”تم میرے ساتھ چلوگے یا میں تمہارے ساتھ۔” وہ اب بڑی بے تکلفی سے اس سے پوچھ رہی تھی۔
”نہ میں تمہارے ساتھ چلوں گا، نہ تم میرے ساتھ۔ بس تم یہاں سے جاؤ۔” سالار نے ایک بار پھر سڑک کے دوسری طرف موجود دکانوں پر نظر جماتے ہوئے کہا۔
وہ عورت بے یقینی سے اسے دیکھتی رہی۔
”واقعی؟”
”ہاں۔” سالار نے بے تاثر لہجے میں کہا۔
”تو پھر تم نے یہ کیوں دیئے ہیں؟” اس عورت نے اپنے ہاتھ میں پکڑے نوٹوں کی طرف اشارہ کیا۔
”تاکہ تم میرے سامنے سے ہٹ جاؤ، میں سڑک کے اس پار دکانیں دیکھنا چاہتا ہوں اور تم اس میں رکاوٹ بن گئی ہو۔” اس نے سرد مہری سے کہا۔
عورت بے اختیارقہقہہ لگا کر ہنسی۔” تم اچھا مذاق کرلیتے ہو، کیا میں واقعی چلی جاؤں؟”
”ہاں۔”
وہ عورت کچھ دیر اسے دیکھتی رہے۔” اوکے، تھینک یو ہنی۔” سالار نے اسے مڑکر سڑک پار کرتے ہوئے دیکھا۔ وہ لاشعوری طورپر اسے جاتا دیکھتا رہا۔ وہ سڑک پار کرکے ایک دوسرے کونے کی طرف جارہی تھی، وہاں ایک اور آدمی کھڑا تھا۔
سالار نے دوبارہ نظریں ان دکانوں پر جمالیں، برف باری ایک بار پھر شروع ہوچکی تھی۔ وہ پھر بھی اطمینان سے وہیں بیٹھا رہا۔ برف اب اس کے اوپر بھی گررہی تھی۔
وہ رات کے ڈھائی بجے تک وہیں بیٹھا رہا جب سڑک کے پار دکانوں کی اندر کی لائٹس اس نے یکے بعد دیگرے بند ہوتے دیکھیں تو وہ اپنی جیکٹ اور جینز سے برف جھاڑتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا۔ اگر وقفے وقفے سے وہ اپنی ٹانگیں ہلان ہ رہا ہوتا تو اس وقت تک وہ اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے قابل نہیں رہ سکتا تھا۔ اس کے باوجود کھڑا ہوکر قدم اٹھانے میں اسے کچھ دقت ہوئی۔ چند منٹ وہیں کھڑا وہ اپنے پیروں کو جھٹکتا رہا اور پھر اسی طرح جیکٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈال کر واپس اپارٹمنٹ کی طرف جانے لگا۔ وہ جانتا تھا سعد نے اسے مسجد سے نکل کر بہت زیادہ ڈھونڈا ہوگا اور اس کے بعد وہ واپس چلاگیا ہوگا۔
٭…٭…٭
”کہاں چلے گئے تھے تم؟” سعد اسے دیکھتے ہی چلایا۔ وہ کچھ کہے بغیر اندر چلا آیا۔
”میں تم سے کچھ پوچھ رہا ہوں۔” سعد دروازہ بند کرکے اس کے پیچھے آگیا۔ سالار اپنی جیکٹ اتار رہا تھا۔
”کہیں نہیں گیا تھا۔” اس نے جیکٹ لٹکاتے ہوئے کہا۔
”تمہیں پتا ہے کہ میں نے تمہیں کتنا تلاش کیا ہے، کہاں کہاں فون کئے ہیں اور اب تو میں اتنا پریشان ہوچکا تھا کہ پولیس کو فون کرنے والا تھا… تم آخر اس طرح نماز چھوڑ کر گئے کہاں تھے؟”
سالار کچھ کہے بغیر اپنے جاگرز اتارنے لگا۔
”میں نے تمہیں بتایا ہے، کہیں نہیں۔”
”تو پھر اب تک کہاں تھے؟” سعد اس کے سامنے آکر کھڑا ہوگیا۔
”وہیں تھا، مسجد کے پچھلے حصے میں فٹ پاتھ پر۔” اس نے اطمینان سے کہا۔
”واٹ! اتنے گھنٹے تم وہاں فٹ پاتھ پر برف میں بیٹھے رہے ہو۔” سعد دم بخودرہ گیا۔
”ہاں!”
”کوئی تک بنتی ہے اس حرکت کی۔” وہ کچھ جھلایا۔
”نہیں، کوئی تک نہیں بنتی۔” سالار نے اسی طرح سیدھا بیڈ پر لیٹتے ہوئے کہا۔
”کچھ کھایا ہے؟”
”نہیں۔”
”تو کھانا کھالو۔”
”نہیں، بھوک نہیں ہے۔” وہ اب چھت پر نظریں جمائے ہوئے تھا۔ سعد اس کے قریب بیڈ پر بیٹھ گیا۔
”تمہارے ساتھ آخر مسئلہ کیا ہے؟ بتاسکتے ہو مجھے۔” سالار نے گردن کو ہلکی سی حرکت دے کر اسے دیکھا۔
”کوئی مسئلہ نہیں ہے۔” بے تاثر لہجے میں کہا گیا۔”میں سمجھا، تم اپنے اپارٹمنٹ چلے گئے ہو، مگر وہاں باربار رنگ کرنے پر بھی تم نہ ملے۔” سعد بڑبڑا رہا تھا۔ سالار کی نظریں چھت پر ہی تھیں۔
”اس سے بہتر تھا کہ میں تمہیں اپنے ساتھ نماز پڑھنے لے کر ہی نہ جاتا۔ آئندہ میرے ساتھ مت جانا تم۔” سعد نے ناراضی سے کہا۔ وہ اب اس کے بیڈ سے اٹھ گیا تھا۔ کچھ دیر تک وہ اپنے کام بنٹاتا رہا پھر وہ نائٹ بلب آن کرکے اپنے بیڈ پر لیٹ گیا۔ اس نے ابھی آنکھیں بند کی تھیں، جب اس نے سالار کی آواز سنی۔
”سعد!”
”ہاں!” اس نے آنکھیں کھول دیں۔
”یہ ”صراط مستقیم” کیا ہوتا ہے؟”
سادہ لہجے میں پوچھے گئے سوال نے سعد کو حیران کردیا۔ اس نے گردن موڑ کر بائیں جانب بیڈ پر سیدھا لیٹے ہوئے سالار کو دیکھا۔
”صراط مستقیم… سیدھے راستے کو کہتے ہیں۔”
”جانتا ہوں مگر سیدھا راستہ کیا ہوتا ہے؟” اگلا سوال آیا۔
سعد نے اس کی طرف کروٹ لے لی۔” سیدھا رستہ… مطلب نیکی کا رستہ…”
”نیکی کیا ہوتی ہے؟”لہجہ ابھی بے تاثر تھا۔
”اچھے کام کو نیکی کہتے ہیں۔”
”اچھا کام کیا ہوتا ہے؟”
”اچھا کام… کوئی ایسا کام جو کسی دوسرے کے لئے کیا گیا ہو۔ کسی کی مدد کی گئی ہو، کسی پر مہربانی کی گئی ہو، وہ اچھا کام ہوتا ہے اور ہر اچھا کام نیکی ہوتی ہے۔”
”ابھی کچھ گھنٹے پہلے میں نے وہاں فٹ پاتھ پر ایک hooker کو پچاس ڈالر دئیے، جبکہ وہ صرف تیس ڈالر مانگ رہی تھی۔ اس کا مطلب ہے یہ نیکی ہوئی؟”
سعد کا دل چاہا وہ ایک گھونسا اس کے منہ پر کھینچ مارے، وہ عجیب آدمی تھا۔
”بکواس بند کرو اور سوجاؤ، مجھے بھی سونے دو۔” اس نے کمبل لپیٹ لیا۔
سالار کو حیرت ہوئی، وہ کس بات پر ناراض ہوا تھا۔” تویہ نیکی نہیں ہوئی؟”
”میں نے تم سے کہا ہے، اپنا منہ بند کرو اور سوجاؤ۔” سعد ایک بار پھر دھاڑا۔
”اتنا ناراض ہونے کی ضرورت تو نہیں ہے، میں نے تم سے ایک بہت معمولی سا سوال کیا ہے۔”
سالار نے بڑے تحمل سے کہا۔
سعد یک دم کچھ مشتعل ہوتے ہوئے اٹھ کر بیڈ پر بیٹھ گیا۔ اس نے لیمپ آن کردیا۔
”تمہارے جیسے آدمی کو میں کیا صراطِ مستقیم سمجھاؤں۔ کیا تم پاگل ہویا جاہل ہو… یا غیر مسلم ہو… کیا ہو… کچھ بھی نہیں ہو… تمہیں خود پتا ہونا چاہئے کہ صراطِ مستقیم کیا ہوتا ہے مگر تم جیسا آدمی جو مسجد میں نماز پڑھتے ہوئے نماز درمیان میں چھوڑ کر چلا آتا ہے، وہ کیسے جان سکتا ہے یہ۔”
”میں نماز اس لئے چھوڑ کر چلا آیا کیونکہ تم کہتے ہو اس میں سکون ملے گا۔ مجھے سکون نہیں ملا، میں چھوڑ آیا۔” اس کے پر سکون انداز میں کہے ہوئے جملے نے سعد کو مزید مشتعل کیا۔
”تمہیں نماز میں اس لئے سکون نہیں ملا، کیونکہ مسجد تمہاری جگہ نہیں ہے، تمہارے لئے سکون کی جگہیں سنیما، تھیڑ، بار اور کلب ہیں۔ مسجد تمہارے لئے نہیں ہے۔ تمہیں نماز میں سکون کہاں سے مل جاتا… اور تم چاہتے ہو، میں تمہیں بتاؤں صراطِ مستقیم کیا ہوتا ہے۔”
وہ بیڈ پر سیدھا لیٹا پلکیں جھپکائے بغیر سعد کو دیکھتا رہا۔
”تمہارے جیسا شخص جو نماز سے بھاگ جاتا ہے، شراب پیتا اور زنا کرتا ہے۔ وہ صراطِ مستقیم کے مطلب کو سمجھ سکتا ہے نہ اس پر آسکتا ہے۔”
”تمہارا مطلب ہے جو شراب پیتے اور زنا کرتے ہیں مگر نماز سے بھاگتے نہیں، نماز بھی پڑھ لیتے ہیں، وہ صراطِ مستقیم کا مطلب سمجھتے ہیں اور صراطِ مستقیم پر ہیں۔”
سعد کچھ بول نہیں سکا۔ مدھم آواز اور بے تاثر لہجے میں کئے گئے ایک ہی سوال نے اسے خاموش کردیا تھا۔ سالار اب بھی اسی طرح اسے دیکھ رہا تھا۔
”تم ان چیزوں کو نہیں سمجھ سکتے سالار!” اس نے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد کہا۔ سالار کے کانوں میں ایک جھماکے کے ساتھ ایک دوسری آواز گونج اٹھی تھی۔
”ہاں، میں واقعی نہیں سمجھ سکتا۔ لائٹ آف کردو، مجھے نیند آرہی ہے۔” اس نے مزید کچھ کہے بغیر آنکھیں بند کرلیں۔
٭…٭…٭
”مجھے پہلے ہی اندازہ تھا کہ تم اپنے اپارٹمنٹ پر ہی ہوگے، صرف تم نے جان بوجھ کر Answerphone لگا دیا ہوگا۔”
سعد اگلے دن دس بجے سالار کے اپارٹمنٹ پر موجود تھا۔ سالار نے نیند میں اٹھ کر دروازہ کھولا تھا۔ ” تم اس طرح بتائے بغیر بھاگ کیوں آئے میرے اپارٹمنٹ سے۔” سعد نے اندر آتے ہوئے جھاڑا۔
”بھاگا تو نہیں، تم سورہے تھے، میں نے تمہیں جگانا مناسب نہیں سمجھا۔” سالار نے آنکھیں مسلتے ہوئے کہا۔
”کس وقت آئے تھے تم؟”
”شاید چار پانچ بجے۔”
”یہ جانے کا کون ساوقت تھا؟” سعد نے تنک کر کہا۔
”اور تم اس طرح آئے کیوں؟” سالار کچھ کہنے کے بجائے لونگ روم کے صوفہ پر جاکر اوندھے منہ لیٹ گیا۔
”شاید میری باتوں سے تم ناراض ہوگئے تھے۔ میں اسی لئے ایکسکیوز کرنے آیا ہوں۔” سعد نے دوسرے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
”کون سی باتوں سے؟” سالار نے گردن کو ہلکا سا ترچھا کرتے ہوئے اسی طرح لیٹے سعد سے پوچھا۔ ”وہی سب کچھ جو میں نے کچھ غصے میں آکر رات کو تم سے کہہ دیا۔”سعد نے معذرت خواہانہ انداز میں کہا۔
” نہیں، میں ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں پر ناراض نہیں ہوسکتا۔ تم نے ایسی کوئی بات نہیں کی جس پر تمہیں ایکسکیوز کرنے کے لئے یہاں آنا پڑتا۔” سالار نے اسی کے انداز میں کہا۔
”پھر تم اس طرح اچانک میرے اپارٹمنٹ سے کیوں آگئے؟” سعد بضد ہوا۔
”بس میرا دل گھبرایا اور میں یہاں آگیا اور چونکہ سونا چاہتا تھا اس لئےAnswer phoneلگا دیا۔” سالار نے پر سکون انداز میں کہا۔” پھر بھی میں یہ محسوس کررہا تھا کہ مجھے تم سے اس طرح بات نہیں کرنی چاہئے تھے۔ میں صبح سے بہت پچھتا رہا ہوں۔”
”جانے دو اسے۔” اس نے اسی طرح چہرہ صوفے پر چھپائے کہا۔
”سالار! تمہارے ساتھ آج کل پر ابلم کیا ہے؟”
”کچھ نہیں۔”
”نہیں، کچھ نہ کچھ تو ہے۔ کچھ عجیب سے ہوتے جارہے ہو تم۔”
اس بار سالار ایک دم کروٹ بدلتے ہوئے سیدھا ہوگیا۔ چت لیٹے سعد کی طرف دیکھتے ہوئے اس نے پوچھا۔
”مثلاً کون سی بات عجیب سی ہوتی جارہی ہے مجھ میں۔”
”بہت ساری ہیں، تم بہت چپ چپ رہنے لگے ہو، چھوٹی چھوٹی باتوں پر الجھنے لگے ہو۔ عباد مجھے بتا رہا تھا کہ یونیورسٹی جانا بھی چھوڑا ہوا ہے تم نے اور سب سے بڑی بات کہ مذہب میں دلچسپی لے رہے ہو۔” اس کے آخری جملے پر سالار کے ماتھے پر تیوریاں آگئیں۔
”مذہب میں دلچسپی؟ یہ تمہیں غلط فہمی ہے۔ میں مذہب میں دلچسپی لینے کی کوشش نہیں کررہا، میں صرف سکون حاصل کرنے کی کوشش کررہا ہوں کیونکہ میں بہت ڈپریس ہوں۔ مجھے زندگی میں کبھی اس طرح کا…اور اس حد تک ڈپریشن نہیں ہوا جس کا شکار میں آج کل ہوں اور میں صرف اس ڈپریشن سے نجات حاصل کرنے کے لئے رات نماز پڑھنے کے لئے چلا گیا تھا۔ اس نے بہت ترشی سے کہا۔
”ڈپریشن کیوں ہے تمہیں؟” سعد نے پوچھا۔
”اگر یہ مجھے پتا ہوتا تو مجھے یقینا ڈپریشن نہ ہوتا۔ میں اب تک اس کا کچھ نہ کچھ کرچکا ہوتا۔”
”پھر بھی کوئی نہ کوئی وجہ تو ہوگی، یوں بیٹھے بٹھائے ڈپریشن تو نہیں ہوجاتا۔” سعد نے تبصرہ کیا۔ سالار جانتا تھا، وہ ٹھیک کہہ رہا ہے، مگر وہ اسے وہ بتاکر خود پر ہنسنے کا موقع فراہم نہیں کرنا چاہتا تھا۔”کسی دوسرے کے بارے میں تو مجھے پتا نہیں، مگر مجھے تو بیٹھے بٹھائے ہی ہوجاتا ہے۔” سالار نے کہا۔
”تم کوئی اینٹی ڈیپریسنٹ لے لیتے۔” سعد نے کہا۔
”میں ان کا ڈھیر کھا چکاہوں، مجھے کوئی فرق نہیں پڑا۔”
”تو تم کسی سائیکاٹرسٹ سے مل لیتے۔”
”میں یہ کام تو کبھی نہیں کروں گا، میں تنگ آچکا ہوں ان لوگوں سے ملتے ملتے۔ کم از کم اب تو میں نہیں ملوں گا۔” سالار نے بے اختیار کہا۔
”پہلے کس سلسلے میں ملتے رہے ہو تم؟” سعد نے کچھ چونک کر تجسّس کے عالم میں پوچھا۔ ”بہت سی باتیں تھیں، تم انہیں رہنے دو۔” وہ اب چت لیٹا چھت کو گھور رہا تھا۔
”تو پھر تم ایسا کرو کہ عبادت کیا کرو، نماز پڑھا کرو۔”
”میں نے کوشش کی تھی مگر میں نماز نہیں پڑھ سکتا نہ تو مجھے وہاں کوئی سکون ملا، نہ ہی میں یہ جانتا تھا کہ میں جو پڑھ رہا ہوں وہ کیا ہے، کیوں پڑھ رہا ہوں۔”
”تو تم یہ جاننے کی کوشش کرو کہ ۔۔۔۔”
سالار نے اس کی بات کاٹ دی۔ ”اب پھر رات والی بحث شروع ہوجائے گی، صراطِ مستقیم والی اور پھر تمہیں غصہ آئے گا۔”
”نہیں، مجھے غصہ نہیں آئے گا۔” سعد نے کہا۔
”جب مجھے یہ ہی نہیں پتا کہ صراط ِ مستقیم کیاہے تو پھر میں نماز کیسے پڑھ سکتا ہوں۔”
”تم نماز پڑھناشروع کروگے تو تمہیں خود ہی پتا چل جائے گا کہ صراطِ مستقیم کیا ہے۔”
”کیسے؟”
”تم خود ہی غلط کاموں سے بچنے لگو گے، اچھے کام کرنے لگو گے۔” سعد نے وضاحت کرنے کی کوشش کی۔
”مگر میں کوئی غلط کام نہیں کرتا اور نہ ہی مجھے اچھے کام کرنے کی خواہش ہے۔ میری زندگی نارمل ہے۔”
”تمہیں یہ احساس ہو بھی نہیں سکتا کہ تمہارا کون سا کام صحیح ہے اور کون سا غلط۔ جب تک کہ…” سالار نے اس کی بات کاٹ دی۔
”صحیح اور غلط کام میرا مسئلہ نہیں ہے … ابھی تو مجھے بس بے سکونی رہتی ہے اور اس کا تعلق میرے کاموں سے نہیں ہے۔”
”تم وہ تمام کام کرتے ہو جو انسان کی زندگی کو بے سکون کردیتے ہیں۔”
”مثلاً؟” سالار نے چبھتے ہوئے لہجے میں کہا۔
”تم پورک کھاتے ہو۔”