پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۵

”مووی دیکھنے کا پروگرام ہے اس ویک اینڈپر، چلوگے؟” دانش اس دن اس کے پاس آیا ہوا تھا۔
”ہاں، چلوں گا۔” سالار تیار ہوگیا۔
”پھر تم تیار رہنا، میں تمہیں پک کرلوں گا۔” دانش نے پروگرام طے کیا۔
دانش پروگرام کے مطابق اسے لینے کے لئے آگیا تھا۔ وہ کئی ہفتوں کے بعد کسی سنیما میں مووی دیکھنے کے لئے آیا تھا اور اس کا خیال تھا کہ کم از کم اس رات وہ ایک اچھی تفریح میں کچھ وقت گزار سکے گا مگر مووی شروع ہونے کے دس منٹ بعد اسے وہاں بیٹھے بیٹھے اچانک شدید قسم کی گھبراہٹ ہونے لگی۔ سامنے اسکرین پر نظر آنے والے کردار اسے کٹھ پتلیاں نظر آنے لگے جن کی حرکات اور آوازوں کو وہ سمجھنے سے قاصر تھا۔ وہ کچھ بھی کہے بغیر بہت آہستگی سے اٹھ کر باہر آگیا۔ وہ پارکنگ میں بہت دیر تک دانش کی گاڑی کے بونٹ پر بیٹھا رہا، پھر ایک ٹیکسی لے کر اپنے اپارٹمنٹ پر واپس آگیا۔
٭…٭…٭
پروفیسر روبنسن اپنا لیکچر شروع کرچکے تھے۔ سالار نے اپنے سامنے پڑے پیپر پر تاریخ اور ٹاپک لکھا۔ وہ اکنامک Recession کے حوالے سے بات کررہے تھے۔ سالار ہمیشہ کی طرح ان پر نظریں جمائے ہوئے تھا مگر اس کا ذہن غیر حاضر تھا اور یہ اس کے ساتھ زندگی میں پہلی بار ہوا تھا۔ وہ انہیں دیکھتے ہوئے کہیں اور پہنچ گیا تھا۔ کہاں، وہ یہ بھی نہیں بتاسکتا تھا۔ ایک امیج سے دوسرے امیج، دوسرے سے تیسرے… ایک سین سے دوسرے، دوسرے سے تیسرے… ایک آواز سے دوسری، دوسری سے تیسری… اس کا سفر کہاں سے شروع ہوا، کہاں نہیں۔
”سالار! چلنا نہیں ہے۔” سینڈرا نے اس کا کندھا ہلایا۔
وہ چونک گیا، کلاس خالی تھی، صرف سینڈرا اس کے پاس بیٹھی ہوئی تھی۔ اس نے بے یقینی سے خالی کلاس کو اور پھر وال کلاک کو دیکھا پھر اپنی رسٹ واچ کو۔
”پروفیسر روبنسن کہاں گئے؟” بے اختیار اس کے منہ سے نکلا۔
”کلاس ختم ہوگئی، وہ چلے گئے۔” سینڈرانے کچھ حیران ہوتے ہوئے اسے دیکھا۔
”کلاس ختم ہوگئی؟” اسے جیسے یقین نہیں آیا۔
”ہاں!” سالار نے بے اختیار اپنی آنکھوں کو مسلا اور پھر اپنی سیٹ کی پشت سے ٹیک لگالی۔ واحد چیز جو اسے پروفیسر روبنسن کے لیکچر کے بارے میں یاد تھی، وہ صرف ٹاپک تھا۔ اس کے بعد وہ نہیں جانتا تھا کہ انہوں نے کیا کہا تھا۔
”تم کچھ اپ سیٹ ہو؟” سینڈرا نے پوچھا۔
”نہیں، کچھ نہیں۔ میں کچھ دیر کے لئے یہاں اکیلا بیٹھنا چاہتا ہو۔”
”اوکے۔” سینڈرا نے اسے دیکھتے ہوئے کہا اور اپنی چیزیں اٹھاکر باہر چلی گئی۔
وہ اپنے سینے پر بازو باندھے سامنے نظر آنے والے رائٹنگ بورڈ کو دیکھنے لگا۔ آج یہ تیسری کلاس تھی جس میں اس کے ساتھ یہ ہوا تھا۔ اس کا خیال تھا یونیورسٹی دوبارہ جوائن کرنے کے بعد سب کچھ معمول پر آجائے گا، وہ ڈپریشن کے اس فیز سے باہر آجائے گا جس کا وہ تب شکار تھا مگر ایسا نہیں ہوا تھا۔ وہ یونیورسٹی میں بھی مکمل طورپر اسی ذہنی انتشار کا شکار تھا جس میں وہ اتنے دنوں سے تھا پہلی بار اس کا دل پڑھائی سے بھی اچاٹ ہورہا تھا۔ وہاں ہر چیز اسے مصنوعی لگ رہی تھی۔ وہ زندگی میں پہلی بار صحیح معنوں میں ڈپریشن کا شکار ہوا تھا۔ اسٹڈیز، یونیورسٹی، فرینڈز، کلب، پارٹیز، ریسٹورنٹس، سیروتفریح، ہر چیز اس کے لئے بے معنی ہوکر وہ گئی تھی۔ اس نے دوستوں سے ملنا یک دم چھوڑ دیا۔ Answerphone پر اکثر اس کا پیغام ہوتا کہ وہ گھر پر نہیں ہے۔ وہ فرینڈز کے اصرار پر ان کے ساتھ کہیں جانے کا پروگرام بنالیتا اور پھر یک دم جانے سے انکار کردیتا۔ چلا بھی جاتا تو کسی وقت بھی بغیر بتائے اٹھ کر واپس چلا آتا۔ وہ یونیورسٹی میں بھی یہی کررہا تھا۔ ایک دن جاتا، دودن غائب رہتا۔ ایک پیریڈ لیتا، اگلے دوپیریڈ چھوڑ دیتا۔
اپنے اپارٹمنٹ میں کبھی کبھار وہ سارا دن بیڈ پر لیٹے ہوئے گزار دیتا، بعض دفعہ وہ فلم دیکھنا شروع کرتا اور ڈیڑھ دو گھنٹے کے بعد بھی اس کی سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ وہ کیا دیکھ رہا ہے۔ ٹی وی چینلز گھماتے ہوئے وہ اسی کیفیت کا شکار رہتا۔ اس کی بھوک بالکل ختم ہوگئی تھی۔ وہ کوئی چیز کھانا شروع کرتا اور پھر یک دم اس کا دل ڈوب جاتا۔ وہ اسی طرح اسے چھوڑدیتا بعض دفعہ وہ پورا پورا دن کچھ بھی نہیں کھاتا تھا۔ صرف یکے بعد دیگرے کافی کے کپ اپنے اندر انڈیلتا رہتا۔
وہ چین اسموکر نہیں تھا مگر ان دنوں بن گیا تھا۔ وہ اپنی چیزیں بہت قرینے سے رکھنے کا عادی تھا مگر ان دنوں اس کا اپارٹمنٹ گندگی کی مثال تھا اور اسے ان بکھری ہوئی چیزوں کو دیکھ کر کوئی الجھن نہیں ہوتی تھی۔ اس نے اپنے بہن بھائیوں اور والدین سے بھی گفتگو بہت مختصر کردی تھی۔ وہ فون پر بولتے رہتے، وہ دوسری طرف کچھ بھی کہے بغیر خاموشی سے سنتا رہتا یا ہوں ہاں میں جواب دے دیتا۔ اس کے پاس انہیں بتانے کے لئے، ان کے ساتھ شیئر کرنے کے لئے یک دم سب کچھ ختم ہوگیا تھا اور اسے ان میں سے ایک بات کی بھی وجہ معلوم نہیں تھی۔
اور اسے یہ بات بھی معلوم تھی کہ اس کی ان تمام کیفیات اور حالت کا تعلق امامہ ہاشم سے ہے نہ وہ اس کی زندگی میں آتی نہ اس کے ساتھ یہ سب کچھ ہوتا۔ پہلے وہ اسے ناپسند کرتا تھا اب اسے امامہ سے نفرت ہونے لگی تھی۔ پچھتاوے کا جو ہلکا سا احساس کچھ عرصہ اس کے ساتھ رہا تھا وہ غائب ہوگیا تھا۔
”اس کے ساتھ جو ہوا، ٹھیک ہوا۔ میں نے اس کے ساتھ جو کیا، ٹھیک کیا۔ اس کے ساتھ اس سے زیادہ برا ہونا چاہئے تھا۔”
وہ خود بخود ہی اپنے آپ سے کہتا رہتا۔ اسے امامہ ہاشم کی زبان سے نکلے ہوئے ہر لفظ، ہر حرف، ہر جملے سے نفرت تھی۔ اسے اس کی باتیں یاد آتیں اور اس کی نیند غائب ہوجاتی۔ ایک عجیب سی وحشت اسے گھیرلیتی۔ اس نے اس رات جن باتوں کا مذاق اڑایا تھا، وہ اب ہر وقت اس کے کانوں میں گونجنے لگی تھیں۔
”کیا میں پاگل ہورہا ہوں، کیا میں اپنے ہوش وحواس آہستہ آہستہ کھوتا جارہا ہوں، کیا میں شیزوفرینیا کا شکار ہوں۔” بعض دفعہ اسے بیٹھے بٹھائے خوف محسوس ہونے لگتا۔
ہر چیز کی بے معنویت بڑھتی جارہی تھی۔ ہر چیز کی بے مقصدیت اور عیاں ہورہی تھی۔ وہ کون تھا، کیا تھا، کیوں تھا، کہاں کھڑا تھا، کیوں کھڑا تھا؟ اسے ہر وقت یہ سوالات تنگ کرنے لگے۔ کیا ہوگا اگر میں Yaleسے ایک ایم بی اے کی ڈگری لے لوں گا۔ بہت اچھی جاب مل جائے گی، کوئی فیکٹری شروع کرلوں گا پھر… کیا یہ وہ کام تھا جس کے لئے مجھے زمین پر اتارا گیا… 150 آئی کیولیول کے ساتھ… کہ میں چند اور ڈگریاں لوں، شاندار سا بزنس کروں، شادی کروں، بچے پیدا کروں، عیش کروں پھر مر جاؤں، بس…




اس نے زندگی میں چار دفعہ صرف اپنے تجسّس کے لئے موت کے تجربے سے گزرنے کی کوشش کی تھی مگر اب شدید ڈپریشن کے عالم میں بھی وہ خودکشی کی کوشش نہیں کررہا تھا۔ چوبیس گھنٹے موت کے بارے میں سوچنے کے باوجود بھی وہ اسے چھونا نہیں چاہتا تھا۔
لیکن اگر اس سے کوئی یہ پوچھ لیتا کہ کیا وہ زندہ رہنا چاہتا ہے تو وہ ہاں میں جواب دینے میں بھی تامل کرتا۔ وہ زندہ رہنا نہیں چاہتا تھا کیونکہ وہ زندگی کے مفہوم کو نہیں جانتا تھا۔
وہ مرنا نہیں چاہتا تھا کیونکہ وہ موت کے مفہوم سے بھی واقف نہیں تھا۔
وہ کسی خلا میں معلق تھا، کسی درمیان والی جگہ میں، کسی بیچ والی کیفیت میں۔ زندہ رہتے ہوئے مردہ، مردہ ہوتے ہوئے زندہ… وہ سرشاری کی انتہا پر پہنچ رہا تھا، لمحہ بہ لمحہ۔150 آئی کیو رکھنے والا وہ شخص جو اپنے سامنے کہی اور سنی جانے والی کوئی چیز نہیں بھلا سکتا تھا۔ سگریٹ کا دھواں اڑاتے، بیئر کے گھونٹ لیتے، نائٹ کلب میں رقص کرتے، مہنگے ریسٹورنٹ میں ڈنر کرتے، اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ رات گزارتے، وہ صرف ایک بات سوچتا رہتا تھا۔
کیا زندگی کا مقصد یہی ہے؟
”عیش اور آسائش…؟ شاندار لباس، بہترین خوراک، اعلیٰ ترین سہولتیں۔ ساٹھ ستر سال کی ایک زندگی اور پھر؟”
اس کے بعد اس پھر کا کوئی جواب نہیں ہوتا تھا مگر اس”پھر” کی وجہ سے اس کی زندگی کے معمولات بگڑ گئے تھے۔ وہ رفتہ رفتہ بے خوابی کا شکار ہورہا تھا اور یہ ان ہی دنوں تھا کہ اس نے اچانک مذہب میں دلچسپی لینا شروع کی۔ ڈپریشن سے نجات کے لئے وہ بہت سے لوگوں کو یہی کام کرتے دیکھتا تھا۔ اس نے بھی یہی کام شروع کردیا۔ اس نے اسلام کے بارے میں کچھ کتابیں پڑھنے کی کوشش کی۔ تمام کتابیں اس کے سرکے اوپر سے گزرگئیں۔ کوئی لفظ، کوئی بات اسے اپنی طرف نہیں کھینچ رہی تھی۔ وہ خود پر جبر کرکے چند صفحات پڑھتا اور ان کتابوں کو رکھ دیتا۔ کچھ وقت گزرنے کے بعد پھر اٹھاتا پھر رکھ دیتا۔
”نہیں، شاید مجھے عملی طورپر عبادت شروع کرنی چاہئے۔ اس سے ہوسکتا ہے کہ مجھے کچھ فائدہ ہو۔”
وہ اپنے آپ کو خود ہی سمجھاتا اور ایک دن جب وہ سعد کے پاس تھا تو اس نے یہی کہا۔
”میں بھی چلتا ہوں تمہارے ساتھ۔” اس نے سعد کو باہر نکلتے دیکھ کر کہا۔
”مگر میں تو عشاء کی نماز پڑھنے جارہا ہوں۔” سعد نے اسے یاد دہانی کروائی۔
”میں جانتا ہوں۔” اس نے اپنے جاگرز کے تسمے کستے ہوئے کہا۔
”میرے ساتھ مسجد چلوگے؟” وہ حیران ہوا۔
”ہاں۔” وہ کھڑا ہوگیا۔
”نماز پڑھنے کے لئے؟”
”ہاں!” سالار نے کہا۔” اس طرح دیکھنے کی کیا ضرورت ہے، میں کافر تو نہیں ہوں۔”
”کافر تو نہیں ہو مگر… چلو خیر، پڑھ لینا آج۔” سعد نے کچھ کہتے کہتے بات بدل دی۔
”میں تو تمہیں پہلے ہی کتنی بار ساتھ چلنے کے لئے کہہ چکا ہوں۔”
سالار نے جواب میں کچھ نہیں کہا۔ وہ خاموشی سے چلتے ہوئے اس کے ساتھ باہر آگیا۔
”اب اگر آج مسجد جا ہی رہے ہو تو پھر جاتے رہنا۔ یہ نہ ہوکہ بس آج پہلا اور آخری وزٹ ہی ہو۔” سعد نے عمارت سے باہر نکلتے ہوئے اس سے کہا۔ باہر اس وقت برف باری ہورہی تھی۔ مسجد، رہائش کی عمارت سے کچھ فاصلے پر تھی۔ وہ ایک مصری خاندان کا گھر تھا جس کا نچلا حصہ مسجد کے طورپر ان لوگوں نے استعمال کے لئے دیا ہوا تھا جبکہ اوپر والے حصے میں وہ لوگ خود رہتے تھے۔ بعض دفعہ وہاں نمازیوں کی تعداد بیس پچیس ہوجاتی مگر زیادہ تر یہ تعداد دس پندرہ کے درمیان ہی رہتی تھی۔
سعد مسجد تک پہنچنے تک سالار کو ان تفصیلات سے آگاہ کرتا رہا۔ سالار خاموشی اور کچھ لاتعلقی کے عالم میں سڑک پر احتیاط سے پھسلتی گاڑیوں اور ہر طرف موجود برف کے ڈھیر پر نظریں دوڑاتا اس کے ساتھ چلتا رہا۔
پانچ سات منٹ چلتے رہنے کے بعد ایک موڑ مڑکر سعد ایک گھر کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوگیا۔ دروازہ بند تھا مگر لاکڈ نہیں تھا اور سعد نے دروازے پر دستک دی تھی، نہ ہی کسی سے اجازت مانگی تھی۔ بڑے مانوس سے انداز میں اس نے دروازے کا ہینڈل گھمایا اور پھر اندر داخل ہوگیا۔ سالار نے اس کی پیروی کی۔
”تم وضو کرلو۔” سعد نے اچانک اسے مخاطب کیا اور پھر اسے ساتھ لے کر ایک دروازہ کھول کر ایک باتھ روم میں داخل ہوگیا۔
سعد کی زیر نگرانی جب تک وہ وضو کے آخری حصے تک پہنچتا، ٹھنڈا پانی گرم میں تبدیل ہوچکاتھا۔ اپنے بالوں کا مسح کرتے کرتے وہ ایک بار پھر ٹھٹکا۔ سعد سمجھا اسے صحیح طریقہ پتا نہیں، اس نے ایک بارپھر اسے ہدایت دی۔ وہ خالی الذہنی کے عالم میں اپنے ہاتھوں کو ایک بارپھر حرکت دینے لگا۔
گدی تک ہاتھ پھیرتے ہوئے اس کا ہاتھ گردن میں موجود زنجیر سے ٹکرایا تھا۔ اس کی نظر بے اختیار سامنے آئینے میں گئی۔ وہ ایک بار پھر کہیں اور پہنچ چکا تھا۔ سعد نے اس سے کچھ کہا تھا۔ اس بار اس نے نہیں سنا۔
کمرے میں موجود دس افراد دو صفوں میں کھڑے ہورہے تھے۔ وہ سعد کے ساتھ پچھلی صف میں کھڑا ہوگیا۔ امام صاحب نے امامت شروع کردی، سب کے ساتھ اس نے بھی نیت کی۔
”نماز سے واقعی سکون ملتا ہے؟” اس نے کوئی دو ہفتے پہلے ایک لڑکے کو نماز کے مسئلے پر سعد کے ساتھ بحث میں الجھا پایا تھا۔
”مجھے تو ملتا ہے۔” سعد نے کہا تھا۔
”میں تمہاری بات نہیں کررہا۔ میں سب کی بات کررہا ہوں، سب کو ملتا ہے؟” اس لڑکے نے کہا تھا۔” یہ منحصر ہے کہ سب کتنا انوالو ہوکر نماز پڑھتے ہیں۔”
سالار بڑے اکتائے ہوئے انداز میں ان کی بحث کسی مداخلت یا تبصرے کے بغیر سنتا رہا تھا۔ اس وقت وہ شعوری طورپر نماز میں انہماک پیدا کرنے کی کوشش کررہا تھا۔
”سکون؟ میں واقعی دیکھنا چاہتا ہوں کہ نماز سے سکون کیسے ملتا ہے۔” اس نے رکوع میں جاتے ہوئے اپنے دل میں سوچا پھر اس نے پہلا سجدہ کیا۔ اس کے اضطراب اور بے چینی میں یک بہ یک اضافہ ہوگیا۔ جن الفاظ کو وہ امام صاحب کی زبان سے سن رہا تھا، وہ بہت نامانوس لگ رہے تھے، جو لوگ اس کے ارد گرد کھڑے تھے وہ اسے ناآشنا لگ رہے تھے، جس ماحول میں وہ موجود تھا وہ اسے غیر فطری لگ رہا تھا اور جو کچھ وہ کررہا تھا وہ اسے منافقت محسوس ہورہی تھی۔
ہر سجدے کے ساتھ اس کے دل ودماغ کا بوجھ بڑھتا جارہا تھا۔ اس نے پہلی چار رکعتیں بمشکل ختم کیں۔ سلام پھیرنے کے دوران اس نے اپنے دائیں جانب والے ادھیڑ عمر شخص کے گالوں پر آنسو دیکھے، اس کا دل وہاں سے بھاگ جانے کو چاہا۔ وہ جی کڑاکرکے ایک بارپھر کھڑا ہوگیا۔ اس نے ایک بار پھر نماز میں پوری طرح منہمک ہونے کی کوشش کی۔
”اس بار میں پڑھی جانے والی آیات کے ہر لفظ پر غور کروں گا۔ شاید اس طرح…”اس کی سوچ کا تسلسل ٹوٹ گیا۔ نیت کی جارہی تھی۔ اس کا دل مزید اچاٹ ہوگیا۔ سرکا بوجھ بڑھتا جارہا تھا۔ اس نے آیات کے مفہوم پر غور کرنے کی کوشش کی۔
”الحمدللہ ربّ العالمین۔” سورئہ فاتحہ کی تلاوت شروع ہوئی۔
”الرحمن الرحیم۔” اس نے توجہ مرکوز رکھنے کی پوری کوشش کی۔
”مالک یوم الدین۔” توجہ بھٹکی۔
”ایاک نعبدوایاک نستعین۔” اسے سورئہ فاتحہ کا ترجمہ آتا تھا۔ اس نے چند دن پہلے ہی پڑھا تھا۔
”اھدناالصراط المستقیم۔”(سیدھا راستہ) اس نے ذہن میں دہرایا۔
”صراط المستقیم… سیدھا راستہ؟” اس کا دل چاہا وہاں سے بھاگ جائے۔ اس نے وہاں نماز جاری رکھنے کی ایک آخری کوشش کی۔
”صراط الذین انعمت۔” اس کا ذہن ایک بار پھر پیچھے گیا۔
”علیہم غیرالمغضوب علیہم والضالین۔” اس نے اپنے بندھے ہوئے ہاتھ کھولے، وہ آخری صف میں کھڑا تھا، بہت آہستگی سے چند قدم گیا اور صف سے نکل گیا۔
”یہ کام میں نہیں کرسکتا، میں نماز نہیں پڑھ سکتا۔” اس نے جیسے اعتراف کیا۔ بہت خاموشی کے ساتھ وہ اور پیچھے ہوتا گیا۔ باقی لوگ اب رکوع میں جارہے تھے، وہ مڑکر دبے قدموں مگر تیز رفتاری سے باہر نکل آیا۔
مسجد سے نکلتے ہوئے اس کے جاگرز اس کے ہاتھ میں تھے۔ غائب دماغی کے عالم میں وہ باہر سیڑھیوں پر کھڑے ہوکر چند لمحے ادھر ادھر دیکھتا رہا۔ اس کے بعد وہ سیڑھیاں اترگیا۔ پاؤں میں جرابیں اور ہاتھوں میں جاگرز پکڑے وہ خالی الذہنی کے عالم میں عمارت کی عقبی دیوار کی طرف آگیا۔ وہاں بھی ایک دروازہ اور کچھ سیڑھیاں نظر آرہی تھیں مگر وہ سیڑھیاں برف سے اٹی ہوئی تھیں۔دروازے پر موجود لائٹ روشن نہیں تھی۔ اس نے جھک کر سب سے اوپر والی سیڑھی کو اپنے جاگرز کے ساتھ صاف کیا اور برف صاف کرنے کے بعد وہاں بیٹھ گیا۔ کچھ دیر پہلے ہونے والی برف باری اب ختم ہوچکی تھی۔ اس نے سیڑھی پر بیٹھ کر اپنے جاگرز پہن لئے۔ تسمے کسنے کے بعد وہ ایک بار پھر سیدھا ہوکر دروازے سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ اس کے دونوں ہاتھ جیکٹ کی جیبوں میں تھے۔ جیکٹ کے ساتھ لگے ہوئے hood کو وہ سرپر چڑھا چکا تھا۔ سامنے سڑک پر اکاد کا گاڑیوں کی آمد و رفت جاری تھی۔
وہ سیڑھیوں پر اپنی ٹانگیں پھیلائے اپنی پشت دروازے سے ٹکائے ان اکاد گاڑیوں اور فٹ پاتھ پر چلنے والے لوگوں کو دیکھنے لگا۔ وہاں اس سرد اور کہر آلود رات میں کھلے آسمان کے نیچے بیٹھے ہوئے وہ کچھ دیر پہلے مسجد کے گرم کمرے سے زیادہ سکون محسوس کررہا تھا یا کم از کم بہتر ضرور محسوس کررہا تھا۔
اس نے جیب میں ہاتھ ڈال کر لائٹر نکال لیا اور اسے جلاکر اپنے پیروں کے قریب سیڑھیوں پر پڑی برف کو پگھلانے لگا، کچھ دیر تک وہ اس سرگرمی میں مشغول رہا پھر جیسے اس نے اکتا کر لائٹر دوبارہ جیب میں ڈال لیا۔ جس وقت وہ سیدھا ہوا اس نے اپنے بالکل سامنے ایک عورت کو کھڑا پایا۔ وہ یقیناً اس وقت وہاں آکر کھڑی ہوئی تھی جس وقت وہ سیڑھیوں پر جھکا اپنے دونوں پاؤں کے درمیان موجود برف کو لائٹر سے پگھلا رہا تھا۔ وہ نیم تاریکی میں بھی اس کے چہرے کی مسکراہٹ کو دیکھ سکتا تھا۔ وہ منی اسکرٹ اور ایک مختصر بلاؤز میں ملبوس تھی۔ اس نے فرکوٹ پہنا ہوا تھا مگر وہ فرکوٹ آگے سے دانستہ طوپر کھلا چھوڑا گیا تھا۔
وہ فرکوٹ کی دونوں جیبوں میں ہاتھ ڈالے سالار کے بالکل سامنے بڑے اسٹائل سے کھڑی تھی۔ سالار نے سرسے لے کر پاؤں تک اسے دیکھا۔ اس کی لمبی ٹانگیں اس سردی میں بھی برہنہ تھیں۔ اس کے عقب میں موجود دکانوں کی روشنیوں کے بیک گراؤنڈ میں اس کی ٹانگیں یک دم بہت نمایاں ہورہی تھی اور اس کی ٹانگیں بہت خوب صورت تھیں۔ کچھ دیر تک وہ ان سے نظریں نہیں ہٹا سکا۔ اس عورت کے پیروں میں بوٹ نماہائی ہیل کے جوتے تھے۔ سالار حیران تھا وہ برف کے اس ڈھیر پر ان جوتوں کے ساتھ کس طرح چلتی ہوگی۔”I charge 50 for an hour”۔
اس عورت نے بڑے دوستانہ انداز میں کہا۔ سالار نے اس کی ٹانگوں سے نظریں ہٹا کر اس کے چہرے کو دیکھا۔ اس کی نظریں ایک بار پھر اس کی ٹانگوں پر گئیں۔ کئی سالوں میں پہلی بار اسے کسی پر ترس آیا۔ کیا مجبوری تھی کہ وہ اس برف باری میں بھی اس طرح برہنہ پھرنے پر مجبور تھی، جبکہ وہ اس موٹی جینز میں بھی سردی کو اپنی ہڈیوں میں گھستے محسوس کررہا تھا۔”OK 40 dollars”۔
اسے خاموش دیکھ کر اس عورت کو اندیشہ ہواکہ شاید وہ قیمت اس کے لئے قابلِ قبول نہیں تھی اس لئے اس نے فوراً اس میں کمی کردی۔ سالار جانتا تھا چالیس ڈالرز بھی زیادہ تھے۔ وہ اس سڑک پر بیس ڈالرز میں بھی ایک گھنٹہ کے لئے کسی لڑکی کو حاصل کرسکتا تھا وہ پینتیس چالیس سال کی تھی اور بات کرتے ہوئے محتاط نظروں سے سڑک پر ادھر ادھر دیکھ رہی تھی۔ سالار جانتا تھا یہ احتیاط کسی پولیس کا ریا پولیس والے کے لئے تھی۔
”OK 30……No more bargaining”۔
”take it vo leave it”۔
سالار کی خاموشی نے اس کی قیمت کو کچھ اور کم کیا۔ سالار نے اس بار کچھ بھی کہے بغیر اپنی جیکٹ کے اندر کی جیب میں ہاتھ ڈالا اور وہاں موجود چند کرنسی نوٹ نکال کر اس کی طرف بڑھا دئیے۔ اس کے پاس اس وقت والٹ نہیں تھا۔ اس عورت نے حیرانی سے اسے دیکھا اور پھر ان نوٹوں کو اس کے ہاتھ سے جھپٹ لیا۔ وہ پہلا گاہک تھا، جو اسے ایڈوانس پے منٹ کررہا تھا اور وہ بھی پچاس ڈالر، جبکہ وہ اپنی قیمت کم کرچکی تھی۔




Loading

Read Previous

پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۴

Read Next

ساتواں سکّہ — فیصل سعید خان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!