چائے والا — ایم رضوان ملغانی

”ہم نے تو کچھ کیا بھی نہیں پھر پتا نہیں اتنا لوگ کدھر سے آگیا؟ لالی ہم تم کو کیا بتائے کوئی ہمارا تصویر کھینچ رہا تھا، کوئی ہم کو گلے لگا رہا تھا۔ ٹی وی چینل والا بھی بہت آیا ہوا تھا۔ مالک کا ہوٹل میں جو ٹی وی ہے اس میں بھی ہمارا فوٹو بار بار آرہا تھا۔ مالک جس چینل پر لگاتا ادھر ہمارا فوٹو آتا۔ اور تم کو معلوم ہے وہ خبریں پڑھنے والا اس کو ہمارے نام کا بھی پتا تھا۔” ایمل خان نے گھر آتے ساتھ ہی دن کی ساری روداد لالہ رخ کو سنا دی تھی اور لالہ رخ حیران پریشان بیٹھی اپنے لالا کی باتیں سن رہی تھی، اس نے بہت دیر کے بعد کہا:
”لالا تم مشہور ہوگئے ہو لالا۔” اس نے پرجوش آواز میں کہا۔
”لیکن ہم نے تو کچھ کیا بھی نہیں۔” ایمل خان نے بے زار سی شکل بنا کر کہا تھا۔
نیہا نے سوچا تک نہ تھا جس تصویر کو لے کر وہ فیس بک پر اَپ لوڈ کررہی ہے وہ اتنی مشہور ہوجائے گی۔ نیہا کو مختلف کمپنیز، مختلف چینلز سے، ڈائریکٹرز پروڈیوسرز کی کالز آرہی تھیں لیکن فی الحال وہ کسی کو بھی جواب دینے کی پوزیشن میں نہیں تھی، جب تک وہ ایمل خان سے بات نہ کرلے۔ اور اسی سلسلے میں وہ اور ردا اس کے ہوٹل میں موجود تھیں۔
٭…٭…٭




”ہم چائے والا ہے، چائے بناتا ہے ہم کوئی اور کام کیسے کرسکتا ہے؟ ہم اَن پڑھ ہے۔ ہم ٹی وی میں کام کیسے کرے گا؟” اس نے بے حد معصومیت سے پوچھا۔
”یہ سب تم ہم پر چھوڑ دو۔ دیکھو تمہاری قسمت بدل جائے گی، تم سٹار بن جاؤ گے سٹار۔” ردا نے لفظ ”سٹار” پر زور دے کر کہا۔
”سٹار؟ وہ کیا ہوتا ہے۔” اس نے حیرت سے پوچھا۔
”جو فواد خان ہے۔” نیہا نے کہا۔
”فواد خان کون ہے؟ ہمارا گھر میں ٹی وی نہیں ہے ہم ٹی وی نہیں دیکھتا۔” اس کی معصومیت عروج پر تھی۔
”ارے وہی فواد خان جو انڈیا میں فلمیں کرتا ہے ویسا سٹار بن جائے گا تم ایمل خان! ہم تمہارا جگہ ہوتا تو ایک منٹ بھی دیر نہ لگاتا۔” مالک نے اسے ترغیب دیتے ہوئے کہا۔
”لیکن مالک ہمارا پلار (باپ) بہت سخت ہے۔ تم جانتا ہے وہ ہم کو اس کام کا اجازت نہیں دے گا” اس نے مالک کی طرف دیکھ کر کہا۔
”ہم ان کو بھی منا لیں گے، بس ایک بار تم حامی بھر لو۔ دیکھو ایمل خان صرف تمہاری ایک تصویر نے لوگوں کو اتنا پاگل کر دیا کہ وہ بھاگے بھاگے تمہارے پاس آرہے ہیں، جب تم ٹی وی کے لیے کام کرو گے تو اور زیادہ نام کماؤ گے۔” نیہا نے رسان سے کہا۔
”ہم اتنی جلدی کوئی جواب دے نہیں سکتا، ہم سوچ کر بتائے گا۔” اس نے سوچ کر کہا۔
”تمہارے پاس سوچنے کا زیادہ وقت نہیں ہے ایمل خان، جلدی سے فیصلہ کرو۔” نیہا کہتی ہوئی اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔
”میں پھر آؤں گی اور یہ چاہوں گی کہ تم اپنا مثبت فیصلہ مجھے سناؤ۔” یہ کہہ کروہ دونوں وہاں سے نکل گئیں۔
٭…٭…٭
گھر آکر بھی وہ خاصا بے چین پھر رہا تھا۔ اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا فیصلہ کرے۔ بچپن سے لے کر اب تک اس کا ہر فیصلہ اس کے باپ نے کیا تھا۔ اس نے کیا کرنا ہے، کیا نہیں کرنا اس کے اختیارات اس کے پاس نہیں تھے۔ اُسے یہ اندیشہ کھائے جارہا تھا کہ اس کے باپ کا ری ایکشن کیا ہوگا اور اسے پتا تھا کہ اکبر خان طوفان کھڑا کردے گا۔
”لالا پریشان کیوں ہوتے ہو؟ تمہاری بہن سب کو منا لے گی، بس تم پیچھے نہ ہٹو۔ آخر کب تک چائے بناتے رہو گے؟ اس موقع سے فائدہ اٹھاؤ لالا۔”لالہ رخ بزرگوں کی طرح اسے سمجھا رہی تھی۔
”لالہ رخ ہم بھی یہ کام کرنا چاہتا ہے۔ ہم بھی چاہتا ہے ہمارا غربت ختم ہوجائے، مورے کا علاج ہوجائے، تمہارا اچھی جگہ شادی ہوجائے، پر یہ سب پیسہ مانگتا ہے اور اتنا پیسہ چائے سے کیسے آئے گا۔” ایمل خان نے فکر مندی سے کہا۔
”تو بس پھر ٹھیک ہے، جب تم راضی ہو تو سوچ کیوں رہے ہو؟” لالہ رخ حتمی انداز میں بولی۔
”یہ خبیث کا بچہ راضی ہوکے تو دکھائے، خاندان والا ابھی سے باتیں بنا رہا ہے اور جب یہ ٹی وی میں کام کرے گا تو ہمارا حالت خراب ہوجائے گا۔” اکبر خان اچانک اندر داخل ہوتے ہوئے کڑک دار آواز میں بولا۔
”بابا اس میں کیا برائی ہے؟ لالا خود تو نہیں کہہ رہا کہ ٹی وی میں آجائے، اسے ٹی وی والے خود بلا رہے ہیں۔” لالہ رخ باپ کے آگے کھڑی ہوگئی۔
”تم چپ کرو؟ تم کو کیا پتا زمانے کا۔” اکبر خان ماننے کو ہرگز تیار نہ تھا۔
”زمانہ کسی حال میں خوش نہیں رہنے دیتا بابا۔ یہ بھی تو سوچو ہمارے دن پھر جائیں گے۔” لالہ رخ بھی اپنے مؤقف پر ڈٹی ہوئی تھی۔
”بس ہم نے کہہ دیا کہ آج کے بعد کوئی یہ بات دوبارہ نہیں کرے گا، اور ہاں ایمل خان! تم بھی اپنا دماغ سے یہ سب خیال نکال دو۔” اکبر خان کہتا ہوا وہاں سے چلا گیا اور لالہ رُخ سر پکڑ کر بیٹھ گئی تھی۔
٭…٭…٭





امید کے جگنو جو تھوڑی دیر کے لیے ٹمٹمائے تھے۔ اب مکمل طور پر بجھنے کوتھے۔ لالہ رخ سارا دن پریشان رہتی، پلوشے کی باتیں اسے اب نہ بھاتی تھیں۔ پلوشے کے گائے پشتو نغمے اب اس کا دل نہ بہلاتے تھے۔ پریشان حال سی لالہ رخ اپنے بھولے لالا کے لیے فکر مند تھی، تو دوسری جانب پلوشے کو توجدائی کے نام سے ہی خوف آنے لگتا تھا۔ اس کا پیارا اس سے بات نہیں کرتا تو کیا ہوا کم از کم وہ اس کی نظروں کے سامنے تو رہتا ہے۔ شہر چلا گیا تو کیا ہوگا؟ اور وہ بھی ٹی وی والی دنیا میں… اس نے سن رکھا تھا کہ ٹی وی کے لوگ اور لڑکیاں بہت چالاک ہوتی ہیں۔ لڑکوں کو پھانسنے میں دیر نہیں لگاتیں اور ایمل خان تو تھا ہی سدا کا سادہ اور مسکین…
بہنا کے ارمان کہ بھیا امیر ہوجائے، بڑی بڑی گاڑیوں میں گھومے، تھری پیس سوٹ پہن کر اترائے اور ٹچ سکرین موبائل رکھ کی شوخیاں مارے…
اور من چلی سی پلوشے کا درد کہ کہیں اس کا ساجن اس کی نظروں سے اوجھل نہ ہوجائے۔
٭…٭…٭
نیہا نے ہمت نہیں ہاری تھی۔ وہ کئی بار ایمل خان کے گھر کے چکر لگا چکی تھی۔ اس نے ایڈھی چوٹی کا زور لگایا تھا اور اکبر خان کو منا لیا تھا۔ کچھ ہی دن بعد وہ ایمل خان کو کراچی لے جانے والی تھی۔ پلوشے نے جیسے ہی یہ خبر سنی کہ ایمل خان کراچی جارہا ہے، رونی سی صورت لیے گھومتی رہتی، کھلا کھلا سا چہرہ مرجھا سا گیا تھا۔ وہ خوشی کے پشتو گیتوں کے بجائے اب اداسی کے نغمے گاتی رہتی تھی…
”کتنا بے وفا ہے تمہارا بھائی لالہ رخ! مجھے چھوڑ کر جارہا ہے۔” پلوشے روہانسی ہوکر لالہ رخ سے بولی۔
”چل ہٹ! میرے بھائی جیسا وفادار پورے علاقے میں نہیں ملنے کا۔ اور پگلی تجھے تو خوش ہونا چاہیے، ڈھیرسارے پیسے کمائے گا تو تجھے بھی ٹھاٹ بھاٹ سے رکھے گا۔” لالہ رخ نے کہا۔
”اقرار تک تو کرتا نہیں، شادی کیا خاک کرے گا مجھ سے؟ لے آئے گا کوئی ٹی وی والی۔” پلوشے بھرائی ہوائی آواز میں بولی۔
”صبر کر، آج بندوبست کرتی ہوں۔ یہ خواہش بھی پوری کردیتی ہوں تیری، کیا یاد کرے گی کہ…
”ہائے سچی! تو سچ کہہ رہی ہے؟” پلوشے اس کی بات ختم ہونے سے پہلے ہی اسے بھینچتے ہوئے بولی۔
”ہاں! رات کو لالا آئے گا تو ملاقات کروادوں گی تیری۔” لالہ رخ نے ایک ادا سے کہا اور ہانڈی میں چمچ چلانے لگی۔
٭…٭…٭
آدھی رات کا وقت تھا لیکن نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ وہ بس کروٹیں ہی بدل رہا تھا۔ آنکھیں بند کرتا تو پلوشے کا چہرہ سامنے آجاتا۔ اس کی نظروں کا جادو اسے کسی اور نگری میں لئے جارہا تھا۔ لیکن یہ بھی ضروری تھا کہ وہ اس ملاقات کے ساری یادیں بھلا کر انہیں کہیں ایسی جگہ دفن کردے جہاں ان کا سراغ تک نہ ملے۔
اس نے وہ سب بھلا دینا چاہا جو اس کے اختیار میں تھا، کیوں کہ کراچی اس کا انتظار کررہا تھا۔
٭…٭…٭
یہ ایک بہت بڑے فیشن میگزین کے لیے اس کا پہلا شوٹ تھا۔ اتنی ساری لائٹس، کیمرے اور اپنے میک اوورکو دیکھ کر وہ بوکھلا ہی تو گیا تھا۔
نیہا اسے بار بار گائیڈ کررہی تھی لیکن پہلے شوٹ ہونے کی وجہ سے وہ لاکھ کوششوں کے باوجود بھی خود کو سنبھال نہیں کر پارہا تھا۔ اس کے چہرے کے تاثرات ایسے ہی تھے جیسے کسی انجان شہر اور انجان سی دنیا میں آجانے والے انسان کے ہونے چاہئیں۔
اسے اتنا معلوم تھا کہ چائے بناتے وقت آنچ کتنی رکھنی ہے، کب چینی ڈالنی ہے کب پتی، کب چائے کو آگ سے اتارنا ہے۔ وہ ان جملوں سے ناواقف تھا جو اس کی سماعتیں ابھی سُن رہی تھیں۔ اسے ان ہدایات کی سمجھ نہیں آرہی تھی جو اسے دی جارہی تھیں۔
”رائٹ دیکھیں لیفٹ دیکھیں!”
اسے نہیں پتا تھا کہ یہ سب کیا ہورہا ہے پھر؟ بھی یہ شوٹ کسی حد تک کام یاب ضرور ہوا تھا…
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

درخت اور آدمی — محمد جمیل اختر

Read Next

پہلی محبت آخری بازی — شیما قاضی

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!