چائے والا — ایم رضوان ملغانی

”تیرا خانہ خراب پلوشے! کرلی نا اپنی من مانی؟ ایک ہفتہ اور صبر کرلیتی اور بارات خان کے نکاح پر پہن لیتی۔” مورے آتے ساتھ ہی بولی۔
”بارات خان کی شادی کے لیے اور بہت سے جوڑے رکھے ہیں۔ میں تو لالہ رخ کو دکھانے کے لیے تیار ہوئی ہوں۔” اس نے فوراً جواب دیا۔
”تو اتنا تیار ہوکر باہر جائے گی؟ میں نہیں جانے دوں گی۔” مورے تنک کر بولی۔




”کچھ نہیں ہوتا مورے! میں یوں گئی اور یوں آئی۔” پلوشے نے کب دیر لگانی تھی، چٹکی بجاتے ہی بھاگ لی۔ ادھر مورے سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔
وہ پورے راستے جھومتی گاتی لالہ رخ کے دروازے پر دستک دینے آن پہنچی۔ ایک طرف دروازہ کھلا دوسری طرف اس کی جان گئی۔ گنگناتے لب لڑ کھڑانے لگے، دل کی دھڑکن تیز ہوگئی۔ چہرہ مانو تو انار کی طرح لال ہوگیا اور کیوں نہ ہوتا؟ سامنے اس کا خان کھڑا تھا… جس پر وہ اپنا دل ہار بیٹھی تھی۔
”یوں ہی دروازے پر کھڑا رہے گا یا اندر بھی آئے گا۔” وہ جو پھٹی پھٹی نگاہوں سے اسے گھورے جارہی تھی، ایمل خان کے کہنے پر چونکی۔
”لالہ رخ ہے گھر میں؟” اس نے بے حد میٹھے انداز میں سوال کیا۔
”ہاں ہے۔ گھر میں آجاؤ۔” جتنے میٹھے انداز میں سوال کیا گیا تھا اس سے کہیں زیادہ کڑوے انداز میں جواب دیا گیا تھا۔
”کتنا سڑ کر بولتا ہے اور ایک میں ہوں جو اس کے پیار میں…” وہ اندر آتے ساتھ ہی بڑبڑانے لگی۔
”ہم کو کچھ کہا…؟” اس نے فوراً پوچھا۔
”نہیں نہیں! کچھ نہیں۔” وہ یہ کہتے ہوئے کمرے میں چلی گئی جہاں لالہ رخ بیٹھی قہوہ پی رہی تھی…
”ہائے پلوشے! تم کتنی پیاری لگ رہی ہو۔” لالہ رخ اس سے لپٹ گئی۔
”پیاری تو میں ہوں۔” پلوشے اتراتے ہوئے پشتو فراک گھما کر بولی۔
”ذرا اپنے اس بھائی کو بھی بولا کرو کبھی تو تعریف کردیا کرے میری۔” اس نے خفگی سے کہا۔ ”ضرور کرے گا تعریف جب تمہیں بھابھی بنا کے اس گھر میں لے آؤں گی۔” لالہ رخ نے اک ادا سے کہا تھا۔
”چل ہٹ! جھوٹی کہیں کی۔” پلوشے نے منہ موڑ لیا۔
”اس میں جھوٹ والی کون سی بات ہے؟ میرا لالا صرف تم سے پیار کرتا ہے اور شادی بھی تم ہی سے کرے گا۔” لالہ رخ اسے چھیڑتے ہوئے بولی۔
”بس بس! آنکھ بھر کے دیکھتا تو ہے نہیں اور پیار کرے گا۔ پیار تو وہ صرف اپنے ہوٹل سے کرتا ہے، اپنے مالک سے یا پھر چائے سے۔” پلوشے جل کر بولی۔
”کمینی اسی ہوٹل کے دم سے تو کھاؤ گی۔” لالہ رخ نے دھموکا جڑ دیا۔
”اور یہ آج ابھی تک ہوٹل گیا کیوں نہیں؟” پلوشے نے فکر مندی پوچھا۔
”لالا کو بخار ہے اور ویسے بھی آج مالک کسی کام سے شہر گیا ہے تو ہوٹل بند ہے۔” لالہ رخ نے اسے بتایا۔
”بھائی کو بخار ہے اور تو یہاں بیٹھی باتیں بگھار رہی ہے؟” پلوشے نے اسے ٹہوکا دیا۔
”تیرا ہونے والا شوہر ہے تو ہی جا کے خدمت کرلے۔” لالہ رخ دو بہ دو بولی۔
”چلی تو جاؤں پر اس خان نے شکل بنا لینی ہے مجھے دیکھ کے” پلوشے ٹھنڈا سانس لے کر رہ گئی۔
”ایک پشتو گیت ہی سنا دینا اپنی گل پانڑہ، کا ایک دم ہشاش بشاش ہو جائے گا۔” لالہ رخ نے اسے شرارتاً مشورہ دیا تو پلوشے نے اسے پیٹنا شروع کردیا۔ ان کے قہقہوں کی گونج باہر صاف سنائی دے رہی تھی۔ چار پائی پر لیٹے ایمل خان کے سر کا درد شدت اختیار کر گیا تھا۔
٭…٭…٭
آج پھر ان دونوں کا آمنا سامنا ہونے والا تھا۔ وہ ذہنی طور پر خود کو تیار کرنے کی کوشش کررہی تھی کہ وہ کیسے اس سے Avoid کرے۔ وہ اس بات سے اچھی طرح واقف تھی کہ وہ شخص اس کی کم زوری بن چکا ہے۔ وہ اس سے بے پناہ محبت ضرور کرتی تھی لیکن وہ اس کے معاملے میں حد درجہ پوزیسو بھی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ وہ اس بات کو اپنے دل سے نہیں نکال پائی تھی۔ اس منظر کو نہیں بھلا پائی تھی جو اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا اور جسے دیکھنے کے بعد اس کے سارے دعوے اور استحقاق مٹی کے بت کی طرح ڈھے گیا تھا۔
اس نے آخری بار خود کو آئینے میں دیکھا اور کمرے سے باہر نکل آئی۔ دانیال کی کئی بار کال آچکی تھی اور آٹھ دس میسجز بھی، جنہیں پڑھے بنا ہی اسے اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ لیٹ ہوچکی ہے اور دانیال کالز اور میسجز کرکے اسے جلدی پہنچنے کا کہہ رہا ہے۔
وہ ایک کشمکش میں مبتلا تھی۔ کئی بار اس کے دل نے اس کا ساتھ نہ دینے کا عہد کیا تھا اور کئی بار اس نے اپنے دل کو دلاسوں سے یہ سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ اگر وہ ایک بار پھر اس کی راہوں میں بچھ گئی تو بُری طرح ٹوٹ جائے گی۔ تکلیف اسے اس مرتبہ بھی ہوئی تھی لیکن اس کا خیال تھا کہ تھوڑی سی خلا دے دینے سے، سختی دکھا دینے سے، بات نہ کرنے سے وہ روحیل کے رویے میں بدلاؤ لے آئے گی۔ اب یہ بات کس حد تک درست تھی؟ اس کا اندازہ اسے بہت جلد ہونے والا تھا۔
٭…٭…٭




وہ وہاں پہنچتے ہی سب کی نگاہوں کا مرکز بن گئی تھی۔ جس طرح سے وہاں پر موجود لوگ آپس میں نظروں کے تبادلے کررہے تھے۔ وہ بھانپ گئے تھے اور سب کچھ کریدنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ماڈلنگ شوز میں، ماڈلز کے گھر پارٹیز میں، کسی فلم کی لانچنگ میں، ایوارڈز کی تقریبات میں، غرضہر موقع پر ان کا ایک ساتھ ہونا لازم ہوتا تھا۔ اب اگر وہ دونوں جدا ہوئے تھے تو ان کا اچھا خاصا اسکینڈل بنا تھا۔ اس کے پیچھے اصل وجہ کیا تھی یہ جاننے کی سب کو جلدی تھی۔ وہاں کھڑا ہر فرد، ہر ماڈل، ہرسنگر، ہر ایکٹر، ہر ڈیزائنر اسی کوشش میں تھا کہ ملک کے مشہور و معروف ماڈل روحیل وحید اور ٹاپ کلاس فوٹو گرافر کے درمیان ہونے والی اس اَن بن کی اصل حقیقت جان سکے اور اس حقیقت سے پردہ جلد اٹھنے والا تھا۔ یہ سنگین غلطی بھی روحیل وحید سے سر زد ہونے والی تھی۔
٭…٭…٭
وہ اپنے اور پلوشے کے درمیان پنپنے والے اس جذبے کو کوئی بھی نام دینے سے قاصر تھا۔ اگر یہ محبت تھی تو وہ محبت کے معاملے میں کورا تھا، اسے محبت کرنے کا ڈھنگ نہیں آتا تھا۔ اور اگر یہ محض دل لگی تھی تو اس کے پاس اس کے لیے بھی وقت نہیں تھا۔
وہ صبح سے لے کر شام تک جس شے کا نام سب سے زیادہ سنتا تھا وہ ”چائے” تھی اور یہی ”چائے” ہی اس کا سب کچھ تھی۔ وہ پڑھا لکھا نہیں تھا، اس نے سکول کی شکل تک نہیں دیکھی تھی لیکن غربت اور تنگ دستی کو بہت قریب سے ضرور دیکھ لیا تھا۔ اس نے بہت چھوٹی سی عمر سے کام کرنا سیکھ لیا تھا۔ جس عمر میں بچے گلی میں قنچے کھیلتے ہیں، چھکا چوکا مار کر محلّے کے کئی گھروں کی کھڑکیاں توڑتے ہیں یا پھر گھروں کی گھنٹیاں بجا کر بھاگ جاتے ہیں۔ مورے اسے بتاتی تھی کہ اس عمر میں اس کے باپ نے بھی کام کرنا شروع کردیا تھا، اس لیے جب وہ پیدا ہوا تو کچھ عرصے بعد ہی اس کے کاندھوں پر بھی ذمہ داری کا بوجھ لاد دیا گیا۔ اسے اچھی طرح یاد تھا کہ اس نے جو پہلا کام کیا تھا وہ ایک ہوٹل میں بیراگیری کا تھا۔ صبح سے لے کر رات تک، دن کے تینوں کھانا کھانے کے اوقات میں بھیڑ لگی رہتی تھی اور اس کا مالک اسے گھمائے رکھتا تھا۔ دوسرے نمبر پر جومزدوری اس کے حصے میں آئی تھی وہ پھلوں کی ریڑھی لگانے کی تھی۔ راولپنڈی کے راجہ بازار سے لے کر ہر اس مقام پر اس نے ریڑھی لگائی جہاں ٹریفک پولیس کی ڈانٹ ڈپٹ اور ریڑھی کسی اور جگہ منتقل کرنے کے آرڈر کا اندیشہ کم سے کم ہو لیکن پھر بھی ایسا ہوجاتا تھا۔ کبھی ایک آدھ تھپڑ پڑ جاتا تو کبھی چھترول ہوجاتی لیکن اس کے قدم لرزنے نہیں پائے تھے۔ گاڑیوں کے شیشے چمکانے میں بھی اسے عار محسوس نہیں ہوئی تھی۔ سیمنٹ، گارے اور بجری کا کام بھی وہ جانتا تھا۔ اب اتنے سارے کاموں کے بعد عمر کے اٹھارویں برس میں جو کام اس کے سپرد کیا گیا تھا وہ چائے بنانے کا تھا۔ سبز چائے، کشمیری چائے، قہوہ، دودھ پتی، ہر قسم کی چائے بنانے میں وہ ماہر تھا۔ وہ اتنی بار چائے کو اپنی ہتھیلی پر ڈال کر اس کی مٹھاس کا اندازہ لگا چکا تھا کہ اب گرم سے گرم اور کھولتی ہوئی چائے بھی اس کا ہاتھ نہیں جلاتی تھی، اس کے ہاتھ میں چھالا نہیں بناتی تھی۔
عمر کے اتنے برس وہ بولا کم تھا اور کام زیادہ کیا تھا۔ اس کا کوئی کام زیادہ بولنے والا تھا بھی نہیں۔ ہر کام میں تیزی اور ہوشیاری درکار تھی، اور تیزی اس کے ہاتھوں میں تھی۔ اس کی طبیعت ہمیشہ سے سادہ رہی تھی۔ وہ اپنے والدین کا فرماں بردار بیٹا اور اپنی بہن کا پیارا بھائی تھا، لیکن وہ چاہتے ہوئے بھی پلوشے کا چاہنے والا اور پرستار نہیں بننا چاہتا تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ اس نے ہر ممکن کوشش کی تھی کہ وہ پلوشے کو نظر انداز کرے، اس کی خوب صورتی کے حصار میں گم نہ ہو اور اس کوشش میں وہ کسی حد تک کام یاب ضرور ہو گیا تھا۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

درخت اور آدمی — محمد جمیل اختر

Read Next

پہلی محبت آخری بازی — شیما قاضی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!