پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۵

”کم آن۔” وہ بے اختیار بلبلایا۔ ”پورک یہاں کہاں آگیا، تم مجھے ایک بات بتاؤ۔” سالار اٹھ کر بیٹھ گیا۔ ”تم تو بڑی باقاعدگی سے نماز پڑھتے ہو، بڑی عبادت کرتے ہو، نماز نے تمہاری زندگی میں کون سی تبدیلیاں کردیں؟”
”مجھے بے سکونی نہیں ہے۔”
”حالاں کہ تمہارے فارمولے کے مطابق تمہیں بھی بے سکونی ہونی چاہئے، کیونکہ تم بھی بہت سے غلط کام کرتے ہو۔” سالار نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
”مثلاً … میں کیا غلط کام کرتاہوں؟”
”تم جانتے ہو، میرے دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔”
”میں…میں نہیں جانتا، تم دہراؤ۔” سعد نے جیسے اسے چیلنج کیا۔
سالار اسے کچھ دیر دیکھتا رہا پھر اس نے کہا۔” میں نہیں سمجھتا سعد کہ صرف عبادت کرنے سے زندگی میں کوئی بہت نمایاں تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔ اچھے کاموں یا کردار کا تعلق عبادت کرنے یا نہ کرنے سے نہیں ہوتا۔”
سعد نے اس کی بات کاٹ دی۔” میں اسی لئے تم سے کہتا ہوں کہ اپنے مذہب میں کچھ دلچسپی لو، اسلام کے بارے میں کچھ علم حاصل کرو تاکہ اپنی اس غلط قسم کی فلاسفی اور سوچ کو بدل سکو۔”
”میری سوچ غلط نہیں ہے، میں نے مذہبی لوگوں سے زیادہ جھوٹا، منافق اور دھوکے باز کسی کو نہیں پایا۔ میں امید کرتا ہوں تم برا نہیں مانو گے، مگر میں سچ کہہ رہا ہوں۔ ابھی تک مجھے تین ایسے لوگوں سے واسطہ پڑا جو بہت بڑے مسلمان بنتے ہیں اور اسلام کی بات کرتے ہیں اور تینوںfake(منافق) ہیں۔” وہ بڑی تلخی سے کہہ رہا تھا۔
”سب سے پہلے میں ایک لڑکی سے ملا، وہ بھی بڑی مذہبی بنتی تھی، پردہ کرتی تھی، بڑی پارسا اور پاک باز ہونے کا ڈرامہ کرتی تھی اور ساتھ میں ایک لڑکے کے ساتھ افئیر چلا رہی تھی، اپنے منگیتر کے ہوتے ہوئے اس کے لئے گھر سے بھاگ بھی گئی۔ اسے ضرورت پڑی تو اس نے ایک ایسے شخص کی بھی مدد لی جسے وہ بہت برا سمجھتی تھی یعنی اسے اپنے فائدے کے لئے استعمال کرنے میں کوئی عار نہیں سمجھا، ان محترمہ پارسا خاتون نے۔” اس کے لبوں پر استہزائیہ مسکراہٹ تھی۔
”اس کے بعد میں ایک اور آدمی سے ملا جس نے داڑھی رکھی ہوئی تھی۔ بڑا پکا اور سچا قسم کا مسلمان تھا وہ بھی لیکن اس نے اس لڑکی کی مدد نہیں کی، جس نے اس سے بھیک مانگنے کی حدتک مدد مانگی تھی۔ اس نے اس لڑکی سے شادی نہیں کی جسے وہ محبت کے نام پر بے وقوف بناتا رہا اور ابھی کچھ عرصہ پہلے میں یہاں امریکہ میں اس سے ملا تو اس کی داڑھی بھی غائب ہوچکی تھی، شاید اس کے اسلام کے ساتھ۔” وہ ہنسا۔ ”اور تیسرے تم ہو… تم پورک نہیں کھاتے، صرف یہ ایک حرام کام ہے، جو تم نہیں کرتے، باقی تمہارے لئے سب کچھ جائز ہے۔ جھوٹ بولنا، شراب پینا، زنا کرنا، کلب میں جانا… غیبت کرنا، دوسروں کا مذاق اڑانا، حالانکہ ویسے تم بڑے نیک ہو، تم نے داڑھی رکھی ہوئی ہے، تم ہمارا دماغ کھا جاتے ہو اسلام کی باتیں کرکرکے۔ زبردستی نماز پڑھانے پر تلے رہتے ہو، ہر بات میں مذہب کا حوالہ لے آتے ہو، یہ آیت اور وہ حدیث… وہ آیت اور یہ حدیث… اس کے علاوہ تمہاری زبان پر اور کچھ ہوتا ہی نہیں اور جب میں تمہارا عمل دیکھتا ہوں تو میں ذرّہ بھر بھی تم سے متاثر نہیں ہوتا۔ کتنا مشکل ہوتا ہے۔ تم داڑھی رکھ کر اور اسلام اسلام کرکے وہ سارے کام کرتے ہو جو میں داڑھی کے اور اسلام کی بات کئے بغیر کرتا ہوں۔ عبادت نے کیا انقلاب برپا کیا ہے تمہاری زندگی میں، سوائے اس کے کہ تمہیں ایک خوش فہمی ہوگئی ہے کہ تم تو سیدھے جنت میں جاؤگے اور ہم سارے دوزخ میں۔ تمہارے قول وفعل میں اگر یہ تضادنہ ہو تو میں کبھی تم سے یہ سب نہ کہتا مگر میں تم سے یہ ریکویسٹ کرتا ہوں کہ تم دوسروں کو مذہب کی طرف راغب کرنے کی کوشش نہ کیا کرو، کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ تم خود بھی مذہب کے صحیح مفہوم سے واقف نہیں ہو۔ اب میری ان ساری باتوں کو مائنڈ مت کرنا۔”
سالار اب ٹیبل پر پڑا ایک سگریٹ سلگا رہا تھا۔ سعد تقریباً گونگا ہوگیا تھا۔
”ٹھیک ہے، مجھ سے کچھ غلطیاں ہوجاتی ہیں، مگر اللہ انسان کو معاف کردیتا ہے اور میں نے کبھی یہ تو نہیں کہا کہ میں بہت ہی اچھا مسلمان ہوں اور میں ضرور جنت میں جاؤں گا لیکن میں اگر ایک اچھا کام کرتا ہوں اور دوسروں کو اس کی ہدایت کرتا ہوں تو یہ اللہ کی طرف سے مجھ پر فرض ہے۔”
سعد نے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد اس سے کہا۔
”سعد! تم خوا مخواہ دوسروں کی ذمہ داری اپنے سرپر مت لو، پہلے اپنے آپ کو ٹھیک کرو، پھر دوسروں کو ٹھیک کرنے کی کوشش کرو تاکہ کوئی تمہیں منافق نہ کہہ سکے اور جہاں تک اللہ کے معاف کردینے کا تعلق ہے تو اگر تمہارا یہ خیال ہے کہ وہ تمہاری غلطیوں کو معاف کرسکتا ہے تو پھر وہ ہمیں بھی معاف کرسکتا ہے۔ ہمارے گناہوں کے لئے تم اگر یہ سمجھتے ہوکہ لوگوں کو اسلام کی طرف راغب کرنے سے تمہاری نیکیوں میں اضافہ ہوگا اور تم اپنے گناہوں سمیت اللہ کے قریب ہوجاؤگے تو ایسا نہیں ہوگا۔ بہتر ہے تم اپنا ٹریک ریکارڈ ٹھیک کرو، صرف اپنے آپ کو دیکھو، دوسروں کو نیک بنانے کی کوشش نہ کرو، ہمیں برا ہی رہنے دو۔”
اس نے ترشی سے کہا۔ اس لمحے اس کے دل میں جو آیا اس نے سعد سے کہہ دیا تھا۔ جب وہ خاموش ہوا تو سعد اٹھ کر چلا گیا۔
اس دن کے بعد اس نے دوبارہ کبھی سالار کے سامنے اسلام کی بات نہیں کی۔
٭…٭…٭




وہ اس ویک اینڈ پر بہت دنوں کے بعد کسی ریسٹورنٹ گیا تھا۔ اپنا آرڈرویٹر کو نوٹ کروانے کے بعد وہ ریسٹورنٹ کے شیشوں سے باہر سڑک کو دیکھنے لگا۔ وہ جس میز پر بیٹھا تھا وہ کھڑکی کے قریب تھی اور قد آدم کھڑکیوں کے شیشوں کے پاس بیٹھ کر اسے یونہی محسوس ہورہا تھا جیسے وہ باہر فٹ پاتھ پر بیٹھا ہوا تھا۔
کسی لڑکی کی سسکیوں نے اس کی محویت کو توڑا تھا، اس نے بے اختیار مڑکر دیکھا، اس سے پچھلی میز پر ایک لڑکا اور لڑکی بیٹھے ہوئے تھے۔ لڑکی کسی بات پر روتے ہوئے سسکیاں لے رہی تھی اور ٹشو کے ساتھ اپنے آنسو پونچھ رہی تھی۔ لڑکا اس کے ہاتھ کو تھپتھپاتے ہوئے شاید اسے تسلی دے رہا تھا۔ ریسٹورنٹ اتنا چھوٹا اور ٹیبلز اتنی قریب قریب تھیں کہ وہ بڑی آسانی سے ان کی گفتگو سن سکتا تھا مگر وہ وہاں اس کام کے لئے نہیں آیا تھا، وہ سیدھا ہوگیا۔ ناگواری کی ایک لہر سی اس کے اندر سے اٹھی تھی۔ اسے اس طرح کے تماشے اچھے نہیں لگتے تھے۔ اس کا موڈ خراب ہورہا تھا، وہ وہاں سکون سے کچھ وقت گزارنے آیا تھا اور یہ سب کچھ۔ اس کا دل اچاٹ ہونے لگا۔ وہ دونوں رشین تھے اور اسی زبان میں ایک دوسرے سے باتیں کررہے تھے۔ وہ ایک بار پھر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا مگر غیر محسوس طورپر اس کی سماعتیں ابھی بھی ان ہی سسکیوں کی طرف مرکوز تھیں۔ اس نے کچھ دیر بعد مڑکر ایک بارپھر اس لڑکی کو دیکھا۔ اس بار اس کے مڑنے پر لڑکی نے بھی نظریں اٹھاکر اسے دیکھا۔ چند لمحوں کے لئے ان دونوں کی نظریں ملی تھیں اور وہ چند لمحے اس پر بہت بھاری گزرے تھے۔ اس کی آنکھیں متورم اور سرخ ہو رہی تھیں۔ اسے یک دم ایک اور چہرہ یا د آیا۔ امامہ ہاشم کا چہرہ، اس کی متورم آنکھیں۔
ویٹر اس کا آرڈر لے کر آچکا تھا اور وہ اسے سرو کرنے لگا۔ اس نے پانی کے چند گھونٹ پیتے ہوئے اپنے ذہن سے اس چہرے کو جھٹکنے کی کوشش کی۔ اس نے چند گہرے سانس لئے۔ ویٹر نے اپنا کام کرتے کرتے اسے غور سے دیکھا مگر سالار کھڑکی سے باہر دیکھنے میں مصروف تھا۔
”آج موسم بہت اچھا ہے اور میں یہاں اچھے لمحے گزارنے آیا ہوں، ایک اچھا کھانا کھانے آیا ہوں، اس کے بعد میں یہاں سے ایک فلم دیکھنے جاؤں گا، مجھے اس لڑکی کے بارے میں نہیں سوچنا چاہئے، کسی بھی طرح نہیں۔ وہ پاگل تھی، وہ بکواس کرتی تھی اور مجھے اس کے حوالے سے کسی قسم کا کوئی پچھتاوا نہیں ہونا چاہئے۔ مجھے کیا پتا وہ کہاں گئی، کہاں مری، یہ سب اس نے خود کیا تھا۔ میں نے صرف مذاق کیا تھا اس کے ساتھ۔ وہ مجھ سے رابطہ کرتی تو میں اسے طلاق دے دیتا۔”
لاشعوری طورپر خود کو سمجھاتے سمجھاتے ایک بار پھر اس کا پچھتاوا س کے سامنے آنے لگا تھا۔ پیچھے بیٹھی ہوئی لڑکی کی سسکیاں اب اس کے دماغ میں نیزے کی انی کی طرح چبھ رہی تھیں۔
”میں اپنی ٹیبل تبدیل کرنا چاہتا ہوں۔” اس نے بہت کھردرے انداز میں ویٹر کو مخاطب کیا۔ ویٹر حیران ہوگیا۔
”کس لیے سر؟”
”یا تو ان دونوں کی ٹیبل تبدیل کردو یا میری۔”
اس نے ہاتھ کے اشارے سے کہا۔ ویٹر نے ایک نظر اس جوڑے کو دیکھا پھر وہ سالار کا مسئلہ سمجھا یا نہیں مگر اس نے کونے میں لگی ہوئی ایک ٹیبل پر سالار کو بٹھادیا۔ سالار کو چند لمحوں کے لئے وہاں آکر واقعی سکون ملا تھا۔ سسکیوں کی آواز اب وہاں نہیں آرہی تھی مگر اب اس لڑکی کا چہرہ اس کے بالکل سامنے تھا۔ چاولوں کا پہلا چمچ منہ میں ڈالتے ہی اس کی نظر اس لڑکی پر دوبارہ پڑی۔
وہ ایک بار پھر بدمزہ ہوگیا اسے ہر چیز یک دم بے ذائقہ لگنے لگی تھی۔ یہ یقینا اس کی ذہنی کیفیت تھی، ورنہ وہاں کا کھانا بہت اچھا ہوتا تھا۔
”انسان نعمتوں کا شکرادا کر ہی نہیں سکتا۔ یہ میری زبان پر ذائقہ چکھنے کی حس ہے، یہ کتنی بڑی نعمت ہے کہ میں اگر کوئی چیز کھاتی ہوں تو میں اس کا ذائقہ محسوس کرسکتی ہوں۔ اچھا کھانا کھاکر خوشی محسوس کرسکتی ہوں۔ بہت سے لوگ اس نعمت سے بھی محروم ہوتے ہیں۔”
اس کے کانوں میں ایک آواز گونجی تھی اور یہ شاید انتہا ثابت ہوئی۔ وہ کسی آتش فشاں کی طرح پھٹ پڑا۔ اس نے پوری قوت سے چمچ اپنی پلیٹ میں پٹخا اور بلند آواز میں دھاڑا۔
”شٹ اپ، جسٹ شٹ اپ۔” ریسٹورنٹ میں یک دم خاموشی چھاگئی۔
”یو بچ… یو باسٹرڈ، جسٹ شپ اپ۔” وہ اب اپنی سیٹ سے کھڑا ہوگیا تھا۔ اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔
”تم میرے ذہن سے نکل کیوں نہیں جاتیں؟”
دونوں کنپٹیوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے وہ چلایا۔
”میں تمہیں مار ڈالوں گا، اگر تم مجھے دوبارہ نظر آئیں۔”
وہ ایک بار پھر چلایا اور پھر اس نے پانی کا گلاس اٹھاکر پانی پیا اور اس وقت پہلی بار اسے ریسٹورنٹ میں بیٹھے ہوئے لوگوں، ان کی نظروں کا احساس ہوا، وہ سب اسے دیکھ رہے تھے۔ ایک ویٹر اس کی طرف آرہا تھا، اس کے چہرے پر تشویش تھی۔
”آپ کی طبیعت ٹھیک ہے سر!”
سالار نے کچھ بھی کہے بغیر اپنا والٹ نکالا اور چند کرنسی نوٹ ٹیبل پر رکھ دئیے۔ ایک لفظ بھی مزید کہے بغیر وہ ریسٹورنٹ سے نکل گیا۔
وہ امامہ نہیں تھی، ایک بھوت تھا جو اسے چمٹ گیا تھا۔ وہ جہاں جاتا وہ وہاں ہوتی۔ کہیں اس کا چہرہ، کہیں اس کی آواز اور جہاں یہ دونوں چیزیں نہ ہوتیں وہاں سالار کا پچھتاوا ہوتا۔ وہ ایک چیزبھولنے کی کوشش کرتا تو دوسری چیز اس کے سامنے آکر کھڑی ہوجاتی، بعض دفعہ وہ اتنا مشتعل ہوجاتا کہ اس کا دل چاہتا وہ اسے دوبارہ ملے تو وہ اس کا گلا دبادے یا اسے شوٹ کردے۔ اسے اس کی ہر بات سے نفرت تھی۔ اس رات اس کے ساتھ سفر میں گزارے ہوئے چند گھنٹے اس کی پوری زندگی کو تباہ کررہے تھے۔
٭…٭…٭
”مگر آپ کیوں آرہے ہیں؟” سالارنے جھنجھلا کر اپنے سب سے بڑے بھائی سے پوچھا۔ وہ دونوں فون پر بات کررہے تھے اور اس نے سالار کو چند دنوں بعد نیوہیون آنے کی اطلاع دی تھی۔ سالار اس وقت روٹین کی زندگی گزاررہا ہوتا تو وہ اس اطلاع پر یقینا خوش ہوتا مگر وہ اس وقت ذہنی ابتری کے جس دور سے گزر رہا تھا اس میں کامران کا آنا اسے بے حد ناگوار گزر رہا تھا اور وہ یہ ناگواری چھپا بھی نہیں سکا۔
”کیا مطلب ہے تمہارا، کیوں آرہے ہیں تم سے ملنے کے لئے آرہا ہوں۔” کامران اس کے لہجے پر کچھ حیران ہوا۔” اور پاپا نے بھی کہا ہے کہ میں تم سے ملنے کے لئے جاؤں۔” وہ ہونٹ بھینچے اس کی بات سنتا رہا۔
”تم مجھے ائیرپورٹ سے پک کرلینا، میں تمہیں ایک دن پہلے اپنی فلائٹ کی ٹائمنگ کے بارے میں بتادوں گا۔”
کچھ دیر ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہنے کے بعد اس نے فون بند کردیا۔
چار دن کے بعد اس نے کامران کو ائیرپورٹ سے ریسیو کیا۔ وہ سالار کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔
”تم بیمار ہو؟” اس نے چھوٹتے ہی سالار سے پوچھا۔
”نہیں، میں بالکل ٹھیک ہوں۔” سالار نے مسکرانے کی کوشش کی۔
”لگ تو نہیں رہے ہو۔” کامران کی تشویش میں کچھ اور اضافہ ہونے لگا۔ وہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کیا کرتا تھا، آج خلاف معمول وہ آنکھیں چرا رہا تھا۔
گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے بھی وہ بہت غور سے سالار کو دیکھتا رہا۔ وہ بے حد احتیاط سے ڈرائیو کررہا تھا۔ کامران کو حیرانی ہوئی تھی وہ اس قدر ریش ڈرائیو کرتا تھا کہ اس کے ساتھ بیٹھتے ہوئے بڑے سے بڑا جی دار آدمی ڈرتا تھا۔ کامران کو یہ ایک مثبت تبدیلی لگی تھی مگر یہ واحد مثبت تبدیلی تھی جو اس نے محسوس کی تھی۔ باقی تبدیلیاں اس کو پریشان کررہی تھیں۔
”اسٹڈیز کیسی جارہی ہیں تمہاری؟”
”ٹھیک ہیں۔”
اسے سفر کے دوران بھی اسی طرح کے جواب ملتے رہے تھے۔ یہ اس کے اپارٹمنٹ کی حالت تھی جس نے کامران کے اضطراب کو اتنا بڑھایا تھا کہ وہ کچھ مشتعل ہوگیا تھا۔
”یہ تمہارا اپارٹمنٹ ہے سالار… مائی گاڈ۔” سالار کے پیچھے اس کے اپارٹمنٹ میں داخل ہوتے ہی وہ چلا اٹھا تھا۔ سالار اپنی چیزوں کو جس طرح منظم رکھنے کا عادی تھا وہ نظم وضبط وہاں نظر نہیں آرہا تھا۔ وہاں ہر چیز ابتر حالت میں نظر آرہی تھی۔ جگہ جگہ اس کے کپڑے، جرابیں اور جوتے بکھرے پڑے تھے۔ کتابوں، اخباروں اور میگزینز کا بھی یہی حال تھا۔ کچن کی حالت سب سے بری تھی اور باتھ روم کی اس سے بھی زیادہ۔ کامران نے کچھ شاک کی حالت میں پورے اپارٹمنٹ کا جائزہ لیا۔
”کتنے ماہ سے تم نے صفائی نہیں کی ہے۔؟”
”میں ابھی کردیتا ہوں۔” سالار نے سرد مہری کے عالم میں چیزیں اٹھاتے ہوئے کہا۔
”تم اس طرح رہنے کے عادی تو نہیں تھے اب کیا ہوا ہے؟” کامران بہت پریشان تھا۔ کامران نے اچانک ایک میز پر سگریٹ کے ٹکڑوں سے بھری ایش ٹرے کے پاس جاکر سگریٹ کے ٹکڑوں کو سونگھنا شروع کردیا۔ سالارنے چبھتی ہوئی تیز نظروں سے اپنے بڑے بھائی کو دیکھا مگر کچھ کہا نہیں۔ کامران نے چند لمحوں کے بعد وہ ایش ٹرے نیچے پٹخ دیا۔
Salar!what are you upto this time?
”مجھے صاف صاف بتاؤ، مسئلہ کیا ہے۔ ڈرگز استعمال کررہے ہو تم؟”
”نہیں، میں کچھ استعمال نہیں کررہا۔” اس کے جواب نے کامران کو خاصا مشتعل کردیا۔ وہ اسے کندھے سے پکڑ کر تقریباً کھینچتے ہوئے باتھ روم کے آئینے کے سامنے لے آیا۔
”شکل دیکھو اپنی، ڈرگ ایڈکٹ والی شکل ہے یا نہیں اور حرکتیں تو بالکل ویسی ہی ہیں۔ دیکھو، نظریں اٹھاؤ اپنی، چہرہ دیکھو اپنا۔”
وہ اسے اب کالر سے کھینچتے ہوئے کہہ رہا تھا۔ سالار آئینے میں اپنے آپ کو دیکھے بغیر بھی جانتا تھا کہ وہ اس وقت کیسا نظر آرہا ہوگا۔ گہرے حلقوں اور بڑھی ہوئی شیوکے ساتھ وہ کیسا نظر آسکتا تھا۔ رہی سہی کسر ان مہاسوں اور ہونٹوں پر جمی ہوئی پپڑیوں نے پوری کردی تھی جو بے تحاشا کافی اور سگریٹ پینے کا نتیجہ تھے۔ مہاسوں کی وجہ سے اس نے روز شیو کرنی بند کردی تھی۔ کچھ ناراضی کے عالم میں اس نے کامران سے اپنا کالر چھڑایا اور آئینے پر نظریں دوڑائے بغیر باتھ روم سے نکلنے کی کوشش کی۔
لعنت وہ لفظ تھا جو کامران اکثر استعمال کیا کرتا تھا سالار نے پہلے کبھی اس لفظ کو محسوس نہیں کیا تھا مگر اس وقت کامران کے منہ سے یہی جملہ سن کر وہ جیسے بھڑک اٹھا تھا۔
”ہاں، لعنت برس رہی ہے میری شکل پر تو؟” وہ قدرے بپھرے ہوئے انداز میں کامران کے سامنے تن کر کھڑا ہوگیا۔
”جب میں کہہ رہا ہوں کہ میں ڈرگز نہیں لے رہا تو میں نہیں لے رہا۔ آپ کو میرا یقین کرنا چاہئے۔”
”تم پر یقین۔۔۔۔”
کامران نے طنزیہ لہجے میں اس کے پیچھے باتھ روم سے باہر آتے ہوئے کہا۔ اس نے ہونٹ بھینچ لئے اور کمرے کی چیزیں سمیٹنے کا کام جاری رکھا۔
”یونیورسٹی جارہے ہو تم؟” کامران کو اچانک ایک اور اندیشہ ہوا۔
”جارہا ہوں۔” وہ چیزیں اٹھاتا رہا، کامران کو تسلی نہیں ہوئی۔
”میرے ساتھ ہاسپٹل چلو، میں تمہارا چیک اپ کروانا چاہتا ہوں۔”
”اگر آپ یہ سب کرنے آئے ہیں تو بہتر ہے واپس چلے جائیں میں کوئی کنڈر گارٹن کا بچہ نہیں ہوں۔ میں اپنا خیال رکھ سکتا ہوں۔” کامران نے اس بار کچھ کہنے کے بجائے اس کے ساتھ مل کر چیزیں اٹھانی شروع کردیں۔ سالار نے اطمینان کا سانس لیا۔ اس کا خیال تھا کہ اب وہ اس معاملے پر دوبارہ بحث نہیں کرے گا مگر اس کا یہ اندازہ غلط تھا۔ کامران نے اس کے پاس اپنے قیام کو لمبا کردیا۔ دوتین دن کے بجائے وہ پورا ایک ہفتہ وہاں رہا۔ سالار اس کے قیام کے دوران باقاعدگی سے یونیورسٹی جاتا رہا مگر کامران اس دوران اس کے دوستوں اور یونیورسٹی کے پروفیسرز سے ملتا رہا۔ سمسٹر میں فیل ہونے کی خبر بھی اسے سالار کے دوستوں سے ہی ملی تھی اور کامران کے لئے یہ ایک شاک تھا۔ سالار سے کچھ بھی توقع کی جاسکتی تھی، مگر سمسٹر میں فیل ہونا اور وہ بھی اس بری طرح سے جبکہ وہ کچھ عرصہ پہلے تک یونیورسٹی کے پچھلے ریکارڈ بریک کرتے ہوئے ٹاپ کررہا تھا۔
اس بار اس نے سالار سے اس معاملے کو ڈسکس نہیں کیا بلکہ پاکستان سکندر عثمان کو فون کرکے اس سارے معاملے سے آگاہ کردیا۔ سکندر عثمان کے پیروں تلے سے ایک بار پھر زمین نکل گئی تھی۔
سالار نے اپنا سابقہ ریکارڈ برقرار رکھا تھا۔ وہ ایک ڈیڑھ سال کے بعدان کے لئے کوئی نہ کوئی نیا مسئلہ کھڑا کرتا رہتا تھا اور ہاشم مبین والے معاملے کو بھی اتنا ہی عرصہ ہونے والا تھا۔
”آپ ابھی اس سے اس معاملے پر بات نہ کریں۔ یونیورسٹی میں کچھ چھٹیاں ہونے والی ہیں، آپ اسے پاکستان بلالیں، کچھ عرصے کے لئے وہاں رکھیں پھر ممی سے کہیں کہ وہ اس کے ساتھ واپسی پر یہاں آجائیں اور جب تک اس کی تعلیم ختم نہیں ہوتی اس کے ساتھ رہیں۔” کامران نے سکندر عثمان کو سمجھایا۔
سکندر نے اس بار ایسا ہی کیا تھا۔ وہ بتائے بغیر چھٹیاں شروع ہونے سے پہلے نیوہیون پہنچ گئے۔
اس کا حلیہ دیکھ کر سکندر عثمان کے پیٹ میں گرہیں پڑنے لگی تھیں مگر انہوں نے کامران کی طرح اس سے بحث نہیں کی۔ انہوں نے اسے اپنے ساتھ پاکستان چلنے کے لئے کہا۔ اس کے احتجاج اور تعلیمی مصروفیات کے بہانے کو نظر انداز کرتے ہوئے انہوں نے زبردستی اس کی سیٹ بک کروادی اور اسے پاکستان لے آئے۔
٭…٭…٭
وہ رات ایک بجے پاکستان پہنچے۔ سکندر اور طیبہ سونے کے لئے چلے گئے۔ وہ اپنے کمرے میں آگیا۔ وہ تقریباً ڈیڑھ سال کے بعد اپنے کمرے کو دیکھ رہا تھا۔ سب کچھ ویسا ہی تھا جیسے وہ چھوڑکر گیا تھا۔ کپڑے تبدیل کرنے کے بعد وہ لائٹ آف کرکے اپنے بیڈپر لیٹ گیا۔ وہ فلائٹ کے دوران سوتا رہا تھا، اس لئے اس وقت اسے نیند محسوس ہورہی تھی۔ شاید یہ جغرافیائی تبدیلی تھی جس کی وجہ سے وہ سونہیں پارہا تھا۔
”میں واقعی آہستہ آہستہ بے خوابی کا شکار ہوجاؤں گا۔”
اس نے تاریکی میں کمرے کی چھت کو گھورتے ہوئے کہا۔ کچھ دیر اسی طرح بیڈپر کروٹیں بدلتے رہنے کے بعد وہ اٹھ بیٹھا۔ کمرے کی کھڑکیوں کی طرف جاتے ہوئے اس نے پردوں کو ہٹادیا۔ اس کی کھڑکیوں کے پار وسیع سائیڈ لان کے دوسری طرف ہاشم مبین کا گھر نظر آرہا تھا۔ اس نے اتنے سالوں اس کھڑکی کے پردے آگے پیچھے کرتے کبھی ہاشم مبین کے گھر پر غور نہیں کیا تھا، مگر اس وقت وہ بہت دیر تک تاریکی میں اس گھر کے اوپر والے فلور کی لائٹس میں نظر آنے والی اس عمارت کو دیکھتا رہا۔ بہت ساری باتیں اسے یک دم یاد آنے لگی تھیں۔ اس نے پردے ایک بار پھر برابر کردئیے۔
”وسیم کے گھر والوں کو امامہ کا پتا چلا؟”
اس نے اگلے دن ناصرہ کو بلا کر پوچھا۔ ناصرہ نے اسے کچھ عجیب سی نظروں سے دیکھا۔
”نہیں جی، کہاں پتا چلا۔ انہوں نے تو ایک ایک جگہ چھان ماری ہے، مگر کہیں سے کچھ پتا نہیں چلا۔ انہیں شک ابھی بھی آپ پر ہی ہے۔ سلمیٰ بی بی تو بہت گالیاں دیتی ہیں آپ کو۔” سالار اسے دیکھتا رہا۔
”گھر کے نوکروں سے بھی پولیس نے بڑی پوچھ گچھ کی تھی مگر میں نے تو مجال ہے ذرا بھی کچھ بتایا ہو۔ انہوں نے مجھے کام سے بھی نکال دیا تھا۔ مجھے بھی، میری بیٹی کو بھی پھر بعد میں دوبارہ رکھ لیا۔ آپ کے بارے میں مجھ سے پوچھتے رہتے ہیں۔ شاید رکھا بھی ان لوگوں نے دوبارہ اسی لئے ہے کہ یہاں کی خبریں میں وہاں دیتی رہوں۔ میں بھی آئیں بائیں شائیں کرکے ٹال دیتی ہوں۔” وہ بات کو کہاں سے کہاں لے کر جارہی تھی۔
سالار نے فوراً مداخلت کی۔” پولیس ابھی بھی ڈھونڈ رہی ہے؟”
”ہاں جی! ابھی بھی تلاش کررہے ہیں۔ مجھے زیادہ تو پتا نہیں، وہ لوگ ہر چیز چھپاتے ہیں نوکروں سے۔ امامہ بی بی کی بات بھی نہیں کرتے ہمارے سامنے مگر پھر بھی کبھی کبھار کوئی اڑتی اڑتی خبر مل جاتی ہے ہمیں۔ سالار صاحب! کیا آپ کو بھی امامہ بی بی کا پتا نہیں ہے۔”
ناصرہ نے بات کرتے کرتے اچانک اس سے پوچھا۔
”مجھے کیسے پتا ہوسکتا ہے؟” سالار نے ناصرہ کو گھورا۔
”ایسے ہی پوچھ رہی ہوں جی! آپ کے ساتھ ان کی دوستی تھی، اس لئے میں نے سوچا شاید آپ کو پتا ہو۔ وہ جو ایک بار آپ نے میرے ہاتھ کچھ کاغذ بھجوائے تھے، وہ کس لئے تھے؟” اس کا تجسّس اب تشویشناک حدتک بڑھ چکا تھا۔
”اس گھر کے کاغذات تھے، میں نے یہ گھر اس کے نام کردیا تھا۔”ناصرہ کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا پھر وہ کچھ سنبھلی۔
”پرجی! یہ گھر تو سکندر صاحب کے نام پر ہے۔”
”ہاں! مگر یہ مجھے تب پتا نہیں تھا۔ یہ بات تم نے ان لوگوں کو بتائی ہے کہ تم یہاں سے کوئی کاغذ لے کر اس کے پاس گئی تھیں۔” ناصرہ نے کانوں کو ہاتھ لگائے۔
”توبہ کریں جی! میں نے کیوں بتانا تھا۔ میں نے تو سکندر صاحب کو نہیں بتایا۔”
” اور یہ ہی بہتر ہے کہ تم اپنا منہ اسی طرح ہمیشہ کے لئے بند رکھو، اگر یہ بات ان کو پتا چلی تو پاپا تمہیں سامان سمیٹ اٹھاکر گھر سے باہر پھینک دیں گے۔ تم ان کے غصے کو جانتی ہو۔ جاؤ اب یہاں سے۔” سالار نے ترشی سے کہا۔ ناصرہ خاموشی سے اس کے کمرے سے نکل گئی۔
٭…٭…٭




Loading

Read Previous

پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۴

Read Next

ساتواں سکّہ — فیصل سعید خان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!