چائے والا — ایم رضوان ملغانی

ٹونی روحیل کو نیہا کی سرگرمیوں کے حوالے سے مسلسل آگاہ کررہا تھا۔ پہلے روحیل نے باتوں کو اتنا سنجیدہ نہیں لیا تھا، پر اب بات حیرت اور اچھنبے والی تھی، بعض حلقوں میں نیہا کے حوالے سے بے حد عجیب قسم کی چہ مگوئیاں شروع ہوگئیں تھیں۔ جب کہ بعض نیہا کی کاوشوں کو سراہ رہے تھے کہ نیہا ایک عام ”چائے والے” کو فیم دلوا رہی ہے اور اسے سپورٹ کررہی ہے۔ ساتھ ہی سوشل میڈیا کی بڑھتی ہوئی ترقی کے حوالے سے بھی باتیں ہورہی تھیں۔
روحیل نیہا سے بات کرنا چاہتا تھا لیکن نیہا اتنی مصروف تھی کہ اسے موقع نہیں ملا تھا اور اب ان کے درمیان پہلے جیسے حالات بھی نہیں رہے تھے۔
٭…٭…٭




آج اُسے کراچی آئے ہوئے ایک ہفتے سے بھی زیادہ ہوگیا تھا اور وہ بہت کم گھر بات کر پایا تھا، اس کی وجہ گھر میں ٹیلی فون نہ ہونا تھا۔ اکبر خان کے پاس موبائل تھا لیکن اس کی ہمت ہی نہ ہوتی تھی کہ وہ ان کے نمبر پر کال کرتا۔ دو دن پہلے اس نے اپنے پہلے شوٹ سے حاصل ہونے والی رقم گھر بھجوائی تھی جس سے لالہ رخ نے موبائل بھی خرید لیا تھا اور اب وہ اس سے بات کررہا تھا کہ بات کرتے کرتے اسے اچانک پلوشے کا خیال آگیا۔
”پلوشے کیسی ہے لالہ رُخ؟” اس نے پوچھا اور کمرے کی کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا جہاں لان میں نیہا اور ردا بیٹھی چائے پی رہی تھیں۔
”پلوشے ٹھیک ہے لالا! تم کو بہت یاد کرتی ہے کبھی اس سے بھی بات کرلیا کرو۔” لالہ رخ نے بھائی کو سمجھانے والے انداز میں کہا۔
”ہاں کرے گا بات، ہم ادھر بہت مصروف ہوتا ہے اس لیے وقت نہیں ملتا۔” نیہا کسی بات پر ہنس رہی تھی اور اسے نیہا کی یہ ہنسی عجیب لگی تھی۔
”وقت نکالو لالا! بے چاری تم سے کتنی محبت کرتی ہے،” لالہ رخ کے لہجے میں واقعی پلوشے کے لیے فکر میاں تھی۔
”اچھا ٹھیک ہے۔ ہم تم سے بعد میں بات کرے گا۔ مورے اور بابا کو ہمارا سلام دینا۔” یہ کہتے ہی اس نے کال کاٹ دی تھی۔ نیہا اب بھی کسی بات پر ہنس رہی تھی، وہ بھی اٹھ کر لان میں چلا گیا۔
٭…٭…٭
اسے دھڑا دھڑ ایک کے بعد ایک بڑے فیشن شو میں بلایا جارہا تھا اور وہ ہر شو میں بہ طور مہمانِ خصوصی شرکت کررہا تھا۔ ”چائے والا” ٹرینڈ ایک ہاٹ ایشو بن کر ابھرا تھا۔ ہر گلی محلے میں اسی کے حوالے سے بات کی جارہی تھی۔ ابھی وہ ایک فیشن شو کے بعد اپنے ہوٹل کے کمرے کا دروازہ کھول رہا تھا جہاں وہ ٹھہرا ہوا تھا کہ اسے قریب کھڑے دو لوگ اس کے حوالے سے بات کرتے دکھائی دیئے۔ اسے ان کے درمیان ہونے والی تمام گفت گو صاف سنائی دے رہی تھی۔ ان میں سے ایک روحیل وحید تھا جب کہ دوسرے کو وہ نہیں جانتا تھا۔
”ماڈل بن کر گھوم رہا ہے، ہماری برابری کرے گا اَن پڑھ پینڈو۔” روحیل نے سگریٹ کا کش لے کر زہر خند لہجے میں اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
”صرف دو دن کی چاندنی ہے یار! جس طرح ان لوگوں نے سر پہ بٹھایا ہے اسی طرح اتار بھی دیں گے۔ تو صبر تو کرو، پھر اپنی اصل اوقات پر آجائے گا، وہی چائے وہی ہوٹل ہا ہا ہا۔” دوسرے نے اس کا مذاق بناتے ہوئے کہا تھا۔
”نیہا کو تو خیر میں منا ہی لوں گا، یہ کیا سمجھتا ہے اس کے ساتھ گھوم پھر کر سیر سپاٹے کرکے یہ اسے اپنی مٹھی میں کرلے گا؟ وہ اس پینڈو پر تھوکے گی بھی نہیں۔” روحیل وحید کا لہجہ نہایت حقیرانہ تھا۔
”ہاں صرف کیش کروا رہی ہے اسے، دولت کمانے کا گولڈن پیس ہاتھ لگ گیا ہے۔” دوسرے نے بھی اپنا تبصرہ پیش کیا۔
اس میں اب مزید سننے کی سکت نہیں تھی۔ اس نے کمرے کا دروازہ کھولا اور اندر آگیا دروازہ زور سے بند کرنے کے باوجود اب بھی قہقہوں کی آوازیں اس کے کانوں میں گونج رہی تھیں۔ اس نے اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ لیے تھے۔
٭…٭…٭




وہ دونوں ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ وہ آج صرف اسے سن رہی تھی اور مختصر سے جوابات دے رہی تھی۔ وہ بحث کے موڈ میں نہیں تھی۔ وہ اب تھک چکی تھی اور وہ اپنی محبت کو گنوانا نہیں چاہتی تھی۔ اس نے فرار کی ہر ممکن کوشش کرلی تھی پر جس سے محبت ہو، آپ اسے کیسے بھلا سکتے ہیں؟ ایک سال اور پندرہ دن اسے نظر انداز کرنے کے بعد وہ آج اس کے ساتھ تھی۔
”مجھے لگا تم آج بھی نہیں آؤ گی نیہا۔” اس نے اسے پیار سے دیکھتے ہوئے کہا۔
”مجھے آنا ہی تھا۔” اس نے کہا اور نیچے دیکھنے لگی۔
”تم اتنی ضدی پہلے کبھی نہیں تھیں۔” اس نے شکایت بھری نظروں سے دیکھ کر کہا۔
”ضدی نہیں پوزیسیو! شاید ہر لڑکی ہوتی ہے اور یہ کوئی اتنی بری بات ہے بھی نہیں۔” اس نے اس مرتبہ بھی اسے نہیں دیکھا تھا۔
”لیکن تمہیں مجھے وضاحت کا ایک موقع دینا چاہیے تھا، محض ڈانس کلب میں ڈانس کرتے دیکھ کر تم نے …”
”صرف ڈانس کرتے نہیں، سیر سپاٹے کرتے، شاپنگ کرتے ہوئے بھی دیکھا تھا۔” اس نے فوراً روحیل کی بات کاٹی تھی۔
”میرا یقین مانو وہ خود میرے پیچھے پڑ گئی تھی۔” اس نے اپنے ان لفظوں پر زور دے کر کہا۔
”اس کے سوا کوئی دوسرا آپشن ہے بھی نہیں میرے پاس۔” نیہا نے کہا تو روحیل نے اس کی بات ختم ہونے سے پہلے ہی کہا۔ ”چائے والا؟” نیہا اس کے جواب پر چونکی تھی۔
”چائے والا؟ چائے والا نہیں رہا، وہ اب سٹار بن چکا ہے۔ وہ سٹار جو میں اسے بنانا چاہتی تھی۔ جس کا میں نے اس سے وعدہ کیا تھا۔” نیہا کے لہجے میں ایک سچائی تھی۔
”لیکن وہ سیکنڈلز؟” روحیل نے اپنی بات ادھوری چھوڑی۔
”سکینڈلز صرف سکینڈلز ہوتے ہیں۔ ان میں کوئی حقیقت کوئی سچائی نہیں ہوتی۔” نیہا اب ایک بینچ پر آکر بیٹھ گئی تھی۔ روحیل بھی بیٹھ اس کے پاس ہی بیٹھ گیا۔
”تو پھر کیا ارادے ہیں اس کے؟” روحیل نے سرسری انداز میں پوچھا۔
”یہ سب اسی پر منحصر ہے وہ اس فیلڈ میں آیا میری مرضی سے ہے لیکن جائے گا اپنی مرضی سے، وہ یہ سب چھوڑ کر جانا چاہے تو یہ اس کی اپنی مرضی ہوگی۔”
٭…٭…٭
اپنے ہوٹل کے روم میں بیٹھے ہوئے وہ بار بار کبھی اس فلم کے کانٹریکٹ، تو کبھی شادی کے کارڈ کو کو دیکھ رہا تھا۔ فلم، جو ملک کے ایک بڑے اور نامور ڈائیریکٹر نے اسے آفر کی تھی اور کارڈ جو نیہا اور روحیل کی شادی کا تھا۔ وہ سادہ لوح شخص تھا جو کبھی اس فیلڈ کے تقاضوں کو نہیں سمجھ سکا تھا۔ اسے اس فیلڈ میں سب بہروپیے لگے تھے، وہ ان کے ساتھ نہیں چل سکتا تھا۔
نہ جانے کیوں اس کارڈ کو بار بار دیکھنے کے بعد اسے پلوشے یاد آئی تھی… اور پلوشے ہی اس کے لیے سب کچھ تھی۔ اس نے کانٹریکٹ پیپرز کو پرے اچھال دیا تھا اور شادی کے کارڈ کے ٹکڑے ٹکڑے کرتا وہاں سے جانے لگا تھا۔
کچھ ہی دیر بعد ایک پریس کانفرنس ہونے والی تھی جس میں اسے اس فیلڈ کو چھوڑنے کا باقاعدہ اعلان کرنا تھا۔
”کشمیری چائے!”
”قہوہ چائے”
”دودھ پتی چائے”
”سبز چائے”
یہ الفاظ پھر سے اس کے دماغ میں گردش کرنے لگے تھے۔

٭…٭…٭




Loading

Read Previous

درخت اور آدمی — محمد جمیل اختر

Read Next

پہلی محبت آخری بازی — شیما قاضی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!