پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۵

وہ اس ویک اینڈ پر جھیل کے کنارے بیٹھا ہوا تھا۔ اس کی طرح بہت سے لوگ وہاں پھر رہے تھے۔ وہ کچھ دیر ادھر ادھر پھرنے کے بعد ایک بینچ پر آکر بیٹھ گیا۔ بہت لاپروائی سے ایک آئس کریم اسٹک کھاتے ہوئے وہ ادھر ادھر نظریں دوڑانے میں مصروف تھا جب اس کی توجہ تین سال کے ایک بچے نے اپنے طرف مبذول کرلی۔ وہ بچہ ایک فٹ بال کے پیچھے دوڑ رہا تھا اور اس سے کچھ فاصلے پر سیاہ حجاب اوڑھے ایک لڑکی کھڑی تھی جومسکراتے ہوئے اس بچے کو دیکھ رہی تھی۔ وہ وہاں موجود بہت سے ایشین میں سے ایک تھی مگر حجاب میں ملبوس واحد لڑکی تھی۔ وہ لاشعوری طورپر اسے دیکھے گیا۔ وہ بچہ فٹ بال کو پاؤں سے ٹھوکر لگاتے ہوئے آہستہ آہستہ اس کی بینچ کی طرف آگیا تھا۔ ایک اور ٹھوکر نے بال کو سیدھاسالار کی طرف بھیج دیا۔ کسی غیر ارادی عمل کے تحت سالارنے اسی طرح بیٹھے بیٹھے اپنے دائیں پاؤں میں پہنے ہوئے جاگر کی مدد سے اس بال کو روکا اور پھر پاؤں ہٹایا نہیں بلکہ اسی طرح فٹ بال پر ہی رکھا مگر اس بار اس کی نظر اس لڑکی کے بجائے بچے پر تھی جو تیز رفتاری سے بال کے پیچھے اس کی طرف آرہا تھا۔ اس کے بالکل پاس آنے کے بجائے وہ کچھ دور رک گیا۔ شاید وہ توقع کررہا تھا کہ سالار بال کو اس کی طرف لڑھکادے گا مگر سالار اسی طرح فٹ بال پر ایک پاؤں رکھے بائیں ہاتھ سے آئس کریم کھاتے ہوئے دور کھڑی اس لڑکی کو دیکھتا رہا۔ شاید اسے توقع کہ اب وہ قریب آئے گی۔ ایسا ہی ہوا تھا۔ کچھ دیر تک اسے بال نہ چھوڑتے دیکھ کر وہ لڑکی کچھ حیرانی سے آگے اس کی طرف آئی تھی۔
”یہ فٹ بال چھوڑدیں۔”
اس نے قریب آکر بڑی شائستگی سے کہا۔ سالار چند لمحے اسے دیکھتا رہا پھر اس نے فٹ بال سے اپنا پاؤں اٹھایا اور وہیں بیٹھے بیٹھے فٹ بال کو ایک زوردار کک لگائی۔
فٹ بال اڑتے ہوئے بہت دور جاگری۔ کک لگانے کے بعد اس نے اطمینان سے اس لڑکی کو دیکھا۔ اس کا چہرہ اب سرخ ہورہا تھا جبکہ وہ بچہ ایک بار پھر اس فٹ بال کی طرف بھاگتا جارہا تھا جواب کہیں نظر نہیں آرہی تھی۔ اس لڑکی نے زیر لب اس سے کچھ کہا اور پھر واپس مڑگئی۔ سالار اس کے منہ سے نکلنے والے الفاظ کو سن یا سمجھ نہیں سکا مگر اس کے سرخ چہرے اور تاثرات سے وہ یہ اندازہ بخوبی لگا سکتا تھا کہ وہ کوئی خوشگوار الفاظ نہیں تھے۔ اسے اپنی حرکت پر شرمندگی بھی ہوئی مگر جلد ہی اندازہ ہوگیا کہ اس نے یہ حرکت کیوں کی وہ لڑکی امامہ سے مشابہت رکھتی تھی۔
وہ لمبے سے سیاہ کوٹ میں سیاہ حجاب اوڑھے ہوئے تھی۔ دراز قد اور بہت دبلی پتلی تھی۔ بالکل امامہ کی طرح۔ اس کی سفید رنگت اور سیاہ آنکھیں بھی اسے امامہ جیسی ہی محسوس ہوئی تھیں۔ امامہ بہت لمبی چوڑی چادر میں خود کو چھپائے رکھتی تھی۔ وہ حجاب نہیں لیتی تھی مگر اس کے باوجود اس وقت اس لڑکی کو دیکھتے ہوئے اسے اس کا خیال آیا تھا اور لاشعوری طورپر اس نے وہ نہیں کیا جو وہ لڑکی چاہتی تھی۔ شاید اسے کسی حدتک یہ تسکین ہوئی تھی کہ اس نے امامہ کی بات نہیں مانی مگر…وہ امامہ نہیں تھی۔
”آخر کیا ہورہا ہے مجھے، اس طرح تو…” اس نے حیران ہوتے ہوئے سوچا۔ وہ جیب میں سے ایک سگریٹ نکال کر سلگانے لگا۔ سگریٹ کے کش لیتے ہوئے وہ ایک بار پھر اسی لڑکی کو دیکھنے لگا جو اپنے بچے کو فٹ بال کے ساتھ کھیلتے دیکھ کر مسکرارہی تھی۔ سالار اسے دیکھ رہا تھا اور اس کے علاوہ ہر شے سے بے نیاز نظر آرہا تھا۔
٭…٭…٭




اس رات وہ کافی دیر تک امامہ کے بارے میں سوچتا رہا۔ اس کے اور جلال انصر کے بارے میں اسے یقین تھا اب تک وہ دونوں شادی کرچکے ہوں گے، کیونکہ اپنا نکاح نامہ سکندر سے حاصل کرنے کے بعد وہ یہ جان چکی ہوگی کہ طلاق کا حق پہلے ہی اس کے پاس تھا۔ اسے اس سلسلے میں سالار کی مدد کی ضرورت نہیں تھی۔ یہ جاننے کے باوجود کہ جلال انصر اس کے کہنے پر بھی امامہ سے شادی پر تیار نہیں ہوا تھا اسے پھر بھی نہ جانے کیوں یہ یقین تھا کہ جلال انصر ایک بار امامہ کے اپنے پاس پہنچ جانے پر اسے انکار نہیں کرسکا ہوگا۔ اس کی منت سماجت پر وہ مان گیا ہوگا۔
امامہ اس کے مقابلے میں بہت خوب صورت تھی اور امامہ کا خاندان ملک کے طاقت ورترین خاندانوں میں سے ایک تھا۔ کوئی احمق ہی ہوگا جو جلال انصر جیسی حیثیت رکھتے ہوئے امامہ کو سونے کی چڑیانہ سمجھتا ہو یا پھر ہوسکتا ہے وہ واقعی امامہ کی محبت میں مبتلا ہو جو بھی تھا اسے یقین تھا کہ وہ دونوں شادی کرچکے ہوں گے اور پتا نہیں کس طرح ہاشم مبین کی آنکھوں میں دھول جھونک کر چھپنے میں کامیاب ہوئے ہوں گے یا یہ بھی ممکن ہے کہ ہاشم مبین نے اب تک انہیں ڈھونڈ نکالا ہو۔
”مجھے پتا تو کرنا چاہئے اس بارے میں۔” اس نے سوچا اور پھر اگلے ہی لمحے خود کو جھڑکا۔”فار گاڈ سیک سالار! دفع کرو اسے، جانے دو، کیوں خوا مخواہ اس کے پیچھے پڑگئے ہو۔ یہ جان کر آخر کیا مل جائے گا کہ ہاشم مبین اس تک پہنچے ہیں یا نہیں۔” اس نے بے اختیار خود کو جھڑکا مگر اس کا تجسّس ختم نہیں ہوا۔
”واقعی میں نے یہاں آنے کے بعد یہ جاننے کی کوشش کیوں نہیں کی کہ ہاشم مبین اب تک اس تک پہنچے ہیں یا نہیں۔” اسے حیرانی ہورہی تھی۔
٭…٭…٭
”میرا نام ونیس ایڈورڈ ہے۔”
وہ لڑکی اس کی طرف اپنا ہاتھ بڑھائے ہوئے تھی۔ وہ اس وقت لائبریری کی بک شیلف سے ایک کتاب نکال رہا تھا، جب وہ اس کے قریب آئی تھی۔
”سالار سکندر!” اس نے وینس سے ہاتھ ملاتے ہوئے اپنا تعارف کروایا۔
”میں جانتی ہوں، تمہیں تعارف کی ضرورت نہیں ہے۔”
وینس نے بڑی گرم جوشی سے کہا۔ سالارنے اس سے یہ نہیں کہا کہ اسے بھی تعارف کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ اپنی کلاس کے پچاس کے پچاس لوگوں کو ان کے نام سے جانتا اور پہچانتا تھا۔ نہ صرف یہ بلکہ وہ ان کا بریف بائیوڈیٹا بھی بغیر اٹکے کسی غلطی کے بتاسکتا تھا۔ جیسے وہ اس وقت وینس کو یہ بتا کر حیران کرسکتا تھا کہ وہ نیوجرسی سے آئی تھی۔ وہاں دوسال ایک بیوریج کمپنی میں کام کرتی رہی تھی۔ اس کے پاس مارکیٹنگ میں ایک ڈگری تھی اور وہ اب دوسری ڈگری کے لئے وہاں آئی تھی اور وہ اس سے کم از کم چھے سات سال بڑی تھی۔ اگرچہ اپنے قدوقامت سے سالار اس سے بہت بڑا لگتا تھا مگر وہ جانتا تھا کہ وہ اس وقت اپنے بیچ میں سب سے کم عمر تھا۔ اپنے بیچ میں صرف وہی تھا جو کسی قسم کی جاب کئے بغیر سیدھا ایم بی اے کے لئے آیا تھا۔ باقی سب کے پاس کہیں نہ کہیں کچھ سال کام کرنے کا تجربہ تھا مگر اس وقت وینس کو یہ سب کچھ بتانا اسے خوش فہمی کا شکار کرنے کے مترادف تھا۔
”اگر میں آپ کو کافی کی دعوت دوں تو؟” وینس نے اپنا تعارف کروانے کے بعد کہا۔
”تو میں اسے قبول کرلوں گا۔”
وہ اس کی بات پر ہنسی۔”تو پھر چلتے ہیں، کافی پیتے ہیں۔” سالار نے کندھے اچکائے اور کتاب کو دوبارہ شیلف میں رکھ دیا۔
کیفے ٹیریا میں بیٹھ کر وہ دونوں تقریباً آدھ گھنٹہ تک ایک دوسرے کے ساتھ باتیں کرتے رہے۔ یہ وینس کے ساتھ اس کی شناسائی کا آغاز تھا۔ سالار کے لئے کسی لڑکی کے ساتھ تعلقات بڑھانا کوئی مشکل کام نہیں تھا۔ وہ یہ کام بہت آسانی سے کرلیا کرتا تھا۔ اس بار مزید آسانی یہ تھی کہ پہل وینس کی طرف سے ہوئی تھی۔
تین چار ملاقاتوں کے بعد اس نے ایک رات وینس کو اپنے فلیٹ پر رات گزارنے کے لئے انوائٹ کرلیا تھا اور وینس نے کسی تامل کے بغیر اس کی دعوت قبول کرلی۔ وہ دونوں یونیورسٹی کے بعد اکٹھے بہت سی جگہوں پر پھرتے رہے۔ سالار کے فلیٹ پر ان کی واپسی لیٹ نائٹ ہوئی تھی۔
وہ کچن میں اپنے اور اس کے لئے گلاس تیار کرنے لگا جبکہ وینس بے تکلفی سے ادھر سے ادھر پھرتے ہوئے اس کے اپارٹمنٹ کا جائزہ لے رہی تھی پھر وہ اس کے قریب آکر کاؤنٹر کے سامنے کھڑی ہوگئی۔” بہت اچھا اپارٹمنٹ ہے تمہارا۔ میں سوچ رہی تھی کہ تم اکیلے رہتے ہو تو اپارٹمنٹ کا حلیہ خاصا خراب ہوگا مگر تم نے توہر چیز بڑے سلیقے سے رکھی ہوئی ہے۔ تم ایسے ہی رہتے ہو یا یہ اہتمام خاص میرے لئے کیا گیا ہے۔”
سالار نے ایک گلاس اس کے آگے رکھ دیا۔” میں ایسے ہی رہتا ہوں، قرینے اور طریقے سے۔” اس نے گھونٹ بھرا اور گلاس دوبارہ کاؤنٹر پر رکھتے ہوئے وہ وینس کے قریب چلا آیا اس نے اس کے دونوں کندھوں پر ہاتھ رکھ دئیے۔ وینس مسکرادی۔ سالار نے اسے اپنے کچھ اور قریب کیا اور پھر یک دم ساکت ہوگیا۔ اس کی نظریں وینس کی گردن کی زنجیر میں جھولتے اس موتی پرپڑی تھیں، جسے آج اس نے پہلی بار دیکھا تھا۔ سردی کے موسم کی وجہ سے وینس بھاری بھرکم سویٹرز اور جیکٹس پہنا کرتی تھی۔ اس نے ایک دوبار اس کے کھلے کالر سے نظر آنے والی اس زنجیر کو دیکھا تھا مگراس زنجیر میں لٹکا ہوا وہ موتی آج پہلی بار اس کی نظروں میں آیا تھا کیونکہ آج پہلی بار وینس ایک گہرے گلے کی شرٹ میں ملبوس تھی۔ وہ اس شرٹ کے اوپر ایک سویٹر پہنے ہوئے تھی، جسے اس نے سالار کے اپارٹمنٹ میں آکر اتار دیا تھا۔
اس کے چہرے کی رنگت بدل گئی۔ ایک جھماکے کے ساتھ وہ موتی اسے کہیں اور… کہیں بہت پیچھے … کسی اور کے پاس لے گیا تھا… مسح کرتے ہاتھ اور انگلیاں… ہاتھ اور کلائی…. کلائی سے کہنی تک کا سفر کرتی انگلیاں… آنکھوں سے پیشانی…پیشانی سے سفید چادر کے نیچے سیاہ بالوں پر پھسلتے ہوئے ہاتھ…
امامہ کی گردن کے گرد موجود زنجیر تنگ تھی۔ اس میں لٹکنے والا موتی اس کی ہنسلی کی ہڈی کے بالکل ساتھ جھولتا تھا۔ زنجیر تھوڑی سی بھی لمبی ہوتی تو وہ اسے دیکھ نہ پاتا۔ اس رات وہ بہت تنگ گلے کی شرٹ اور سویٹر میں ملبوس تھی۔ اس موتی کو دیکھتے ہوئے وہ کچھ دیر کے لئے مفلوج ہوگیا۔
وہ اسے کس وقت یاد آئی تھی۔ اس نے موتی سے نظریں چرانے کی کوشش کی۔ وہ اپنی رات خراب نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اس نے وینس کو دیکھ کر دوبارہ مسکرانے کی کوشش کی۔ وہ اس سے کہہ رہی تھی۔
”مجھے تمہاری آنکھیں بہت خوب صورت لگتی ہیں۔”
”مجھے تمہاری آنکھوں سے گھن آتی ہے۔”
کسی آواز نے اسے ایک چابک مارا اور اس کے چہرے کی مسکراہٹ یک دم غائب ہوگئی۔ وینس کے وجود سے اپنے باز وہٹاتے ہوئے وہ چند قدم پیچھے مڑا اور کاؤنٹر پر پڑا ہوا گلاس اٹھالیا۔ وینس ہکا بکا اسے دیکھ رہی تھی۔
”کیا ہوا؟” وہ چند قدم آگے بڑھ آئی اور اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کچھ تشویش سے پوچھا۔
سالار نے کچھ کہے بغیر ایک ہی سانس میں گلاس خالی کیا۔ وینس اس کے جواب نہ دینے پر اب کچھ الجھے ہوئے انداز میں اسے دیکھ رہی تھی۔
وینس میں اس کی دلچسپی ختم ہونے میں صرف چند منٹ لگے تھے۔ وہ نہیں جانتا اسے کیوں اس کے وجود سے الجھن ہونے لگی تھی۔ وہ پچھلے دو گھنٹے ایک نائٹ کلب میں اس کے ساتھ ڈانس کرتا رہا تھا اور وہ اس کے ساتھ بے حد خوش تھا اور اب چند منٹوں میں۔۔۔۔۔
سالار نے اپنے کندھے جھٹکے اور سنک کی طرف چلا گیا۔ وہ اپنا گلاس دھونے لگا۔ وینس دوسرا گلاس لے کر اس کے پاس چلی آئی۔ سالار نے اس سے گلاس لے لیا۔ وہ اپنے سینے پر دونوں بازو لپیٹے اس کے بالکل پاس کھڑی اسے دیکھتی رہی۔ سالار کو اس کی نظروں سے جھنجھلاہٹ ہورہی تھی۔
”میں…میری طبیعت کچھ ٹھیک نہیں ہے۔”
گلاس کو شیلف پر رکھتے ہوئے اس نے وینس سے کہا۔ وہ حیرانی سے اسے دیکھنے لگی۔ وہ بالواسطہ طورپر اسے وہاں سے جانے کے لئے کہہ رہا تھا۔ وینس کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ سالار کا رویہ بے حد توہین آمیز تھا۔ وہ چند لمحے اسے گھورتی رہی پھر تیزی کے ساتھ اپنا سویٹر اور بیگ اٹھاکر اپارٹمنٹ کا دروازہ دھماکے سے بند کرکے باہر نکل گئی۔ وہ دونوں ہاتھوں سے اپنا سرپکڑ کر صوفہ پر بیٹھ گیا۔
وینس اور امامہ میں کہیں کسی قسم کی کوئی مشابہت نہیں تھی۔ دونوں کی گردنوں میں موجود موتی بھی بالکل ایک جیسا نہیں تھا اس کے باوجود اس وقت اس کی گردن اور گردن میں جھولتے اس موتی کو دیکھ کر اسے بے اختیار وہ یاد آئی تھی۔ کیوں…؟ اب پھر کیوں…؟ آخر اس وقت کیوں…؟ وہ بے حد مشتعل ہورہا تھا۔ اس کی وجہ سے اس کی رات خراب ہوگئی تھی، اس نے سینٹر ٹیبل پر پڑا ہوا ایک کرسٹل کا گل دان اٹھایا اور پوری قوت سے اسے دیوار پردے مارا۔
ویک اینڈ کے بعد وینس سے اس کی دوبارہ ملاقات ہوئی، لیکن وہ اس سے بڑے روکھے اور اکھڑے ہوئے انداز میں ملا۔ یہ اس سے تعلقات شروع کرنے سے پہلے ہی ختم کرنے کا واحد راستہ تھا۔ اسے ہر اس عورت سے جھنجھلاہٹ ہوتی تھی جو اسے کسی بھی طرح سے امامہ کی یاد دلاتی اور وینس ان عورتوں میں شامل ہوگئی تھی۔ وینس جو اس کی طرف سے کسی معذرت اور اگلی دعوت کا انتظار کررہی تھی وہ اس کے اس رویے سے بری طرح دلبرداشتہ ہوئی تھی۔Yaleمیں یہ اس کا پہلا افیئر تھا۔
٭…٭…٭
اگلے چند ماہ وہ پڑھائی میں بے حد مصروف رہا، اتنا مصروف کہ امامہ کو یاد رکھنے اور اس کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کو کل پر ٹالتا رہا اور شاید یہ سلسلہ ابھی چلتا رہتا اگر اس شام اچانک اس کی ملاقات جلال انصر سے نہ ہوجاتی۔
وہ ویک اینڈ پر بوسٹن گیا ہوا تھا جہاں اس کے چچا رہتے تھے وہ وہاں اپنے ایک کزن کی شادی اٹینڈ کرنے آیا تھا۔
اس شام سالار اپنے کزن کے ہمراہ تھا جو ایک ریسٹورنٹ چلا رہا تھا۔ وہ وہاں کھانا کھانے آیا ہوا تھا۔ اس کا کزن آرڈر دینے کے بعد کسی کام سے اٹھ کر گیا تھا۔ سالار کھانے کا انتظار کررہا تھا جب کسی نے اس کا نام لے کر پکارا۔
”ہیلو…!” سالار نے بے اختیار مڑکر اسے دیکھا۔
”آپ سالار ہیں؟” اس آدمی نے پوچھا۔
وہ جلال انصر تھا۔ اسے پہچاننے میں لحظہ بھرکے لئے دقت اس لئے ہوئی تھی کیونکہ اس کے چہرے سے اب داڑھی غائب تھی۔
سالار نے کھڑے ہوکر اس سے ہاتھ ملایا۔ ایک سال پہلے کاایڈونچر ایک بارپھر اس کی آنکھوں کے سامنے گھوم گیا۔ رسمی علیک سلیک کے بعد اس نے جلال کو رسماً کھانے کی دعوت دی۔
”نہیں مجھے ذرا جلدی ہے۔ بس آپ پر اتفاقاً نظر پڑگئی تو آگیا۔” جلال نے اپنی گھڑی پر نظر ڈالتے ہوئے کہا۔
”امامہ کیسی ہے؟” جلال نے بات کرتے کرتے اچانک کہا۔ سالار کو لگا وہ اس کا سوال ٹھیک سے سن نہیں سکا۔
”سوری…”اس نے معذرت خواہانہ انداز میں استفسار کیا۔ جلال نے اپنا سوال دہرایا۔
”میں امامہ کا پوچھ رہا تھا۔ وہ کیسی ہے؟”
سالار پلکیں جھپکائے بغیر اسے دیکھتا رہا۔ وہ امامہ کے بارے میں اس سے کیوں پوچھ رہا تھا۔
”مجھے نہیں پتا یہ تو آپ کو پتا ہونا چاہئے۔” اس نے کچھ الجھے ہوئے انداز میں کندھے جھٹکتے ہوئے کہا۔
اس بار جلال حیران ہوا۔” مجھے کس لئے؟”
”کیونکہ وہ آپ کی بیوی ہے۔”
”میری بیوی؟” جلال کو جیسے کرنٹ لگا۔
”آپ کیا کہہ رہے ہیں۔ میری بیوی کیسے ہوسکتی ہے وہ۔ میں نے اس سے شادی سے انکار کردیا تھا۔ آپ اچھی طرح جانتے ہیں۔ ایک سال پہلے آپ ہی تو آئے تھے اس سلسلے میں مجھ سے بات کرنے کے لئے۔” جلال نے جیسے اسے کچھ یاد دلایا۔” میں نے تو آپ سے یہ بھی کہا تھا کہ آپ خود اس سے شادی کرلیں۔” جلال نے جیسے اسے کچھ یاد دلایا۔
سالار بے یقینی سے اسے دیکھتا رہا۔
”میں تو یہ سوچ کر آپ کے پاس آیا تھا کہ شاید آپ نے اس سے شادی کرلی ہوگی۔” وہ اب وضاحت کررہا تھا۔
”آپ نے اس سے شادی نہیں کی؟” سالارنے پوچھا۔
”نہیں…آپ سے تو ساری بات ہوئی تھی میں نے انکار کردیا پھر اس سے میری شادی کیسے ہوسکتی تھی؟ پھر میں نے سنا کہ وہ گھر سے کہیں چلی گئی۔ میں نے سوچا آپ کے ساتھ کہیں چلی گئی ہوگی۔ اسی لئے تو آپ کو دیکھ کر آپ کی طرف آیا تھا۔”
”میں نہیں جانتا کہ وہ کہاں ہے۔ میں تو پچھلے سات آٹھ ماہ سے یہیں ہوں۔” سالار نے کہا۔
”اور مجھے یہاں آئے دو ماہ ہوئے ہیں۔” جلال نے بتایا۔
”مجھ سے ملاقات کے بعد کیا اس نے دوبارہ آپ سے رابطہ یا ملاقات کرنے کی کوشش کی تھی؟”
سالار نے کچھ الجھے ہوئے انداز میں پوچھا۔
”نہیں…وہ مجھ سے نہیں ملی۔”
”یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ لاہور جا کر اس نے آپ سے رابطہ کرنے کی کوشش نہ کی ہو۔” سالار کو اس کی بات پر یقین نہیں آیا۔
”مجھ سے رابطہ کرنے سے کیا ہوتا؟”
”آپ کے لئے وہ گھر سے نکلی تھی۔ اسے آپ کے پاس جانا چاہئے تھا۔”
”نہیں… وہ میرے لئے گھر سے نہیں نکلی تھی۔ آپ تو اچھی طرح جانتے ہیں کہ میں نے اسے بتا دیا تھا کہ میں اس سے شادی نہیں کرسکتا۔ پھر آپ یہ مت کہیں کہ وہ میرے لئے گھر سے نکلی تھی۔” جلال کے لہجے میں اچانک کچھ تبدیلی آگئی۔” ہماری بات آپ ہی سے تو ہوئی تھی۔”
”کیا آپ واقعی سچ کہہ رہے ہیں کہ وہ دوبارہ آپ کے پاس نہیں گئی؟”
”میں آپ سے جھوٹ کیوں بولوں گا اور اگر وہ میرے ساتھ ہوتی تو میں آپ کے پاس اس کے بارے میں پوچھنے کیوں آتا۔ مجھے دیر ہورہی ہے۔” جلال کے لہجے میں اب بے نیازی تھی۔
”آپ مجھے اپنا کانٹیکٹ نمبر دے سکتے ہیں؟” سالار نے کہا۔
”نہیں… میں نہیں سمجھتا کہ آپ کو مجھ سے اور مجھے آپ سے دوبارہ رابطے کی ضرورت پڑسکتی ہے۔” جلال نے بڑی صاف گوئی سے کہا اور واپس مڑگیا۔
سالار کچھ الجھے ہوئے انداز میں اس کی پشت پر نظریں جمائے رہا، یہ ناقابل یقین بات تھی کہ وہ جلال سے نہیں ملی۔ کیوں…؟ کیا اس نے میری اس بات پر واقعی یقین کرلیا تھا کہ جلال نے شادی کرلی ہے؟ سالار کو اپنا جھوٹ یاد آیا مگر یہ کیسے ممکن ہے وہ مزید الجھا… میری بات پر اسے یقین کیسے آسکتا ہے جب کہ وہ کہہ بھی رہی تھی کہ اسے میری بات پر یقین نہیں ہے۔
وہ کرسی کھینچ کر دوبارہ بیٹھ گیا۔
اور اگر جلال کے پاس نہیں گئی تو پھر وہ کہاں گئی۔ کیا کسی اور شخص کے پاس؟ جس سے اس نے مجھے بے خبر رکھا، مگر یہ ممکن نہیں ہے اگر کوئی اور ہوتا تو وہ مجھے اس سے بھی رابطہ کرنے کے لئے کہتی۔ اگر وہ فوری طور پر جلال کے پاس نہیں بھی گئی تھی تو سکندر سے نکاح نامہ لینے اور طلاق کے حق کے بارے میں جاننے کے بعد اسے اسی کے پاس جانا چاہئے تھا، وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ اس نے جلال کی اس فرضی شادی کے بارے میں اسے کیوں بتایا۔ شاید وہ اسے پریشان کرنا چاہتا تھا یا پھر یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ وہ اب کیا کرے گی یا پھر شاید وہ باربار اس کے اس مطالبے سے تنگ آگیا تھا کہ وہ پھر جلال کے پاس جائے، پھر جلال سے رابطہ کرے، وہ ایسا کرنے کی وجہ نہیں جانتا تھا، جو بھی تھا بہرحال اسے یقین تھا امامہ جلال کے پاس جائے گی۔




Loading

Read Previous

پیر کامل صلی اللہ علیہ والہٰ وسلم — قسط نمبر ۴

Read Next

ساتواں سکّہ — فیصل سعید خان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!