چج دوآب کی لوک کہانی
مور پنکھ
محمد ندیم اختر
بچوں کے ادیبوں پر تحقیقی میگزین ”سہ ماہی ادبِ اطفال” کے منتظم اور مدیر جناب ندیم اختر لیہ میں پیدا ہوئے۔ دورانِ تعلیم بچوں کے لیے کہانیاں لکھنے کا آغاز کیا، گزشتہ 22 سال سے ادب سے وابستہ ہیں، مختلف رسائل میں قلمی جوہر دکھائے، نمایاں خوبی یہ کہ بچوں کے ادب کی ترویج و اشاعت میں انہوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ تین کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ الف نگر کے لیے یہ ان کی پہلی کاوش ہے۔
کہتے ہیں چج دو آب میں مور پنکھ نام کا ایک بچہ رہتا تھا۔ وہ بہترین بانسری بجاتا تھا۔ اس کی بانسری سن کر لوگ سر دھنتے رہ جاتے۔ مور پنکھ اکثر اپنے ماں باپ سے چج دو آب (دریائے جہلم اور چناب کا درمیانی علاقہ) کے رہن سہن کے بارے میں پوچھتا، اس کے اماں باوا بتاتے کہ پتر تُو یہ جس سوکھے دریا کو دیکھ رہا ہے، اصل میں یہ دریائے چناب ہے، جو کبھی روانی سے بہتا تھا۔
وہ سامنے والے درختوں کے نیچے کشتیوں کا پتن (کشتی کھڑی کرنے کی جگہ) ہوتا تھا جہاں سے ہم سب بستی والے کشتی میں بیٹھ کر دریا پار کرتے تھے۔ اس دریا میں بہار کے موسم میں مور پنکھ آیا کرتے تھے، بہت خوب صورت پرندہ تھا۔ اب تو نجانے کہاں گئے وہ ”مور پنکھ” کبھی دیکھے ہی نہیں۔
”بابا! یہاں مور پنکھ اب کیوں نہیں آتے؟” ایک دن ننھے مور پنکھ نے اپنے باوا سے پوچھا۔
”پتر! مور پنکھ پانی کی سرزمین پر اترتے ہیں، وہ یہاں دریا پر آتے تھے لیکن جب دریا خشک ہو گیا تو وہ بھی آنا بند ہوگئے۔ شہر کے لوگ جو انہیں دیکھنے آتے تھے انہوں نے بھی آنا بند کر دیا۔ ملتان کے نواب یا مظفرگڑھ کے بڑے زمیندار اور ان کے بچے اپنی بگھیوں پر کشتیوں کے پتن تک آتے، ملاح انہیں کشتیوں پر اس کنارے لاتے اور اُن کی مہمان نوازی کرتے۔ وہ سارا سارا دن یہاں رہتے، اُن کے لیے مچھلی پکتی تھی۔
جب انہوں نے دیکھا کہ دریا میں اب اتنا پانی نہیں آتا اور نہ ہی ”مور پنکھ” آتے ہیں تو شہر کے لوگوں نے ہماری اِس بستی میں آنا چھوڑ دیا۔” باوا حشمت نے اُسے مکمل تفصیل بتائی۔
”چلو خیر ہے ابّا! مور پنکھ نہیں آتے تو کیا ہوا؟ میں بھی مور پنکھ ہی ہوں نا!”
وہ مسکراتے ہوئے بولا۔
”پتر !تمہارے دادا حضور بخش نے بڑی محنت سے ایک کشتی بنائی تھی، جب اُن کے بازوئوں میں طاقت تو کشتی کا چپو میرے حوالے کر دیا گیا۔ میں ان شہروالوں کو پتن سے یہاں لاتا تھا ، مجھے سب لوگ جانتے تھے اور مور پنکھ پرندے بھی مجھ سے مانوس تھے کیوں کہ میں راتوں کو پانی میں اتر کر ان کے لیے ”دیے”جلایاکرتا تھا ، وہ دریا سے مچھلی پکڑتے اور پانی میں تیرتے تھے پھر ایک دن ایک انگریز افسر آیا تھا، اُسے کہتے سنا کہ یہ پرندہ کہیں دور برف کی وادی سائبریا سے اُڑان بھرتا ہے اور سردیاں نکل جانے پر دوبارہ چلا جاتا ہے۔”
”ابّا! کیا دریا اب خشک ہی رہے گا؟” مور پنکھ کچھ پریشان ہوگیا تھا۔
”ربّ کرے یہ دوبارہ آباد ہو پھر مور پنکھ بھی لوٹ آئیں گے اور یہاں کی وہ پہلے والی رونق بھی۔” باواحشمت نے ایک آہ بھر کر کہا۔
”ابّا! آپ نے میرا نام مور پنکھ کیوں رکھا؟” اس کے ننھے دماغ نے سوال کیا۔
”پتر! جب دیکھا کہ اب مور پنکھ یہاں کبھی نہیں آئیں گے تو ہم مایوس ہوگئے اور پھر اِس دوران تم پیدا ہوئے تو اس پرندے کی یاد میں ہم نے تمہارا نام ”مور پنکھ” رکھ دیا۔” ابّا نے پیار سے بتایا۔
مور پنکھ سر ہلاتا، بانسری بجاتا، اپنی بکریوں کو دریا کنارے چراگاہ پر لے گیا۔ ساتھ وہ اپنے باوا کی باتوں کو یاد کرتا ۔ ایک دن وہ اپنے باوا کے ساتھ ”مولتان” (ملتان کا پرانانام) گیا۔ وہ لوگ بوہڑ گیٹ کے اندر داخل ہوئے تو راستے میں اسے تصویروں والی ایک کتاب ملی جو پھٹی ہوئی تھی ۔ اس نے جھٹ سے اٹھا لی۔
گھر آکر اس نے کتاب دیکھی تو حیران رہ گیا۔ اس میں دریا، کشتی اور کنارے پر پھول دار باغیچے تھے جہاں بہت سے لوگ گھومتے نظر آئے۔ تصویر میں لگ رہا تھا کہ لوگ کشتی میں بیٹھنے کے لیے اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔ اس سے اگلے صفحے پر لوگوں سے بھری کشتی دریا کے وسط میں تھی اور ملّاح چپو چلا رہا تھا۔
مور پنکھ کو یہ تصویریں بہت خوب صورت لگیں۔ اس نے کتاب کا اگلا ورق دیکھا تو وہاں دریا کنارے ایک کچی دکان نظر آئی جہاں مچھلیوں کا ڈھیر پڑا تھا۔ اس کے منہ میں پانی بھر آیا۔ کتنے دن ہو گئے اس نے مچھلی نہیں کھائی تھی۔ ابھی انہی خیالوں میں گم تھا کہ اس کے ہاتھ سے کسی نے کتاب پکڑ لی۔ وہ اس کی امّاں تھی۔
”پتر مور پنکھ! یہ کیا ہے ؟” اماں کتاب دیکھنے لگی۔
”اماں! کتنی خوب صورت تصویریں ہیں، کیا ہمارا دریائے چناب ایسا ہی خوب صورت ہوتا تھا؟” مور پنکھ نے اماں سے پوچھا۔
”ہاں پتر! جس طرح ان تصویروں میں دریا کے اندر پانی ہے، ایسے ہی ہمارے ”دریا بادشاہ” میں پانی ہوتا تھا اور اس کے کنارے سر سبز گھاس کی چادر ہوا کرتی تھی۔ تیرے باوا کی کشتی اس گھاس والے کنارے کے ساتھ آ کر کھڑی ہوتی تھی۔” امّاں نے بڑی حسرت سے تصویریں دیکھ کر اسے بتایا۔
”اماں! اگر میں اس کنارے پر درخت لگا لوں اور بازار سے مچھلی لا کر یہاں فروخت کروں، ساتھ ساتھ پھولوں والی کیاریاں بھی بنا لوں تو کیا لوگ دوبارہ یہاں آئیں گے؟” مور پنکھ نے معصومیت سے پوچھا۔
”ہاں، کیوں نہیں پتر!” امّاں مسکرا دی۔
”تو پھر آپ باوا سے بات کریں نا!” مور پنکھ نے اماں سے درخواست کی۔
”ٹھیک ہے، شام کو ہم تمہارے باوا سے بات کریں گے۔” امی نے مور پنکھ سے وعدہ کیا۔ پھر شام کے وقت وہ سب صحن میں بیٹھے تھے۔ مور پنکھ کی اماں بولی:
”مور پنکھ کے باوا! میں نے ایک منصوبہ سوچا ہے۔”
”بھلا وہ کیا منصوبہ ہے؟” باوا نے پوچھا۔
”گھر میں جو اتنی بکریاں ہیں، ان میں سے اگر تین بکریاں بیچ دی جائیں تو ہمیں مور پنکھ کی خواہش پوری کرنے کے لیے پیسے مل سکتے ہیں۔” اماں نے مکمل تفصیل سے منصوبہ بتایا۔
”ہاں یہ ہو سکتا ہے، میں نے کبھی اس بارے میں سوچا ہی نہیں کہ ان بکریوں سے ہم اپنے مور پنکھ کی خوشی خرید سکتے ہیں۔” باوا نے خوش ہوتے ہوئے کہا۔
”اور ہاں! وہ اللہ وسایا کی زمین ہے نا! جو آدھی دریا برد ہو چکی ہے۔ اس سے بات کرتا ہوں، اگر وہ مان گیا تو ہم وہاں مچھلی کا کام شر وع کریں گے۔ ہم آنے والے بدھ کو قریبی قصبے میں لگنے والی مویشی منڈی میں اپنی بکریاں بیچ دیں گے۔ شہر میں ایک مچھلی فروش میرا واقف ہے۔ اس سے بات کروں گا کہ وہ فارم کی مچھلی ہمیں فراہم کر سکے۔ یوں لوگ دریا کی سیر کرنے آئیں گے البتہ انہیں پیارا پرندہ ”مو ر پنکھ ”نظر نہیں آئے گا۔” باوا کی آوا ز میں غم تھا۔
”میں ہوں نا مور پنکھ بابا!” مور پنکھ نے ہنس کر کہاتو سب مسکرا دیے۔
…٭…
اس دن مور پنکھ بہت خوش تھا کہ اب وہ دریا کنارے درخت لگائے گا۔ کنارے پر کھڑی اپنے باوا کی کشتی کو نیا رنگ کرے گا۔ کیاریاں بنا کر گھاس لگائے گا، پھر مور پنکھ اور اس کے باوا نے اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کام شروع کر دیا۔ جب انہوں نے دریا کنارے درخت لگائے، کشتی کو رنگ کیا اور کیاریوں میں گھا س لگائی تو ان کی بستی کے ساتھ ساتھ قریبی بستیوں میں یہ خبر آگ کی طرح پھیل گئی کہ باوا حشمت دریا کنارے مچھلی پکانے کا کام شروع کررہا ہے پھر واقعی دو ہفتے کی مسلسل محنت کے بعد وہ شہر سے مچھلی لانے کے قابل ہو گئے۔
…٭…
صبح انہوں نے شہر جاناتھا مگر رات کو آسمان پر گہر ے بادل چھاگئے۔ یوں لگتا تھا کہ ساون اب کھل کے برسے گا۔ ساری رات بادل گرجتے رہے۔ صبح ہوتے ہی بادلوں نے برسنا شروع کیا۔ مسلسل کئی گھنٹے تک بارش ہوتی رہی۔ اماں اور باوا حشمت دعائیں مانگ رہے تھے۔ کچے گھر کے صحن کی ایک دیوار بھی گر گئی۔ آسمان پر ابھی بھی بادل تھے۔ یہ مون سون کا آغاز تھا۔ انہیں خبر تھی کہ مون سون میں برسات تو ہوتی ہے لیکن جتنی بارش اس دن ہوئی، پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ کھیتوں میں گھٹنوں تک پانی کھڑا ہو گیا۔ بستی کے سارے لوگ اپنے گھر وں میں دبکے رہے۔ مور پنکھ اور اس کے باوا اسی وجہ سے بازار نہ جاسکے۔
اگلے دن دریا چناب میں اونچے درجے کا سیلاب آگیا، علاقے میں سرکار کا نمائندہ اعلان کررہا تھا کہ اس بار خطرہ زیادہ ہے، سب لوگ محفوظ جگہوں پر منتقل ہوجائیں۔ یہ خبر سنتے ہی پوری بستی کی طرح مور پنکھ اور اس کے اماں باوا نے بھی پوٹلی میں کچھ کپڑے باندھے اور اپنی بکریاں لے کر بستی والوں کے ساتھ کسی محفوظ جگہ کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔
وہ آدھی رات کا وقت تھا جب سیلابی ریلا ان کی بستی تک پہنچا۔ دیکھتے ہی دیکھتے پانی دریا سے نکل کر بستی میں داخل ہوگیا۔ صبح تک پانی کی سطح چھے فٹ تک پہنچ چکی تھی۔ بستی سے باہر ایک اونچے ٹیلے تک پانی کی چادر تھی اور ٹیلے کے ساتھ جو گھر نشیبی سطح پر تھے، پانی ان کی چھتوں کے اوپر سے گزر رہا تھا۔ اس طرح دریائے چناب میں سیلاب کا سلسلہ ایک ہفتہ تک جاری رہا۔ اس دوران مور پنکھ اور اس کے گھر والے قریبی قصبے میں چلے گئے جہاں انہیں تین وقت کا کھانا دیا جاتا تھا۔ کوئی ایک ماہ بعد جب علاقے میں پانی کی سطح کم ہونا شروع ہوئی تو وہ اپنے گھروں کی جانب لوٹے۔
جب وہ اپنی بستی میں پہنچے تو ان کے گھر کی جگہ مٹی کا ڈھیر پڑا تھا۔ باقی بستی کی طرح ان کا گھر بھی پانی کے کسی ریلے میں بہہ گیا تھا۔ گھر کا سامان بھی اجڑ گیا تھا۔ جو بکریاں وہ اپنے ساتھ لے گئے تھے، وہ دورانِ سیلاب وبا پھیلنے سے مر گئی تھیں۔ گھر کی جگہ مٹی کا ڈھیر دیکھ کر اماں اور باوا دونوں دہاڑیں مار کر رونے لگے۔ ان کو روتا دیکھ کر مور پنکھ سے بھی نہ رہا گیا۔ انہیں چپ کرانے والا کوئی نہ تھا۔ مور پنکھ اپنی اماں کی گو د میں چھوٹے بچوں کی طرح بلک بلک کر رو رہا تھا۔
”اماں اب کیا کریں گے؟” اس نے پوچھا۔
”پتر! چپ کر، ہم دریا ئی لوگ ہیں، ہماری قسمت میں یہی سب کچھ ہے اگر ”دریا بادشاہ” خشک ہو جائے تو ہم برباد ہوتے ہیں اور اگر اس میں پانی آ جائے تو بھی ہم ہی مارے جاتے ہیں۔” اماں نے ہچکیاں لیتے ہوئے کہا۔
داستان سنانے والے کہتے ہیں کہ اس رات مور پنکھ اور اس کے امّاں باوا اپنے گھر کے ملبے پر چٹائی بچھا کر سوئے۔ آدھی رات کو کہیں سے بانسری کی آوا ز آئی، رات کے اس پہر بانسری کی آواز میں ایک خاص درد تھا۔
پھر صبح لوگوں نے دیکھا کہ وہ تینوں مٹی کے ڈھیر پر مردہ پائے گئے ۔ آج تک یہ معما حل نہ ہوسکا کہ آدھی رات تک بانسری بجانے والا مور پنکھ اوراس کے گھر والے کیسے موت کے منہ میں چلے گئے؟
کچھ لوگوں نے کہا کہ رات کوئی سانپ انہیں ڈس گیا، کوئی کچھ کہتا اور کوئی کچھ! البتہ مور پنکھ کی بانسری اتنی سریلی تھی کہ پوری بستی کو جاتے جاتے درد دے گئی ۔ ان کی موت کی خبر دوسری بستیوں تک بھی جا پہنچی، یوں آہستہ آہستہ اس بستی کو ”مور پنکھ والی بستی ”کے نام سے یاد کیا جانے لگا۔
آج بھی اگر آپ دریائے چنا ب کے اس کنارے پر بستی دوآنہ بہادر کے راستے بستی مکو جمال سے گزریں تو چاچا خیرو کا بیٹا اپنے باپ اور دادا سے سنی سنائی ”مور پنکھ” بستی کی یہ کہانی دہراتا ہے۔ اس کی آواز میں جو درد ہے ، وہ شاید وہیں جاکر سننے والا ہی محسوس کرسکے۔
٭…٭…٭