سکندر اور طیبہ سالار کو اس رات واپس نہیں لے کر آئے، وہ اس رات ہاسپٹل میں ہی رہا اگلے دن اس کے جسم کا درد اور سوجن میں کافی کمی واقع ہوچکی تھی۔ وہ دونوں گیارہ بجے کے قریب اسے گھر لے آئے۔ اس سے پہلے پولیس کے دو اہلکاروں نے اس سے ایک لمبا چوڑا تحریری بیان لیا تھا۔
سکندر اور طیبہ کے ساتھ اپنے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے پہلی بار اس نے اپنی کھڑکیوں پر لگی ہوئی مختلف ماڈلز کی ان نیوڈ تصویروں کو دیکھا اسے بے اختیار شرم آئی۔ طیبہ اور سکندر بہت بار اس کے کمرے میں آتے رہے تھے اور وہ تصویریں ان کے لئے کوئی نئی یا قابل اعتراض چیز نہیں تھیں۔
”تم اب آرام کرو۔ میں نے تمہارے فریج میں پھل اور جوس رکھوادیا ہے۔ بھوک لگے تو نکال کر کھالینا یا پھر ملازم کو بلوالینا۔ وہ نکال دے گا۔”
طیبہ نے اس سے کہا۔ وہ اپنے بیڈ پر لیٹا ہوا تھا۔ وہ دونوں کچھ دیر اس کے پاس رہے پھر کھڑکی کے پردے برابر کرکے اسے سونے کی تاکید کرتے ہوئے چلے گئے، وہ ان کے باہر نکلتے ہی اٹھ کر بیٹھ گیا۔ اس نے کمرے کے دروازے کو اندر سے لاک کیا۔ کھڑکیوں کے پردے ہٹاکر اس نے بہت تیزی سے ان پر لگی ہوئی تمام تصویروں کو اتارنا شروع کردیا۔ پوسٹر، تصویریں، کٹ آؤٹ۔ اس نے چند منٹ میں پورا کمرہ صاف کردیا تھا، واش روم میں جاکر اس نے باتھ ٹب میں انھیں پھینک دیا۔
واش روم کی لائٹ جلانے پر اس کی نظر اپنے چہرے پر پڑی تھی۔ وہ بری طرح سوجا ہوا اور نیلا ہورہا تھا وہ ایسے ہی چہرے کی توقع کررہا تھا۔ وہ ایک بارپھر واش روم سے نکل آیا۔ اس کے کمرے میں پورنوگرافی کے بہت سے میگزین بھی پڑے تھے۔ وہ انہیں اٹھالایا۔ اس نے انہیں بھی باتھ ٹب میں پھینک دیا، پھر وہ باری باری اپنے ریک میں پڑی ہوئی ویڈیوز اٹھاکر اس میں سے ٹیپ نکالنے لگا۔ آدھے گھنٹے کے اندر اس کا کا رپٹ ٹیپ کے ڈھیر سے بھرا ہوا تھا۔
اس نے وہاں موجود تمام ویڈیوز کو ضائع کردیا اور ٹیپ کے اس ڈھیر کو اٹھا کر باتھ ٹب میں پھینک دیا اور لائٹر کے ساتھ اس نے انہیں آگ لگادی۔ ایک چنگاری بھڑکی تھی اور تصویروں اور ٹیپ کا وہ ڈھیر جلنے لگا تھا اس نے ایگزاسٹ آن کردیا۔ باتھ روم کی کھڑکیاں کھول دیں وہ اس ڈھیر کو اس لئے جلارہا تھا کیونکہ وہ اس آگ سے بچنا چاہتا تھا جو دوزخ میں اسے اپنی لپٹوں میں لے لیتی۔
آگ کی لپٹیں تصویروں اور ٹیپ کے اس ڈھیر کو کھارہی تھیں۔ یوں جیسے وہ صرف آگ کے لئے ہی بنائی گئی تھیں۔
وہ پلکیں جھپکے بغیر باتھ ٹب میں آگ کے اس ڈھیر کو دیکھ رہا تھا یوں جیسے وہ اس وقت کسی دوزخ کے کنارے کھڑا تھا۔ ایک رات پہلے اس پہاڑی پر اس حالت میں اسلام آباد کی روشنیوں کو دیکھتے ہوئے اس نے سوچا تھا کہ وہ اس کی زندگی کی آخری رات تھی اور وہ اس کے بعد دوبارہ کبھی ان روشنیوں کو نہیں دیکھ سکے گا۔
اس نے ہذیانی حالت میں گلا پھاڑ کر چیختے ہوئے باربار کہا تھا”ایک بار، صرف ایک بار، مجھے موقع دیں۔ صرف ایک موقع، میں دوبارہ گناہ کے پاس تک نہیں جاؤں گا۔ میں کبھی گناہ کے پاس نہیں جاؤں گا۔” اسے یہ موقع دے دیا گیا تھا اب اس وعدے کو پورا کرنے کا وقت تھا۔ آگ نے ان سب کاغذوں کو راکھ بنادیا تھا جب آگ بجھ گئی تو اس نے پانی کھول کر پائپ کے ساتھ اس راکھ کو بہانا شروع کردیا۔
سالار پلٹ کر دوبارہ واش بیسن کے سامنے آکر کھڑا ہوگیا اس کے گلے میں موجود سونے کی چین کو وہ لوگ اتار کرلے گئے تھے مگر اس کے کان کی لو میں موجود ڈائمنڈStudوہیں تھا۔ وہ پلاٹینم میں جڑا ہوا تھا اور ان لوگوں نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی تھی۔ شاید ان کا خیال ہوگا کہ وہ کوئی معمولی پتھر یا پھر زرقون ہوگا یا پھر شاید اس کے لمبے کھلے بالوں کی وجہ سے اس کے کان کی لو چھپی رہی ہوگی۔
وہ کچھ دیر آئینے میں خود کو دیکھتا رہا پھر اس نے کان کی لو میں موجودStudاٹھاکر واش بیسن کے پاس رکھ دیا۔ شیونگ کٹ میں موجود کلپر اس نے نکالا اور اپنے بال کاٹنے لگا۔ بڑی بے رحمی اور بے دردی کے ساتھ۔ واش بیسن میں بہتا ہوا پانی ان بالوں کو اپنے ساتھ بہاکر لے جارہا تھا۔
ریزر نکال کر اس نے شیو کرنی شروع کردی۔ وہ جیسے اپنی تمام نشانیوں سے پیچھا چھڑارہا تھا۔ شیو کرنے کے بعد اس نے اپنے کپڑے نکالے اپنے ہاتھوں پر بندھی پٹیاں کھولیں اور شاور کے نیچے جاکر کھڑا ہوگیا۔ وہ پورا ایک گھنٹہ اپنے پورے جسم کے ایک ایک حصے کو کلمہ پڑھ پڑھ کر صاف کرتا رہا۔ یوں جیسے وہ آج پہلی بار اسلام سے متعارف ہواہو۔ پہلی بار مسلمان ہواہو۔
واش روم سے باہر آکر اس نے فریج میں رکھے سیب کے چند ٹکڑے کھائے اور پھر سونے کے لئے لیٹ گیا۔ دوبارہ اس کی آنکھ الارم سے کھلی جسے اس نے سونے سے پہلے لگایا تھا دو بج رہے تھے۔
٭…٭…٭
”مائی گاڈ سالار! یہ اپنے بالوں کو کیا کیا ہے تم نے؟” طیبہ اسے دیکھتے ہی کچھ دیر کے لئے بھول گئیں کہ وہ بولنے کے قابل نہیں تھا۔ سالار نے اپنی جیب سے ایک کاغذ نکال کر ان کے سامنے کردیا۔
”میں مارکیٹ جانا چاہتا ہوں۔” اس پر لکھا ہوا تھا۔
”کس لئے؟” طیبہ نے اسے حیرانی سے دیکھا۔
”تم ابھی ٹھیک نہیں ہوئے ہو۔ کچھ گھٹنے ہوئے ہیں تمہیں ہاسپٹل سے آئے اور تم ایک بارپھر آوارہ گردی کے لئے نکلنا چاہتے ہو۔” طیبہ نے اسے قدرے نرم آواز میں جھڑکا۔
”ممی! میں کچھ کتابیں خریدنا چاہتا ہوں۔” سالار نے ایک بارپھر کاغذ پر لکھا” میں آوارہ گردی کرنے کے لئے نہیں جارہا۔”
طیبہ کچھ دیر اسے دیکھتی رہی۔” تم ڈرائیور کے ساتھ چلے جاؤ۔” سالار نے سرہلا دیا
٭…٭…٭
وہ جس وقت مارکیٹ کی پارکنگ میں گاڑی سے اترا شام ہوچکی تھی۔ مارکیٹ کی روشنیاں وہاں جیسے رنگ وفور کا ایک سیلاب لے آئی تھیں۔ وہ جگہ جگہ پھرتے لڑکے لڑکیوں کو دیکھ سکتا تھا۔ مغربی ملبوسات میں ملبوس بے فکری اور لاپروائی سے قہقہے لگاتے ہوئے اسے زندگی میں پہلی بار اس جگہ سے وحشت ہوئی تھی، وہی وحشت جو وہ آڑتالیس گھنٹے پہلے مارگلہ کی ان پہاڑیوں پر محسوس کرتا رہا تھا۔ وہ ان ہی لڑکوں میں سے ایک تھا لڑکیوں سے چھیڑ چھاڑ کرنے والا۔ بلند وبانگ قہقہے لگانے والا، فضول اور بے ہودہ باتیں کرنے والا، اپنا سرنیچے کئے وہ کسی بھی چیز پر دھیان دئیے بغیر سامنے نظر آنے والی بک شاپ میں چلاآیا۔
اپنی جیب سے کاغذ نکال کر اس نے دکاندار کو اپنی مطلوبہ کتابوں کے بارے میں بتایا۔ وہ قرآن پاک کا ایک ترجمہ اور نماز کے بارے میں کچھ دوسری کتابیں خریدنا چاہتا تھا۔ دکاندار نے اسے حیرانی سے دیکھا، وہ سالار کو اچھی طرح جانتا تھا۔ وہ وہاں سے پورنوگرافی کے غیر ملکی میگزنیز اور سڈنی شیلڈن اور ہیرلڈ روبنز سمیت چند دوسرے انگلش ناولز لکھنے والوں کے ہر نئے ناول کو خریدنے کا عادی تھا۔
سالار اس کی نظروں کے استعجاب کو سمجھتا تھا۔ وہ اس سے نظریں ملانے کے بجائے صرف کاؤنٹر کو دیکھتا رہا۔ وہ آدمی کسی سیلزمین کو ہدایات دیتا رہا پھر اس نے سالار سے کہا۔
”آپ بڑے دن بعد آئے۔ کہیں گئے ہوئے تھے؟”
”اسٹڈیز کے لئے باہر۔” اس نے سرہلاتے ہوئے سامنے پڑے ہوئے کاغذ پر لکھا۔
”اور یہ گلے کو کیا ہوا؟”
”بس ٹھیک نہیں ہے۔” اس نے لکھا۔
سیلزمین قرآن پاک کا ترجمہ اور دوسری مطلوبہ کتابیں لے آیا۔
”ہاں! یہ اسلامی کتابوں کا آج کل بڑا ٹرینڈ چلا ہوا ہے۔ لوگ بہت پڑھنے لگے ہیں، بڑی اچھی بات ہے۔ خاص طور پر باہر جاکر تو ضرور پڑھنا چاہئے۔” دکاندار نے بڑے کاروباری انداز میں مسکراتے ہوئے کہا۔ سالار نے کچھ نہیں کہا۔ وہ اپنے سامنے پڑی کتابوں پر ایک نظر دوڑانے لگا۔
چند لمحوں کے بعد اس کے دائیں ہاتھ قرآن پاک کے ترجمے کے ساتھ کاؤنٹر پر خالی جگہ پر شاپ کیپر نے اس کے سامنے پورفوگرافی کے کچھ نئے میگزنیز رکھ دئیے۔ کتابوں کو دیکھتے دیکھتے اس نے چونک کر سراٹھایا۔
”یہ نئے آئے ہیں میں نے سوچا آپ کو دکھا دوں۔ ہوسکتا ہے آپ خریدنا پسند کریں۔”
سالار نے ایک نظر قرآن پاک کے ترجمے کو دیکھا دوسری نظر چند انچ دور پڑے ان میگزنیز کو دیکھا، غصے کی ایک لہر سی اس کے اندر اٹھی تھی۔ کیوں؟ وہ نہیں جانتا تھا۔ اپنے بائیں ہاتھ سے ان میگزنیز کو اٹھاکر وہ جتنی دور اس شاپ کے اندر پھینک سکتا تھا اس نے پھینک دئیے۔ چند لمحوں کے لئے پوری شاپ میں خاموشی چھاگئی۔
سیلزمین ہکابکا کھڑا تھا۔”بل” سالار نے کاغذ پر گھسیٹا اور سرخ چہرے کے ساتھ اس سیلزمین کی آنکھوں کے سامنے اس کاغذ کو کیا۔ سیلزمین نے کچھ بھی کہے بغیر اپنے سامنے پڑے کمپیوٹر پر ان کتابوں کا بل بنانا شروع کردیا جو اس کے سامنے رکھی تھیں۔
چند منٹوں میں سالار نے بل ادا کیا اور کتابیں اٹھاکر دروازے کی طرف بڑھ گیا۔
”ایڈیٹ…”دکان سے باہر نکلتے ہوئے اس نے کاؤنٹر کے پاس کھڑی ایک لڑکی کا تبصرہ سنا، مخاطب کون تھا اس نے مڑکر دیکھنے کی ضرورت نہیں سمجھی۔ وہ جانتا تھا وہ تبصرہ اسی پر کیا گیا تھا۔
٭…٭…٭
دو ہفتے بعد اس کی آواز بحال ہوگئی تھی۔ اگرچہ ابھی اس کی آواز بالکل بیٹھی ہوئی تھی، مگر وہ بولنے کے قابل ہوگیا تھا اور ان دو ہفتوں میں وہ روح کی دریافت میں مصروف رہا۔ وہ زندگی میں پہلی بار یہ کام کررہا تھا۔ شاید زندگی میں پہلی بار اسے یہ احساس ہوا تھا کہ روح بھی کوئی وجود رکھتی تھی اور اگر روح کے ساتھ کوئی مسئلہ ہوجائے تو …وہ زندگی میں پہلی بار خاموشی کے ایک لمبے فیز میں داخل ہوا تھا۔ بولنا نہیں، سننا…، صرف سننا بھی بعض دفعہ بہت اہم ہوتا ہے اس کا ادراک اسے پہلی بار ہورہا تھا۔
اسے زندگی میں رات سے کبھی خوف نہیں آیا تھا۔ اس واقعہ کے بعد اسے رات سے بے تحاشا خوف آنے لگا تھا۔ وہ کمرے کی لائٹ آن کرکے سوتا تھا۔ اس نے پولیس کسٹڈی میں ان دونوں لڑکوں کو پہچان لیا تھا، مگر وہ پولیس کے ساتھ اس جگہ پر جانے کے لئے تیار نہیں ہوا تھا جہاں اس شام وہ اسے باندھ کر چھوڑگئے تھے۔ وہ دوبارہ کسی ذہنی پراگندگی کا شکار ہونا نہیں چاہتا تھا، اس نے زندگی میں اس سے پہلے کبھی اتنی بے خواب راتیں نہیں گزاری تھیں مگر اب یہ ہورہا تھا کہ وہ سلیپنگ پلز لئے بغیر سونے میں کامیاب نہیں ہوتا تھا اور بعض دفعہ جب وہ سلیپنگ پلز نہ لیتا تو وہ ساری رات جاگتے ہوئے گزاردیتا، اس نے نیوہیون میں بھی ایسے ہی چند ہفتے گزارے تھے۔ اتنے ہی تکلیف دہ اور اذیت ناک مگر تب صرف الجھن اور اضطراب تھا یا شاید کسی حدتک پچھتاوا۔
مگر اب وہ ایک تیسری کیفیت سے گزر رہاتھا خوف سے وہ اندازہ نہیں کرپارہا تھا کہ اس رات اسے کس چیز سے زیادہ خوف آیا تھا۔ موت سے، قبر سے، یا پھر دوزخ ہے۔
امامہ نے کہا تھاecstasyکے بعدpain ہوتی ہے۔ موتpainتھی۔
اس نے کہا تھاpainکے بعد Nothingnessہوگی۔
قبر Nothingnessتھی۔
امامہ نے کہا تھاNothingnessکے بعدhellآجائے گا۔
وہ وہاں تک پہنچنا نہیں چاہتا تھا۔ وہ اسecstasyسے بچنا چاہتا تھا، جو اسےPainسے hellکا سفر کرنے پر مجبور کردیتی۔
”اگر مجھے ان سب چیزوں کا پتا نہیں تھا تو امامہ کو کیسے پتا تھا۔ وہ میری ہی عمر کی ہے۔ وہ میرے جیسے خاندان سے تعلق رکھتی ہے، پھر اس کے پاس ان سوالوں کے جواب کیسے آگئے؟” وہ حیران ہوتے ہوئے سوچنے لگتا۔ آسائشیں تو اس کے پاس بھی ویسی ہی تھیں جیسی میرے پاس تھیں پھر اس میں اور مجھ میں کیا فرق تھا وہ جس مکتبہء فکر سے تھی وہ کون ہوتے ہیں اور وہ کیوں اس مکتبہء فکر سے منسلک رہنا نہیں چاہتی تھی۔ اس نے پہلی بار اس کے بارے میں تفصیلی طورپر پڑھا۔ اس کی الجھنوں میں اضافہ ہوا، ختم نبوت پر اختلاف کیا اتنا اہم ایشو ہے کہ ایک لڑکی اس طرح اپنا گھر چھوڑ کر چلی جائے۔
”میں نے اسجد سے اس لئے شادی نہیں کی کیونکہ وہ ختم نبوت ﷺ پر یقین نہیں رکھتا۔ تم سمجھتے ہو میں تمہارے جیسے انسان کے ساتھ زندگی گزارنے پر تیار ہوجاؤں گی۔ ایک ایسے شخص کے ساتھ جو ختم نبوت ﷺ پر یقین رکھتا ہے اور پھر بھی گناہ کرتا ہے جو ہر وہ کام کرتا ہے جس سے میرے پیغمبر ﷺ نے منع فرمایا۔ میں اگر حضرت محمد ﷺ پر یقین نہ رکھنے والے سے شادی نہیں کروں گی تو میں آپ ﷺ کی نافرمانی کرنے والے کے ساتھ بھی زندگی نہیں گزاروں گی۔”
اسے امامہ ہاشم کا ہر لفظ یاد تھا۔ وہ مفہوم پر پہلی بار غور کررہا تھا۔
”تم یہ بات نہیں سمجھوگے۔”
اس نے بہت بار سالار سے یہ جملہ کہا تھا۔ اتنی بار کہ وہ اس جملے سے چڑنے لگا تھا۔ اخر وہ یہ بات کہہ کر اس پر کیا جتانا چاہتی تھی یہ کہ وہ کوئی بہت بڑی اسکالر یاپار ساتھی اور وہ اس سے بہت کمتر…
اب وہ سوچ رہا تھا وہ بالکل ٹھیک کہتی تھی۔ وہ واقعی تب کچھ بھی سمجھنے کے قابل نہیں تھا۔ کیچڑ میں رہنے والا کیڑا یہ کیسے جان سکتا تھا کہ وہ کس گندگی میں رہتا ہے، اسے اپنے بجائے دوسرے گندگی میں لپٹے اور گندگی میں رہتے نظر آتے ہیں۔ وہ بھی تب گندگی میں ہی تھا۔
”مجھے تمہاری آنکھوں سے، تمہارے کھلے گریبان سے گھن آتی ہے۔” اسے پہلی بار اب ان دونوں چیزوں سے گھن آئی۔ آئینے کے سامنے رکھے ہونے پر یہ جملہ کسی بزورڈ(buz word) کی طرح کئی ماہ تک اس کے کانوں میں گونجتا رہا۔ وہ ہر بار اسے ذہن سے جھٹکتا، کچھ مشتعل ہوتا، اپنے کام میں مصروف ہو جاتا مگر اب پہلی بار اس نے محسوس کیا تھا کہ اسے خود بھی اپنے آپ سے گھن آنے لگی تھی۔ وہ اپنی گریبان بند رکھنے لگا تھا۔ اپنی آنکھوں کو جھکانے لگا۔ وہ آئینے میں بھی خود اپنی آنکھوں میں دیکھنے سے کترانے لگا تھا۔
اس نے کبھی کسی سے یہ نہیں سنا تھا کہ کسی کو اس کی آنکھوں اس کی نظروں سے گھن آئی تھی۔ خاص طورپر کسی لڑکی کو۔
یہ اس کی آنکھیں نہیں ان آنکھوں میں جھلکنے والا تاثر تھا، جس سے امامہ ہاشم کو گھن آئی تھی۔
امامہ ہاشم سے پہلے کسی لڑکی نے اس تاثر کو شناخت نہیں کیا تھا۔
وہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے والی لڑکیوں کی کمپنی میں رہتا تھا اور وہ ایسی ہی لڑکیوں کو پسند کرتا تھا۔ امامہ ہاشم نے کبھی اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات نہیں کی تھی وہ اس کے چہرے کو دیکھتی اور اسے اپنی طرف دیکھتے پاکر نظر ہٹالیتی یا پھر کسی اور چیز کو دیکھنے لگتی۔ سالار کو خوش فہمی تھی کہ وہ اس سے نظریں اس لئے چرارہی تھی کیونکہ اس کی آنکھیں بہت پرکشش تھیں۔
اسے پہلی بار اس کے منہ سے فون پر یہ سن کر شاک لگا تھا کہ اسے اس کی آنکھوں سے گھن آئی تھی۔
”آنکھیں روح کی کھڑکیاں ہوتی ہیں؟” اس نے کہیں پڑھا تھا تو کیا میری آنکھیں میرے اندر چھپی گندگی کو دکھانا شروع ہوگئی تھیں۔ اسے تعجب نہیں ہوا۔ ایسا ہی تھا مگر اس گندگی کو دیکھنے کے لئے سامنے والے کا پاک ہونا ضروری تھا اور امامہ ہاشم پاک تھی۔
٭…٭…٭
”آپ اب مجھے کچھ بھی نہ سمجھائیں۔ آپ کو اب مجھ سے کوئی شکایت نہیں ہوگی۔”
سالار نے سکندر سے آنکھیں ملائے بغیر کہا۔
وہ دوبارہYaleجارہا تھا اور جانے سے پہلے سکندر نے ہمیشہ کی طرح اسے سمجھانے کی کوشش کی تھی۔ وہی پرانی نصیحتیں کسی موہوم سی آس اور امید میں ایک بارپھر اس کے کانوں میں ٹھونسنے کی کوشش کی تھی مگر اس بار ان کے بات شروع کرتے ہی سالار نے انہیں شاید زندگی میں پہلی دفعہ یقین دہانی کروائی تھی اور زندگی میں پہلی بار سکندر عثمان کو اس کے الفاظ پر یقین آیا تھا۔
وہ اس حادثے کے بعد اس میں آنے والی تبدیلیوں کو واضح طورپر دیکھ رہے تھے۔ وہ پہلے والا سالار نہیں رہا تھا، اس کی زندگی ہی تبدیل ہوچکی تھی۔ اس کا حلیہ، اس کا انداز سب کچھ…اس کے اندر کے شعلے کو جیسے کسی نے پھونک مار کر بجھادیا تھا۔ صحیح ہوا تھا یا غلط، یہ تبدیلیاں اچھی تھیں یا بری۔ خود سکندر عثمان ابھی اس پر کوئی رائے دینے کے قابل نہیں ہوئے تھے مگر انہیں یہ ضرور معلوم ہوگیا تھا کہ اس میں کوئی بہت بڑی تبدیلی آئی تھی۔ انہیں یہ اندازہ نہیں ہوا تھا کہ اس نے زندگی میں پہلی بار چوٹ کھائی تھی اور زندگی میں پہلی بار پڑنے والی چوٹ، بڑے بڑوں کو رلادیتی ہے وہ تو پھر اکیس بائیس سال کا لڑکا تھا۔
زندگی میں بعض دفعہ ہمیں پتا نہیں چلتا کہ ہم تاریکی سے باہر آئے ہیں یا تاریکی میں داخل ہوئے ہیں۔ اندھیرے میں سمت کا پتا نہیں چلتا مگر آسمان اور زمین کا پتا ضرور چل جاتا ہے بلکہ ہر حال میں چلتا ہے۔ سر اٹھانے پر آسمان ہی ہوتا ہے۔ نظر آئے نہ آئے۔ سرجھکانے پر زمین ہی ہوتی ہے، دکھائی دے نہ دے مگر زندگی میں سفر کرنے کے لئے صرف چار سمتوں ہی کی ضرورت پڑتی ہے۔ دائیں، بائیں، آگے، پیچھے پانچویں سمت پیروں کے نیچے ہوتی ہے۔ وہاں زمین نہ ہو تو پاتال آجاتا ہے۔ پاتال میں پہنچنے کے بعد کسی سمت کی ضرورت نہیں رہتی۔
چھٹی سمت سر سے اوپر ہوتی ہے۔ وہاں جایا ہی نہیں جاسکتا۔ وہاں اللہ ہوتا ہے۔ آنکھوں سے نظر نہ آنے والا مگر دل کی ہر دھڑکن، خون کی گردش، ہر آنے جانے والے سانس، حالق سے اترنے والے ہر نوالہ کے ساتھ محسوس ہونے والا، وہ فوٹوگرافک میموری، وہ 150 آئی کیولیول اسے اب عذاب لگ رہا تھا۔ وہ سب کچھ بھولنا چاہتا تھا۔ وہ سب جو وہ کرتا رہا، وہ کچھ بھی بھلانے کے قابل نہیں تھا۔ کوئی اس سے اس کی تکلیف پوچھتا۔
٭…٭…٭