غشی کا یہ سلسلہ کتنے گھنٹے جاری رہا تھا اسے یاد نہیں۔ ہاں! البتہ اسے یہ ضرور یاد تھا اس کیفیت کے دوران اسے ایک باریوں محسوس ہوا تھا جیسے وہ مررہا ہے اور اسی وقت زندگی میں پہلی بار موت سے عجیب ساخوف محسوس ہوا تھا وہ کسی نہ کسی طرح فون تک پہنچنا چاہتا تھا وہ کسی کو بلانا چاہتا تھا مگر وہ بستر سے نیچے تک نہیں اترسکا۔ شدید بخار نے اسے مکمل طورپر مفلوج کرکے رکھ دیا تھا۔
اور پھر بالآخر وہ خود ہی اس کیفیت سے باہر آگیا تھا اس وقت رات کا پچھلا پہر تھا جب وہ اس غنودگی سے باہر نکلا تھا۔ آنکھیں کھولنے پر اس نے کمرے میں وہی تاریکی دیکھی تھی مگر اس کا جسم اب پہلے کی طرح گرم نہیں تھا۔ کپکپی مکمل طورپر ختم ہوچکی تھی اس کے سر اور جسم میں ہونے والا درد بھی بہت ہلکا تھا۔
کمرے کی چھت کو کچھ دیر گھورنے کے بعد اس نے لیٹے لیٹے اندھیرے میں سائیڈ لیمپ کو ڈھونڈ کر آن کردیا۔ روشنی نے کچھ دیر کے لئے اس کی آنکھوں کو چند ھیا کر بند ہوجانے پر مجبور کردیا۔ اس نے اپنا ہاتھ بڑھاکر آنکھوں کے بند پپوٹوں کو چھوا۔ وہ سوجے ہوئے تھے۔ آنکھوں میں چبھن ہورہی تھی۔ سوجے ہوئے پپوٹوں کو بمشکل کھلے رکھتے ہوئے وہ اب اردگرد کی چیزوں پر غور کررہا تھا اور اپنے ساتھ ہونے والے تمام واقعات کو یاد کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ ہلکے ہلکے جھماکوں کے ساتھ اسے سب کچھ یاد آتا جارہا تھا۔
اسے بے اختیار اپنے آپ سے گھن آئی، بیڈپر بیٹھے بیٹھے اس نے اپنی شرٹ کے بٹن کھول کر اسے اتار کر دور پھینک دیا۔ پھر لڑکھڑاتے ہوئے وہ بیڈ سے اترگیا اور کمبل اور بیڈشیٹ بھی کھینچ کر اس نے بیڈ سے اتار کر فرش پر ڈال دئیے۔
ان ہی لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ وہ سوچے سمجھے بغیر باتھ روم میں گھس گیا۔
باتھ روم میں موجود بڑے آئینے کے سامنے اپنے چہرے پر نظر پڑتے ہی اسے جیسے شاک لگا تھا۔ اس کی آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئی تھیں ان کے گرد پڑنے والے حلقے بہت نمایاں تھے اور چہرہ بالکل زرد تھا۔ اس کے ہونٹوں پر پپڑیاں جمی ہوئی تھیں۔ اسے اس وقت دیکھنے والا یہی سوچتا کہ وہ کسی لمبی بیماری سے اٹھا ہے۔
”چوبیس گھنٹے میں اتنی شیو بڑھ گئی ہے؟” اس نے حیرانی کے عالم میں اپنے گالوں کو چھوتے ہوئے کہا۔” اتنی بری شکل تو میری فوڈپوائزننگ کے بعد ہاسپٹل میں رہ کر بھی نہیں ہوئی تھی جتنی ایک دن کے اس بخار نے کردی ہے۔”
وہ بے یقینی کے عالم میں اپنے آنکھوں کے حلقوں کو دیکھتے ہوئے بڑبڑایا۔ ٹب میں پانی بھرکر وہ اس میں لیٹ گیا۔ اسے حیرانی ہورہی تھی کہ بخار کی حالت میں بھی اس نے فوری طور پر اسی وقت اپنے کپڑے کیوں نہیں بدل لئے وہ کیوں وہیں پڑا رہا۔
باتھ روم سے باہر نکلنے کے بعد بیڈروم میں رہنے کے بجائے وہ کچن میں چلاگیا۔ اسے بے تحاشا بھوک لگ رہی تھی۔ اس نے نوڈلز بنائے اور انہیں کھانے لگا۔” مجھے صبح ڈاکٹر کے پاس جاکر اپنا تفصیلی چیک اپ کروانا چاہئے۔” اس نے نوڈلز کھاتے ہوئے سوچا، تھکن ایک بار پھر اس کے اعصاب پر سوار ہورہی تھی۔ نہانے کے بعد اسے اگرچہ اپنا وجود بہت ہلکا پھلکا محسوس ہورہا تھا مگر اس کی نقاہت ختم نہیں ہوئی تھی۔
نوڈلز کھانے کے دوران اس نے ٹی وی آن کردیا اور چینل سرچ کرنے لگا۔ ایک چینل پر آنے والا ٹاک شو دیکھتے ہوئے اس نے ریموٹ رکھ دیا اور ایک بار پھر نوڈلز کے پیالے پر جھک گیا۔ اس نے ابھی نوڈلز کا دوسرا چمچہ منہ میں رکھا ہی تھا کہ وہ بے اختیار رک گیا۔ الجھی ہوئی نظروں سے ٹاک شوکو دیکھتے ہوئے اس نے ریموٹ کو ایک بار پھر اٹھالیا۔ ہاتھ آگے بڑھاتے ہوئے وہ ایک بارپھر چینل سرچ کرنے لگا مگر اس بار وہ ہر چینل کو پہلے سے زیادہ ٹھہر کر دیکھ رہا تھا اور اس کے چہرے کی الجھن بڑھتی جارہی تھی۔
”یہ کیا ہے؟” وہ بڑبڑایا۔
اسے اچھی طرح یاد تھا وہ جمعہ کی رات کو سڑک پر بے ہوش ہونے کے بعد ہاسپٹل گیا تھا۔ ہفتہ کا سارا دن اس نے وہیں گزارا تھا اور اتوار کی سہ پہر کو وہ واپس آیا تھا۔ اتوار کی سہ پہر کو سونے کے بعد وہ اگلے دن گیارہ بجے کے قریب اٹھا تھا۔ پھر اسی رات اسے بخار ہوگیا تھا۔ شاید اس نے منگل کا سارا دن بخار کی حالت میں گزارا تھا اور اب یقینا منگل کی رات تھی، مگر ٹی وی چینلز اسے کچھ اور بتارہے تھے۔ وہ ہفتہ کی رات تھی اور اگلا طلوع ہونے والا دن اتوار کا تھا۔
اس نے اپنی رسٹ واچ پر ایک نظر دوڑائی جو لونگ روم کی میز پر پڑی تھی۔ اس کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ اس نے نوڈلز کا پیالہ میز پر رکھ دیا یک لخت ہی جیسے اس کی بھوک اڑگئی تھی۔ وہاں موجود تاریخ نے اسے جیسے ایک اور جھٹکادیا تھا۔
”کیا مطلب ہے، کیا میں پانچ دن بخار میں مبتلا رہا ہوں۔ پانچ دن ہوش وحواس سے بے خبر رہا ہوں؟ مگر یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ یہ کیسے ممکن ہے؟” وہ بڑبڑا رہا تھا۔
”پانچ دن، پانچ دن تو بہت ہوتے ہیں یہ کیسے ممکن ہے کہ مجھے، مجھے پانچ دن گزرنے کا پتہ ہی نہ چلے… میں پانچ دن تک اس طرح بے ہوش کیسے رہ سکتا ہوں۔”
وہ لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ تیزی سےAnswerphoneکی طرف بڑھ گیا، فون پر اس کے لئے کوئی ریکارڈ پیغام نہیں تھا۔
”پاپا نے مجھے کوئی کال نہیں کی اور…اور…سعد سب کو کیا ہوگیا…کیا میں انہیں یاد نہیں رہا۔” اسے جیسے کوئی پیغام نہ پاکر شاک لگا تھا۔ وہ بہت دیر تک بالکل ساکت فون کے پاس بیٹھا رہا۔
”یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ پاپا کو میرا خیال ہی نہ رہا ہو، یا کسی اور فرینڈ کو… یا پھر کسی اور کو…یا پھر کسی اور کو… اس طرح مجھے کیسے چھوڑدیا انہوں نے اور اس وقت اسے پہلی بار احساس ہواکہ اس کے ہاتھ ایک بارپھر کپکپا رہے تھے۔ وہ نقاہت یا کمزوری نہیں تھی پھر وہ کیا تھا جو اسے کانپنے پر مجبور کررہا تھا۔ وہ اٹھ کر واپس صوفے کی طرف چلا آیا۔
نوڈلز کے پیالے کو ہاتھ میں لے کر وہ ایک بارپھر انہیں کھانے لگا اس بار نوڈلز میں چند منٹ پہلے کا ذائقہ بھی ختم ہوچکا تھا۔ اسے لگا وہ بے ذائقہ ربڑ کے چند نرم ٹکڑوں کو چبارہا ہے۔ چند چمچے لینے کے بعد اس نے پیالہ دوبارہ ٹیبل پر رکھ دیا۔ وہ اسے کھا نہیں پارہا تھا۔ وہ اب بھی عجیب سی بے یقینی کی گرفت میں تھا۔ کیا واقعی وہ پانچ دن یہاں اکیلا اس طرح پڑارہا تھا کہ اسے خود اپنے بارے میں پتا تھا اور نہ ہی کسی اور کو۔
وہ ایک بار پھر واش روم میں چلا گیا۔ اس کا چہرہ کچھ دیر پہلے جیسا نہیں لگ رہا تھا نہانے سے وہ کچھ بہتر ہوگیا تھا مگر اس کی شیو اور آنکھوں کے گرد پڑے ہوئے حلقے اب بھی اسی طرح موجود تھے۔ آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر وہ کچھ دیرتک اپنی آنکھوں کے گرد پڑے ہوئے حلقوں کو چھوتا رہا یوں جیسے اسے یقین نہ آرہا ہو کہ وہ واقعی وہاں موجود تھے یا پھر اس کا وہم ہے۔ اسے یک دم اپنے چہرے پر موجود بالوں سے وحشت ہونے لگی تھی۔
وہیں کھڑے کھڑے اس نے شیونگ کٹ نکالی اور شیو کرنے لگا۔ شیو کرتے ہوئے اسے ایک بار پھر احساس ہوا کہ اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ یکے بعد دیگرے اسے تین کٹ لگے۔ اس نے شیوکے بعد اپنا چہرہ دھویا اور اس کے بعد تولئے سے آئینے میں اپنے آپ کو دیکھتے ہوئے اسے خشک کرنے لگا جب اسے ان زخموں سے رستے ہوئے خون کا احساس ہوا اس نے چہرے کو تولئے سے تھپتھپانا بند کردیا۔ خالی الذہنی کے عالم میں وہ آئینے میں اپنے چہرے کو دیکھنے لگا۔
اس کے گالوں پر آہستہ آہستہ ایک بار پھر خون کے قطرے نمودار ہورہے تھے۔ گہرا سرخ رنگ، وہ پلکیں، جھپکائے بغیر ان قطروں کو دیکھتا رہا۔ تین ننھے ننھے سرخ قطرے۔
What is next to ecstasy?۔”
”Pain”۔
سرد اور مدھم آواز آئی۔ وہ پتھر کے بت کی طرح ساکت ہوگیا۔
”What is next to pain?۔”
”Nothingness”۔
اسے ایک ایک لفظ یاد تھا۔
”Nothingness”۔
”وہ آئینے میں اپنے آپ کو دیکھتے ہوئے بڑبڑایا۔ اس کے گالوں کی حرکت سے خون کے قطرے اس کے گالوں پر پھسلنے لگے۔
”And what come next to nothingness”۔
”Hell”۔
سالار کو یک دم ابکائی آئی۔ وہ واش بیسن پر بے اختیار دوہرا ہوگیا۔ چند منٹ پہلے کھائی گئی خوراک ایک بار پھر باہر آگئی تھی۔ اس نے نل کھول دیا۔ اس نے اس کے بعد کیا پوچھا تھا۔ اس نے اس کے جواب میں کیا کہا تھا اسے یاد تھا۔
”ابھی تمہیں کوئی چیز سمجھ میں نہیں آرہی۔ ابھی آئے گی بھی نہیں۔ ایک وقت آئے گا جب تم سب کچھ سمجھ جاؤگے۔ ہر شخص پر ایک وقت آتا ہے جب وہ سب کچھ سمجھنے لگتا ہے جب کوئی معمہ، معمہ نہیں رہتا۔ میں اس دور سے گزر رہی ہوں۔ تم پر وہ دور آئندہ کبھی آئے گا۔ اس کے بعد تم دیکھنا۔ کیا تمہیں ہنسی آتی ہے۔”
سالار کو ایک اور ابکائی آئی، اسے اپنی آنکھوں سے پانی بہتا ہوا محسوس ہوا۔
”زندگی میں ہم کبھی نہ کبھی اس مقام پر آجاتے ہیں جہاں سارے رشتے ختم ہوجاتے ہیں۔ وہاں صرف ہم ہوتے ہیں اور اللہ ہوتا ہے۔ کوئی ماں باپ کوئی بہن بھائی، کوئی دوست نہیں ہوتا۔ پھر ہمیں پتا چلتا ہے کہ ہمارے پیروں کے نیچے زمین ہے نہ ہمارے سرکے اوپر کوئی آسمان، بس صرف ایک اللہ ہے جو ہمیں اس خلا میں بھی تھامے ہوئے ہے۔ پھر پتا چلتا ہے ہم زمین پر پڑی مٹی کے ڈھیر میں ایک ذرّے یا درخت پر لگے ہوئے ایک پتے سے زیادہ کی وقعت نہیں رکھتے۔ پھر پتا چلتا ہے کہ ہمارے ہونے یا نہ ہونے سے صرف ہمیں فرق پڑتا ہے۔ صرف ہمارا کردار ختم ہوجاتا ہے۔ کائنات میں کوئی تبدیلی نہیں آتی کسی چیز پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔”
سالار کو اپنے سینے میں عجیب سا درد محسوس ہورہا تھا۔ اس نے بہتے ہوئے پانی کو منہ میں ڈالا اسے ایک بار پھر ابکائی آئی۔
”اس کے بعد ہماری عقل ٹھکانے آجاتی ہے۔”
وہ اس آواز کو اپنے ذہن سے جھٹکنے کی کوشش کررہا تھا۔ اسے حیرانی ہورہی تھی وہ اسے اس وقت کیوں یاد آئی تھی۔
اس نے پانی کے چھینٹے اپنے چہرے پر مارنے شروع کردئیے۔ چہرے کو ایک بار پھر پونچھنے لگا۔ آفٹر شیو کی بوتل کھول کر اس نے گالوں پر موجود ان زخموں پر لگانا شروع کردیا جہاں اب اسے پہلی بار تکلیف ہورہی تھی۔
واش روم سے باہر نکلتے ہوئے اسے احساس ہورہا تھا کہ اس کے ہاتھ اب بھی کانپ رہے ہیں۔
”مجھے ڈاکٹر کے پاس چلے جانا چاہئے۔” وہ اپنی مٹھیاں بھینچنے لگا۔”مجھے مدد کی ضرورت ہے اپنا چیک اپ کروانا ہے۔”
وہ نہیں جانتا تھا اسے یک دم وہاں وحشت کیوں ہونے لگی تھی۔ اسے اپنا سانس وہاں بند ہوتا محسوس ہورہا تھا۔ یوں جیسے کوئی اس کی گردن پر پاؤں رکھے آہستہ آہستہ دباؤ ڈال رہا تھا۔
”کیا یہ ممکن ہے کہ سب لوگ مجھے اس طرح بھول جائیں۔ اس طرح۔۔۔”
اس نے اپنی وارڈروب سے نئے کپڑے نکال کر ایک بار پھر کچھ دیر پہلے کا پہنا ہوا لباس بدلنا شروع کردیا۔ وہ جلد ازجلد ڈاکٹر کے پاس جانا چاہتا تھا اسے اپنے اپارٹمنٹ سے یک دم خوف محسوس ہونے لگا تھا۔
اس رات گھر آکر وہ تقریباً ساری رات جاگتا رہا تھا۔ ایک عجیب سی کیفیت نے اسے اپنی گرفت میں لیا ہوا تھا۔ اس کا ذہن یہ تسلیم نہیں کررہا تھا کہ اسے اس طرح بھلا دیا گیا ہے۔ وہ ماں باپ کی ضرورت سے زیادہ توجہ ہمیشہ حاصل کرتا رہا تھا۔ کچھ اس کی حرکتوں کی وجہ سے بھی سکندر عثمان اور طیبہ کو اس کے معاملے میں بہت زیادہ محتاط ہونا پڑا۔ وہ ہمیشہ ہی اس کے بارے میں فکر مند رہے تھے، مگر اب یک دم چند دنوں کے لئے وہ جیسے سب کی زندگی سے نکل گیا تھا۔ دوستوں کی، بہن بھائیوں کی، ماں باپ کی۔ وہ اگر اس بیماری کے دوران وہاں اس اپارٹمنٹ میں مرجاتا تو کسی کو پتا تک نہیں چلتا شاید تب تک جب تک اس کی لاش گلنے سڑنے نہ لگتی اور اس موسم میں ایسا ہونے میں کتنے دن لگتے۔
وہ اس رات ایک ایک گھنٹے کے بعد اپنےAnswerphone کو چیک کرتا رہا۔ اگلا پورا ہفتہ اس نے اسی بے یقینی کے عالم میں اپنے اپارٹمنٹ میں گزارا، پورے ہفتے کے دوران اسے کہیں سے کوئی کال نہیں ملی۔
”کیا سب لوگ مجھے بھول گئے ہیں؟”
وہ وحشت زدہ ہوگیا۔ ایک ہفتہ تک بے وقوفوں کی طرح کسی کی کال کا انتظار کرتے رہنے کے بعد اس نے خود سب سے رابطہ کی کوشش کی۔
وہ انہیں فون پر بتانا چاہتا تھا کہ اس کے ساتھ کیا ہوا تھا۔ وہ کس کیفیت سے گزرا تھا۔ وہ ان کے ساتھ شکوہ کرنا چاہتا تھا، مگر ہر ایک سے رابطہ کرنے پر اسے پہلی باریوں محسوس ہوا جیسے کسی کو اس میں کوئی دلچسپی ہی نہیں تھی۔ ہر ایک کے پاس اپنی مصروفیات کی تفصیلات تھیں۔
سکندر اور طیبہ اسے آسٹریلیا میں اپنی سرگرمیوں سے آگاہ کرتے رہے۔ وہ وہاں کیا کررہے تھے، کتنا انجوائے کررہے تھے۔ وہ کچھ غائب دماغی کے عالم میں ان کی باتیں سنتا رہا۔
”تم انجوائے کررہے ہو اپنی چھٹیاں؟”
بہت لمبی چوڑی بات کے بعد طیبہ نے بالآخر اس سے پوچھا۔
”میں؟ ہاں، بہت…” وہ صرف تین لفظ بول سکا۔
وہ واقعی نہیں جانتا تھا کہ اسے طیبہ سے کیا کہنا، اسے کیا بتانا چاہئے۔
باری باری سب سے بات کرتے ہوئے وہ پہلی بار اس قسم کی صورت حال اور کیفیت سے دوچار ہوا تھا۔ ان میں سے ہر ایک کو بنیادی طورپر صرف اپنی زندگی سے دلچسپی تھی۔ شاید وہ انہیں اپنے ساتھ ہونے والے واقعات بتا پاتا تو وہ اس کے لئے تشویش کا اظہار کرتے۔ پریشان ہوجاتے مگر وہ سب بعد میں ہوتا۔ اس کے بتانے کے بعد، اس سے پہلے ان کی زندگی کے دائرے میں اس کی زندگی کہاں آتی تھی۔ کس کو دلچسپی تھی یہ سننے میں کہ اس کے چند دن کس طرح غائب ہوگئے۔
اور شاید تب ہی اس نے پہلی بار سوچا اگر میری زندگی ختم بھی ہوگئی تو کسی دوسرے کو اس سے کیا فرق پڑے گا۔ دنیا میں کیا تبدیلی آئے گی؟ میرا خاندان کیا محسوس کرے گا؟ کچھ بھی نہیں۔ چند دنوں کے دکھ کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں اور دنیا میں تو شاید چند لمحوں کے لئے بھی کوئی تبدیلی نہ آئے۔
سالار سکندر اگر غائب ہوجائے تو واقعی کسی دوسرے کو اس سے کیا فرق پڑے گا۔ چاہے اس کا آئی کیولیول150 ہو۔ وہ اپنی سوچوں کو جھٹکنے کی کوشش کرتا مگر ایسی مایوسی اور اس طرح کی ذہنی حالت… آخر مجھے ہو کیا گیا ہے اگر سب لوگ کچھ دنوں کے لئے مجھے بھول بھی گئے تو اس سے کیا فرق پڑے گا۔ بعض دفعہ ایسا ہوجاتا ہے میں بھی تو بہت بار بہت سے لوگوں کے ساتھ رابطہ نہیں رکھ پاتا۔ پھر اگر میرے ساتھ ایسا ہوگیا تو۔
مگر میرے ساتھ ایسا کیوں ہوا؟ اور اگر واقعی میں، میں اس بے ہوشی سے واپس ہوش میں نہ آتا تو… اگر میرا بخار کم نہ ہوتا اگر سینے یا پیٹ کا وہ درد ختم نہ ہوتا… اپنے ذہن سے وہ یہ سب کچھ جھٹکنے کی کوشش کرتا لیکن ناکام رہتا یہ تکلیف سے زیادہ خوف تھا جس کا شکار وہ اس اچانک بیماری کے دوران ہوا تھا۔”شاید میں کچھ زیادہ حساس ہوتا جارہا ہوں۔” وہ سوچتا ورنہ ایک معمولی سی بے ہوشی کو خوا مخواہ ہوا بنا کر سرپر کیوں سوار کررہا ہوں۔
وہ جھنجھلاتا۔
”کم از کم اب تو ٹھیک ہوچکا ہوں پھر آخر اب مجھے کیا تکلیف ہے کہ میں اس طرح موت کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔ آخر پہلے بھی تو کئی بار بیمار ہوچکا ہوں۔ خودکشی کی کوشش کرچکا ہوں، جب مجھے کسی خوف نے تنگ نہیں کیا تو آخر اب کیوں مجھے اس طرح کے خوف تنگ کرنے لگے ہیں۔
اس کی الجھن اور اضطراب میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔
”اور پھر مجھے تو بخار کی وہ تکلیف ٹھیک سے یاد بھی نہیں۔ میرے لئے تو یہ صرف خواب یا کو ماکی طرح ہے۔ اس سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔” وہ مسکرانے کی کوشش کرتا۔
”کیا چیز ہے جو مجھے پریشان کررہی ہے۔ کیا بیماری؟ یا پھر یہ بات کہ کسی کو میری ضرورت نہیں پڑی۔ کسی کو میری یاد نہیں آئی۔ خیال تک نہیں، میرے اپنے لوگوں کو بھی، میرے فیملی ممبرز کو۔
دوستوں کو۔۔۔”
”مائی گاڈ… … تمہیں کیا ہوا ہے سالار؟” یونیورسٹی کھلتے ہی پہلے ہی دن سینڈرانے اسے دیکھتے ہی کہا۔
”مجھے کچھ بھی نہیں ہوا۔” سالار نے مسکرانے کی کوشش کی۔
”تم بیمار رہے ہو؟”اسے تشویش ہوئی۔
”ہاں تھوڑا بہت۔”
”مگر مجھے تو نہیں لگتے کہ تم تھوڑے بہت بیمار رہے ہو۔ تمہارا وزن کم ہوگیا ہے اور آنکھوں کے گرد حلقے پڑے ہوئے ہیں۔ کیا بیماری تھی تمہیں؟”
”کچھ نہیں، تھوڑا سا بخار اور فوڈپوائزننگ…” وہ پھر مسکرایا۔
”تم پاکستان گئے ہوئے تھے؟”
”نہیں، یہیں تھا۔”
”مگر میں نے تو تمہیں نیویارک جانے سے پہلے کئی بار رنگ کیا۔ ہمیشہAnswerphoneہی ملا۔ تم یہ ریکارڈ کروا دیتے کہ تم پاکستان جارہے ہو۔”
”جسٹ اسٹاپ اٹ!” وہ بے اختیار جھنجھلایا۔” سوال پر سوال کرتی جارہی ہو تم۔”
سینڈرا حیرانی سے اس کا چہرہ دیکھنے لگی۔”تم میری بیوی تو نہیں ہوکہ اس طرح بات کررہی ہو مجھ سے؟”
”سالار کیا ہوا؟”
”کچھ نہیں ہوا۔ تم بس ختم کرو یہ ساری بات، کیا ہوا؟ کیوں ہوا؟ کہاں رہے؟ کیوں رہے، ربش۔”
سینڈرا چند لمحے بول نہیں سکی۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ وہ اس طرح ری ایکٹ کرے گا۔
سینڈرا اس دن اس سے یہ سارے سوال پوچھنے والی اکیلی نہیں تھی۔ اس کے تمام دوستوں اور جاننے والوں نے اسے دیکھتے ہی کچھ اسی طرح کے سوال، تبصرے یا تاثرات دئیے تھے۔
وہ دن ختم ہونے تک بری طرح جھنجھلاہٹ کا شکار ہوچکا تھا اور کسی حدتک مشتعل بھی۔ وہ کم از کم ان سوالوں کو سننے کے لئے یونیورسٹی نہیں آیا تھا۔ اس طرح کے تبصرے اسے باربار یاد ہانی کروارہے تھے کہ اس کے ساتھ کچھ نہ کچھ غلط ضرور ہوچکا ہے اور وہ ان احساسات سے چھٹکارا پانا چاہتا تھا۔
٭…٭…٭