چشمہ
انعم سجیل
”امیّ! مجھے فہد سے شادی نہیں کرنی، آپ پلیز تائی جان کو منع کر دیں ۔“
”لیکن آخر کیا بُرائی ہے اُس میں؟ پڑھا لکھا ہے، اچھی نوکری ہے اور سب سے بڑھ کر اپنی نظروں کے سامنے پلا بڑھا ہے۔ کوئی وجہ بھی تو ہو انکار کی؟“ زلیخا بیگم نے کڑے لہجے میں اپنی بیٹی صالحہ سے استفسار کیا۔
”امّی! آپ کو تو پتا ہے فہد نظر کا چشمہ لگا تاہے اور مجھے کسی ایسے شخص سے شادی نہیں کرنی جس کو میں عینک کے بغیر نظر ہی نا آﺅں۔ آپ بس دوسرے رشتے کو فائنل کر دیں۔“ صالحہ نے جیسے ضد ہی پکڑ لی اور زلیخا بیگم کو اپنی لاڈلی بیٹی کی ضد کے آگے ہار ماننا ہی پڑی۔ یوں صالحہ فیض کی دلہن بن کر اس کے بڑے سے گھر میں آ گئی۔
فیض ایک کام ےاب اور معروف بزنس مین تھا جس کے لیے سب سے ضروری اس کا کاروبار تھا۔ خوب صورت بیوی کی حیثیت اس کے لیے ایک شو پیس سے زیادہ نہ تھی جس کو گھر میںلا کر سجا وٹ کے لیے رکھ دیا گیا ہو۔یوں تو صالحہ کو آسائشوں کی کمی نہ تھی، کمی تھی تو صرف احساس کی۔ بات صرف ایک نظر کی تھی۔وہ ہر روز تیار ہو کر فیض کا انتظار کرتی اور چاہتی تھی کہ وہ اس کو نظر بھر کر دیکھے ، اس کے حسن کی تعریف کرے، اس کو اپنا وقت دے لیکن فیض کے خیال میں یہ سب فارغ لوگوں کے چونچلے تھے۔اور پھر ہر گزرتے دن نے صالحہ کو باور کرایا کہ بصارت کم زور ہونے پر تو چشمہ لگا کر سب کچھ ٹھیک سے دیکھا جا سکتا ہے لیکن اگر آنکھوں پر بے حسی کا ان دیکھاچشمہ لگا ہو تو بھرپور بصارت کے باوجود بھی کچھ دکھائی نہیں دیتا۔
٭….٭….٭
2 Comments
کیا میں آپ کے لئےافسانہ لکھ سکتی ہوں.
جی بالکل لکھ سکتی ہیں۔ آپ ہماری ٹیم سے submissions@alifkitab.com یا info@alifkitab.com پہ رابطہ کر سکتی ہیں