چار موسم
حصّہ دوم
سارہ قیوم
نیک دل بُڑھیا کے گھر کے ساتھ ایک بہت بد مزاج بُڑھیا رہتی تھی۔ سب لوگ اُس سے بہت تنگ تھے۔ وہ ہر وقت اپنے پوتوں پوتیوں کو ڈانٹتی رہتی اور گاؤں والوں سے لڑتی رہتی۔ اُس بڑھیا نے اپنی ہمسائی کے گھر دولت کی ریل پیل دیکھی تو حسد سے جل بُھن گئی۔ فوراً نیک دل بُڑھیا کے گھر جا پہنچی اور لگی سوالات کرنے: ”یہ دولت کہاں سے آئی؟ کس نے دی؟ کیوں دی؟”
نیک دل بُڑھیا خوش دِلی سے سارے سوالوں کے جواب دیے گئی۔ اُس نے بدمزاج بُڑھیا کو جنگل میں ملنے والے چار موسموں کے بارے میں بتایا۔
”بھئی اُنہوں نے مجھ سے کچھ سوال پوچھے۔” نیک دل بڑھیا نے کہا: ”بس میں نے اُن سوالوں کے سچ سچ جواب دیے اور اُنہوں نے مجھے یہ دولت تحفے میں دے دی۔” بد مزاج بُڑھیا اسی وقت اٹھی اور جنگل کو چل پڑی۔ دل میں کہتی جاتی تھی: ”میں بھی چار موسموں سے ملوں گی اور اُن کے سوالوں کے جواب دے کر خوب دولت حاصل کروں گی۔” وہ جنگل میں جاکر ایک درخت کے نیچے بیٹھ گئی۔ تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ سفید بالوں والا بُڈّھا آگیا۔ اُس نے بُڑھیا سے پوچھا: ”سردی کا موسم کیسا ہوتا ہے؟”
بد مزاج بُڑھیا تنک کر بولی: ”بھائی! میں تو سچی بات کہوں گی، بہت ہی برا موسم ہے۔ سردی میں ٹھنڈ سے ہڈیاں تک جم جاتی ہیں۔ نزلہ، زکام، کھانسی، بخار۔ اُف! سو بیماریاں لاتا ہے جاڑا۔ سچ پوچھو تو سردی کا موسم تو ہونا ہی نہیں چاہیے۔”
بُڈّھے نے اپنی سرد آنکھوں سے بُڑھیا کو گُھورا اور چلا گیا۔ کچھ ہی دیر گزری تھی کہ پھولوں والی لڑکی آئی۔ اُس نے پوچھا:
”بڑی امّاں، بہار کا موسم کیسا لگتا ہے آپ کو؟” بڑھیانے بے زاری سے کہا: ”بھئی بڑا ہی عجیب موسم ہے۔ مجھے تو سمجھ نہیں آتی ہر کوئی بہار کی تعریف کیوں کرتا ہے؟ پُھولوں کی خوش بُو سے چھینکیں آنے لگتی ہیں۔ بھنورے اور شہد کی مکھیاں بِھنبھناتی پِھرتی ہیں۔ بہت ہی فضول موسم ہے۔” لڑکی اُداس ہوکر چلی گئی۔ فوراً ہی وہاں چمکتے دمکتے بھڑکیلے کپڑے پہنے عورت آن پہنچی اور بڑھیا سے بولی:
”بڑی بی! گرمی کا موسم کیسا ہوتا ہے؟”
بد مزاج بُڑھیا غصہ سے بولی: ”اے لڑکی! کیا چھمّک چھلّو بنی گُھوم رہی ہو؟ کتنے فضول کپڑے پہن رکھے ہیں تم نے۔ بھئی گرمی کے موسم کے بارے میں کون نہیں جانتا کہ کتنا برا موسم ہے؟ جس چیز کو ہاتھ لگاؤ گرم! سر سے لے کر پاؤں تک پسینہ بہتا ہے۔ ہر وقت بس پنکھا ہی جھلتے رہو۔ میں تو کہتی ہوں گرمی کا موسم تو ہونا ہی نہیں چاہیے۔” بھڑکیلے کپڑوں والی عورت نے غصے سے بُڑھیا کو گُھورا اور چلی گئی۔ تھوڑی دیر بعد وہاں غمگین چہرے والا گنجا آدمی آیا۔ اُس نے بُڑھیا سے پوچھا: ”امّاں خزاں کا موسم کیسا ہوتا ہے؟” بڑھیا بولی: ”اے میاں گنجے! خزاں سے برا تو موسم ہی کوئی نہیں۔ سارے درخت پتے جھاڑ کر ٹِنڈ مِنڈ ہوجاتے ہیں۔ جہاں جاؤ وہاں سُوکھے پتے پیروں میں آتے ہیں۔ اِدھر صفائی کرو، اُدھر پھر سے گند پڑجاتا ہے۔ کیا فائدہ خزاں کا؟ یہ موسم تو ہونا ہی نہیں چاہیے۔”
اِسی وقت چاروں موسم نکل کر سامنے آکھڑے ہوئے بُڑھیا کو ایک گٹھڑی دیتے ہوئے کہا: ”بڑی بی! آپ نے ہمارے سوالوں کے جواب دیئے۔ یہ رہا آپ کا تحفہ…!” بُڑھیا نے خوشی خوشی گٹھڑی اُٹھائی اور اپنے گھر آگئی۔ گھر آکر جب اُس نے گٹھڑی کھولی تو اس سے بے شمار کیڑے مکوڑے، سانپ، بچّھو اور چھپکلیاں نکل کر اُس کے گھر میں پھیل گئے۔ بُڑھیا چیخنے چلاّنے لگی اور موسموں کو کوسنے لگی لیکن اب کیا ہوسکتا تھا۔ بُڑھیا نے اپنی بدمزاجی کا پھل پا لیا تھا۔
٭…٭…٭