پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۵

مگر سالار کو اب پتہ چلا تھا کہ اس کی توقع یا اندازے کے برعکس وہ وہاں گئی ہی نہیں۔
ویٹراب کھانا سرو کررہا تھا، اس کا کزن آچکا تھا، وہ دونوں باتیں کرتے ہوئے کھانا کھاتے رہے مگر سالار کھانا کھاتے اور باتیں کرتے ہوئے بھی مسلسل امامہ اور جلال کے بارے میں سوچتا رہا۔ کئی ماہ بعد یک دم وہ اس کے ذہن میں پھر تازہ ہوگئی تھی۔
”کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ دوبارہ اپنے گھر واپس چلی گئی ہو؟” کھانا کھاتے کھاتے اسے اچانک خیال آیا۔”ہاں یہ ممکن ہے…” اس کا ذہن متواتر ایک ہی جگہ اٹکا ہوا تھا۔”مجھے پاپا سے بات کرنی چاہئے۔ انہیں یقینا اس کے بارے میں کچھ نہ کچھ پتا ہوگا۔” سکندر عثمان بھی ان دنوں شادی میں شرکت کی غرض سے وہیں تھے۔
واپس گھر آنے کے بعد رات کے قریب جب اس نے سکندر کو تنہا دیکھا تو اس نے ان سے امامہ کے بارے میں پوچھا۔
”پاپا! کیا امامہ واپس اپنے گھر آگئی ہے؟” اس نے کسی تمہید کے بغیر سوال کیا۔
اور اس کے سوال نے کچھ دیر کے لئے سکندر کو خاموش رکھا۔
”تم کیوں پوچھ رہے ہو؟” چند لمحوں کے بعد انہوں نے درشتی سے کہا۔
”بس ایسے ہی۔”
”اس کے بارے میں اتنا غورفکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ تم اپنی اسٹڈیز پر اپنا دھیان رکھو تو بہتر ہے۔”
”پاپا پلیز! آپ میرے سوال کا جواب دیں۔”
”کیوں جواب دوں… تمہارا اس کے ساتھ تعلق کیا ہے؟” سکندر کی ناراضی میں اضافہ ہوگیا۔
”پاپا اس کا ایک بوائے فرینڈ مجھے آج ملا ہے یہاں، وہی جس کے ساتھ وہ شادی کرنا چاہتی تھی۔”
”تو پھر…؟”
”تو پھر یہ کہ ان دونوں نے شادی نہیں کی۔ وہ بتا رہا تھا کہ امامہ اس کے پاس گئی ہی نہیں۔ جب کہ میں سمجھ رہا تھا کہ لاہور جانے کے بعد وہ اسی کے پاس گئی ہوگی۔”
سکندر نے اس کی بات کاٹ دی۔” وہ اس کے پاس گئی یا نہیں۔ اس نے اس سے شادی کی یا نہیں۔ یہ تمہارا مسئلہ نہیں ہے۔ نہ ہی تمہیں اس میں انوالو ہونے کی ضرورت ہے۔”
”ہاں، یہ میرا مسئلہ نہیں ہے مگر میں جاننا چاہتا ہوں کیا امامہ آپ کے پاس آئی تھی؟ آپ نے اسے شادی کے پیپرز کیسے بھجوائے تھے۔ میرا مطلب کس کے ذریعے۔” سالار نے کہا۔
”تم سے کس نے کہا کہ اس نے مجھ سے رابطہ کیا تھا؟”
وہ ان کے سوال پر حیران ہوا۔”میں نے خود اندازہ لگایا۔”
”اس نے مجھ سے کوئی رابطہ نہیں کیا وہ رابطہ کرتی تو میں ہاشم مبین کو اس کے بارے میں بتا دیتا۔”
سالار ان کا چہرہ دیکھتا رہا۔” میں نے تمہارے کمرے کی تلاشی لی تھی اور میرے ہاتھ وہ نکاح نامہ لگ گیا۔”
”مجھے یہاں بھجواتے ہوئے آپ نے کہا تھا کہ آپ وہ پیپرز امامہ تک بھجوادیں گے۔”
”ہاں… یہ اس صورت میں ہوتا اگر وہ مجھ سے رابطہ کرتی مگر اس نے مجھ سے رابطہ نہیں کیا۔ تمہیں یہ یقین کیوں ہے کہ اس نے مجھ سے ضرور رابطہ کیا ہوگا۔” اس بار سکندر نے سوال کر ڈالا۔
سالار کچھ دیر خاموش رہا پھر اس نے پوچھا۔
”پولیس کو اس کے بارے میں کچھ پتا نہیں چلا؟”
”نہیں، پولیس کو پتا چلتا تو اب تک وہ ہاشم مبین کے گھر واپس آچکی ہوتی مگر پولیس ابھی بھی اس کی تلاش میں ہے۔” سکندر نے کہا۔
”ایک بات تو طے ہے سالار کہ اب تم دوبارہ امامہ کے بارے میں کوئی تماشا نہیں کروگے۔ وہ جہاں ہے جس حال میں ہے تمہیں اپنا دماغ تھکانے کی ضرورت نہیں، تمہارا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ پولیس جیسے ہی اسے ڈھونڈے گی میں وہ پیپرز ہاشم مبین تک پہنچادوں گا، تاکہ تمہاری جان ہمیشہ کے لئے اس سے چھوٹ جائے۔”
”پاپا! کیا اس نے واقعی کبھی گھر فون نہیں کیا مجھ سے بات کرنے کے لئے۔” سالارنے ان کی بات پر غور کئے بغیر کہا۔
”کیا وہ تمہیں فون کیا کرتی تھی؟”
وہ ان کا چہرہ دیکھنے لگا۔” گھر سے چلے جانے کے بعد اس نے صرف ایک بار فون کیا تھا پھر میں یہاں آگیا۔ ہوسکتا ہے اس نے دوبارہ کبھی فون کیا ہو جس کے بارے میں آپ مجھے نہیں بتارہے۔”




”اس نے تمہیں فون نہیں کیا۔ اگر کرتی تو میں تمہاری اور اس کی شادی کے بارے میں بہت سے معاملات کو ختم کردیتا۔ میں تمہاری طرف سے اسے طلاق دے دیتا۔”
”یہ سب آپ کیسے کرسکتے ہیں۔”
سالار نے بہت پرسکون انداز میں کہا۔
”یہاں تمہیں بھجوانے سے پہلے میں نے ایک پیپر پر تمہارے signatures لئے تھے، میں طلاق نامہ تیار کرواچکا ہوں۔” سکندر نے جتاتے ہوئے کہا۔
”fake document” (جعلی ڈاکومنٹ)۔” سالار نے اسی انداز میں تبصرہ کیا۔’ میں تو نہیں جانتا تھا کہ آپ طلاق نامہ تیار کروانے کے لئے مجھ سے سائن کروا رہے ہیں۔”
”تم پھر اس مصیبت کو میرے سرپر لانا چاہتے ہو؟” سکندر کو ایک دم غصہ آگیا۔
”میں نے یہ نہیں کہا کہ میں اس کے ساتھ رشتہ کو قائم رکھنا چاہتا ہوں۔ میں آپ کو صرف یہ بتارہا ہوں کہ آپ، میری طرف سے یہ رشتہ ختم نہیں کرسکتے۔ یہ میرا معاملہ ہے میں خود ہی اسے ختم کروں گا۔”
”تم صرف یہ شکر کرو کہ تم اس وقت یہاں اطمینان سے بیٹھے ہوئے ہو، ورنہ تم نے جس خاندان کو اپنے پیچھے لگالیا تھا وہ خاندان قبر تک بھی تمہارا پیچھا نہ چھوڑتا اور یہ بھی ممکن ہے وہ یہاں بھی تمہاری نگرانی کروارہے ہوں۔ یہ انتظار کررہے ہوں کہ تم مطمئن ہوکر دوبارہ امامہ کے ساتھ رابطہ کرو اور وہ تم دونوں کے لئے ایک کنواں تیار کرلیں۔”
”آپ مجھے خواہ مخواہ خوفزدہ کررہے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ میں یہ ماننے پر تیار نہیں ہوں کہ یہاں امریکہ میں کوئی میری نگرانی کررہا ہوگا اور وہ بھی اتنا عرصہ گزرجانے کے بعد اور دوسری بات یہ کہ میں امامہ کے ساتھ تو کوئی رابطہ نہیں کررہا کیونکہ میں واقعی نہیں جانتا وہ کہاں ہے، پھر رابطے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔”
”تو پھر تمہیں اس کے بارے میں اس قدر کا نشس ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ وہ جہاں ہے جیسی ہے رہنے دوا سے۔” سکندر کو کچھ اطمینان ہوا۔
”آپ میرے موبائل کے بل چیک کریں۔ وہ موبائل اس کے پاس ہے۔ ہوسکتا ہے پہلے نہیں تو اب وہ اس سے کالز کرتی ہو۔”
”وہ اس سے کالز نہیں کرتی۔ موبائل مستقل طورپر بند ہے۔ جو چند کالز اس نے کی تھیں وہ سب میڈیکل کالج میں ساتھ پڑھنے والی لڑکیوں کو ہی کی تھیں اور پولیس پہلے ہی انہیں اینٹیروگیٹ کرچکی ہے۔ لاہور میں وہ ایک لڑکی کے گھرگئی تھی مگر وہ لڑکی پشاور تھی اور اس کے واپس آنے سے پہلے ہی وہ اس کے گھر سے چلی گئی، کہاں گئی، یہ پولیس کو پتا نہیں چل سکا۔”
سالار چبھتی ہوئی نظروں سے انہیں دیکھتا رہا پھر اس نے کہا۔” آپ کو حسن نے میرے اور اس کے بارے میں بتایا تھا؟”
سکندر کچھ بول نہیں سکے۔ موبائل کے امامہ کے پاس ہونے کے بارے میں صرف حسن ہی جانتا تھا۔ کم از کم یہ ایسی بات تھی جو سکندر عثمان صرف اس کے کمرے کی تلاشی لے کر نہیں جان سکتے تھے۔ اسے ان سے بات کرتے ہوئے پہلی بار اچانک حسن پر شبہ ہوا تھا کیونکہ سکندر عثمان کو اتنی چھوٹی چھوٹی باتوں کا پتا تھا جو صرف اسے پتا تھیں یا پھر حسن کو… کوئی تیسرا ان سے واقف نہیں تھا۔ اس نے سکندر عثمان کو کچھ نہیں بتایا تھا تو یقینی طورپر یہ حسن ہی ہوسکتا تھا جس نے انہیں ساری تفصیلات سے آگاہ کیا تھا۔
”اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ مجھے حسن نے بتایا ہے یا کسی اور نے یہ تو ہو نہیں سکتا تھا کہ اس بات کے بارے میں مجھے پتا نہ چلتا۔ یہ صرف میری حماقت تھی کہ میں نے ہاشم مبین کے الزامات کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور تمہارے جھوٹ پر یقین کرلیا۔”
سالار نے کچھ نہیں کہا، وہ صرف ماتھے پر تیوریاں لئے انہیں دیکھتا اور ان کی بات سنتا رہا۔” اب جب میں نے تمہیں اس سارے معاملے سے بچالیا ہے تو تمہیں دوبارہ ایسی کوئی حرکت نہیں کرنی چاہئے جس سے۔۔۔۔”
سکندر عثمان نے قدرے نرم لہجے میں کہنا شروع کیا مگر اس سے پہلے کہ ان کی بات مکمل ہوتی سالار ایک جھٹکے سے اٹھ کر کمرے سے باہر نکل گیا۔
٭…٭…٭
سکندر عثمان کے ساتھ ہونے والی اس گفتگو کے بعد وہ ساری رات اس تمام معاملے کے بارے میں سوچتا رہا۔ پہلی بار اسے ہلکا سا افسوس اور پچھتاوا ہوا تھا۔ اسے امامہ ہاشم کو اس کے کہنے پر فوراً طلاق دے دینی چاہئے تھی پھر شاید وہ جلال کے پاس چلی جاتی اور وہ دونوں شادی کرلیتے۔ امامہ کے لئے بے حد ناپسندیدگی رکھنے کے باوجود اس نے پہلی بار اپنی غلطی تسلیم کی۔
”اس نے دوبارہ مجھ سے رابطہ نہیں کیا۔ وہ طلاق لینے کے لئے کورٹ نہیں گئی۔ اس کے خاندان والے بھی ابھی تک اسے ڈھونڈ نہیں سکے۔ وہ جلال انصر کے پاس بھی نہیں گئی تو پھر آخر وہ گئی کہاں، کیا اس کے ساتھ کوئی حادثہ…؟”
وہ پہلی بار بہت سنجیدگی سے، کسی ناراضی یا غصے کے بغیر اس کے بارے میں سوچ رہا تھا۔
”یہ تو ممکن نہیں ہے کہ وہ مجھ سے اتنی شدید نفرت اور ناپسندیدگی رکھنے کے بعد میری بیوی کے طورپر کہیں خاموشی کی زندگی گزار رہی ہو، پھر آخر کیا وجہ ہے کہ امامہ کسی کے ساتھ بھی دوبارہ رابطہ نہیں کررہی۔ اب تک جب کہ ایک سال سے زیادہ گزرگیا ہے کیا وہ واقعی حادثے کا شکار ہوگئی ہے؟ کیا حادثہ پیش آسکتا ہے اسے؟”
اس کے بارے میں سوچتے سوچتے اس کی ذہنی رو ایک بار پھر بہکنے لگی۔
”اگر کوئی حادثہ پیش آگیا ہے تو میں کیا کروں… وہ اپنے رسک پر گھر سے نکلی تھی اور حادثہ تو کسی کو کسی بھی وقت پیش آسکتا ہے پھر مجھے اس کے بارے میں اتنا فکرمند ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ پاپا ٹھیک کہتے ہیں جب میرا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے تو پھر مجھے اس کے بارے میں اتنا تجسّس بھی نہیں رکھنا چاہئے۔ خاص طورپر ایک ایسی لڑکی کے بارے میں جو اس حد تک احسان فراموش ہو جو اپنے آپ کو دوسروں سے بہتر سمجھتی ہو اور جو مجھے اتنا گھٹیا سمجھتی ہو، اس کے ساتھ جو بھی ہوا ہوگا ٹھیک ہی ہوا ہوگا وہ اسی قابل تھی۔”
اس نے اس کے بارے میں ہر خیال کو ذہن سے جھٹکنے کی کوشش کی۔
کچھ دیر پہلے کی تاسف آمیز سنجیدگی وہ اب محسوس نہیں کررہا تھا نہ ہی اسے اب کسی قسم کے پچھتاوے کا احساس تھا۔ وہ ویسے بھی چھوٹی موٹی باتوں پر پچھتانے کا عادی نہیں تھا۔ اس نے سکون کے عالم میں آنکھیں بند کرلیں اس کے ذہن میں اب دور دور تک کہیں امامہ ہاشم کا تصور موجود نہیں تھا۔
٭…٭…٭
”کبھیVandameگئے ہو؟” اس دن یونیورسٹی سے نکلتے ہوئے مائیک نے سالار سے پوچھا۔
”ایک دفعہ۔”
”کیسی جگہ ہے؟”مائیک نے سوال کیا۔
”بری نہیں ہے۔” سالار نے تبصرہ کیا۔
”اس ویک اینڈ پر وہاں چلتے ہیں۔”
”کیوں…؟” میری گرل فرینڈ کو بہت دلچسپی ہے اس جگہ میں… وہ اکثر جاتی ہے۔” مائیک نے کہا۔
”تو تمہیں تو پھر اس کے ساتھ ہی جانا چاہئے۔” سالار نے کہا۔
”نہیں سب لوگ چلتے ہیں، زیادہ مزہ آئے گا۔” مائیک نے کہا۔
”سب لوگوں سے تمہاری کیا مراد ہے؟” اس بار دانش نے گفتگو میں حصہ لیا۔
”جتنے دوست بھی ہیں…سب…!”
”میں، سالار، تم، سیٹھی اور سعد۔”
”سعد کو رہنے دو… وہ نائٹ کلب کے نام پر کانوں کو ہاتھ لگانے لگے گا یا پھر ایک لمبا چوڑا واعظ دے گا۔” سالارنے مداخلت کی۔
”تو پھر ٹھیک ہے ہم لوگ ہی چلتے ہیں۔” دانش نے کہا۔
”سینڈراکو بھی انوائیٹ کرلیتے ہیں۔” سالار نے اپنی گرل فرینڈ کا نام لیا۔
اس ویک اینڈ پر سب وہاں گئے اور تین چار گھنٹوں تک انہوں نے وہاں خوب انجوائے کیا۔ اگلے روز سالار صبح دیر سے اٹھا۔ وہ ابھی لنچ کی تیاری کررہا تھا جب سعد نے اسے فون کیا۔
”ابھی اٹھے ہو؟” سعد نے اس کی آواز سنتے ہی کہا۔
”ہاں دس منٹ پہلے۔”
”رات کو دیر تک باہر رہے ہوگے۔ اس لئے…” سعد نے اندازہ لگایا۔
”ہاں… ہم لوگ باہر گئے ہوئے تھے۔” سالار نے دانستہ طورپر نائٹ کلب کا نام نہیں لیا۔
”ہم لوگ کون…؟ تم اور سینڈر؟”
”نہیں پورا گروپ ہی۔” سالارنے کہا۔
”پورا گروپ…؟ مجھے لے کر نہیں گئے۔ میں مرگیا تھا؟ سعد نے چڑ کر کہا۔
”تمہارا خیال ہی نہیں آیا ہمیں۔” سالار نے اطمینان سے کہا۔
”بہت گھٹیا آدمی ہو تم سالار، بہت ہی گھٹیا… یہ دانش بھی گیا تھا؟”
”ہم سب مائی ڈئیر ہم سب…” سالار نے اسی اطمینان کے ساتھ کہا۔
”مجھے کیوں نہیں لے کر گئے تم لوگ!” سعد کی خفگی میں کچھ اور اضافہ ہوا۔
”تم ابھی بچے ہو… ہر جگہ بچوں کو لے کر نہیں جاسکتے۔” سالار نے شرارت سے کہا۔
”میں ابھی آ کر تمہاری ٹانگیں توڑتا ہوں، پھر تمہیں اندازہ ہوگا کہ یہ بچہ بڑا ہوگیا ہے۔”
”مذاق نہیں کررہا یار…ہم نے تمہیں ساتھ جانے کو اس لئے نہیں کہا کیونکہ تم جاتے ہی نہیں۔”
اس بار سالار واقعی سنجیدہ ہوا۔
”کیوں تم لوگ دوزخ میں جارہے تھے کہ میں وہاں نہ جاتا۔” سعد کے غصے میں کوئی کمی نہیں آئی۔
”کم از کم تم اسے دوزخ ہی کہتے۔ ہم لوگ نائٹ کلب گئے ہوئے تھے اور تم کو وہاں نہیں جانا تھا۔”
”کیوں مجھے وہاں کیوں نہیں جانا تھا۔” سعد کے جواب نے سالار کو کچھ حیران کیا۔
”تم ساتھ چلتے؟”
”آف کورس۔۔۔۔”
”مگر تمہیں وہاں جاکر کیا کرنا تھا… نہ تم ڈرنک کرتے ہو، نہ تم ڈانس کرتے ہو… پھر وہاں جاکر تم کیا کرتے… ہمیں نصیحتیں کرتے۔”
”ایسی بات نہیں ہے۔ ٹھیک ہے ڈرنک اور ڈانس نہیں کرتا، مگر آؤٹنگ تو ہوجاتی۔ میں انجوائے کرتا۔” سعد نے کہا۔
”مگر ایسی جگہوں پر جانا اسلام میں جائز نہیں ہے؟” سالار نے چبھتے ہوئے لہجے میں کہا۔ سعد چند لمحے کچھ نہیں کہہ سکا۔
”میں وہاں کوئی غلط کام کرنے تو نہیں جارہا تھا، تم سے کہہ رہا ہوں صرف آؤٹنگ کی غرض سے جاتا۔” چند لمحوں بعد اس نے قدرے سنبھلتے ہوئے کہا۔
”اوکے! اگلی بار ہمارا پروگرام بنے گا تو تمہیں بھی ساتھ لے لیں گے بلکہ مجھے پہلے پتا ہوتا توکل رات بھی تمہیں ساتھ لے لیتا ہم سب نے واقعی بہت انجوائے کیا۔” سالار نے کہا۔
”چلو اب میں کر بھی کیا سکتا ہوں۔ خیر آج کیا کررہے ہو؟” سعد اب اس سے معمول کی باتیں کرنے لگا۔ دس پندرہ منٹ تک ان دونوں کے درمیان گفتگو ہوتی رہی پھر سالار نے فون بند کردیا۔
” تم اس ویک اینڈ پر کیا کررہے ہو؟” اس دن سعد نے سالار سے پوچھا۔ وہ یونیورسٹی کے کیفے ٹیریا میں موجود تھے۔
”میں اس ویک اینڈ پر نیویارک جارہا ہوں، سینڈرا کے ساتھ۔” سالارنے اپنا پروگرام بتایا۔
”کیوں…؟” سعد نے پوچھا۔
”اس کے بھائی کی شادی ہے۔ مجھے انوائٹ کیا ہے اس نے۔”




Loading

Read Previous

پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۴

Read Next

ساتواں سکّہ — فیصل سعید خان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!