پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۵

وہ ویک اینڈ پر کبھی کبھار ہائکنگ کے لئے مارگلہ کی پہاڑیوں پر جایا کرتا تھا۔ وہ ویک انیڈ نہیں تھا مگر اچانک ہی اس کا موڈ وہاں جانے کا بن گیا۔
ہمیشہ کی طرح گاڑی نیچے پارک کرکے وہ ایک بیگ اپنی پشت پر ڈالے ہائکنگ کرتا رہا۔ واپسی کا سفر اس نے تب شروع کیا جب سائے لمبے ہونے لگے۔ وہ اندازہ کرسکتا تھا کہ اسے اپنی گاڑی تک پہنچنے میں دو گھنٹے لگیں گے۔ واپسی کے سفر کو کچھ تیزی سے طے کرنے کے لئے وہ سڑک پر آگیا جہاں سے عام طور پر لوگ گزرتے تھے۔ اس نے ابھی کچھ فاصلہ ہی طے کیا تھا جب اسے اپنے پیچھے تیز قدموں کی آواز سنائی دی۔ سالار نے ایک نظر مڑکر دیکھا۔ وہ دو لڑکے تھے جو اس سے کافی پیچھے تھے، مگر بہت تیزی سے آگے آرہے تھے۔
سالار نے گردن واپس موڑلی اور اسی طرح اپنا نیچے کا سفر جاری رکھا۔ اسے اپنے حلئے سے وہ لڑکے مشکوک نہیں لگے تھے۔ جینز اور شرٹ میں ملبوس ان کا حلیہ عام لڑکوں جیسا تھا مگر پھر چلتے چلتے اسے یک دم کوئی اپنے بالکل عقب میں محسوس ہوا۔ وہ برق رفتاری سے پلٹا اور ساکت ہوگیا۔ ان دونوں لڑکوں کے ہاتھ میں ریوالور تھے اور وہ اس کے بالکل سامنے تھے۔
”اپنے ہاتھ اوپر کرو، ورنہ ہم تمہیں شوٹ کردیں گے۔”
ان میں سے ایک نے بلند آواز میں کہا۔ سالار نے بے اختیار اپنے ہاتھ اوپر اٹھادئیے۔ ان میں سے ایک اس کے پیچھے گیا اور بہت تیزی سے اس نے اسے کھینچتے ہوئے دھکا دیا۔ سالار لڑکھڑایا مگر سنبھل گیا۔
”ادھر چلو۔” سالار نے کسی قسم کی مزاحمت کئے بغیر اس طرف جانا شروع کردیا جہاں وہ اسے سڑک سے ہٹانا چاہتے تھے، تاکہ کوئی یک دم وہاں نہ آجائے۔ ان میں سے ایک اسے تقریباً دھکیلتے ہوئے اس راستے سے ہٹاکر جھاڑیوں اور درختوں کے بہت اندر تک لے گیا۔
”گھنٹوں کے بل بیٹھو۔” ایک نے درشتی سے اس سے کہا۔
سالار نے خاموشی سے اس کے حکم پر عمل کیا۔ وہ جانتا تھا کہ وہ لوگ اس کی چیزیں چھینیں گے اور پھر اسے چھوڑدیں گے اور وہ ایسا کوئی کام نہیں کرنا چاہتا تھا، جس پر وہ دونوں مشتعل ہوکر اسے نقصان پہنچاتے۔ ان میں سے ایک اس کے پیچھے گیا اور اس نے اس کی پشت پر لٹکا ہوا چھوٹا سا بیگ اتار لیا۔ اس بیگ میں ایک کیمرہ، چند فلم رول، بیٹری، ٹیلی اسکوپ، فرسٹ ایڈکیٹ، والٹ، پانی کی بوتل اور چند کھانے کی چیزیں تھیں جس لڑکے نے بیگ اتارا تھا وہ بیگ کھول کر اندر موجود چیزوں کا جائزہ لیتا رہا پھر اس نے والٹ کھول کر اس کے اندر موجود کرنسی اور کریڈٹ کارڈز کا جائزہ لیا۔ اس کے بعد اس نے بیگ میں سے ٹشوکا پیکٹ نکال لیا اور پھر فرسٹ ایڈکٹ بھی نکال لی۔
”اب تم کھڑے ہوجاؤ۔” اس لڑکے نے تحکمانہ انداز میں کہا۔ سالار اس طرح ہاتھ سرسے اوپر اٹھائے کھڑا ہوگیا۔ اس لڑکے نے اس کی پشت پر جاکر اس کی شارٹس کی جیبوں میں ہاتھ ڈال کر انہیں ٹٹولا اور اس میں موجود گاڑی کی چابی نکال لی۔
”گڈ! کار ہے؟” سالار کو پہلی بار کچھ تشویش ہوئی۔
”تم لوگ میرا بیگ لے جاؤ مگر کار کو رہنے دو۔” سالار نے پہلی بار انہیں مخاطب کیا۔
”کیوں؟ کار کو کیوں رہنے دیں۔ تم ہماری خالہ کے بیٹے ہوکہ کار کو رہنے دیں۔” اس لڑکے نے درشت لہجے میں کہا۔
”تم لوگ اگر کار لے جانے کی کوشش کروگے تو تمہیں بہت سے پرابلمز ہوں گے۔ صرف کارکی چابی مل جانے سے تم کار نہیں لے جا سکو گے۔ اس میں اور بھی بہت سے لاکس ہیں۔” سالار نے ان سے کہا۔
”وہ ہمارا مسئلہ ہے، تمہارا نہیں۔” اس لڑکے نے اس سے کہا اور پھر آگے بڑھ کر اس کی آنکھوں سے گلاسز کھینچ لئے۔
”اپنے جاگرز اتاردو۔” سالارنے حیرانی سے اسے دیکھا۔
”جاگرز کس لئے؟” اس بار اس لڑکے نے جواب دینے کے بجائے پوری قوت سے ایک تھپڑ سالار کے منہ پر مارا۔ وہ لڑکھڑا گیا، چند لمحوں کے لئے اس کی آنکھوں کے سامنے تارے ناچ گئے۔
”دوبارہ کوئی سوال مت کرنا، جاگرز اتارو۔”
سالار خشمگیں نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔ دوسرے لڑکے نے اس پر تانے ہوئے ریوالور کے چیمبر کو ایک بار جتانے والے انداز میں حرکت دی۔ پہلے لڑکے نے ایک اور تھپڑ اس بار سالار کے دوسرے گال پر دے مارا۔
”اب دیکھو اس طرح…جاگرز اتارو۔” اس نے سختی سے کہا۔ سالار نے اس بار اس کی طرف دیکھے بغیر نیچے جھک کر آہستہ آہستہ اپنے دونوں جاگرز اتار دیئے۔ اب اس کے پیروں میں صرف جرابیں رہ گئی تھیں۔
”اپنی شرٹ اتارو۔” سالار ایک بارپھر اعتراض کرنا چاہتا تھا مگر وہ دوبارہ تھپڑ کھانا نہیں چاہتا تھا۔ اگر ان دونوں کے پاس ریوالورنہ ہوتے تو وہ جسمانی طورپر ان سے بہت بہتر تھا اور یقینا اس وقت ان کی ٹھکائی کررہا ہوتا، مگر ان کے پاس ریوالورز کی موجودگی نے یک دم ہی اسے ان کے سامنے بے بس کردیا تھا۔ اس نے اپنی شرٹ اتار کر اس لڑکے کی طرف بڑھائی۔”نیچے پھینکو۔” اس لڑکے نے تحکمانہ انداز میں کہا۔ سالار نے شرٹ نیچے پھینک دی۔ اس لڑکے نے اپنے بائیں ہاتھ کو جیب میں ڈال کر کوئی چیز نکالی۔ وہ پلاسٹک کی باریک ڈوری کا ایک گچھا تھا۔ اسے دیکھتے ہی سالار کی سمجھ میں آگیا کہ وہ کیا کرنا چاہتے ہیں۔ وہ بے اختیار پریشان ہوا، شام ہورہی تھی، کچھ ہی دیر میں وہاں اندھیرا چھا جاتا اور وہ وہاں سے رہائی کس طرح حاصل کرتا۔
”دیکھو، مجھے باندھو مت، میں کسی کو کچھ نہیں بتاؤں گا۔ تم میرا بیگ اور میری کار لے جاؤ۔” اس نے اس بار مدافعانہ انداز میں کہا۔
اس لڑکے نے کچھ بھی کہے بغیر پوری قوت سے اس کے پیٹ میں ایک گھونسہ مارا۔ سالار درد سے دہرا ہوگیا۔ اس کے منہ سے ایک چیخ نکلی تھی۔
”کوئی مشورہ نہیں۔”
اس لڑکے نے جیسے اسے باور کروایا اور زور سے ایک طرف دھکیلا۔ درد سے بلبلاتے ہوئے سالار نے اندھوں کی طرح اس کی پیروی کی۔ ایک درخت کے تنے کے ساتھ بٹھاکر اس لڑکے نے بڑی مہارت کے ساتھ اس کے دونوں بازوؤں کو پتلے سے تنے کے پیچھے لے جاکر اس کی کلائیوں پروہ ڈوری لپیٹنا شروع کردی۔ دوسرا لڑکا سالار سے ذرا فاصلے پر اطمینان سے ادھر ادھر نظر دوڑاتے ہوئے سالار پر ریوالور تانے رہا۔
اس کے ہاتھوں کو اچھی طرح باندھنے کے بعد اس لڑکے نے سامنے آکر اس کے پیروں کی جرابیں اتاریں اور پھر فرسٹ ایڈکٹ میں موجود قینچی سے اس نے سالار کی شرٹ کی پٹیاں کاٹنی شروع کردیں۔ ان میں سے کچھ پٹیوں کو اس نے ایک بارپھر بڑی مہارت کے ساتھ اس کے ٹخنوں کے گرد لپیٹ کر گرہ لگادی پھر اس نے ٹشوکا پیکٹ کھولا اور اس میں موجود سارے ٹشو باہر نکال لئے۔
”منہ کھولو۔” سالار جانتا تھا، وہ اب کیا کرنے والا ہے۔ وہ جتنی گالیاں اسے دل میں سکتا تھا اس وقت دے رہا تھا۔ اس لڑکے نے یکے بعد دیگرے وہ سارے ٹشو اس کے منہ میں ٹھونس دئیے اور پھر شرٹ کی واحد بچ جانے والی پٹی کو گھوڑے کی لگام کی طرح اس کے منہ میں ڈالتے ہوئے درخت کے تنے کے پیچھے اسے باندھ دیا۔
دوسرا لڑکا اب اطمینان سے بیگ بند کررہا تھا، پھر چند منٹوں کے بعد وہ دونوں وہاں سے غائب ہوچکے تھے۔ ان کے وہاں سے جاتے ہی سالار نے اپنے آپ کو آزاد کرنے کی کوشش شروع کردی، مگر جلد ہی اسے اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ ایک بہت بڑی مصیبت میں گرفتار ہوچکا ہے۔ اس لڑکے نے بڑی مہارت کے ساتھ اسے باندھا تھا، وہ صرف ہلنے جلنے کی کوشش سے خود کو آزاد نہیں کرسکتا تھا، نہ ہی ڈوری ڈھیلی کرسکتا تھا۔ وہ ڈوری اس کے حرکت کرنے پر اس کے گوشت کے اندر گھستی ہوئی محسوس ہورہی تھی۔ اس کی حالت اس وقت بے حد خراب ہورہی تھی۔ وہ نہ کسی کو آوازدے سکتا تھا نہ کسی دوسرے طریقے سے خود اپنی طرف کسی کو متوجہ کرسکتا تھا۔
اس کے اردگرد قد آدم جھاڑیاں تھیں اور شام کے ڈھلتے سایوں میں ان جھاڑیوں میں اس کی طرف کسی کا متوجہ ہوجانا کوئی معجزہ ہی ہوسکتا تھا۔ اس کے جسم پر اس وقت لباس کے نام پر صرف گھٹنوں سے کچھ نیچے تک لٹکنے والی برموداشارٹس کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں تھا اور شام ہونے کے ساتھ ساتھ خنکی بڑھ رہی تھی۔ گھر میں کوئی یہ نہیں جانتا تھا کہ وہ ہائکنگ کے لئے یہاں آیا ہوا ہے اور جب گھر نہ پہنچنے پر اس کی تلاش شروع ہوگی تب بھی یہاں اس تاریکی میں درختوں اور جھاڑیوں کے درمیان بندھے ہوئے اس کے وجود تک نہیں پہنچ سکتے تھے۔




آدھ گھنٹے کی جدوجہد کے بعد جب اپنے پیروں کے گرد موجود پٹیوں کو ڈھیلا کرنے اور پھر انہیں کھولنے میں کامیاب ہوا، اس وقت سورج مکمل غروب ہوچکا تھا اگر چاند نہ نکلا ہوتا تو شاید وہ اپنے ہاتھ پاؤں اور اردگرد کے ماحول کو بھی نہ دیکھ پاتا۔ اکادکا گزرنے والی گاڑیوں اور لوگوں کا شوراب نہ ہونے کے برابر تھا۔ اس کے اردگرد جھینگروں کی آوازیں گونج رہی تھیں اور وہ گردن سے کمر تک اپنی پشت پر درخت کے تنے کی وجہ سے آنے والی رگڑ اور خراشوں کو بخوبی محسوس کرسکتا تھا۔ درخت کے دوسری طرف اس کے ہاتھوں کی کلائیوں میں موجود ڈوری اب اس کے گوشت میں اتری ہوئی تھی۔ وہ ہاتھوں کو مزید حرکت دینے کے قابل نہیں رہا تھا۔ وہ کلائیوں سے اٹھتی ٹیسیں برداشت نہیں کرپارہا تھا۔اس کے منہ کے اندر موجود ٹشوز اب گل چکے تھے اور ان کے گلنے کی وجہ سے وہ منہ میں لگام کی طرح کسی ہوئی پٹی کو حرکت دینے لگا تھا مگر وہ گلے سے آواز نکالنے میں اب بھی برح طرح ناکام تھا کیونکہ وہ ان گلے ہوئے ٹشوز کو نہ نگل سکتا تھا، نہ اگل سکتا تھا۔ وہ اتنے زیادہ تھے کہ وہ انہیں چیونگم کی طرح چبانے میں بھی ناکام تھا۔
اس کے جسم پر کپکپی طاری ہورہی تھی۔ وہ صبح تک اس حالت میں وہاں یقیناً ٹھٹھرکر مرجاتا اگر خوف یا کسی زہریلے کیڑے کے کاٹنے سے نہ مرتا تو۔ اس کے جسم پر اب چھوٹے چھوٹے کیڑے رینگ رہے تھے اور باربار وہ اسے کاٹ رہے تھے۔ وہ اپنی برہنہ ٹانگوں پر چلنے اور کاٹنے والے کیڑوں کو جھٹک رہا تھا مگر باقی جسم پر رینگنے والے کیڑوں کو جھٹکنے میں ناکام تھا اور وہ نہیں جانتا تھا کہ ان چھوٹے کیڑوں کے بعد اسے اور کن کیڑوں کا سامنا کرنا پڑے گا اور اگر وہاں بچھو اور سانپ ہوئے تو…
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی حالت مزید خراب ہورہی تھی۔” آخر یہ سب میرے ساتھ کیوں ہوا ہے؟ آخر میں نے کیا کیا؟” وہ بے چارگی سے سوچنے میں مصروف تھا۔” اور میں یہاں مرگیا تو…؟ تو میری تو لاش تک دوبارہ کسی کو نہیں ملے گی۔ کیڑے مکوڑے اور جانور مجھے کھاجائیں گے۔”
اس کی حالت غیر ہونے لگی۔ ایک عجیب طرح کے خوف نے اسے اپنی گرفت میں لیا۔ تو کیا میں اس طرح مروں گا، یہاں…اس حالت میں… بے لباس… بے نشان…گھر والوں کو پتا تک نہیں ہوگا میرے بارے میں۔ کیا میرا انجام یہ ہونا ہے… اس کے دل کی دھڑکن رکنے لگی۔ اسے اپنی موت سے یک دم خوف آیا اتنا خوف کہ اسے سانس لینا مشکل لگنے لگا۔ اسے یوں لگا جیسے موت اس کے سامنے اس سے چند قدم کے فاصلے پر کھڑی ہو۔ اس کے انتظار میں۔ یہ دیکھنے کہ وہ کس طرح سسک سسک کر مرتا ہے۔
وہ درد کی پرواہ کئے بغیر ایک بارپھر اپنی کلائیوں کی ڈوری کو توڑنے یا ڈھیلی کرنے کی کوشش کرنے لگا، اس کے بازو شکل ہونے لگے۔
پندرہ منٹ بعد اس نے ایک بارپھر اپنی جدوجہد چھوڑدی اور اس وقت اسے احساس ہوا کہ اس کے منہ کی پٹی ڈھیلی ہوگئی تھی، وہ گردن کو ہلاتے ہوئے اسے منہ سے نکال سکتا تھا۔ اس کے بعد اس نے ٹشوز نکال دیئے تھے۔ اگلے کئی منٹ وہ گہرے سانس لیتا رہا پھر وہ بلند آواز میں اپنی مدد کے لئے آوازیں دینے لگا۔ اتنی بلند آواز میں جتنی وہ کوشش کرسکتا تھا۔
اس کا انداز بالکل ہذیانی تھا۔ آدھے گھنٹے تک مسلسل آوازیں دیتے رہنے کے بعد اس کی ہمت اور گلا دونوں جواب دے گئے۔ اس کا سانس پھول رہا تھا، یوں جیسے وہ کئی میل دوڑتا رہا ہو مگر اب بھی کوئی اس کی مدد کے لئے نہیں آیا تھا۔ کلائی کے زخم اب اس کے لئے ناقابل برداشت ہورہے تھے اور کیڑے اب اس کے چہرے اور گردن پر بھی کاٹ رہے تھے۔ وہ نہیں جانتا یک دم اسے کیا ہوا، بس وہ بلند آواز میں بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔
وہ زندگی میں پہلی باربری طرح رورہا تھا۔ شاید زندگی میں پہلی بار اسے اپنی بے بسی کا احساس ہورہا تھا اور اس وقت درخت کے اس تنے کے ساتھ بندھے سسکتے ہوئے اسے احساس ہواکہ وہ مرنا نہیں چاہتا ہے۔ وہ موت سے اسی طرح خوفزدہ ہورہا تھا، جس طرح نیوہیون میں ہوا تھا۔ وہ نہیں جانتا وہ کتنی دیر اسی طرح بے بسی کے عالم میں بلند آواز میں روتا رہا پھر اس کے آنسو خشک ہونے لگے۔شاید وہ اتنا تھک چکا تھا کہ اب رونا بھی اس کے لئے ممکن نہیں رہا تھا۔ نڈھال سا ہوکر اس نے درخت کے تنے سے سر ٹکاتے ہوئے آنکھیں بند کرلیں۔ اس کے کندھوں اور بازوؤں میں اتنا درد ہورہا تھا کہ اسے لگ رہا تھا وہ کچھ دیر میں مفلوج ہوجائیں گے پھروہ کبھی انہیں حرکت نہیں دے سکے گا۔
”میں نے کبھی کسی کے ساتھ اس طرح نہیں کیا پھر میرے ساتھ یہ سب کچھ کیوں ہوا۔” اس کی آنکھوں سے ایک بار پھر آنسو بہنے لگے۔
”سالار! میرے لئے پہلے ہی بہت پرابلمز ہیں، تم اس میں اضافہ نہ کرو، میری زندگی بہت مشکل ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اور مشکل ہوتی جارہی ہے۔ کم از کم تم تو میری سچویشن کو سمجھو، میری مشکلات کو مت بڑھاؤ۔” درخت کے تنے کے ساتھ ٹیک لگائے سالار نے آنکھیں کھول دیں۔ اس کا حلق خشک ہورہا تھا۔ نیچے بہت نیچے، بہت دور…اسلام آباد کی روشنیاں نظر آرہی تھیں۔
”میں تمہارے مسائل میں اضافہ کرنے کی کوشش کررہا ہوں؟ میں…؟ مائی ڈئیر امامہ! میں تو تمہاری ہمدردی میں گھل رہا ہوں۔ تمہارے مسائل ختم کرنے کی کوشش کررہا ہوں۔ تم خود سوچو، میرے ساتھ رہ کر تم کتنی اچھی اور محفوظ زندگی گزارسکتی ہو۔” سالار نے اپنے ہونٹ بھینچ لئے۔
”سالار! مجھے طلاق دے دو۔” بھرائی ہوئی لجاجت آمیز آواز۔
”سویٹ ہارٹ! تم کورٹ میں جاکر لے لو۔ جیسا کہ تم کہہ چکی ہو۔”
سالار اب چپ چاپ خود سے بہت دور نظر آنے والی روشنیوں کو دیکھ رہا تھا۔ کوئی اس کے سامنے جیسے آئینہ لے کر کھڑا ہوگیا تھا جس میں وہ اپنا عکس دیکھ سکتا تھا اور اپنے ساتھ ساتھ کسی اور کا بھی۔
”میں نے امامہ کے ساتھ صرف مذاق کیا تھا۔” وہ بڑبڑایا۔
”میں…میں اسے کوئی تکلیف پہنچانے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا۔” اسے اپنے الفاظ کھوکھلے لگے۔
وہ پتا نہیں کس کو وضاحت دینے کی کوشش کررہا تھا۔ بہت دیر تک وہ اسی طرح اسلام آباد کی روشنیوں کو دیکھتا رہا پھر اس کی آنکھیں دھندلانے لگیں۔
”میں مانتا ہوں، مجھ سے کچھ غلطیاں ہوگئیں۔”
اس بار اس کی آواز بھرّائی ہوسرگوشی تھی۔ ”میں نے جانتے بوجھتے اس کے لیے مسائل کھڑے کرنے کی کوشش کی۔ میں نے اسے دھوکا دیا مگر مجھ سے غلطی ہوگئی اور مجھے پچھتاوا بھی ہے۔ میں جانتا ہوں میرے طلاق نہ دینے سے اور جلال کے بارے میں جھوٹ بول دینے سے اسے بہت زیادہ پریشانی کا سامنا کرنا پڑا ہوگا۔ مجھے واقعی پچھتاوا ہے اس سب کے لئے مگر اس کے علاوہ تو میں نے کسی اور کو کبھی دھوکا نہیں دیا، کسی کے لئے پریشانی کھڑی نہیں کی۔”
وہ ایک بار پھر رونے لگا۔
”میرے خدا… اگر ایک بار میں یہاں سے بچ گیا، میں یہاں سے نکل گیا تو میں امامہ کو ڈھونڈوں گا، میں اسے طلاق دے دوں گا، میں دوبارہ کبھی اسے تنگ نہیں کروں گا۔ میں جلال کے بارے میں بھی اسے سچ بتادوں گا۔ بس ایک بار آپ مجھے یہاں سے جانے دیں۔”
وہ اب پھوٹ پھوٹ کر رورہا تھا۔ پہلی بار اسے احساس ہورہا تھا کہ امامہ نے اس کے طلاق نہ دینے سے انکار پر کیا محسوس کیا ہوگا۔ شاید اسی طرح اس نے بھی اپنے ہاتھ بندھے ہوئے محسوس کئے ہوں گے جس طرح وہ کررہا تھا۔
وہاں بیٹھے ہوئے پہلی بار وہ امامہ کی بے بسی، خوف اور تکلیف کو محسوس کرسکتا تھا۔ اس نے جلال انصر کی شادی کے بارے میں اس سے جھوٹ بولا تھا اور اس کے جھوٹ پر امامہ کے چہرے کا تاثر اسے اب بھی یاد تھا۔ اس وقت وہ اس تاثر سے بے حد محفوظ ہوا تھا۔ وہ اسلام آباد سے لاہور تک تقریباً پوری رات روتی رہی تھی اور وہ بے حد مسرور تھا۔
وہ اس وقت اس کی ذہنی اور جذباتی کیفیت کا اندازہ کرسکتا تھا۔ اس اندھیری رات میں اس گاڑی میں سفر کرتے ہوئے اسے اپنے آگے اور پیچھے کچھ بھی نظر نہیں آرہا ہوگا۔ واحد پناہ گاہ، جس کا وہ سوچ کر نکلی تھی وہ جلال انصر کا گھر تھا اور سالار سکندر نے اسے وہاں جانے نہیں دیا تھا۔ وہ رات کے اس پہر وہاں اعصاب میں اترنے والی تاریکی میں بیٹھ کر ان اندیشوں اور خوف کا اندازہ کرسکتا تھا جو اس رات امامہ کو رلارہے تھے۔
”مجھے افسوس ہے، مجھے واقعی افسوس ہے لیکن…لیکن میں کیا کرسکتا ہوں۔ اگر…اگر وہ مجھے دوبارہ ملی تو میں اس سے ایکسکیوز کرلوں گا، میں جس حدتک ممکن ہوا اس کی مدد کروں گا مگر اس وقت…اس وقت تو میں کچھ بھی نہیں کرسکتا۔ اگر…اگر میں نے کبھی…کبھی کوئی نیکی کی ہے تو مجھے اس کے بدلے یہاں سے رہائی دلادے۔ اوہ گاڈ پلیز…پلیز…۔” اس نے بہتے ہوئے آنسوؤں کے ساتھ اپنی نیکیاں گننے کی کوشش کی جنہیں وہ گنواسکے۔ اس وقت پہلی بار اس پر یہ ہولناک انکشاف ہواکہ اس نے زندگی میں اب تک کوئی نیکی نہیں کی تھی۔ کوئی نیکی جسے وہ اس وقت اللہ کے سامنے پیش کرکے اس کے بدلے میں رہائی مانگتا۔ ایک اور خوف نے پھر اس کو اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔ اس نے زندگی میں کبھی خیرات نہیں کی تھی، وہ اس پر یقین نہیں رکھتا تھا۔ وہ ہوٹلز اور ریسٹورنٹس میں ٹپ خوش دلی سے دیا کرتا تھا، مگر کبھی کسی فقیر کے ہاتھ پھیلانے پر اس نے اسے کچھ نہیں دیا تھا۔
اسکول کالج میں مختلف کاموں کے لئے جب فنڈ جمع ہوتے تب بھی وہ ٹکٹس خریدنے یا بیچنے سے صاف انکار کردیتا۔
”میں چیریٹی پر یقین نہیں کرتا۔” اس کی زبان پر روکھے انداز میں صرف ایک ہی جملہ ہوتا تھا۔
”میرے پاس اتنی فالتو رقم نہیں ہے کہ میں ہر جگہ لٹاتا پھروں۔” اس کا یہ رویہ نیوہیون میں بھی جاری رہا تھا۔ یہ سب صرف چیریٹی تک ہی محدود نہیں تھا۔ وہ چیریٹی کے علاوہ بھی کسی کی مدد کرنے پر یقین نہیں رکھتا تھا۔ اسے کوئی ایسا لمحہ یاد نہیں آیا، جب اس نے کسی کی مدد کی ہو، صرف امامہ کی مدد کی تھی اور اس مدد کے بعد اس نے جو کچھ کیا تھا اس کے بعد وہ اسے نیکی نہیں سمجھ سکتا تھا۔ وہ عبادت کرنے کا بھی عادی نہیں تھا۔ شاید بچپن میں اس نے چند بار سکندر کے ساتھ عید کی نماز پڑھی ہو مگر وہ بھی عبادت سے زیادہ ایک رسم تھی۔ اسے نیوہیون میں وہ رات یاد آئی جب وہ عشاء کی نماز ادھوری چھوڑ کر بھاگ آیا تھا اور اس کے ساتھ اسے اسhookerکو دیئے ہوئے٥٠ ڈالر بھی یاد آئے۔ شاید وہ واحد موقع تھا جب اسے کسی پر ترس آیا تھا۔ وہ مستقل اپنے ذہن کو اپنی کسی نیکی کی تلاش میں کھنگا لتا رہا مگر ناکام رہا۔
اور پھر اسے اپنے گناہ یاد آنے لگے۔ کیا تھا جو وہ نہیں کرچکا تھا۔ اس کے آنسو، گڑگڑانا، رونا سب کچھ یک دم ختم ہوگیا۔ حساب کتاب بالکل صاف تھا۔ وہ اگر آج اس حالت میں مرجاتا تو اس کے ساتھ کوئی زیادتی نہ ہوتی۔ بائیس سال کی عمر میں وہاں بیٹھے کئی گھنٹے صرف کرنے پر بھی جس شخص کو اپنی کوئی نیکی یاد نہ آئے جبکہ اس شخص کا آئی کیولیول150 ہو اور اس کی میموری فوٹوگرافک…وہ شخص اللہ سے یہ چاہتا ہوکہ اسے اس کی کسی نیکی کے بدلے اس آزمائش سے رہا کردیا جائے جس میں وہ پھنس گیا ہے۔
”What is next to ecstasy?”
اس نے ٹین ایج میں کوکین پیتے ہوئے ایک بار اپنے دوست سے پوچھا تھا، وہ بھی کوکین لے رہا تھا۔”more ecstasy”۔اس نے کہا تھا۔ اس نے کوکین لیتے ہوئے اسے دیکھا۔
There is no end to ecstasy. It is Preceded by Pleasure and followed by more ecstasy.
وہ نشے کی حالت میں اس سے کہہ رہا تھا۔ سالار مطمئن نہیں ہوا۔
No. it does end. What happens when it ends? when it really ends?
اس کے دوست نے عجیب سی نظروں سے اسے دیکھا
You know it yourself, don’t you have been trhough it off and on.
سالار جواب دینے کے بجائے دوبارہ کوکین لینے لگا تھا۔
اس کلائیوں کے گوشت میں اترتی ڈوری اسے اب جواب دے رہی تھی۔”Pain”(درد)۔
What is next to pain?”۔”
اس نے مضحکہ خیز لہجے میں اس رات امامہ ہاشم سے پوچھا تھا۔
Nothingnees””۔

Loading

Read Previous

پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۴

Read Next

ساتواں سکّہ — فیصل سعید خان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!