”واپس کب آؤگے؟”
”اتوار کی رات کو۔”
”تم ایسا کرو کہ اپنے اپارٹمنٹ کی چابی مجھے دے جاؤ۔ میں دودن تمہارے اپارٹمنٹ پر گزاروں گا، کچھ اسائمنٹس ہیں جو مجھے تیار کرنے ہیں اور اس ویک اینڈ پر وہ چاروں ہی گھر ہوں گے۔ وہاں بڑا رش ہو گا میں تمہارے اپارٹمنٹ میں اطمینان سے پڑھ لوں گا۔” سعد نے کہا۔
”اوکے تم میرے اپارٹمنٹ میں رہ لینا۔” سالار نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔
اسے سینڈرا کے ساتھ جمعہ کی رات کو نکلنا تھا۔ سالار کا بیگ اس کی گاڑی کی ڈکی میں تھا۔ یہ ایک اتفاق ہی تھا کہ سینڈرا کو عین آخری وقت میں چند کام نبٹانے پڑگئے اور وہ جو سرشام نکلنے کا ارادہ کئے بیٹھے تھے ان کا پروگرام ہفتے کی صبح تک ملتوی ہوگیا۔ سینڈراپے انگ گیسٹ کے طورپر کہیں رہتی تھی اور وہ اس کے پاس رات نہیں گزار سکتا تھا۔ اسے اپنے اپارٹمنٹ واپس آنا پڑا۔
رات کو تقریباً گیارہ بجے سینڈراکو اس کی رہائش گاہ پر ڈراپ کرنے کے بعد وہ اپنے اپارٹمنٹ چلا آیا۔ اس نے سعد کو ایک چابی دی تھی۔ دوسری چابی اس کے پاس ہی تھی وہ جانتا تھا کہ سعد اس وقت بیٹھا پڑھ رہا ہوگا مگر اس نے اسے ڈسٹرب کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ وہ اپارٹمنٹ کا بیرونی دروازہ کھول کر اندر داخل ہوگیا، لونگ روم کی لائٹ آن تھی۔ اندر داخل ہوتے ہیں اسے کچھ عجیب سا احساس ہوا تھا وہ اپنے بیڈروم میں جانا چاہتا تھا مگر بیڈروم کے دروازے پر ہی رُک گیا۔
بیڈروم کا دروازہ بند تھا مگر اس کے باوجود اندر سے ابھرنے والے قہقہے اور باتوں کی آوازیں سن سکتا تھا۔ سعد کے ساتھ اندر کوئی عورت تھی۔ وہ جامد ہوگیا۔ اس کے گروپ میں صرف سعد تھا جس کے بارے میں اس کا خیال تھا کہ کسی لڑکی کے ساتھ اس کے تعلقات نہیں تھے۔ وہ جتنا مذہبی آدمی تھا اس سے یہ توقع کی ہی نہیں جاسکتی تھی وہ اندر داخل نہیں ہوا۔ قدرے بے یقینی سے واپس مڑگیا اور تب اس کی نظر لونگ روم کی ٹیبل پر رکھی بوتل اور گلاس پر پڑی، وہاں سے کچن کاؤنٹر جہاں کھانے کے برتن ابھی تک پڑے ہوئے تھے۔ وہ مزید وہاں رکے بغیر اسی طرح خاموشی سے وہاں سے نکل آیا۔
اس کے لئے یہ بات ناقابل یقین تھی کہ سعد وہاں کسی لڑکی کے ساتھ رہنے کے لئے آیا تھا۔ بالکل ناقابل یقین… جو شخص حرام گوشت نہ کھاتا ہو۔ شراب نہ پیتا ہو، پانچ وقت کی نماز پڑھتا ہو، ہر وقت اسلام کی بات کرتا رہتا ہو، دوسروں کو اسلام کی تبلیغ کرتا ہو، وہ کسی لڑکی کے ساتھ… اپارٹمنٹ کے دروازے کو باہر سے بند کرتے ہوئے وہ اسی طرح شاک کے عالم میں تھا… بوتل اور گلاس تو یہی ظاہر کررہے تھے کہ اس نے پی بھی ہوگی اور شاید کھانا وغیرہ بھی کھایا ہوگا۔ اسی فریج اور کچن میں جہاں کا وہ پانی تک پینے کے لئے تیار نہیں ہوتا تھا۔ اسے ہنسی آرہی تھی، جو اپنے آپ کو جتنا اچھا اور سچا مسلمان ظاہر کرنے یا بننے کی کوشش کرتا دکھائی دیتا ہے وہ اتنا بڑا افراڈ ہوتا ہے۔ ایک یہ شخص تھا جویوں ظاہر کرتا تھا جیسے پورے امریکہ میں ایک ہی مسلمان ہے اور ایک وہ لڑکی تھی امامہ… جو ٹینٹ جتنی بڑی چادر اوڑھتی تھی اور کردار اس کا یہ تھا کہ ایک لڑکے کے لئے گھر سے بھاگ گئی… اور بنتے پھرتے ہیں سچے مسلمان۔” نیچے اپنی گاڑی میں آکر بیٹھتے ہوئے اس نے کچھ تنفر سے سوچا۔” منافقت اور جھوٹ کی حد ان پر ختم ہوجاتی ہے۔”
وہ گاڑی پارکنگ سے نکالتے ہوئے بڑ بڑا رہا تھا، اس وقت وہ سینڈرا کے پاس نہیں جاسکتا تھا۔ اس نے دانش کے پاس جانے کا فیصلہ کیا وہ اسے دیکھ کر حیران ہوا۔ سالار نے بہانہ بنا دیا کہ وہ بور ہورہا تھا اس لئے اس نے دانش کے پاس آنے اور رات وہاں گزارنے کا فیصلہ کیا۔ دانش مطمئن ہوگیا۔
٭…٭…٭
اتوار کی رات کو جب وہ واپس نیوہیون اپنے اپارٹمنٹ آیا تو سعد وہاں نہیں تھا، اس کے فلیٹ میں کہیں بھی ایسے آثار نہیں تھے جس سے یہ پتا چلتا کہ وہاں کوئی عورت آئی تھی، وائن کی وہ بوتل بھی اسے کہیں نہیں ملی۔ وہ زیرلب مسکراتا ہوا پورے اپارٹمنٹ کا تفصیلی جائزہ لیتا رہا۔ وہاں موجود ہر چیز ویسے ہی تھی جیسی وہ چھوڑ کر گیا تھا۔ سالار نے اپنا سامان رکھنے کے بعد سعد کو فون کیا۔ کچھ دیر رسمی باتیں کرتے رہنے کے بعد وہ موضوع پر آگیا۔
”پھر اچھی رہی تمہاری اسٹڈیز… اسائنمنٹ بن گئے؟”
”ہاں یار! میں تو دو دن اچھا خاصا پڑھتا رہا۔ اسائنمنٹس تقریباً مکمل کرلی ہیں۔ تم بتاؤ تمہارا ٹرپ کیسا رہا؟” سعد نے جواباً پوچھا۔
”بہت اچھا۔۔۔”
”کتنی دیر میں پہنچ گئے تھے وہاں، رات کو سفر کرتے ہوئے کوئی پرابلم تو نہیں ہوئی؟”
سعد نے سر سری سے لہجے میں پوچھا۔
”نہیں رات کو سفر نہیں کیا؟”
”کیا مطلب؟”
”مطلب یہ کہ فرائیڈے کی رات کو نہیں سیٹر ڈے کی صبح گئے تھے ہم لوگ وہاں۔” سالار نے بتایا۔
”تم پھر سینڈرا کی طرف رہے تھے؟”
”نہیں دانش کے پاس۔”
”کیوں یہاں آجاتے اپنے اپارٹمنٹ پر۔”
”آیا تھا۔” سالار نے بڑے اطمینان سے کہا۔
دوسری طرف خاموشی چھاگئی۔ سالار دل ہی دل میں ہنسا۔ سعد کے پیروں کے نیچے سے یقینا اس وقت زمین نکل گئی تھی۔
”آئے تھے…؟ کب…؟” اس بار وہ بے اختیار ہکلایا۔
”گیارہ بجے کے قریب… تم اس وقت کسی لڑکی کے ساتھ مصروف تھے۔ میں نے تم لوگوں کو ڈسٹرب کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ اس لئے وہاں سے واپس آگیا۔”
وہ اندازہ کرسکتا تھا کہ سعد پر اس وقت سکتہ طاری ہوچکا ہوگا۔ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں آ سکتا تھا کہ سالار اس طرح اس کا بھانڈا پھوڑ دے گا۔
”ویسے تم نے کبھی اپنی گرل فرینڈ سے ملوایا نہیں۔” اس نے مزید کہا۔ سعد کو سانس لینے میں جتنی دقت ہورہی ہوگی وہ اندازہ کرسکتا تھا۔
”بس ویسے ہی۔ ملوادوں گا۔” اس نے دوسری طرف سے بے حد مدھم اور معذرت خواہانہ انداز میں کہا۔
”مگر تم کسی اور سے اس کا ذکر مت کرنا۔” اس نے ایک ہی سانس میں کہا۔
”میں کیوں ذکر کروں گا، تمہیں گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔”
سالار اس کی کیفیت سمجھ سکتا تھا۔ اسے اس وقت سعد پر کچھ ترس بھی آرہا تھا۔
اس رات سعد نے چند منٹوں بعد ہی فون رکھ دیا۔ سالار کو اس کی شرمندگی کا اچھی طرح اندازہ تھا۔
اس واقعے کے بعد سالار کا خیال تھا کہ سعد دوبارہ کبھی اس کے سامنے اپنی مذہبی عقیدت اور وابستگی کا ذکر نہیں کرے گا مگر اسے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی تھی کہ سعد میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔ وہ اب بھی اسی شد و مد سے مذہب پر بات کرتا۔ دوسروں کو ٹوک دیتا۔ نصیحتیں کرتا۔ نماز پڑھنے کی ہدایت دیتا۔ صدقہ، خیرات دینے کے لئے کہتا۔ اللہ سے محبت کے بارے میں گھنٹوں بولنے کے لئے تیار رہتا اور مذہب کے بارے میں بات کر رہا ہوتا تو کسی آیت یا حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے اس کی آنکھوں میں آنسو بھی آجاتے۔
اس کے گروپ کے لوگوں کے ساتھ ساتھ اور بہت سے لوگ سعد سے بہت متاثر تھے اور اس کے کردار سے بہت مرعوب… اور اللہ سے اس کی محبت پر رشک کا شکار، ایک مثالی مسلم… جوانی کی مصروف زندگی میں بھی… اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ سعد بات کرنا جانتا تھا اس کا انداز ِ بیان بے حد متاثر کن تھا۔اور اس کے شناسا لوگوں میں صرف سالار تھا، جس پر اس کی نصیحت کوئی اثر نہیں کرتی تھی جو اس سے ذرّہ برابر بھی متاثر نہیں تھا اور نہ ہی کسی رشک کا شکار… جسے سعد کی داڑھی اس کی دین کے لئے استقامت کا یقین دلانے میں کامیاب ہوئی تھی نہ ہی دوسروں کے لئے اس کاادب و احترام، اس کا نرم انداز ِگفتگو۔
امامہ سے مذہبی لوگوں کے لئے اس کی ناپسندیدگی کا آغاز ہوا تھا۔ جلال نے اسے آگے بڑھایا تھا اور سعد نے اسے انتہا پر پہنچادیا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ مذہبی لوگوں سے بڑھ کر منافق کوئی دوسرا نہیں ہوتا۔ داڑھی رکھنے والا مرد اور پردہ کرنے والی عورت کسی بھی قسم کی، بلکہ ہر قسم کی برائی کا شکار ہوتے ہیں اور ان لوگوں سے زیادہ جو خود کو مذہبی نہیں کہتے۔
اتفاق سے ملنے والے تینوں لوگوں نے اس یقین کو مستحکم کیا۔ امامہ ہاشم، پردہ کرنے والی لڑکی اور ایک لڑکے کے لئے اپنے منگیتر، اپنے خاندان، اپنے گھر کو چھوڑ کر رات میں فرار ہوجانے والی لڑکی۔
جلال انصر… داڑھی والا مرد، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی محبت میں سرشار ہوکر نعتیں پڑھنے والا اور ایک لڑکی سے افیئر چلانے والا اور پھر اسے بیچ راستے میں چھوڑ کر ایک طرف ہوجانے والا، پھر دین الگ، دنیا الگ رکھ کر بات کرنے والا۔ سعد ظفر کے بارے میں اس کی رائے ایک اور واقعہ سے اور خراب ہوئی۔
وہ ایک دن اس کے اپارٹمنٹ پر آیا ہوا تھا۔ سالار اس وقت کمپیوٹرآن کیے اپنا کام کرتے ہوئے اس سے باتیں کرنے لگا، پھر اسے کچھ چیزیں لانے کے لئے اپنے اپارٹمنٹ سے قریبی مارکیٹ جانا پڑا اور اسے پیدل وہاں آنے جانے اور شاپنگ کرنے میں تیس منٹ لگے تھے۔ سعد اس کے ساتھ نہیں آیا تھا۔ جب سالار واپس آیا تو سعد کمپیوٹر پر چیٹنگ میں مصروف تھا۔ وہ کچھ دیر مزید اس کے پاس بیٹھا، گپ شپ کرتا رہا پھر چلا گیا۔ اس کے جانے کے بعد سالار نے لنچ کیا اور ایک بار پھر کمپیوٹر پر آکر بیٹھ گیا۔
وہ بھی کچھ دیر چیٹنگ کرنا چاہتا تھا اور یہ ایک اتفاق ہی تھا کہ اس نے لاشعوری طور پر کمپیوٹر چلاتے ہوئے اس کی ہسٹری دیکھی۔ وہاں ان ویب سائٹس اور پیجز کی تفصیلات تھیں جو کچھ دیر پہلے اس نے یا سعد نے دیکھی تھی۔
سعد نے جن چند ویب سائٹس کو دیکھا تھا وہ پور نو گرافی سے متعلق تھیں۔ اسے اپنے کسی دوسرے دوست کے ان پیجز دیکھنے پر یا ان ویب سائٹس کو وزٹ کرنے پر حیرت ہوتی نہ اعتراض… وہ خود ایسی ویب سائٹس کا وزٹ کرتا رہتا تھا مگر سعد کے ان ویب سائٹس کو وزٹ کرنے پر اسے حیرت ہوئی تھی۔
اس کی نظروں میں وہ کچھ اور نیچے آگیا تھا۔
٭…٭…٭
”پھر تمہاری کیا پلاننگ ہے؟ پاکستان آنے کا ارادہ ہے؟”
وہ اس دن فون پر سکندر سے بات کر رہاتھا۔ سکندر نے اسے بتایا تھا کہ وہ طیبہ کے ساتھ کچھ ہفتوں کے لئے آسٹریلیا جا رہے ہیں۔ انہیں وہاں اپنے رشتہ داروں کے ہاں ہونے والی شادی کی کچھ تقریبات میں شرکت کرنی تھی۔
”آپ دونوں وہاں نہیں ہوں گے تو میں پاکستان آکر کیا کروں گا۔” اسے مایوسی ہوئی۔
”یہ کیا بات ہوئی۔ تم بہن بھائیوں سے ملنا، انیتا تمہیں بہت مس کر رہی ہے۔” سکندر نے کہا۔
”پاپا! میں ادھر ہی چھٹیاں گزاروں گا۔ پاکستان آنے کا کوئی فائدہ نہیں۔”
”تم ایسا کیوں نہیں کرتے کہ ہمارے ساتھ آسٹریلیا چلو، معیز بھی جارہا ہے۔” انہوں نے اس کے بڑے بھائی کا نام لیتے ہوئے کہا۔
“میرا دماغ خراب نہیں ہے کہ میں اس طرح منہ اٹھا کر آپ کے ساتھ آسٹریلیا چلوں۔ معیز کے ساتھ میری کون سی انڈر اسٹینڈنگ ہے، جو آپ مجھے اس کے جانے کا بتا رہے ہیں۔” اس نے خاصی بیزاری کے ساتھ کہا۔
”میں تمہیں مجبور نہیں کروں گا اگر تم وہیں رہنا چاہتے ہو تو ایسا ہی سہی بس اپنا خیال رکھنا اور دیکھو سالار کوئی غلط کام مت کرنا۔”
انہوں نے اسے تنبیہ کی۔ وہ اس غلط کام کی نوعیت کے بارے میں اچھی طرح جانتا تھا اور وہ یہ جملہ سننے کا اتنا عادی ہوچکا تھا کہ اب اگر سکندر ہر بار فون بند کرنے سے پہلے اس سے یہ جملہ نہ کہتے تو اسے حیرت ہوتی۔
سکندر سے بات کرنے کے بعد اس نے فون کرکے اپنی سیٹ کینسل کروادی۔ فون کا ریسیور رکھنے کے بعد صوفے پر چت لیٹا چھت کو گھورتے ہوئے وہ یونیورسٹی بند ہونے کے بعد اگلے کچھ ہفتوں کی مصروفیات کے بارے میں سوچتا رہا۔
”مجھے چنددن سکینگ(Skiing) کے لئے کہیں جانا چاہئے یا پھر کسی دوسری اسٹیٹ کو وزٹ کرنا چاہئے۔” وہ منصوبہ بنانے لگا۔” ٹھیک ہے میں کل یونیورسٹی سے واپسی پر کسی ٹورآپریٹر سے ملوں گا۔ باقی کا پروگرام وہیں طے کروں گا۔” اس نے فیصلہ کیا۔
اگلے دن اس نے ایک دوست کے ساتھ مل کر سکینگ کے لئے جانے کا پروگرام طے کرلیا۔ اس نے سکندر اور اپنے بڑے بھائی کو اپنے پروگرام کے بارے میں بتا دیا۔
چھٹیاں شروع ہونے سے ایک دن پہلے اس نے ایک انڈین ریسٹورنٹ میں کھانا کھایا، وہ کھانا کھانے کے بعد بھی کافی دیرتک وہاں بیٹھا رہا پھر وہ ایک قریبی پب میں چلاگیا۔ کچھ دیر وہاں بیٹھنے کے دوران اس نے وہاں چند پیگ پیئے۔
رات دس بجے کے قریب ڈرائیونگ کرتے ہوئے اسے اچانک متلی ہونے لگی۔ گاڑی روک کر وہ کچھ دیر کے لئے سڑک کے گرد پھیلے ہوئے سبزے پر چلنے لگا۔ سرد ہوا اور خنکی نے کچھ دیر کے لئے اسے نارمل کردیا مگر چند منٹوں کے بعد ایک بار پھر اسے متلی ہونے لگی۔ اسے اب اپنے سینے اور پیٹ میں ہلکا ہلکا درد بھی محسوس ہورہا تھا۔
یہ کھانے کا اثر تھا یا پیگ کا۔ فوری طور پر اسے اندازہ نہیں ہوا۔ اب اس کا سربری طرح چکرا رہا تھا۔ یک دم جھکتے ہوئے اس نے بے اختیار قے کی اور پھر چند منٹ اسی طرح جھکا رہا۔ معدہ خالی ہوجانے کے بعد بھی اس کو اپنی حالت بہتر محسوس نہیں ہوئی۔ سیدھا کھڑے رہنے کی کوشش میں اس کے پیر لڑکھڑاگئے۔ اس نے مڑکر اپنی گاڑی کی طرف جانے کی کوشش کی مگر اس کا سر اب پہلے سے زیادہ چکرا رہا تھا۔ چند گزدور کھڑی گاڑی کو دیکھنے میں بھی اسے دقت ہورہی تھی۔ اس نے بمشکل چند قدم اٹھائے مگر گاڑی کے قریب پہنچنے سے پہلے ہی وہ چکرا کر زمین پر گرپڑا اس نے اٹھنے کی کوشش کی مگر اس کا ذہن تاریکی میں ڈوبتا جارہا تھا۔
مکمل طورپر ہوش کھونے سے پہلے اس نے کسی کو اپنے آپ کو جھنجوڑتے محسوس کیا۔ کوئی بلند آواز میں اس کے قریب کچھ کہہ رہا تھا، آوازیں ایک سے زیادہ تھیں۔
سالار نے اپنے سرکو جھٹکنے کی کوشش کی۔ وہ اپنے سر کو حرکت نہیں دے سکا۔ اس کی آنکھیں کھولنے کی کوشش بھی ناکام رہی۔ وہ اب مکمل طورپر تاریکی میں جاچکا تھا۔
٭…٭…٭
اس نے دودن ہاسپٹل میں گزارے تھے۔ وہاں سے گاڑی میں گزرنے والے کسی جوڑے نے اسے گرتے دیکھا تھا اور وہی اسے اٹھا کر ہاسپٹل لے آئے تھے۔ ڈاکٹر زکے مطابق وہ فوڈپوائزننگ کا شکار ہوا تھا۔ وہ ہاسپٹل آنے کے چند گھنٹوں کے بعد ہوش میں آگیا تھا اور وہاں سے چلے جانے کی خواہش رکھنے کے باوجود وہ جسمانی طورپر اپنے آپ کو اتنی بری حالت میں محسوس کررہا تھا کہ وہاں سے جا نہیں سکا۔
اگلے دن شام تک اس کی حالت کچھ بہتر ہونے لگی مگر ڈاکٹر کی ہدایت پر سالارنے وہ رات بھی وہیں گزاری۔ اتوار کوسہ پہر کے قریب وہ گھر آگیا تھا اور گھر آتے ہی اس نے ٹورآپریٹر کے ساتھ طے پاجانے والا پروگرام چند دنوں کے لئے ملتوی کردیا۔ اسے پیر کو صبح نکلنا تھا اور اس نے طے کیا تھا کہ جانے سے پہلے وہ ایک بار پھر سینڈرا کو کال کرے گا لیکن اب پروگرام کینسل کرنے کے ساتھ ساتھ اس نے اس کو یا اپنے کسی بھی دوست کو کال کرنے کا ارادہ بھی ترک کردیا۔
ایک ہلکے پھلکے سینڈوچ کے ساتھ کافی کا ایک کپ پینے کے بعد اس نے سکون آور دوالی اور سونے کے لئے چلا گیا۔
اگلے دن جب اس کی آنکھ کھلی اس وقت گیارہ بج رہے تھے۔ سالار کو نیند سے بیدار ہوتے ہی سرمیں شدید درد کا احساس ہوا۔ اپنا ہاتھ بڑھاکر اس نے اپنا ماتھا اور جسم چھوا، اس کا ماتھا بہت زیادہ گرم تھا۔ ”کم آن!” وہ بیزاری سے بڑبڑایا۔ پچھلے دودن کی بیماری کے بعد وہ اگلے دودن بستر پر پڑے ہوئے نہیں گزارنا چاہتا تھا اور اس وقت اسے اس کے آثار نظر آرہے تھے۔
جوں توں بیڈ سے نکل کر وہ منہ ہاتھ دھوئے بغیر ایک بار پھر کچن میں آگیا کافی بننے کے لئے رکھ کر وہ آکرAnswerphoneپر ریکارڈ کالز سننے لگا، چند کالز سعد کی تھیں جس نے واپس پاکستان جانے سے پہلے اس سے ملنے کے لئے باربار اسے رنگ کیا تھا اور پھر آخری کال میں اس کے اس طرح غائب ہونے پر اسے اچھی خاصی صلواتیں سنائی تھیں۔
سینڈرا کا اندازہ تھا کہ وہ اس سے ملے بغیر سکینگ کے لئے چلا گیا تھا۔ یہی خیال سکندر اور کامران کا تھا۔ انہوں نے بھی اسے چند کالز کی تھیں۔ چند کالز اس کے کچھ کلاس فیلوز کی تھیں۔ وہ بھی چھٹیاں گزارنے کے لئے اپنے گھروں کو جانے سے پہلے کی گئی تھیں۔ ہرایک نے اسے تاکید کی تھی کہ وہ انہیں جوابی کال کرے اگر اس نے پچھلے دودن اپارٹمنٹ پر گزارے ہوتے تو وہ یقینا یہ کام کرتا مگر اب وہ جانتا تھا کہ اب وہ سب واپس جاچکے ہوں گے البتہ وہ سکندر، کامران اور سعد کو پاکستان میں کال کرسکتا تھا مگر اس وقت وہ یہ کام کرنے کے موڈ میں نہیں تھا۔
کافی کے ایک مگ کے ساتھ دو سلائس کھانے کے بعد اس نے گھرپر موجود چند میڈیسنزلیں اور پھر دوبارہ بیڈ پر لیٹ گیا۔ اس کا خیال تھا کہ بخار کے لئے اتنا ہی کافی تھا اور شام تک وہ اگر مکمل طورپر نہیں تو کافی حدتک ٹھیک ہوچکا ہوگا۔
اس کا اندازہ بالکل غلط ثابت ہوا۔ شام کے وقت میڈیسن کے زیر اثر آنے والی نیند سے بیدار ہوا تو اس کا جسم بری طرح بخار میں پھنک رہا تھا۔ اس کی زبان اور ہونٹ خشک تھے اور اسے اپنا حلق کانٹوں سے بھرا ہوا محسوس ہورہا تھا۔ پورے جسم کے ساتھ ساتھ اس کا سر بھی شدید درد کی گرفت میں تھا اور شاید اس کے اس طرح بیدار ہونے کی وجہ یہ شدید بخار اور تکلیف ہی تھی۔
اس بار اوندھے منہ، بیڈ پر لیٹتے ہوئے اس نے اپنے دونوں ہاتھ تکیے پر ماتھے کے نیچے رکھتے ہوئے ہاتھوں کے انگوٹھوں سے کنپٹیوں کو مسلتے ہوئے سر میں اٹھنے والی درد کی ٹیسوں کو کم کرنے کی کوشش کی مگر وہ بری طرح ناکام رہا۔ چہرہ تکیے میں چھپائے وہ بے حس وحرکت پڑا رہا۔
تکلیف کو برداشت کرنے کی کوشش میں وہ کب دوبارہ نیند کی آغوش میں گیا اسے اندازہ نہیں ہوا۔
پھر جب اس کی آنکھ کھلی تو اس وقت کمرے میں مکمل اندھیرا تھا۔ رات ہوچکی تھی اور صرف کمرہ ہی نہیں پورا گھر تاریک تھا وہ پہلے سے زیادہ تکلیف میں تھا۔ چند منٹوں تک بیڈ سے اٹھنے کی ناکام کوشش کرنے کے بعد وہ ایک بار پھر لیٹ گیا۔ ایک بار پھر اس نے اپنے ذہن کو تاریکی میں ڈوبتے محسوس کیا مگر اس بار یہ نیند نہیں تھیں۔ وہ غنودگی کی کسی درمیانی کیفیت میں سے گزر رہا تھا۔ وہ اب خود کو کراہتے ہوئے سن رہا تھا مگر وہ اپنی آواز کا گلا نہیں گھونٹ پارہا تھا۔ سینٹرل ہیٹنگ ہونے کے باوجود اسے بے تحاشا سردی محسوس ہورہی تھی۔ اس کا جسم بری طرح کانپ رہا تھا اور کمبل اس کی کپکپاہٹ کو ختم کرنے میں ناکام تھا وہ جسمانی طورپر خود اٹھ کر کچھ بھی پہننے یا اوڑھنے کے قابل نہیں تھا۔ اسے اپنے سینے اور پیٹ میں ایک بارپھر درد محسوس ہونے لگا تھا۔
اس کی کراہوں میں اب شدت آتی جارہی تھی۔ ایک بار پھر متلی محسوس کرنے پر اس نے اٹھنے اور تیزی سے واش روم تک جانے کی کوشش کی مگر وہ اپنی کوشش میں کامیاب نہیں ہوا تھا۔ چند لمحوں کے لئے وہ بیڈ پر اٹھ کر بیٹھنے میں کامیاب ہوا اور اس سے پہلے کہ وہ بیڈ سے اترنے کی کوشش کرتا اسے ایک زور کی ابکائی آئی۔ پچھلے چوبیس گھنٹوں میں اندر رہ جانے والی تھوڑی بہت خوراک بھی باہر آگئی تھی۔ وہ غشی کے عالم میں بھی اپنے کپڑوں اور کمبل سے بے نیاز نہیں تھا مگر وہ مکمل طورپر گندگی سے لتھڑے ہوئے بے بس تھا اسے اپنا پورا وجود مفلوج محسوس ہورہا تھا۔ بے جان سی حالت میں وہ اسی طرح دوبارہ بستر پر لیٹ گیا۔ اسے اپنا دل ڈوبتا ہوا محسوس ہورہا تھا۔ وہ اردگرد کے ماحول سے مکمل طورپر بے نیاز ہوچکا تھا۔ غشی کی کیفیت میں کراہوں کے ساتھ اس کے منہ میں جو کچھ آرہا تھا وہ بولتا جارہا تھا۔