وہ اپنی پشت روحیل کی طرف کئے کھڑی تھی اور اس کی ہر بات سن رہی تھی۔
”یار آج کل کی لڑکیوں کو کتنا شوق ہے لڑکوں کو اپنے اشاروں پر نچوانے گا۔” روحیل نے جوس کا سپ لیتے ہوئے کہا۔
”لڑکے بھی تو بہت سر پھرے ہوگئے ہیں، کسی کی فیلنگز کا خیال ہی نہیں کرتے۔” کسی ماڈل نے دوبہ دو جواب دیا تھا۔
”بات یہ نہیں ہے۔ بات یہ ہے کہ لڑکیوں سے ہضم نہیں ہوتا کہ وہ اپنے محبوب کو کسی اور کے ساتھ دیکھیں۔” روحیل نے ہلکے پھلکے انداز میں جواب دیا۔
”تو کیا برائی ہے اس میں؟ ہونا بھی تو ایسے ہی چاہیے۔” پاس کھڑے ماڈل نے بھی اسی انداز میں بات لوٹائی۔
”اوہ کم آن یار! کم از کم یہ فیلڈ اتنا مارجن تو دیتی ہے ہمیں کہ ہم کسی کے ساتھ ہنس بول لیں یا چلو ڈانس ہی کرلیں۔” روحیل نے منہ بناتے ہوئے کہا۔
“Yeah chears!”۔ اس گروپ میں کھڑی دو ماڈلز اور دانیال، سیفی اور روحیل نے ہاتھ میں پکڑے گلاس آپس میں ٹکرائے۔
”ویسے یہ زیادتی ہے، کم از کم میں ایک لڑکی ہوتے ہوئے لڑکی کے حق میں ہی فیصلہ سناؤں گی۔” ایک خاتون ماڈل نے نرمی سے کہا۔
”اوہ کم آن! یہ کس صدی کی بات کررہی ہو تم؟ ہم اکیسویں صدی میں جی رہے ہیں اور اس فیلڈ سے وابستہ ہیں کہ جہاں یہ سب معیوب نہیں سمجھا جانا چاہیے۔” روحیل نے اپنا دفاع کیا تھا۔
”اینی ویز! ذرا ذرا سی بات پر بھڑک جانا بہت irritatting لگتا ہے۔ سامنے والا اگر آپ کی بات مان لے تو ٹھیک، اگر نہ مانے تو زیادہ لفٹ نہیں کروانی چاہیے، اس سے اپنی انا بھی تو ختم ہوتی ہے۔” دانیال نے کالر اٹھا کر نیہا کی طرف دیکھ کر یہ جملہ کہا اور نیہا چپ چاپ وہاں سے چلی گئی۔
٭…٭…٭
وہ گھر بہت غصے کی حالت میں آئی تھی۔ اور آتے ہی اس نے اپنا پرس بیڈ پر پھینک دیا۔ مختلف درازوں سے مختلف موقعوں پر لی گئی تصاویر کو اس نے کاٹنا شروع کردیا اور بہت چھوٹی سی کترنوں کی صورت میں ان تصویروں کاڈھیر بیڈپر لگا دیا۔ ان تصویروں میں وہ روحیل کے ساتھ بہت خوش اور مطمئن دیکھی جاسکتی تھی۔ لیکن اب اس کی حالت ایک ہارے ہوئے جواری کی سی تھی…
روحیل کی بات بھی ٹھیک ہے اس فیلڈ میں سب چلتا ہے۔ لیکن وہ اپنے دل کا کیا کرتی جو ہر بار اس کے نام پر دھڑکتا تھا؟ وہ اس کے ساتھ بہت سے خوب صورت پل بتا چکی تھی۔ اس کی بہت حسین یادیں اس کے ساتھ منسوب تھیں۔ وہ ایک دم انہیں کھروچ کر اپنے دامن سے الگ نہیں کرسکتی تھی۔ وہ کئی بار اسے اس بات کا یقین دلا چکا تھا کہ وہ صرف اسی سے پیار کرتا ہے۔ لیکن وہ اس کے معاملے میں حد سے زیادہ پوزیسو تھی۔ ڈانس کلب میں کسی تھرڈ کلاس ماڈل کے ساتھ ناچ کر اس نے اسے بہت دکھی کیا تھا۔ سب سے زیادہ ہرٹ وہ تب ہوئی تھی جب نیہا نے روحیل کو اسی ماڈل کے ساتھ شاپنگ کرتے دیکھا تھا۔
کم از کم آج کی رات اس کے لیے بہت بھاری تھی اور آج ہی کی رات اسے کوئی فیصلہ کرنا تھا۔
٭…٭…٭
آج پھر اسے ایک پل کے لیے بھی بیٹھنا نصیب نہیں ہوا تھا۔ چائے کی چسکی آج بھی چائے کے لیے آنے والوں کا رش بہت زیادہ تھا۔ چینی، پتی اور دودھ کی مقدار کا حساب رکھتے رکھتے اسے سارا حساب کتاب ازبر ہوگیا تھا۔ ہر روز دل لگا کر کام کرتا۔ اس نے مالک کو کبھی شکایت کا موقع نہیں دیا تھا لیکن اتنے عرصے سے ”ایک کپ دودھ پتی چائے، چار کپ کشمیری چائے، تین کپ قہوہ چائے” یہ پکار اور آواز سن سن کر اس کے کان پکنے لگے تھے۔ وہ سکون چاہتا تھا۔ پر اس کے نصیب میں سکون نام کی کوئی شے نہیں تھی…
مالک جلدی گھر چلا گیا تھا اور اسے یہ تاکید کرگیا تھا کہ وہ ہوٹل اپنے ٹائم پر بند کرے۔ اس نے بہت کم اپنے ہاتھ کی بنی چائے پی تھی لیکن آج اس کے سر میں درد اتنا شدید تھا کہ اس نے تیز پتی والی کڑک دار چائے بنائی اور ٹی وی لگا کر بیٹھ گیا۔ وہ حیرت سے ٹی وی پر آنے والی شکلوں کو تکتا رہا۔ ہر چینل پر نئی دنیا، نیا منظر، نئے لوگ، نئی آوازیں، نئی بولی، مختلف لہجے، نت نئی زبانیں وہ چینل ہی بدلتا رہا اور بار بار گھڑی کی طرف نظر اٹھا کر دیکھتا بھی دیا۔ جیسے ہی وقت پورا ہوا، اس نے سارا سامان ترتیب سے رکھا، ٹی وی اور لائٹیں بند کیں اور اپنے لنڈے کا کوٹ اور پھٹی پرانی چادر پہنے دکان کا شٹر نیچے گرا دیا۔
راستے میں اسے یاد آیا کہ اس نے مورے کے لیے کھانسی کی دوائی لینی تھی۔ وہ جلدی سے میڈیکل پہنچا لیکن وہ بند تھا۔ مرے مرے قدموں سے چلتے ہوئے اس نے بابا کی ڈانٹ ڈپٹ سننے کی تیاری کرلی تھی۔
٭…٭…٭
ردا سے کافی مرتبہ کہہ چکی تھی کہ کہیں آئوٹنگ یا پکنک پر چلیں۔ ہر بار وہ اپنی مصروفیت کی وجہ سے اسے ٹال دیتی تھی۔ لیکن اس مرتبہ وہ اسے نہیں ٹال سکی تھی اور ان دونوں نے مری اور اسلام آباد گھومنے جانے کا ارادہ کرلیا تھا۔
٭…٭…٭
گھر میں داخل ہوا تو اس کا استقبال ہی مورے کی کھانسی نے کیا تھا۔
”آگئے ایمل خان! میری کھانسی کی دوائی لائے یا نہیں؟” اس نے کھانستے ہوئے پوچھا۔ بابا پاس بیٹھے کھانا کھا رہے تھے۔ لالہ رخ کو وہ پہلے ہی بتا چکا تھا کہ آج دوائی نہیں ملی۔ اس سے قبل کہ وہ کوئی جواب دیتا، لالہ رخ بول پڑی۔
”نہیں مورے! وہ آج میڈیکل سٹور بند تھا ناں اس لیے نہیں لایا۔ کل لے آئے گا۔” لالہ رخ مورے کی پیٹھ سہلاتے ہوئے بولی۔
”لے آئے گا؟ پتہ نہیں کب لائے گا۔ اوئے ہم پوچھتا ہے تم ہم دو کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا تو بتا دو، ہمارا پشاور میں بہت یار دوست ہے ہم ادھر چلا جائے گا۔” اکبر خان طیش اور دکھ کی ملی جلی کیفیت سے بولے۔
”ایسا بات نہیں ہے، مالک نے دکان ٹائم پر بند کرنے کا کہا تھا۔ گھر آنے لگا تو میڈیکل سٹور بند ہوگیا تھا۔” اس نے ڈرے ڈرے سے لہجے میں جواب دیا۔
پلوشے جو نہ جانے کب کی کمرے کے دروازے پر کھڑی سن رہی تھی۔ اندر آتے ہوئے بولی:
”کیوں تنگ کرتے ہو ایمل کو چاچا؟ یہ دیکھو تو میں تمہارے لیے کیا لائی ہوں، نمکین گوشت تمہیں پسند ہے نا۔” پلوشے اکبر خان کے آگے پلیٹ رکھتے ہوئے بولی۔
ایمل خان اسے عجیب سے نظروں سے گھور رہا تھا۔ لالہ رخ نے یہ دیکھا تو پلوشے کو لئے دوسرے کمرے میں آگئی۔
”تم بھی ہمیشہ غلط وقت پر آنا۔” لالہ رخ بولی۔
”تیرا خانہ خراب لالی کی بچی! ایک تو تیرے بھائی کو بچایا اوپر سے تو بھی مجھ ہی کو باتیں سنا رہی ہے۔” پلوشے لالی کو چپت مارتے ہوئے بولی۔
”بس بس زیادہ سنوانے کی ضرورت نہیں ہے میرا لالہ ہے تو تیرا کیا ہے؟ بڑی آئی۔” لالہ رخ کہاں پیچھے ہٹنے والی تھی۔
”ہاں جب ہوگا تو دیکھی جائے گی فی الحال میں تجھے غزالہ جاوید کا پشتو گانا سناتی ہوں۔” پلوشے کی خوب صورت سروں میں ڈوبی مدھم آواز کمرے میں گونج رہی تھی۔ ایمل خان کے قدم کمرے میں آتے آتے تھم گئے تھے۔
٭…٭…٭
انہیں مری آئے ہوئے آج دوسرا دن تھا۔ پہلے دن ہوٹل کے کمرے میں پڑی وہ دونوں دن بھر کی تھکن سو سو کر اتارتی رہی تھیں۔ جب صبح ہوئی تو نیہا کے من میں گدگدی ہونے لگی۔ اس نے کئی بار ردا کو جگانے کی کوشش کی پر وہ خواب خرگوش کے مزے لیتی رہی۔ چارو ناچار وہ اکیلی ہی اپنا کیمرہ اٹھائے باہر نکل آئی تھی۔
سردی شدید تھی۔ اس نے شال کو اچھی طرح سے لپیٹ لیا تھا۔ پہاڑوں کو چھوتے بادل، دھند کی چادر میں لپٹے دھندلے دھندلے دکھائی دیتے درخت، اونچی نیچی پہاڑیوں پر قائم وہ گھر بھی دکھائی نہ دیتے تھے۔ لیکن جہاں کوئی خوب صورت نظارہ دکھائی دیتا، وہ اسے کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرلیتی تھی۔ اسے یہ تبدیلی بے حد بھلی لگ رہی تھی اور وہ اپنے سارے غم وہیں کراچی میں ہی چھوڑ آئی تھی۔ تھوڑی دور اونچے راستوں پر چلنے کے بعد وہ تھکنے لگی تھی۔ اس نے مال روڈ کے ایک ہوٹل کے پاس آکر اپنے قدم روک لیے۔ چائے بناتا وہ معصوم چہرہ، نیلی آنکھوں والا، نیلے لباس میں ملبوس وہ لڑکا اسے پہلی نظر میں ہی بھلا لگا تھا اور اس نے اس کی تصویریں لینا شروع کردی تھیں۔
٭…٭…٭
نیہا کے جانے سے روحیل وحید کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑا تھا۔ اس کے روز مرہ کے معمولات ویسے ہی چل رہے تھے۔ وہ اپنی کیرئیر لائف میں بہت سنجیدہ انسان مانا جاتا تھا اور اس کی کام یابی کی سب سے بڑی وجہ بھی شاید یہی تھی۔ وہ اپنے ہر منٹ، ہر سیکنڈ کا حساب رکھتا تھا۔ اسے نہ انتظار کروانا پسند تھا اور نہ انتظار کرنا۔ نیہا کے جانے کے بعد اسے ایک بہت بڑے ڈائریکٹر نے فلم آفر کر دی تھی اور وہ اتنی بڑی آفر کو ٹھکرا نہیں سکا تھا۔ ان دنوں وہ اسی فلم کے شوٹ کی تیاریوں میں مصروف تھا۔ نیہا کے حوالے سے اسے معلومات اس کے میک اپ آرٹسٹ ٹونی سے ملتی رہتی تھیں۔ وہ مرد تھا اور مرد بہت مضبوط اعصاب کا مالک ہوتا ہے۔ اس نے نیہا کے چلے جانے کو پلس پوائنٹ جانا تھا۔ وہ سمجھتا تھا نیہا واپس آئے گی تو اس کے سر سے بھوت اتر گیا ہوگا اور ان دونوں کے بیچ فاصلے ختم ہوجائیں گے۔
٭…٭…٭
اس ”چائے والا” پکچر نے فیس بک پر وائرل ہوتے ہی ایک تہلکہ سا مچا دیا تھا۔ لاکھوں لائکس اور کمنٹس نے پکچر کو راتوں رات ہی ہر خاص و عام میں مقبول کردیا تھا۔ لوگوں کا ایک جمِ غفیر ہوٹل کے باہر اکٹھا ہوگیا تھا۔ ہر کوئی چائے والا کے ساتھ تصویر کھنچوانے کا خواہش مند، ہر کوئی چائے والا سے بات کرنے کا آرزو مند تھا۔ ہر کسی کو چائے والا کو قریب سے دیکھنے کی تمنا تھی اور وہ بے حد سادہ سا، مسکین سی شکل بنائے ان سب لوگوں کو دیکھ رہا تھا۔ مالک کی تو چاندی ہوگئی تھی۔ جو آرہا تھا چائے پی رہا تھا۔ مالک کے چہرے پر سختی کے بجائے نرمی آگئی تھی۔
٭…٭…٭