسی سے بات کروں گا نہ ملوں گا۔پرسوں میری مہندی ہے کزن کے ساتھ۔ مجھے معاف کر دینا۔” یہی کہہ کر وہ چلا گیا۔شاہین وہاں بیٹھی روتی رہی۔اس کے دل پر بوجھ تھا۔وہ شازیہ تھی نہ ہانیہ، نہ اس نے دھوکادیا تھا، مگر اس کے جلے ہوئے چہرے نے اسے ایک بار پھر اپنی نظروں سے گرا دیا تھا۔ ہانیہ اسے کارپر لینے آئی تھی۔واپسی پر دونوں خاموش رہیں۔اپنے کمرے میں آ کر شاہین سارا دن خاموش رہی۔اس کے دماغ میں ہلچل مچی ہوئی تھی۔ وہ فیس بک کی شہزادی تھی، مگر حقیقی زندگی میں آج اسے کوئی ٹھکرا کر چلا گیا تھا۔
”کیا مجھے ساری زندگی ایسے ہی رہنا ہے؟”اس نے خود سے سوال کیا، مگر جواب حاصل نہ کرسکی۔وہ امتحان کی رات تھی جس کا نتیجہ نکلنے والا تھا جلد۔
فیس بک کی ایک محبت کا انجام ہو چکا تھا۔ کیا واقعی؟
٭…٭…٭
شہزاد نے میڈم دردانہ کی طرف دیکھا۔
”جی؟”
”آپ پریشان لگ رہے ہیں۔ حلیہ بتائیں لڑکی کا۔”اس نے ہمدردی سے پوچھا۔شہزاد نے ماہین کے حلیہ کی تفصیل بتائی۔
”اچھااچھا۔وہ شازیہ نہیں، شاہین ہے۔آپ نے کیا کہنا ہے اس سے؟”
”میں نے اس کا دل دکھایا ہے۔اب معافی مانگ کر اپنا نا چاہتا ہوں اسے۔”
”اچھی لڑکی ہے۔ حادثے کا شکار ہوئی تھی۔ گھر سے نکال دی گئی بے چاری۔ میرے بہت قریب ہے۔ میں بلاتی ہوں اسے۔” وہ اٹھ کر ہوسٹل کے کمروں کی طرف بڑھ گئی۔تھوڑی دیر بعد شہزاد کوچیخ سنائی دی۔اس کا دل دھڑکا۔ وہ کمروں کی طرف بھاگا،یہاں سب لڑکیاں ایک کمرے کی طرف بڑھ رہی تھیں۔ وہ بھی اس کمرے کی طرف بڑھ گیا۔ اندر داخل ہوتے ہی اس کی نظر سامنے پڑی۔ دردانہ شاہین پر جھکی ہوئی تھی، مگر اس کے جسم میں جان نہ تھی۔ لبوں سے بہنے والا خون بیڈ کی چادر کو بھگو رہا تھا۔ ٹھکرائی ہوئی لڑکی اپنی جان دے چکی تھی۔
٭…٭…٭

(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

Loading

Read Previous

محبت ہوگئی تم سے — تنزیلہ یوسف

Read Next

مور پنکھ کے دیس میں — حرا بتول (قسط نمبر ۱)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!