چار موسم ۔ حِصّہ  اول ۔ الف نگر

چار موسم

حِصّہ  اول

سارہ قیوم

کسی گاؤں میں ایک نیک دل، سب کی مدد کرنے والی اور ہمیشہ خوش رہنے اور رکھنے والی بُڑھیا رہتی تھی۔ اُس کا ایک غریب بیٹا تھا جس کے بچے ہر وقت دادی کے ساتھ چمٹے رہتے اور نت نئی فرمائشیں کرتے رہتے۔

ایک بچے نے فرمائش کی: ”دادی اماں! مجھے میٹھا پراٹھا بنا دو۔”

دوسرا بولا: ”مجھے کھیر بنا دو۔”

تیسرا ضد کرنے لگا: ”میں تو مرغی کھاؤں گا۔”

اور اُن کی دیکھا دیکھی باقی بچے بھی ضد کرنے لگے۔ نیک دل بُڑھیا بہت دکھی ہوئی:

”ارے میرے بچو!” اُس نے غمگین ہوکر کہا: ”میرے پاس تو کچھ بھی نہیں، تمہاری فرمائشیں کہاں سے پوری کروں؟”

اُداس ہو کر بُڑھیا جنگل کی طرف چلی گئی اور تھک کر ایک درخت کے نیچے بیٹھ گئی۔ اچانک وہاں ٹھنڈ ہوئی اور درخت کے پیچھے سے سفید بالوں، لمبی داڑھی، سفید لباس والا بوڑھا آدمی نکل آیا۔ نیک دل بُڑھیا نے اُسے سلام کیا۔ بوڑھے آدمی نے اپنی سرد آنکھوں سے اُسے دیکھا اور کہا: ”میں آپ سے ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں۔”

بُڑھیا بولی: ”ضرور پوچھیے۔”

بوڑھے آدمی نے پوچھا: ”جاڑا کیسا موسم ہے؟”

”ارے واہ کیا بات ہے جاڑے کی۔” بُڑھیا نے خوش ہوکر کہا: ”بہت ہی اچھا موسم ہے۔ سردیوں میں گرم گرم چائے پینے کا کتنا مزا آتا ہے اور رضائی میں بیٹھ کر مونگ پھلی، اخروٹ اور بادام کھانا اچھا لگتا ہے۔ جب میں بچوں کو آگ کے گرد اکٹھا کرکے کہانی سناتی ہوں تو مجھے اتنی خوشی ہوتی ہے کہ مت پوچھو۔” بوڑھا یہ سن کر بہت خوش ہوا۔ اُس نے بڑھیا کو سلام کیا اور چلا گیا۔

تھوڑی دیر بعد خوش بُو سے جنگل مہک اٹھا اور ایک بہت پیاری لڑکی ہرے رنگ کا لباس اور پھولوں کے زیورات پہنے پھولوں کی ٹوکری لیے بُڑھیا کے سامنے آئی۔

”سلام امّاں!” اُس نے نیک دل بُڑھیا سے کہا: ”ایک بات تو بتائیے، یہ بہار کا موسم کیسا ہوتا ہے؟”

بُڑھیا خوشی سے کِھل اٹھی اور چہک کر بولی: ”بہار کا موسم تو میری جان ہے۔ نہ گرمی نہ سردی، درختوں پر نئے پتے آتے ہیں۔ ہر طرف پُھول ہی پُھول کِھل اُٹھتے ہیں۔ بڑی پیاری ہوا چلنے لگتی ہے۔ بہار تو بہت ہی خوب صورت موسم ہے۔”

لڑکی شکریہ ادا کرکے گئی تو وہاں ایک عورت تیز پیلے رنگ کے لباس میں سامنے آگئی اور پوچھا۔ ”اے اماں! یہ تو بتاؤ گرمی کا موسم کیسا ہوتا ہے؟”

گرمی کی وجہ سے بُڑھیا نے ہاتھ سے پنکھا جھلتے ہوئے کہا: ”بہت اچھا موسم ہوتا ہے بیٹی! ہم ٹھنڈا ٹھنڈا شربت پیتے ہیں۔ آئس کریم کھاتے ہیں۔ گرمی اپنے ساتھ کتنے مزے دار پھل لاتی ہے۔ آم، تربوز، آڑو اور آلو بخارہ۔ ارے واہ واہ! کیا بات ہے گرمی کی۔”

وہ سلام کرکے چلی گئی تو ایک گنجا، غمگین شکل والا آدمی بھورے رنگ کے کپڑے پہنے درختوں کے پتے گراتا ہوا وہاں آن پہنچا۔ وہ قریب آکر بولا: ”بڑی بی! آپ کو خزاں کا موسم کیسا لگتا ہے؟”

بڑھیا نے سمجھ داری سے کہا: ”خزاں بڑا فائدہ مند موسم ہے۔ سب پرانے پتے جھڑ جاتے ہیں تاکہ نئے پتے نکل سکیں۔ لوگوں کو گرمیوں کے کپڑے رکھنے اور کمبل لحاف نکالنے کا وقت مل جاتا ہے۔ بھئی بہت اچھا ہے موسمِ خزاں۔”

اِس کے بعد وہ چاروں نکل کر سامنے آگئے اور بڑھیا سے کہا: ”امّاں! ہم چار موسم ہیں۔ یہ سفید بالوں والا جاڑا ہے۔ پھولوں والی لڑکی بہار، یہ عورت گرمی اور میں خزاں ہوں۔ آج ہم میں جھگڑا ہوگیا کہ کون سا موسم سب سے اچھا ہے۔ پھر ہمیں آپ آتی دکھائی دیں۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ آپ سے پوچھا جائے۔ آپ نے ہمیں ہماری اتنی خوبیاں بتائیں۔ ہمیں پتا چل گیا کہ سارے ہی موسم اچھے ہوتے ہیں۔ آپ کی باتوں سے ہم بہت خوش ہوئے۔ اب آپ ہماری طرف سے کچھ تحفے قبول فرمائیے۔”

موسموں نے نیک دل بُڑھیا کو بڑا سا صندوق دیا۔ بُڑھیا شکریہ ادا کرکے خوشی خوشی واپس چلی آئی۔ صندوق میں اتنے ہیرے، جواہرات اور موتی تھے کہ اُن کو بیچ کر اب وہ بچوں کی سب

فرمائشیں پوری کرسکتی تھی۔

 

Loading

Read Previous

بلوچستان کی لوک کہانی ۔ سُنہری برتن ۔ لوک کہانی

Read Next

چار موسم – حصّہ دوم – الف نگر

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!